پچھلا
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا اثر
ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے بھی تین طلاق کو تین قرار دینا ثابت ہے لیکن ان کا بھی یہ شرعی فتوی نہیں تھا بلکہ ایک طرح کی سزا تھی جو فرمان فاروقی کے تحت بکثرت طلاق دینے والوں کی تادیب وتعزیر کے لئےطے کی گئی تھی ، چنانچہ:
✿ امام عبد الرزاق رحمه الله (المتوفى211) نے کہا:
”عن معمر، عن أيوب، عن ابن سيرين، عن علقمة بن قيس قال: أتى رجل ابن مسعود، فقال: إني طلقت امرأتي عدد النجوم، فقال ابن مسعود في نساء أهل الأرض كلمة لا أحفظها قال: وجاءه رجل آخر، فقال: إني طلقت امرأتي ثمانيا، فقال ابن مسعود: «فيريد هؤلاء أن تبين منك؟» قال: نعم، قال ابن مسعود: يا أيها الناس قد بين الله الطلاق، فمن طلق كما أمره الله فقد بين، ومن لبس جعلنا به لبسه، والله لا تلبسون على أنفسكم ثم نحمله عنكم، نعم هو كما يقول» ، قال: ونرى أن قول ابن سيرين كلمة لا أحفظها، أنه قال: «لو كان عنده نساء أهل الأرض، ثم قال هذا ذهبن كلهن“
”علقمہ بن قیس کہتے ہیں کہ ایک شخص ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے پاس آیا اور کہا: میں نے اپنی بیوی کو ستاروں کی تعداد کے برابر طلاق دے دی ، تو ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے روئے زمیں کی ساری خواتین کا ذکر کرتے ہوئے بھی کچھ کہا تھا جو مجھے یاد نہیں رہا ، اس کے بعد ایک دوسرا شخص آیا اور اس نے کہا: میں نے اپنی بیوی کو آٹھ طلاق دے دی ، تو ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے پوچھا: کیا دوسرے لوگوں کا یہ کہنا ہے تمہاری بیوی تم سے جدا ہوگئی ؟ اس نے کہا: ہاں ! تو ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا: اے لوگو! اللہ نے طلاق کا طریقہ بتادیا ہے تو جو اللہ کے بتائے ہوئے طریقہ کے مطابق طلاق دے گا اس کا مسئلہ واضح ہے ، اور جو الٹ پھیر کرے گا تو ہم اس کے الٹ پھیر کواسی پرڈال دیں گے ، اللہ کی قسم ایسا ہرگز نہیں ہوسکتا کہ تم خود الٹ پھیر کرو اور پھر تمہاری جگہ ہم اس کا بوجھ اٹھائیں ،جی ہاں جو جیسے کہے گا ویسے ہی اس کا معاملہ ہوگا۔
راوی نے آگے کہا کہ : ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ابن سیرین کو جو بات یاد نہیں رہی وہ یہ تھی کہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا تھا کہ جس نے ستاروں کی تعداد کے برابر طلاق دی ہے اس کے نکاح میں اگر روئے زمین کی ساری عورتیں ہوتیں تو سب اس سے جدا ہوجاتیں“ [مصنف عبد الرزاق، ت الأعظمي: 6/ 394 ، رقم 11342وإسناده صحيح، وأخرجه ايضا البيهقي في سننه رقم 15357من طريق سليمان بن حرب، والطبراني في المعجم الكبير رقم 9628 من طريق حجاج بن المنهال ، كلاهما (سليمان بن حرب وحجاج بن المنهال ) من طريق يزيد بن إبراهيم۔وأخرجه ايضا اسحاق بن راهويه كما في المطالب العالية 2/ 105من طريق عبد الأعلى و والطبراني في المعجم الكبير رقم 9629 من طريق زائدة ، كلاهما (عبد الأعلى وزائدة) من طريق هشام بن حسان۔وأخرجه أيضا ابن ابي شيبه في مصنفه ت الشثري: 10/ 108من طريق عاصم ، والدارمي في سننه رقم 111 من طريق ابن عون ، كلهم (يزيد بن إبراهيم و هشام بن حسان وعاصم و ابن عون) عن ابن سيرين به، وصرح ابن سيرين بالتحديث في رواية ابراهيم بن يزيد عند البيهقي والطبراني وفي رواية هشام بن حسان ايضا عند الطبراني وصرح هشام أيضا عنده بالتحديث]
نوٹ:-
مصنف عبدالرزاق کی روایت کے اخیر میں ابن سیرین کے شاگرد نے ابن سیرین کی جس بھولی ہوئی بات کا تذکرہ کیا ہے اسی بات کا تذکرہ ابن سیرین کے ایک دوسرے شاگرد یزیدبن ابراہیم نے بھی کیا ہے ان کے الفاظ ہیں:
”ونرى قول ابن سيرين كلمة لا أحفظها إنه قال: «لو كان عنده نساء أهل الأرض - ثم قال هذا - ذهبن كلهن»“
”ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ابن سیرین کو جو بات یاد نہیں رہی وہ یہ تھی کہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا تھا کہ جس نے ستاروں کی تعداد کے برابر طلاق دی ہے اس کے نکاح میں اگر روئے زمین کی ساری عورتیں ہوتیں تو سب اس سے جدا ہوجاتیں“ [المعجم الكبير للطبراني 9/ 325 رقم 9628وإسناده صحيح ، وانظر :مجمع الزوائد : 4 /338 ]
اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ابن سیرین نے پہلے کبھی یہ بات بیان کی ہوگی جسے ان کے شاگردوں نے یاد کرلیا لیکن بعد میں دوباره یہ روایت بیان کرتے ہوئے وہ خود بھول گئے ۔یا یہ بھی ممکن ہے کہ وہ محض اصل الفاظ بھول گئے ہوں اس لئے اصل روایت کے وقت اسے بیان نہیں کیا اور بعد میں الگ سے شاگردوں سے معنوی طور پر اسے بیان کردیا ہوں ، کیونکہ ابن سیر ین رحمہ اللہ روایت بالمعنی کے قائل نہیں تھے۔جیساکہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے کہا:
”كان لا يرى الرواية بالمعنى“ ، ”ابن سیرین روایت بالمعنی کے قائل نہ تھے“ [تقريب التهذيب لابن حجر: رقم 5947]
بہرحال ان کے دوشاگردوں کے بیان کے بعد یہ الفاظ بھی ان سے ثابت ہیں ۔
اس روایت میں غور کرنے سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ طلاق بدعت کے وقوع کے قائل نہیں تھے ، لیکن جب لوگ کتاب وسنت کے خلاف طلاق دینے میں اس انتہاء کو پہنچ گئے کہ ایک ، دو ، تین ہی نہیں بلکہ اس سے بھی کئی گنا زیادہ حتی کہ ستاروں کی تعداد کے برابر طلاق دینے لگے ، تو ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے ان کی تادیب کے لئے ان کے طلاق کو کالعدم بھی نہیں کہا ، بلکہ ایسے لوگوں نے جس طرح طلاق دی اسی طرح ان پر ڈال دیا ۔
حتی کی اسی روایت میں ابن سیرین کے شاگردوں کے بیان کے مطابق عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے یہ بھی منقول ہے کہ جو ستاروں کی تعداد کے برابر طلاق دے گا اس کی یہ طلاقیں نہ صرف اس کی ایک بیوی بلکہ ساری بیویوں پر پڑیں گے اورسب اس سے جدا ہوجائیں گی ۔
اسی طرح کی بات علی رضی اللہ عنہ سے بھی منقول ہے چنانچہ:
✿ امام ابن أبي شيبة رحمه الله (المتوفى235)نے کہا:
”حدثنا وكيع ، عن الأعمش ، عن حبيب ، قال : جاء رجل إلى علي ، فقال : إني طلقت امرأتي ألفا ؟ قال : بانت منك بثلاث ، واقسم سائرهن بين نسائك“
”ایک شخص علی رضی اللہ عنہ کے پاس آیا اور کہا : میں نے اپنی بیوی کو ایک ہزارطلاق دے دی ہے ، تو علی رضی للہ عنہ نے کہا: تین سے تیری بیوی الگ ہوگئی ہے اور باقی طلاقوں کو اپنی دیگر بیویوں میں بانٹ دو“ [مصنف ابن أبي شيبة. سلفية: 5/ 13وإسناده منقطع ، وأخرجه أيضا الدارقطني في سننه رقم 3946 من طريق فضيل بن عياض عن الأعمش به ، وأخرجه أيضا البيهقي في السنن الكبري ، ط الهند: 7/ 335 من طريق الأعمش عن حبيب عن بعض أصحابه]
مگر اس کی سند ضعیف ہے ۔
ظاہر ہے کہ یہ قول شرعی فتوی ہرگز نہیں ہوسکتا ، بلکہ تادیب و تربیت کے لئے محض ایک سخت قسم کی سزا ہی ہوسکتی ہے ، یہ بھی اس بات کی دلیل ہے کہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ اصلا طلاق بدعت کے وقوع کے قائل نہ تھے لیکن بطور سزا و تعزیر وہ ایسی طلاقوں کو طلاق دینے والوں کے سر لاد دیتے تھے۔
اور اس میں بھی ان کا دو طریقہ کار منقول ہے ایک تو وہی جو اوپر گذرا کہ وہ ساری طلاق کو طلاق دینے والے کی ساری عورتوں پر ڈال دیتے تھے ۔لیکن کبھی کبھار آپ تھوڑی سی نرمی کرتے ہوئے ساری طلاقوں میں سے صرف تین کو اس بیوی پر ڈالتے تھے جس کو وہ تمام طلاقیں دی گئی ہیں اور بقیہ طلاقوں کو کسی پر عائد نہ کرتے چنانچہ:
✿ امام عبد الرزاق رحمه الله (المتوفى211) نے کہا:
”عن معمر، عن الأعمش، عن إبراهيم، عن علقمة قال: جاء رجل إلى ابن مسعود، فقال: إني طلقت امرأتي تسعة وتسعين، وإني سألت فقيل لي: قد بانت مني، فقال ابن مسعود: «لقد أحبوا أن يفرقوا بينك وبينها» قال: فما تقول رحمك الله، فظن أنه سيرخص له، فقال: «ثلاث تبينها منك، وسائرها عدوان»“
”علقمہ کہتے ہیں کہ ایک شخص ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے پاس آیا اور کہا: میں نے اپنی بیوی کو ننوانے طلاق دے دی ہے ، اور میں نے اس بارے میں لوگوں سے پوچھا تو مجھ سے یہ کہا گیا کہ میری عورت مجھے سے جدا ہوچکی ہے ، تو ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا: ان لوگوں نے یہ پسند کیا کہ تمہارے اور تمہاری بیوی کے درمیان جدائی ڈال دی جائے ، یہ سن کر اس شخص نے کہا کہ اللہ آپ پررحم کرے آپ کیا فرماتے ہیں اور اسے لگا کہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ اسے رخصت دے دیں گے ، تو ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا: تین طلاق نے تمہاری بیوی کو تم سے جدا کردیا ، اس کے علاوہ باقی ساری طلاقیں سرکشی پر مبنی ہیں“ [مصنف عبد الرزاق، ت الأعظمي: 6/ 395، وإسناده صحيح والأعمش رواه عنه حفص كما سياتي في التخريج و عنعنة الأعمش مقبولة إذا روي عنه حفص ، ومع ذلك تابعه منصور كما ياتي في التخريج ، ومن طريق عبدالرزاق أخرجه الطبراني في المعجم الكبير 9/ 326 ، وأخرجه أيضا ابن أبي شيبة في مصنفه ت الشثري: 10/ 104من طریق حفص ،وأخرجه أيضا ابن أبي شيبة في مصنفه ت الشثري: 10/ 104 و سعيد بن منصور في سننه 1/ 299 من طريق أبي معاويه، وأخرجه أيضا سعيد بن منصور في سننه 1/ 306 من طريق جرير ، وأخرجه أيضا ابن أبي شيبة في مصنفه ت الشثري 10/ 104 و البيهقي في سننه 7/ 332 من طريق سفيان ، كلهم ( معمر و حفص وأبومعاويه و جرير و سفيان ) من طريق الأعمش ۔وأخرجه أيضا ابن أبي شيبة في مصنفه ت الشثري: 10/ 104 و البيهقي في سننه 7/ 332 من طريق سفيان ، وأخرجه أيضا الطبراني في المعجم الكبير 9/ 327 من طريق زائدة ،وأخرجه أيضا الطحاوي في شرح معاني الآثار 3/ 58 من طريق شعبة ، كلهم (سفيان و زائدة و شعبه ) من طريق منصور ، كلاهما (الأعمش ومنصور) عن إبراهيم به]
یہ دو الگ الگ جواب بھی اسی بات پردلالت کرتا ہے کہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ بکثرت طلاق دینے والوں کی تادیب ہی کے لئے ان کی طلاق کو ان پر لازم کردیتے تھے ، اور طلاق دینے والوں کے حالات کو دیکھتے ہوئے کسی سے متعلق سخت فیصلہ صادر کرتے اور کسی کے بارے میں کچھ نرمی دکھاتے تھے۔
نیز اس دوسری روایت میں اس بات پر بھی غور کیجئے کہ سائل کو جب دوسرے اہل علم نے یہ جواب دیا کہ تمہاری بیوی جدا ہوچکی ہے تو یہ جواب دینے والوں کے بارے میں ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا:
”لقد أحبوا أن يفرقوا بينك وبينها“
”ان لوگوں نے یہ پسند کیا کہ تمہارے اور تمہاری بیوی کے درمیان جدائی ڈال دی جائے“
یہ جملہ اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے ، ابن مسعود رضی اللہ عنہ اس جواب کو شرعی فتوی نہیں مانتے ہیں بلکہ تعزیر وتادیب کی ایک شکل مانتے ہیں ، ورنہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ اس موقع پر یہ کہتے کہ ان لوگوں نے کتاب وسنت کے مطابق ہی فتوی دیا ہے۔
نیز سائل نے بھی اس جملے سے یہی سمجھا کہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی نظر میں یہ شرعی فتوی نہیں ہے اسی لئے اس نے یہ توقع کی کہ شاید ابن مسعود رضی اللہ عنہ اسے رخصت دے دیں گے ۔ لیکن ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے بھی رخصت دینے کے بجائے دیگر لوگوں کی طرح اس کی بیوی کی جدائی ہی کا فیصلہ کیا ۔
نيز ابن مسعود رضی اللہ عنہ صرف مدخولہ ہی نہیں بلکہ غیر مدخولہ عورت کو دی گئی تین طلاق کو بھی تین قرار دیتے تھے جسے فریق مخالف بھی تسلیم نہیں کرتا چنانچہ:
✿ امام عبد الرزاق رحمه الله (المتوفى211) نے کہا:
”عن ابن عيينة، عن عاصم بن أبي النجود، عن أبي وائل، عن ابن مسعود في التي تطلق ثلاثا قبل أن يدخل بها؟ لا تحل له حتى تنكح زوجا غيره“
”ابووائل شقیق بن سلمہ کہتے ہیں کہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ اس شخص کے بارے میں کہتے جو دخول سے پہلے تین طلاق دے دیتا کہ اس کی بیوی تب تک حلال نہیں ہوسکتی جب تک کہ وہ دوسرے شوہر سےشادی نہ کرلے“ [مصنف عبد الرزاق، ت الأعظمي: 6/ 331 رقم 11064 وإسناده صحيح ، ومن طريق عبدالرازق أخرجه في معجمه 9/ 324 ۔وأخرجه ابن أبي شيبه في مصنفة ط الفاروق 6/ 341 وأخرجه سعيد بن منصور في سننه 1/ 303 وأخرجه الطحاوي في شرح معاني الآثار 3/ 59 من طريق يونس ، كلهم (عبدالرزاق و ابن أبي شيبه و سعيد بن منصور و يونس) من طريق سفيان ابن عيينة به۔وأخرجه أيضا الطحاوي في شرح معاني الآثار (3/ 58) فقال: حدثنا صالح بن عبد الرحمن , قال: ثنا سعيد بن منصور , قال: ثنا سفيان , وأبو عوانة , عن منصور , عن أبي وائل به]
یہ فتوی بھی اسی لئے تھا کیونکہ عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے سرکاری طور پر طلاق بدعی کو تعزیرا نافذ کردیا ہے ، اس لئے بھی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اس کے خلاف فتوی دینے سے عموما اجتناب کیا کرتے تھے، گرچہ ان کا اصل موقف یہی تھا کہ طلاق بدعی واقع نہیں ہوتی ہے، یہی معاملہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے مذکورہ فتاوی کا بھی ہے ، اوران کا اصل موقف یہی تھا کہ اس طرح کی بدعی طلاق واقع نہیں ہوتی ہے جیساکہ اگلی روایت سے واضح ہے:
✿ امام ابن حزم رحمه الله (المتوفى456) نے کہا:
”حدثنا ابن نبات نا أحمد بن عون الله نا قاسم بن أصبغ نا محمد بن عبد السلام الخشني نا محمد بن بشار نا محمد بن جعفر حدثنا شعبة عن عبد الملك بن ميسرة عن النزال بن سبرة أن رجلا وامرأته أتيا ابن مسعود في تحريم فقال إن الله تعالى بين فمن أتى الأمر من قبل وجهه فقد بين له ومن خالف فوالله ما نطيق خلافه“
”نزال بن سمرہ کہتے ہیں کہ ایک مرد اور عورت ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے پاس طلاق میں حرمت کا مسئلہ لیکر آئے ، تو ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اللہ تعالی نے یہ مسئلہ بیان کردیا ہے ، تو جس نے اسی کے مطابق عمل کیا اس کا مسئلہ واضح ہے اور جس نے مخالفت کی تو اللہ کی قسم ہم اس مخالفت کی طاقت نہیں رکھتے“ [الإحكام في أصول الأحكام لابن حزم 8/ 29 وإسناده صحيح ، وأخرجه ايضا ابن الجعد رقم 460 و الدارمي في سننه رقم 104 من طريق الطيالسي كلاهما (ابن الجعد والطيالسي) عن شعبه به ، وأخرجه ايضا الدارمي رقم 103 ، والطبراني في معجمه رقم 8982 من طريق علي بن عبد العزيز ، كلاهما (الدارمي و علي بن عبدالعزيز ) عن المسعودي عن عبدالملك به ”ولفظه وسئل عن رجل يطلق امرأته ثمانية وأشباه ذلك“ ]
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے اس جواب سے بالکل واضح ہے کہ وہ خلاف شریعت دی گئی طلاق کے وقوع کا فتوی نہیں دیتے تھے ۔یعنی طلاق بدعت کو شریعت کی روشنی میں واقع نہیں مانتے تھے۔
امام ابن القيم رحمه الله (المتوفى751) فرماتے ہیں:
”ولو وقع طلاق المخالف لم يكن الإفتاء به غير مطاق لهم، ولم يكن للتفريق معنى إذ كان النوعان واقعين نافذين“
”اگرخلاف شریعت طلاق واقع ہوجاتی تو اس کا فتوی دینا صحابہ کرام کی استطاعت سے باہر نہیں ہوتا ، اور دونوں طرح کی طلاقوں کے نافذ ہونے میں کوئی تفریق نہیں ہوتی“ [زاد المعاد، ن مؤسسة الرسالة: 5/ 206]
معلوم ہوا کہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ کا بھی اصل موقف یہی تھا کہ طلاق بدعت مثلا طلاق ثلاثہ واقع نہیں ہوتی لیکن عمر رضی اللہ عنہ کے تعزیری فرمان کے تحت وہ اس کے وقوع کا فتوی دیتے تھے۔
فائدہ:
تین طلاق سے متعلق ابن مسعود رضی اللہ عنہ ایک روایت ”الحكم بن عتيبة الكندى“ نے نقل کی ہے لیکن اس کی پیدائش سے پہلے ہی ابن مسعورضی اللہ عنہ کا انتقال ہوچکا تھا ، اس روایت پر تفصیل آگے علی رضی اللہ عنہ سے مروی روایات کے ضمن میں آرہی ہے۔
تین طلاق سے متعلق ابن مسعود رضی اللہ عنہ ایک روایت ”الحكم بن عتيبة الكندى“ نے نقل کی ہے لیکن اس کی پیدائش سے پہلے ہی ابن مسعورضی اللہ عنہ کا انتقال ہوچکا تھا ، اس روایت پر تفصیل آگے علی رضی اللہ عنہ سے مروی روایات کے ضمن میں آرہی ہے۔
No comments:
Post a Comment