متن پرتیسرا اعتراض : متن کے مفہوم پر اعتراض - Kifayatullah Sanabili Official website

2020-02-14

متن پرتیسرا اعتراض : متن کے مفہوم پر اعتراض


پچھلا
متن پرتیسرا اعتراض : متن کے مفہوم پر اعتراض
(الف) غیر مدخولہ پر محمول کرنا
بعض لوگوں نے صحیح مسلم کی اس حدیث کے بارے میں بغیر کسی صحیح دلیل کے یہ کہا ہے کہ یہ غیر مدخولہ کے لئے ۔حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اسحاق بن راھویہ اور زکریا الساجی شافعی وغیرہ کی طرف یہ بات منسوب کیا ہے[فتح الباري لابن حجر، ط المعرفة: 9/ 363 ، وانظر:السنن الكبرى للبيهقي، ط الهند: 7/ 338]

عرض ہے کہ :
اولا:
قرآن یا حدیث میں کوئی بھی بات اگر عام یا مطلق وارد ہو تو اپنی طرف سے اس کی تخصیص یا تقیید نہیں کی جاسکتی ہے ، بلکہ اس کے لئے بھی قرآن یا حدیث ہی کی دلیل درکار ہوگی ، اور صحیح مسلم کی اس حدیث کو غیر مدخولہ کے ساتھ خاص یا مقید کرنے کے لئے قرآن یا حدیث سے کوئی بھی موجود نہیں ہے ۔
ثانیا:
صحیح مسلم کی حدیث میں یہ بھی ذکر ہے کہ عہد فاروقی میں لوگوں نے کثرت سے تین طلاق دینا شروع کردیا تھا چنانچہ:
امام مسلم رحمه الله (المتوفى261) نے کہا:
”حدثنا إسحاق بن إبراهيم، أخبرنا سليمان بن حرب، عن حماد بن زيد، عن أيوب السختياني، عن إبراهيم بن ميسرة، عن طاوس، أن أبا الصهباء، قال لابن عباس: هات من هناتك، ألم يكن الطلاق الثلاث على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم، وأبي بكر واحدة»؟ فقال: «قد كان ذلك، فلما كان في عهد عمر تتايع الناس في الطلاق، فأجازه عليهم“ 
 ”امام طاوس کہتے ہیں کہ ابوالصھباء نے ابن عباس رضی اللہ عنہ سے کہا: آپ اپنی احادیث میں سے یہ حدیث سناکر بتائیے کہ کیا عہد رسالت اورعہدصدیقی میں تین طلاق ایک نہیں مانی جاتی تھی ؟ تو ابن عباس رضی اللہ عنہ نے کہا: معاملہ ایسے ہی تھا لیکن جب عمرفاروق رضی اللہ عنہ کا دور آیا تو لوگوں نے کثرت سے طلاق دینی شروع کردی تو عمرفاروق رضی اللہ عنہ نے اسے ان پر نافذ کردیا“ [صحيح مسلم 3/ 1099 رقم 1472]

اس حدیث سے معلوم ہواکہ عہد فاروقی میں لوگوں نے کثرت سے تین طلاق دینی شروع کردی تھی ، اس لئے عمرفاروق رضی اللہ عنہ تین طلاق کو تین ہی مان کر ان پرنافذ کردیا۔
اب ذرا غور کیجئے کہ اگر یہ معاملہ صرف غیرمدخولہ کا ہوتا تو کیا طلاق کے واقعات کثرت سے پیش آتے ؟
ہرشخص سمجھ سکتا ہے کہ میاں بیوی کے درمیاں طلاق کی بات عموما تبھی آتی ہے جب ان میں جھگڑا یا اختلاف ہوتا ہے ، اور یہ تبھی ممکن ہے جب عورت مدخولہ ہو یعنی وہ شوہر کے پاس آخر اس سے مل چکی ہو اور دونوں ایک ساتھ رہ رہے ہیں ۔پھر ایک ساتھ رہنے کے سبب جھگڑے اور اختلاف رونما ہوتے ہیں اور بات طلاق تک پہنچتی ہے۔

اور صرف ایک طلاق دینے کے بجائے ایک ساتھ کئی طلاق دینے کی وجہ بھی یہی ہوتی ہے کہ شوہر غصہ میں طلاق دیتا جیساکہ بعض روایت میں ایسی صراحت بھی ملتی ہے چنانچہ:
امام دارقطني رحمه الله (المتوفى385) نے کہا:
 ”نا دعلج , نا الحسن بن سفيان , نا حبان , نا ابن المبارك , أنا سيف , عن مجاهد , قال: جاء رجل من قريش إلى ابن عباس , فقال: يا ابن عباس إني طلقت امرأتي ثلاثا وأنا غضبان , فقال: إن ابن عباس لا يستطيع أن يحل لك ما حرم عليك عصيت ربك وحرمت عليك امرأتك , إنك لم تتق الله فيجعل لك مخرجا , ثم قرأ {إذا طلقتم النساء فطلقوهن لعدتهن} طاهرا من غير جماع“ 
 ”مجاہد کہتے ہیں کہ قریش کا ایک شخص ابن عباس رضی اللہ عنہ کے پاس آیا اور کہا: اے ابن عباس ! میں نے اپنی بیوی کو تین طلاق دے دی اور میں غصہ میں تھا ، تو ابن عباس رضی اللہ عنہ نے کہا:ابن عباس کے پاس اس بات کی طاقت نہیں ہے کہ جو چیز تم پر حرام ہوگئی اسے حلال بنادیں ، تم نے اپنے رب کی نافرمانی اورتمہاری بیوی تم پر حرام ہوچکی ہے ، تم نے اللہ کا تقوی اختیار نہیں کیا کہ اللہ تمہارے لئے کوئی راہ نکالتا، پھر ابن عباس رضی اللہ عنہ نے قرآن کی یہ آیت پڑھی {جب تم اپنی بیویوں کو طلاق تو ان کی عدت میں طلاق دی} یعنی ان کی پاکی کی حالت میں ہمبستری سے پہلے“ [سنن الدارقطني، ت الارنؤوط: 5/ 25 وإسناده صحيح]
ملاحظہ کریں اس روایت میں سائل نے بیک وقت تین طلاق دینے کی وجہ اپنے غصہ کو بتایا ۔پتہ چلا غصہ میں ہی شوہر ایک ساتھ تین طلاق دیتا ہے ۔

بلکہ کبھی کبھی غصہ شدید ہوتا ہے تو شوہر تین پر بھی بس نہیں کرتا بلکہ اس سے آگے بڑھ کر سو ، ہزار حتی کہ ستاروں کی تعداد کے برابر طلاق دے ڈالتا ہے ، چنانچہ:
امام ابن أبي شيبة رحمه الله (المتوفى235) نے کہا:
 ”حدثنا محمد بن فضيل، عن عاصم، عن ابن سيرين، عن علقمة، عن عبد الله قال: أتاه رجل فقال: إنه كان بيني وبين امرأتي كلام، فطلقتها عدد النجوم، قال: تكلمت بالطلاق؟ قال: نعم، قال: قال عبد الله: قد بين الله الطلاق، فمن أخذ به فقد بين له، ومن لبس على نفسه جعلنا به لبسه، والله لا تلبسوا على أنفسكم ونتحمله عنكم، هو كما تقولون، هو كما تقولون“ 
 ”علقمہ بن قیس کہتے ہیں کہ ایک شخص ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے پاس آیا اور کہا: میرے اور میری بیوی کے بیچ جھگڑا ہوگیا تو میں نے اسے ستاروں کی تعداد کے برابر طلاق دے دی ، تو ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا: تم نے طلاق کا لفظ استعمال کیا ؟ اس نے کہا : ہاں ! تو ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا: اللہ نے طلاق کا طریقہ بتادیا ہے تو جو اللہ کے بتائے ہوئے طریقہ کے مطابق طلاق دے گا اس کا مسئلہ واضح ہے ، اور جو الٹ پھیر کرے گا تو ہم اس کے الٹ پھیر کواسی پرڈال دیں گے ، اللہ کی قسم ایسا ہرگز نہیں ہوسکتا کہ تم خود الٹ پھیر کرو اور پھر تمہاری جگہ ہم اس کا بوجھ اٹھائیں ،جی ہاں جیسا تم کہتے ہو ویسا ہی تمہار معاملہ ہوگا“ [مصنف ابن أبي شيبة، ت الشثري: 10/ 108وإسناده صحيح ]
یہاں دیکھئے میاں بیوی کے بیچ جھگڑے کاذکر ہے اور اس انجام بھی سامنے ہے کہ شوہر ستاروں کی تعداد کے برابر طلاق دے ڈالی ۔
ایسا اس وجہ سے ہوا کیونکہ اس شوہر کی بیوی مدخولہ تھی ، بلکہ اس کے بچوں کی ماں بھی تھی ، جیساکہ اسی روایت کے ایک طریق میں شوہر کے یہ الفاظ بھی ہیں:
”إن لي منها ولدا، وإن ناسا يريدون أن يفرقوا بيني وبين أهلي“
”اس بیوی سے میرے بچے بھی ہیں اور کچھ لوگ میرے اور میری اہلیہ کے بیچ علیحدگی کا فتوی دے رہے ہیں“ [المعجم الكبير للطبراني 9/ 327 وإسناده صحيح]

ان روایت سے بھی یہ بات واضح ہوگئی کہ اکثر شوہر حضرات انہیں بیویوں کو طلاق دیتے ہیں جو مدخولہ ہوتی ہیں اور ان کے ساتھ رہ رہی ہوتی ہیں ۔اس کے برعکس اگر عورت غیر مدخولہ ہو یعنی شوہر سے ابھی ملی ہی نہیں ہو بلکہ اپنے گھر پر ہو تو ان دونوں کے بیچ جھگڑے کا سوال ہی پید انہیں ہوتا اس لئے ایسے میاں بیوی کے مابین ملاپ اور دخول سے پہلے طلاق کی نوبت شاذ ونادر ہی آسکتی ہے ، مثلا یہ کہ ملاپ سے پہلے اس کی بیوی کے کسی عیب پر شوہر کو آگاہ کردیا جائے یا اس طرح کی کوئی اور بات ہو ، تبھی شوہر ملاپ سے پہلے غیرمدخولہ بیوی کو طلاق دے گا۔
نیز غیرمدخولہ بیوی کوطلاق دے گا بھی تو سنجیدگی کے ساتھ صرف ایک ہی طلاق دے گا ، اور بہت کم ہی ایسا ہوسکتا ہے کہ وہ ایک ساتھ تین طلاق دے ، کیونکہ ایک ساتھ تین طلاق یا اس سے بھی زائد طلاق آدمی تبھی دیتا ہے جب لڑائی جھگڑے کے سبب غصہ میں ہوتا ہے ، اور غیرمدخولہ بیوی چونکہ اس کے ساتھ نہیں ہوتی ہے اس لئے اسے ایک سے زائد طلاق دینے پر ابھارنے کے لئے اس کے پاس غصہ کی کیفیت نہیں ہوتی ہے۔ہاں ایسے شوہر کو بھی اچانک اپنی غیرمدخولہ بیوی سے متعلق سخت ناگوار خبر ملے تو اس پر وہ بھی غصہ ہوکر تین طلاق سے دے سکتا ہے لیکن ایسے واقعات بہت کم ہی ہوسکتے ۔
عمرفاروق رضی اللہ عنہ کا زمانہ تو جانے دین وہ تو خیر القرون کازمانہ تھا ، آج کے زمانے میں دیکھ لیجئےکہ باوجود کہ لوگ بہت بگڑ چکے ہیںِ، حتی کہ بہت سے لوگ نماز وروزہ تک کے بھی پابند نہیں ہیں ، ایسے زمانے اور ایسے ماحول میں بھی غیرمدخولہ بیوی کو طلاق دینے کا واقعہ لاکھوں میں ایک ملتا ہے۔ 
پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ عہد فاروقی جیسے خیر القرون کا معاشرہ آج کے معاشرہ سے بھی زیادہ بگڑا ہوا ہو اوراس میں غیرمدخولہ بیویوں کو بھی کثرت سے طلاق دی جاتی ہو۔
معاذ اللہ ! ایسا کسی بھی صورت میں نہیں ہوسکتا ، صحابہ و تابعین سے محبت کرنے والا کبھی بھی ایسی بے بنیاد باتوں پر یقین نہیں کرسکتا۔

 ✿ تنبیہ بلیغ:(علی مرزا کا رد)
انجینیر علی مرزا نے ایک من گھڑت کہانی  یہ بیان کی ہے کہ عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے دور فتوحات ہوری تھیں اور  شام اور مصر سے بڑی  خوبصورت خوبصورت لونڈیاں آتی تھی ، تو لوگ اس وقت کسی عورت سے نکاح کئے ہوتے تھے لیکن رخصتی نہیں ہوئی ہوتی تھی ، پھر کوئی نئی عورت یعنی لونڈی  پسند آئی تو اس سے شادی کرلیا اور پرانی بیوی کو فارغ کردیا ، کیونکہ نئی والی بیوی بولتی تھی کہ پرانی بیوی کو فارغ کرو۔ پھر بعد میں جب نئی والی کے ساتھ نباہ نہیں ہوتا تھا کیونکہ نئی والی کی زبان الگ تھی تو عربی عجمی کے ساتھ کیسے گذار کرتا ۔تو بعد میں یہ کہنے لگتا کہ نہیں میں نے تو ایک طلاق دی تھی ، تو اس طرح ان لوگوں نے مذاق شروع کردیا ۔تو عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے کہا کہ تمہاری ایسی کی تیسی تم طلاق تین کی نیت سے دیتے ہو اور کہتے ہو کہ ایک ہی طلاق دی تھی ، اب اگر کسی نے تین طلاق دی تو میں تین ہی شمار کروں گا[دیکھئے اس کی ویڈیو، مسئلہ نمبر 15 تین طلاق ، حلالہ اور حرامہ]
اولا:
انجینئر علی مراز کی بیان کردہ یہ کہانی  محض گپ اور من گھڑت  ہے، کسی صحیح سند تو درکنار کسی ضعیف سند سے بھی ایسی کوئی بات مروی نہیں ہے ۔
ثانیا:
لونڈیوں سے شادی کرنے کے لئے کئی شرائط ہیں جن میں بنیادی شرط آزاد بیوی کا خرچ اٹھانے کی طاقت نہ ہونا اور بدکاری میں پڑجانے کا خوف ہونا ہے ، اللہ تعالی کا ارشاد ہے:
{وَمَنْ لَمْ يَسْتَطِعْ مِنْكُمْ طَوْلًا أَنْ يَنْكِحَ الْمُحْصَنَاتِ الْمُؤْمِنَاتِ فَمِنْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ مِنْ فَتَيَاتِكُمُ الْمُؤْمِنَاتِ وَاللَّهُ أَعْلَمُ بِإِيمَانِكُمْ بَعْضُكُمْ مِنْ بَعْضٍ فَانْكِحُوهُنَّ بِإِذْنِ أَهْلِهِنَّ وَآتُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ مُحْصَنَاتٍ غَيْرَ مُسَافِحَاتٍ وَلَا مُتَّخِذَاتِ أَخْدَانٍ فَإِذَا أُحْصِنَّ فَإِنْ أَتَيْنَ بِفَاحِشَةٍ فَعَلَيْهِنَّ نِصْفُ مَا عَلَى الْمُحْصَنَاتِ مِنَ الْعَذَابِ ذَلِكَ لِمَنْ خَشِيَ الْعَنَتَ مِنْكُمْ وَأَنْ تَصْبِرُوا خَيْرٌ لَكُمْ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَحِيمٌ} 
”اور تم میں سے جس کسی کو آزاد مسلمان عورتوں سے نکاح کرنے کی پوری وسعت وطاقت نہ ہو تو وه مسلمان لونڈیوں سے جن کے تم مالک ہو (اپنا نکاح کر لے) اللہ تمہارے اعمال کو بخوبی جاننے والا ہے، تم سب آپس میں ایک ہی تو ہو، اس لئے ان کے مالکوں کی اجازت سے ان سے نکاح کر لو، اور قاعده کے مطالق ان کے مہر ان کو دو، وه پاک دامن ہوں نہ کہ علانیہ بدکاری کرنے والیاں، نہ خفیہ آشنائی کرنے والیاں، پس جب یہ لونڈیاں نکاح میں آجائیں پھر اگر وه بے حیائی کا کام کریں تو انہیں آدھی سزا ہے اس سزا سے جو آزاد عورتوں کی ہے۔ کنیزوں سے نکاح کا یہ حکم تم میں سے ان لوگوں کے لئے ہے جنہیں گناه اور تکلیف کا اندیشہ ہو اور تمہارا ضبط کرنا بہت بہتر ہے اور اللہ تعالیٰ بڑا بخشنے والااور بڑی رحمت والا ہے“[النساء: 25]
اس آیت سے معلوم ہوا کہ لونڈیوں سے شادی کرنے کے لئے کئی شرطیں ہیں جن میں بنیادی طور پر یہ دوشرطیں ہیں:
آدمی کے پاس آزاد بیوی کا خرچ اٹھانے کی طاقت نہ ہو۔
آدمی کو  بیوی کے بغیر رہنے میں گناہ وبدکاری کا خوف ہو۔
اب ذرا غور کیجئے کہ عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے دور میں کیا اتنی غربت آگئی تھی مسلمانوں کی اکثریت کے پاس  آزاد عورت سے شادی کی طاقت نہ تھی ، اور وہ لونڈی سے شادی پرمجبور تھے ؟  ذرا یہ رویات ملاحظہ کریں:
 امام بخاري رحمه الله (المتوفى256)نے کہا:
”حدثنا سعيد بن يحيى، حدثنا أبي، حدثنا الأعمش، عن شقيق، عن أبي مسعود الأنصاري رضي الله عنه، قال: «كان رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا أمرنا بالصدقة، انطلق أحدنا إلى السوق، فيحامل، فيصيب المد وإن لبعضهم اليوم لمائة ألف“
”ابومسعود انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب ہمیں صدقہ کرنے کا حکم دیا تو ہم میں سے بہت سے بازار جا کر بوجھ اٹھانے کی مزدوری کرتے اور اس طرح ایک مد (کھجور ) حاصل کرتے۔ (جسے صدقہ کر دیتے) لیکن آج ہم میں سے بہت سوں کے پاس لاکھ لاکھ (درہم ) موجود ہیں“ [صحيح البخاري 2/ 109 ،رقم 1416]
امام ابن سعد رحمه الله (المتوفى230) نے کہا:
”أخبرنا أحمد بن عبد الله بن يونس قال: أخبرنا عبد الله بن المبارك، عن يونس، عن الزهري، عن سعيد بن المسيب: «أن عمر بن الخطاب فرض لأهل بدر من المهاجرين من قريش والعرب والموالي خمسة آلاف خمسة آلاف، وللأنصار ومواليهم أربعة آلاف أربعة آلاف“
”سعیدابن المسیب فرماتے ہیں کہ عمرفاروق رضی اللہ عنہ نے قریش اور عرب اہل بدر اوران کے موالی کے لئے پانچ پانچ ہزار (درہم) وظیفہ مقررکیا اور انصاراوران کے موالی کے لئے چارچار ہزار (درہم) وظیفہ مقررکیا “[الطبقات الكبرى ط دار صادر 3/ 304 و إسناده صحيح وله طرق أخري]

ان روایات سے صاف ظاہر ہے کہ عہد فاروقی میں غربت کا یہ حال نہیں ہوسکتا کہ قوم کی اکثریت آزاد عورت کے بجائے لونڈی سے شادی کرنے پر مجبور ہو ۔
مزید برآں یہ بھی دیکھئے کہ انجنیر علی مرزا کے بقول لونڈیوں سے شادی کرنے والوں کی پہلے سے آزاد عورت کے ساتھ شادی ہوچکی ہوتی تھی صرف رخصتی باقی تھی ، اب ذرا غو کریں کہ جس کی آزاد عورت سے شادی ہوچکی ہے بھلا اس کے لئے یہ جائز کیسے ہوسکتا ہے کہ وہ لونڈی سے شادی کرے یہ تو قرآن کے صریح خلاف ہے ، اگر اس دور کے لوگ واقعی ایسا ہی کرتے تو عمرفاروق رضی اللہ عنہ تین طلاق کا قانون نہیں بناتے بلکہ ان کو لونڈیوں سے شادی کرنے سے ہی روک دیتے ، کیونکہ یہ تو ایک ساتھ تین طلاق دینے سے بھی بڑاجرم تھا ۔
ثالثا:
علی مرزا کے بقول لوگ پہلی غیر مدخولہ بیوی کو اس لئے طلاق دیتے تھے کیونکہ جب یہ لونڈی سے شادی کرتے تو وہ مطالبہ کرتی کہ اپنی پرانی بیوی کو فارغ کرو۔
ملاحظہ کریں یہ کتنی بے تکی بات ہے، اللہ نے تو آزاد بیوی کے ہوتے ہوئے لونڈی سے شادی کرنا حرام قراردیا ہے ، اور علی مرزا لونڈی کے لئے آزاد بیوی کو فارغ کرنے کی بات کررہا ہے ۔سبحان اللہ !
رابعا:
ایک مصری ادیب  محمد حسین ہیکل نے عمر فاروق رضی اللہ عنہ پر کتاب لکھی ہے اس میں اس نے بغیر کسی حوالے کے محض اپنا اندازہ اورگمان ظاہر کیا ہے کہ  عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے دور میں لوگ لونڈیوں سے شادی کے لئے اپنی بیوی کو تین طلاق دینے لگ گئے تھے ۔اس مصری ادیب نے بھی یہ نہیں لکھا ہے کہ لوگ غیر مدخولہ عورت کو طلاق دے کر لونڈی سے شادی کرتے تھے ، بلکہ اس نے عام بیویوں کو طلاق دینے کی بات کہی ہے ۔نیز اس نے بعد میں اپنی یہ بات بدل بھی دی ہے اور یہ کہا ہے کہ اس کے بجائے دوسرے اسباب بھی ہوسکتے ہیں ۔اس مصری ادیب کی عبارت کو آگے ہم نے  عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے فرمان پربحث کے ضمن میں پیش کیا اور وہیں اس کی مفصل تردید بھی کردی گئی ہے ، دیکھئے اسی کتاب کا صفحہ
ممکن ہے علی مرزا نے اس مصری ادیب کی اس بات کو لیکر اس میں اپنی طرف غیر مدخولہ کی بات گھڑ کرشامل کردی ہو ۔
بہر حال یہ کہانی خودساختہ اور گھڑنت ہے  ،صحیح تو درکنار کسی ضعیف سے ضعیف روایت میں بھی اس کا ذکر نہیں ہے۔

اب آئیے اگلی سطور میں ایک ضعیف روایت بھی دیکھ لیتے ہیں جس کی بنیاد پر کچھ لوگ غیر مدخولہ بات کرتے ہی۔

 سنن ابی داؤد کی ضعیف حدیث
امام أبوداؤد رحمه الله (المتوفى275) نے کہا:
”حدثنا محمد بن عبد الملك بن مروان، حدثنا أبو النعمان، حدثنا حماد بن زيد، عن أيوب، عن غير واحد، عن طاوس، أن رجلا، يقال له: أبو الصهباء كان كثير السؤال لابن عباس، قال: أما علمت أن الرجل كان إذا طلق امرأته ثلاثا قبل أن يدخل بها، جعلوها واحدة على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم، وأبي بكر، وصدرا من إمارة عمر؟، قال ابن عباس: بلى، كان الرجل إذا طلق امرأته ثلاثا قبل أن يدخل بها، جعلوها واحدة على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم، وأبي بكر، وصدرا من إمارة عمر، فلما رأى الناس قد تتابعوا فيها، قال: أجيزوهن عليهم“ 
 ”طاؤس کہتے ہیں کہ ابو الصہباء نامی ایک شخص ابن عباس رضی اللہ عنہ سے بہت زیادہ سوال کیا کرتا تھا ۔ اس نے کہا : کیا آپ کو علم ہے کہ جب کوئی آدمی اپنی بیوی کو دخول سے پہلے تین طلاقیں دے دیتا تھا تو ایسی طلاق کو رسول اللہ ﷺ ، ابوبکررضی اللہ عنہ اور اوائل دور عمر رضی اللہ عنہ میں ایک ہی شمار کرتے تھے ؟ ابن عباس رضی اللہ عنہ نے کہا : ہاں ! آدمی جب اپنی بیوی کو مباشرت سے پہلے تین طلاقیں دے دیتا تھا تو عہد رسالت ، عہد ابی بکر اور ابتدائے عہد عمر میں اس کو ایک ہی شمار کرتے تھے ۔ عمر رضی اللہ عنہ نے جب دیکھا کہ لوگ مسلسل طلاقیں دینے لگے ہیں تو انہوں نے کہا : انہیں ان پر نافذ کر دو“ [سنن أبي داود 2/ 261 رقم2199 ومن طریق أبی داؤد أخرجہ البیہقی فی سننہ رقم 14985]

یہ روایت درج ذیل علتوں کی بناپر ضعیف ہے:
 ❀ پہلی علت: ”أبو النعمان محمد بن الفضل عارم“ کا اختلاط
 ”أبو النعمان محمد بن الفضل عارم“ آخری عمر میں اختلاط کے شکار ہوگئے جیساکہ محدثین نے متفقہ طور پر اس کی گواہی دی ہے،چند اقوال ملاحظہ ہوں:

 ● امام أبو حاتم الرازي رحمه الله (المتوفى277) نے کہا:
 ”اختلط عارم في آخر عمره، وزال عقله، فمن سمع عنه قبل الاختلاط فسماعه صحيح، وكتبت عنه قبل الاختلاط سنة أربع عشرة، ولم أسمع منه بعدما اختلط، فمن كتب عنه قبل سنة عشرين ومائتين فسماعه جيد“ 
 ”عارم آخری عمر میں اختلاط کے شکار ہوگئے تھے اور ان کی عقل زائل ہوگئی تھی ، تو جنہوں نے ان سے اختلاط سے پہلے سنا ہے ان کاسماع صحیح ہے ، اور میں نے ان سے اختلاط سے پہلے سن 214 ہجری میں سناہے ،اور اختلاط کے بعد میں نے ان سے نہیں سنا ، تو جس نے ان سے 220 ہجری سے پہلے سنا ہے ان کا سماع بہتر ہے“ [الجرح والتعديل لابن أبي حاتم، ت المعلمي: 8/ 58]
نوٹ:-امام ابوداؤد کے بقول 213 ہجری ہی اسے ان کا اختلاط شروع ہوگیا تھا [الضعفاء للعقيلي، ت د مازن: 5/ 360]

 ● امام نسائي رحمه الله (المتوفى303) نے کہا:
 ”عارم أبو النعمان ثقة، إلا أنه تغير، فمن سمع منه قديما، فسماعه جيد، ومن سمع منه بعد الاختلاط، فليسوا بشيء“ 
 ”عارم ابوالنعمان ثقہ ہیں ، مگر وہ تغیر کے شکار ہوگئے تھے ، اس لئے جنہوں نے ان سے قدیم زمانے میں سنا ہے ان کا سماع بہتر ہے ، اور جنہوں نے ان سے اختلاط کے بعد سنا ہے تو ان کی روایات کی کوئی حیثیت نہیں ہے“ [سنن النسائي الكبرى، الأرناؤوط: 3/ 69]

 ● امام عقيلي رحمه الله (المتوفى322) نے کہا:
 ”فمن سمع من عارم قبل الاختلاط فهو أحد ثقات المسلمين، وإنما الكلام فيه بعد الاختلاط“ 
 ”جس نے عام سے اختلاط سے پہلے سنا تو عام ثقہ مسلمانوں میں سے ایک ہیں ، اور ان پر کلام ان کے اختلاط کے بعد ہے“ [الضعفاء للعقيلي، ت د مازن: 5/ 362]

 ● امام ابن حبان رحمه الله (المتوفى354)نے کہا:
 ”اختلط في آخر عمره وتغير حتى كان لا يدري ما يحدث به فوقع المناكير الكثرة في روايته فما روى عنه القدماء قبل اختلاطه إذا علم أن سماعهم عنه كان قبل تغيره فإن احتج به محتج بعد العلم بما ذكرت أرجو أن لا يجرح في فعله ذلك وأما رواية المتأخرين عنه فيجب التنكب عنها على الأحوال وإذا لم يعلم التمييز بين سماع المتقدمين والمتأخرين منه يترك الكل ولا يحتج بشيء منه“ 
 ”یہ آخری عمر میں اختلاط وتغیر کے شکار ہوگئے تھے ، یہاں تک انہیں شعور نہیں ہوتا تھا کہ یہ کیا بیان کررہے ہیں ، پھر اس کے سبب ان کی احادیث میں مناکیر کی کثرت ہوگئی ، تو ان کے قدیم شاگردوں نے ان کے اختلاط سے پہلے جو احادیث بیان کی ہیں ، اگر اس کا علم ہوجائے تو ان احادیث سے حجت پکڑنے میں کوئی حرج نہیں ہے ، لیکن متاخرین نے ان سے جو احادیث بیان کی ہیں ، ان سے ہر حال میں بچنا ضروی ہے ، اور جن احادیث کے بارے میں پتہ نہ چلے کہ انہیں متقدمین نے بیان کیا ہے یا متاخرین نے تو ایسی تمام احادیث ترک کردی جائیں گی ان میں سے کسی سے بھی حجت نہیں پکڑی جائے گی“ [المجروحين لابن حبان، تزايد: 2/ 295]

محدثین کے ان اقوال سے معلوم ہوا کہ ابوالنعمان عارم آخری عمر میں اختلاط کے شکار ہوگئے تھے ، اور بعض محدثین نے اپنے اپنے علم کے مطابق اس کے اختلاط کی ابتداء کا وقت بھی بتایا ہے ، نیز محدثین نے یہ بھی صراحت کردی ہے کہ اختلاط کے بعد اس کی بیان کردہ احادیث کا کوئی اعتبار نہیں ہوگا۔

کیا عارم نے اختلاط کے بعد کوئی منکر روایت بیان نہیں کی؟
لیکن امام ذہبی رحمہ اللہ نے امام دارقطنی کے ایک قول کو بنیاد بناکر یہ دعوی کیا کہ ابوالنعمان عارم نے اختلاط کے بعد کوئی حدیث بیان نہیں کی چنانچہ کہا:
 ”فرج عنا الدارقطني في شأن عارم، فقال: تغير بأخرة، وما ظهر له بعد اختلاطه حديث منكر، وهو ثقة“ 
 ”ابوالنعمان عارم کے بارے میں دارقطنی نے یہ انکشاف کیا ہے کہ یہ آخری عمرمیں تغیر کے شکار ہوگئے تھے لیکن ان کے اختلاط کے بعد ان کی کوئی منکر حدیث ظاہر نہیں ہوئی ہے اور یہ ثقہ ہیں“ [سير أعلام النبلاء للذهبي: 10/ 267]
اس کے بعد امام ابن حبان رحمہ اللہ کے کلام کا شدید رد کیا ہے۔
عرض ہے کہ:
امام ابن حبان رحمہ اللہ اپنے کلام میں منفرد نہیں ہے بلکہ امام نسائی اورامام عقیلی وغیرہ نے بھی یہی بات کہی ہے لہٰذا امام ذہبی رحمہ اللہ کا امام ابن حبان رحمہ اللہ پربرسنا بے سود ہے ۔
رہی بات امام دارقطنی(المتوفى385)کے اس قول کی کہ ابوالنعمان عارم کے اختلاط کے بعد ان کی کوئی منکر حدیث ظاہر نہیں ہوئی ہے ، تو یہ انہوں نے اپنے علم کی حد تک کہا ہے ، جب کہ ان سے سینیر محدثین امام ابوداؤد(المتوفى275)،امام عقیلی(المتوفى322) اورامام ابن حبان(المتوفى354) رحمہ اللہ نے صراحت کی ہے کہ انہوں نے اختلاط کے بعد منکر حدیث بیان کی ہے۔ذیل میں ایسی بعض منکر احادیث پیش کی جارہی ہیں جنہیں ابوالنعمان عارم نے اختلاط کے بعدبیان کیاہے:

 ⟐ ابوالنعمان عارم کی پہلی منکر روایت:
امام أبوداؤد رحمه الله (المتوفى275) نے کہا:
 ”كنت عند عارم، فحدث عن حماد بن زيد، عن هشام بن عروة، عن أبيه: أن ماعزا الأسلمي سأل النبي صلى الله عليه وسلم عن الصوم في السفر .فقلت له: حمزة الاسلمي؟ فقال: يا بني ماعز لا يشقى به جليسه،يعني أن عارما، قال: هذا وقد زال عقله“
 ”میں عارم کے پاس بیٹھا ہوا تھا تو انہوں نے حماد بن زيد، عن هشام بن عروة، عن أبيه کے طریق سےبیان کیا کہ ماعزا الأسلمي نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سفر میں روزے سے متعلق سوال کیا ۔ تو میں نے کہا: یہ سوال تو حمزہ الاسلمی رضی اللہ عنہ نے کیا تھا ؟ تو انہوں نے کہا: بیٹا ماعز کے ساتھ بیٹھنے والا نامراد نہیں ہوسکتا ۔ یعنی ابوالنعمان عارم نے ایسی بات تب کی جب ان کی عقل زائد ہوچکی تھی“ [سؤالات الآجري أبا داود، ت الأزهري: ص: 180]

 ⟐ ابوالنعمان عارم کی دوسری منکر روایت:
امام عقيلي رحمه الله (المتوفى322) نے کہا:
 ”حدثنا محمد بن إسماعيل، قال: قام رجل إلى عفان، فقال: يا أبا عثمان، حدثنا بحديث حماد بن سلمة، عن حميد، عن أنس, أن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: اتقوا النار ولو بشق تمرة، فقال له عفان: إن أردته، عن حميد، عن أنس، فاكتري زورقا بدرهمين وانحدر إلى البصرة، يحدثك به عارم، عن حميد، عن أنس، فأما نحن فحدثناه حماد بن سلمة، عن حميد, عن الحسن, أن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: اتقوا النار ولو بشق تمرة“ 
 ”ایک شخص عفان رحمہ اللہ کے پاس آیا اور کہا : اےابوعثمان آپ ہمیں ”حماد بن سلمة، عن حميد، عن أنس ان النبی“ کے طریق سے یہ حدیث سنائیے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: آگ سے بچو خواہ کھجور کے ایک ٹکڑے سے ہی ، تو عفان رحمہ اللہ نے کہا: اگر ”عن حميد، عن أنس“ کے طریق سے تمہیں یہ حدیث سننی ہے تو دو درہم خرچ کرکے ایک کشتی کرایہ پر لے لو اور بصرہ تک سفر کرو وہاں عارم تمہیں ”عن حميد، عن أنس ان النبی“ کے طریق سے یہ حدیث سنائیں گے ، لیکن جہاں تک ہماری بات ہے تو ہمیں یہ حدیث ”حماد بن سلمہ نے عن حميد, عن الحسن ان النبی“ کے طریق سے بیان کی ہے کہ حسن نے کہا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: آگ سے بچو خواہ کھجور کے ایک ٹکڑے سے ہی“ [الضعفاء للعقيلي، ت د مازن: 5/ 361]

امام عفان رحمہ اللہ کے اس بیان سے بھی ثابت ہوا کہ عارم أبو النعمان نے اختلاط کے بعد یہ منکر حدیث بیان کی ہے۔ امام ابن رجب رحمه الله(المتوفى795) فرماتے ہیں:
 ”ومما روى في اختلاطه عن حماد بن سلمة عن حميد عن انس أن النبي ـ صلى الله عليه وسلم ـ قال: اتقوا النار ولو بشق تمرة .ورواه قبل اختلاطه عن حميد عن الحسن عن النبي ـ صلى الله عليه وسلم ـ مرسلاً.وكذا رواه عفان عن حماد بن سلمة، وهو الصواب“ 
 ”ابوالنعمان عارم اپنے اختلاط کی حالت میں ”عن حماد بن سلمة عن حميد عن انس“ کی سند سے بیان کیا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: آگ سے بچو خواہ کھجور کے ایک ٹکڑے سے ہی ، جبکہ خود ابوالنعمان عارم اپنے اختلاط سے پہلے اس حدیث کو ”عن حميد عن الحسن عن النبي“ کی سند سے مرسلا بیان کرتے تھے ، اور اس حدیث کو ارسال کے ساتھ ہی عفان نے بھی حماد بن سلمہ سے بیان کیا ہے اور یہ درست ہے“ [شرح علل الترمذي لابن رجب، ت همام: 2/ 751]

 ⟐ ابوالنعمان عارم کی تیسری منکر روایت:
امام بخاري رحمه الله (المتوفى256) نے کہا:
 ”حدثنا أبو النعمان، حدثنا جرير بن حازم، عن قتادة، عن النضر بن أنس، عن بشير بن نهيك، عن أبي هريرة رضي الله عنه، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «من أعتق شقصا...“ [صحيح البخاري 3/ 141 رقم 2504]
اس سند میں میں ابوالنعمان عارم نے اس حدیث کو موصولا ابوہریرۃ رضی اللہ عنہ کے ذکر کے ساتھ بیان کیا ہے ، اور امام بخاری رحمہ اللہ نے ابوالنعمان عارم سے اختلاط سے پہلے سنا ہے۔جیساکہ ابن حجررحمہ اللہ نے کہا:
”إنما سمع منه البخاري سنة ثلاث عشرة قبل اختلاطه بمدة“ ، ”امام بخاری نے ان سے 213 ہجری میں ان کے اختلاط سے ایک عرصہ پہلے سنا ہے“[فتح الباري لابن حجر، ط السلفية: 1/ 441]
لیکن بعد میں ابوالنعمان عارم نے دوبارہ اس حدیث کو بیان کیا تو ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کو ساقط کرکے اسے مرسلا بیان کیا چنانچہ:
خطيب بغدادي رحمه الله (المتوفى463) نے کہا:
 ”أخبرنا أبو طالب عمر بن إبراهيم بن سعيد الفقيه أنا عبد الله بن أيوب نا أبو مسلم البصري نا أبو النعمان عارم أنا جرير عن قتادة عن النضر بن أنس عن بشير عن النبي صلى الله عليه وسلم بمثله(من أعتق شقصا من مملوك ...)“ [الفصل للوصل المدرج في النقل 1/ 355]
خطيب بغدادي رحمه الله نے اس کی اس غلطی کو بیان کرتے ہوئے کہا:
 ”رواه عارم بن الفضل عن جرير فلم يذكر أبا هريرة“ 
 ”اسے ابوالنعمان عارم بن الفضل نے جریر سے بیان تو ابوہریرۃ رضی اللہ عنہ کا ذکر نہیں کیا“ [الفصل للوصل المدرج في النقل 1/ 354]

 ⟐ ابوالنعمان عارم کی چوتھی منکر روایت:
امام أبوداؤد رحمه الله (المتوفى275) نے کہا:
 ”حدثنا أبو كامل، حدثنا يزيد يعني ابن زريع، ح وحدثنا أحمد بن منيع، عن يحيى بن زكريا، وهذا لفظه، عن داود، عن أبي نضرة، عن أبي سعيد، قال: «لما أمر النبي صلى الله عليه وسلم برجم ماعز بن مالك، خرجنا به إلى البقيع، فوالله، ما أوثقناه، ولا حفرنا له...“ 
 ”ابوسعید الخدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ماعز بن مالک کو رجم کرنے کاحکم دیا توہم انہیں بقیع لے کر گئے ، تو اللہ کی قسم ہم نے نہ تو انہیں باندھا اور نہ ہی ان کے لئے گڈھا کودھا ...“ [سنن أبي داود 4/ 149وإسناده صحيح]
اس صحیح حدیث میں یہ ذکر ہے کہ ماعز بن مالک کو رجم کرتے وقت ان کے لئے گڈھا نہیں کھودا گیا تھا ۔ صحيح مسلم رقم (1694) میں بھی داود بن أبي هند کے طریق سے یہی بات ذکر ہے۔
لیکن يزيد بن زريع کی اسی سند(عن يزيد بن زريع، عن داود بن أبي هند، عن أبي نضرة، عن أبي سعيد الخدري) سے ابوالنعمان عارم نے اس حدیث کو روایت کیا تو اس میں ماعز بن مالک کے گڈھا کھودنے کی بات ذکر کرتے ہوئے کہا:
 ”فلم نزل نحفر له“ ، ”ہم ان کے لئے گڈھا کھود رہے تھے“ [المسند الصحيح المخرج على صحيح مسلم لأبي عوانة 13/ 331]
ظاہر ہے کہ ابوالنعمان عارم نے یہاں متن کو بیان کرنے میں واضح غلطی کی ہے ، امام ابو عوانہ ابوالنعمان عارم کی اس غلطی کی نشاندہی کرتے ہوئے کہا:
 ”كذا يقول عارم: فلم نزل نحفر“ ، ”ابوالنعمان عارم اسی طرح روایت کرتے تھے کہ ہم گڈھا کھود رہے تھے“ [المسند الصحيح المخرج على صحيح مسلم لأبي عوانة 13/ 331]

 ⟐ ابوالنعمان عارم کی پانچویں منکر روایت:
پانچویں منکر روایت کی جگہ اسی حدیث کو لے لیجئے جس کی تضعیف ہم واضح کررہے ہیں ، کیونکہ یہی حدیث صحیح مسلم وغیرہ میں بھی ہیں لیکن اس میں غیرمدخولہ کا ذکر نہیں ہے جبکہ سنن ابی داؤد کی زیر بحث حدیث میں غیر مدخولہ کا ذکر ہے ، ظاہر ہے کہ ابوالنعمان عارم کی غلطی ہے جوان کے اختلاط کا نتیجہ ہے۔

ان احادیث کے علاوہ اور بھی کئی احادیث ہیں جن میں ابوالنعمان عارم نے سند یا متن کے بیان میں غلطی کی ہے ، اس سے روز روشن کی طرح عیاں ہوجاتا ہے کہ ابوالنعمان عارم نے اختلاط کے بعد بھی کئی منکر احادیث بیان کی ہیں ۔لہٰذا امام دارقطنی رحمہ اللہ کا بیان صرف ان کے اپنے علم کی حد تک ہے ، اور وہ حجت نہیں ہے کیونکہ اس کا غلط ہونا ثابت ہوگیا ہے ۔پھر اس بنیاد پرامام ذہبی رحمہ اللہ کا کلام بھی بے معنی ہوگیا ۔
بلکہ شاید امام ذہبی رحمہ اللہ کو بھی بعد میں اس کا احساس ہوگیا اور انہوں نے اپنے سابق کلام سے رجوع کرلیا اور جمہور محدثین کے فیصلے کو تسلیم کرلیا چنانچہ ایک مقام پر خود اعتراف کرتے ہیں کہ :
 ”قلت: فمما أنكروه عليه روايته عن حماد، عن حميد، عن أنس حديث: اتقوا النار ولو بشق تمرة وقد كان قبل ذلك رواه عن حماد، عن حميد، عن الحسن مرسلا، كما رواه عفان، وغيره“ 
 ”میں (ذہبی) کہتاہوں کہ: حماد سے ابوالنعمان عارم کی جن احادیث کو محدثین نے منکر مانا ہے انہیں میں سے عن حميد، عن أنس کے طریق سے بیان کردہ ان کی یہ حدیث ہے کہ : آگ سے بچو خواہ کھجور کے ایک ٹکڑے سے ہی ، جبکہ ابوالنعمان عارم خود اس سے پہلے اسی حدیث کو عن حميد، عن الحسن کے طریق سے مرسلا بیان کرتے تھے جیساکہ عفان وغیر نے بیان کیاہے“ [تاريخ الإسلام ط التوفيقية 16/ 225]

صرف یہی نہیں بلکہ امام ابوداؤد رحمہ اللہ جب ابوالنعمان عارم سے حدیث سننے گئے اوروہاں جاکر یہ پتہ چلا یہ تو مختلط ہوگئے ہیں اور غلط سلط احادیث بیان کرنے لگے ہیں تو امام ابوداؤد رحمہ اللہ نے ان سے روایت ہی نہیں کیا ، اس پرامام ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
 ”قلت: لم يأخذ عنه أبو داود لتغيره، والذي ينبغي أن من خلط في كلامه كتخليط السكران، أن لا يحمل عنه البتة، وأن من تغير لكثرة النسيان، أن لا يؤخذ عنه“ 
 ”میں (ذہبی ) کہتاہوں: ابوداؤد نے ابوالنعمان عارم کے تغیر حفظ کے بعد ان کی حدیث نہیں لی ، اور جوشخص اپنی اپنے کلام میں مدہوش انسان کی طرح اختلاط شکار ہوجائے تو اس کی احادیث قطعا نہیں لی جائے گی اور جو بکثرت بھولنے کے سبب تغیر حفظ کا شکار ہوجائے اس کی حدیث بھی نہیں لی جائے گی“ [سير أعلام النبلاء للذهبي: 10/ 269]

ملاحظہ فرمائیں ابوالنعمان عارم اختلاط کے بعد بھی حدیث بیان کرتے تھے اور لوگ ان سے روایت بھی کرتے تھے مگر امام ابوداؤد نے ان کے اختلاط کے سبب ان سے روایت نہیں کیا ، اس پر امام ذہبی رحمہ اللہ نے امام ابوداؤد کا رد نہیں کیا بلکہ ان کی تائید فرمائی کہ جو راوی اختلاط کا شکار ہوکر مدہوش انسان کی طرح کلام کرنے لگے ، یا بکثرت بھولنے کے سبب اس کا حافظہ خراب ہوجائے تو اس کی حدیث نہیں لی جانی چاہئے۔
بہرحال دلائل سے یہ ثابت کیا جاچکا ہے کہ ابوالنعمان عارم اختلاط کے شکار ہوگئے تھے اور اختلاط کے بعد وہ منکر احادیث بیان کرتے تھے اس لئے ان سے جن رواۃ نے اختلاط سے پہلے سنا ہے صرف انہیں کی روایت صحیح ہوگی ، باقی جنہوں نے اختلاط کے بعد سنا یا جن کے بارے میں تمییز نہ ہوسکے کہ انہوں نے اختلاط سے پہلے سنا تھا یا اختلاط کے بعد ایسے تمام لوگوں کی روایات ضعیف ومنکر ہوں گی۔

علامہ البانی رحمہ اللہ نے بھی اس علت کی بناپر اس حدیث کو ضعیف ومنکر کہا ہے ۔
 ”وهذا إسناد معلول عندي بأبي النعمان واسمه محمد بن الفضل السدوسي ولقبه عارم، وهو وإن كان ثقة فقد كان اختلط، وصفه بذلك جماعة من الأئمة منهم أبوداود والنسائي والدارقطني وغيرهم...قلت: وهذا الحديث من رواية ابن مروان وهو أبو جعفر الدقيقي الثقة، ولا ندري أسمع منه قبل الاختلاط أم بعده؟ وهذا عندي أرجح، فقد خولف عارم في إسناده ومتنه“ 
 ”میرے نزدیک اس حدیث میں علت یہ ہے کہ ابوالنعمان جس کا نام محمد بن الفضل السدوسي اور جس کا لقب عارم ہے ، یہ گرچہ ثقہ تھے لیکن اختلاط کے شکار ہوگئے تھے ، اور ہمیں نہیں پتہ کہ ان کی یہ حدیث ان کے اختلاط سے پہلے سنی گئی ہے یا بعد میں ؟ اور دوسری بات ہی راجح معلوم ہوتی ہے کیونکہ عارم نے اس حدیث کو جس سند اور متن کے ساتھ بیان کیا ہے دوسرے رواۃ نے اس کے خلاف بیان کیا ہے“ [سلسلة الأحاديث الضعيفة والموضوعة 3/ 271]

علامہ البانی رحمہ اللہ نے جو یہ کہا کہ راجح یہی ہے کہ اس حدیث کو عارم کے اختلاط کے بعد سنا گیاتو اس کی تائید اس بات سے بھی ہوتی ہے کہ عارم سے اس حدیث کو روایت کرنے والا محمد بن عبد الملك الواسطي ہے اور اس کی وفات 266 ہجری میں 81 سال کی عمر میں ہوئی ہے [تهذيب الكمال للمزي: 26/ 26]
اس کا مطلب یہ ہوا کہ محمد بن عبد الملك الواسطي کی پیدائش 185 ہجری ہے اور ان کے استاذ ابوالنعمان عارم کے اختلاط کی شروعات 213 ہجری میں ہوئی [الضعفاء للعقيلي، ت د مازن: 5/ 360]
 اس وقت محمد بن عبد الملك الواسطي کی عمر صرف 28 سال کی تھی ، اس سے صاف ظاہر ہے کہ محمد بن عبد الملك الواسطي یہ ابوالنعمان عارم کے متاخرین شاگردوں میں سے ہیں ۔

شعَيب الأرنؤوط اور ان کے رفقاء سنن ابی داؤد کے اپنے نسخہ میں اس روایت سے متعلق فرماتے ہیں:
”قوله: ”قبل أن يدخل بها“ لم ترد إلا في رواية أبي داود هذه تفرد بها أبو النعمان، ويغلب على الظن أنه حدث بهذا الحديث بعد اختلاطه“ 
 ”اس حدیث میں غیر مدخولہ والے الفاظ صرف ابوداؤد کی اسی روایت میں ہیں جنہیں نقل کرنے میں ابوالنعمان عارم منفرد ہے اور ظن غالب ہےکہ اس نے اس حدیث کو اختلاط کے بعد بیان کیا ہے“ [ سنن أبي داود ت الأرنؤوط:3/ 524]

بہرحال چونکہ اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ہے کہ محمد بن عبد الملك الواسطي نے ابوالنعمان عارم سے یہ حدیث ان کے اختلاط سے پہلے سنی ہے اس لئے اس علت کے سبب یہ حدیث ضعیف ہی ہے ۔

 ❀ دوسری علت: ثقات کی مخالفت:
ابوالنعمان عارم کے علاوہ اس حدیث کو ”حمادبن زید“ ہی کے طرق سے پانچ ثقہ رواۃ نے نقل کیا ہے ، لیکن ان میں سے کسی نے بھی متن میں غیرمدخولہ والے الفاظ ذکر نہیں کئے ہیں ۔
 ●  یہ چار رواۃ درج ذیل ہیں:
① سليمان بن حرب عن ‌حماد بن زيد (صحيح مسلم 3/ 1099 رقم 1472)
② عفان بن مسلم عن ‌حماد بن زيد ( مصنف ابن أبي شيبة، ت الحوت: 4/ 69 وإسناده صحيح)
③ يحيى بن آدم ‌عن حماد بن زيد (المسند المستخرج على صحيح مسلم 4/ 153وإسناده صحيح)
④ خالد بن خداش عن حماد بن زيد (المعجم الكبير للطبراني 11/ 40 وإسناده صحيح)
⑤ محمد بن أبي نعيم عن حماد بن زيد (سنن الدارقطني 5 / 80وإسناده حسن)
نوٹ:- دارقطنی کی سند میں محمد بن ابی نعیم صدوق ہیں ان کی توثیق پر تفصیل گذرچکی ہے دیکھئے:

اس کے علاوہ ابوالنعمان عارم نے سند کے دیگر طبقات کے رواۃ کی بھی مخالفت کی ہے مثلا:
  ●  اسی طریق میں ایوب سے اوپر موجود إبراهيم بن ميسرة سے ابن جریج نے بھی یہی روایت نقل کی ہے انہوں نے بھی غیرمدخولہ والے الفاظ ذکر نہیں کئے ہیں (مستخرج أبي عوانة 3/ 153وإسناده صحيح وصرح ابن جريج بالسماع)

  ●  اسی طرح إبراهيم بن ميسرة سے اوپر موجود امام طاوس سے یہی روایت درج ذیل رواۃ نے نقل کی ہے:
 ① ابن طاوس عن طاووس (صحيح مسلم 3/ 1099 رقم 1472)
 ② عمرو بن دينار عن طاوس (مصنف عبد الرزاق 6/ 392 وإسناده صحيح)
نوٹ:- مصنف عبدالرزاق کی سند میں عمربن حوشب ہے یہ ثقہ ہے ، اس کی توثیق پر بحث گذرچکی ہے دیکھئے:
ان دونوں رواۃ نے بھی غیرمدخولہ والے الفاظ ذکر نہیں کئے ہیں۔

  ●  اسی طرح طاوس سے سے اوپر موجود صحابی ابن عباس رضی اللہ عنہ سے یہی روایت ابن أبي ملیکہ نے نقل کی ہے (سنن الدارقطني 5/ 104 المستدرك 2/ 196 وقال: هذا حديث صحيح الإسناد)
ابن أبي ملیکہ نے بھی غیرمدخولہ والے الفاظ ذکر نہیں کئے ہیں ان کی روایت کی سند پر بھی تفصیل گذرچکی ہے دیکھئے:

ملاحظہ فرمائیں کہ ابوالنعمان عارم نے صرف یہ کہ حمادبن زید کے دیگر شاگردوں کی مخالفت کی ہے بلکہ سند کے دیگر طبقات کے رواۃ کی بھی مخالفت کی ہے ، اسی علت کی بنا پرامام ابن القیم رحمہ اللہ نے اس روایت کو معلول قرار دیتے ہوئے کہا:
”كذا في هذه الرواية قبل أن يدخل بها وبها أخذ إسحق بن راهويه وخلق من السلف جعلوا الثلاث واحدة في غير المدخول بها وسائر الروايات الصحيحة ليس فيها قبل الدخول ولهذا لم يذكر مسلم منها شيئا“ 
 ”سنن ابی داؤد والی روایت میں ایسے ہی غیرمدخولہ کا ذکر ہے اور یہی موقف اسحاق بن راھویہ اور سلف کی ایک جماعت نے اپنایا ہے کہ غیرمدخولہ کو دی گئی تین طلاق ایک شمار ہویگ ، اور اس سلسلے کی دیگرجتنی بھی صحیح روایت ہیں ان میں سے کسی میں بھی غیرمدخولہ کی صراحت نہیں ہے ، اسی لئے امام مسلم رحمہ اللہ اس سلسلے کی جوروایات پیش کی ہیں ان میں ایسا کوئی لفظ ذکر نہیں کیا ہے“ [إغاثة اللهفان 1/ 285]

امام ابن القیم رحمہ اللہ کی اس عبارت سے یہ بھی پتہ چلا کہ انہوں نے دوسرے مقام پر اس روایت کی سند کو جو صحیح کہا تو وہاں اس شذوذ پران کا دھیان نہیں رہا ورنہ وہاں بھی اس روایت کی تضعیف ہی کرتے جیسے یہاں کیا ہے۔

❀ تیسری علت: ایوب کے مجہول اساتذہ:
اس سند میں ایوب نے جن سے روایت کیا ہے ان میں سے کسی کا نام ذکر نہیں ہے بلکہ غير واحد کہہ کر سب کو مبہم کردیا گیا ہے۔لہٰذا ان نامعلوم ومجہول لوگوں کے سبب بھی یہ روایت ضعیف ہے۔

قاضی عياض بن موسى أبو الفضل (المتوفى 544 ) فرماتے ہیں:
”أما قول الراوى: حدثنى غير واحد، أو حدثنى الثقة، أو حدثنى بعض أصحابنا، فهذا لا يدخل فى باب المقطوع ولا المرسل ولا المعضل عند أهل الصناعة، وإنما يدخل فى باب المجهول“ 
 ”اہل فن کے نزدیک اگر راوی یہ کہے کہ : مجھ سے کئی ایک نے بیان کیا ہے ، یا مجھ سے ثقہ نے بیان کیا ہے ، یا مجھ سےمیرے بعض ثقہ اساتذہ نے بیان کیا ہے ، تو ایسی حدیث مقطوع ، مرسل ، یا معضل وغیرہ میں شمار نہ ہوگی بلکہ مجہول سے روایت شمار ہوگی“ [إكمال المعلم بفوائد مسلم 5/ 222]

امام نووي رحمه الله (المتوفى676) نے بھی قاضی عیاض کا یہ قول ان الفاظ میں نقل کیا ہے:
 ”قال القاضي إذا قال الراوي حدثني غير واحد أو حدثني الثقة أو حدثني بعض أصحابنا ليس هو من المقطوع ولا من المرسل ولا من المعضل عند أهل هذا الفن بل هو من باب الرواية عن المجهول“ 
 ”قاضی عیاض فرماتے ہیں اہل فن کے نزدیک اگر راوی یہ کہے کہ : مجھ سے کئی ایک نے بیان کیا ہے ، یا مجھ سے ثقہ نے بیان کیا ہے ، یا مجھ سےمیرے بعض ثقہ اساتذہ نے بیان کیا ہے ، تو ایسی حدیث مقطوع ، مرسل ، یا معضل وغیرہ میں شمار نہ ہوگی بلکہ مجہول سے روایت شمار ہوگی“ [شرح النووي على مسلم 10/ 219]

دراصل جب کوئی راوی سند میں مبہم واسطہ ذکر کرے اور نام ظاہر نہ کرے تو بعض اہل علم ایسی سند کو منقطع اور مرسل وغیرہ بھی کہتے ہیں، تو قاضی عیاض فرماتے ہیں کہ چونکہ راوی نے سند میں واسطہ بالکل ساقط نہیں کیا بلکہ مبہم ہی سہی مگر ذکر کیا اس لئے ایسی سند کو منقطع وغیرہ تو نہیں کہیں گے البتہ واسطہ میں نام ذکر نہیں ہے اس لئے اسے مجہول سے روایت کرنا کہیں گے ۔

امام نووي رحمه الله (المتوفى676) رحمہ اللہ قاضی عیاض کی بات کی تائید کرتے ہوئے اورایسی روایت کا حکم واضح کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
 ”وهذا الذي قاله القاضي هو الصواب لكن كيف كان فلا يحتج بهذا المتن من هذه الرواية لو لم يثبت من طريق آخر“ 
 ”قاضی عیاض نے جو یہ بات کہی ہے وہی درست ہے (یعنی ایسی روایت کو منقطع وغیرہ نہیں بلکہ مجہول سے روایت کہیں گے) تاہم اسے کوئی بھی نام دیں بہر صورت ایسی سند سے آنے والی حدیث سے حجت نہیں لی جائے گی جب تک کہ وہ دوسرے طریق سے ثابت نہ ہوجائے“ [شرح النووي على مسلم 10/ 219]

معلوم ہوا کہ کوئی راوی غیر واحد کہہ کر اپنے کئی اساتذہ کے واسطے روایت بیان کرتے تو اس کے اساتذہ کے مجہول ہونے کے سبب اس کی روایت مردود ہوگی ۔سنن ابی داؤد کی اس روایت کا بھی یہی حال ہے ، اسی لئے امام نووي رحمه الله (المتوفى676) نے ابوداود کی اس روایت کو ضعیف قرار دیتے ہوئے کہا:
”وأما هذه الرواية التي لأبي داود فضعيفة رواها أيوب السختياني عن قوم مجهولين عن طاوس عن بن عباس فلا يحتج بها“ 
 ”یہ روایت جسے ابوداؤد نے روایت کیا ہے ضعیف ہے ، کیونکہ ایوب السختیانی نے مجہول لوگوں کے واسطے سے طاوس عن ابن عباس سے روایت کیا ہے لہٰذا اس سے دلیل نہیں لی جاسکتی“ [شرح النووي على مسلم 10/ 72]

 اسی طرح حافظ عبد العظيم المنذري (المتوفى 656) نے بھی اس روایت کو اسی سبب ضعیف قرار دیتے ہوئے کہا:
 ”الرواة عن طاوس مجاهيل“ 
 ”طاوس سے روایت کرنے رواۃ مجہول ہیں“ [مختصر سنن أبي داود للمنذري ت حلاق 2/ 52]

غیر واحد سے روایت میں محدثین کا منہج:
بعض لوگ کہتے ہیں کہ جب کوئی راوی یا محدث کسی حدیث کواپنے کئی اساتذہ سے سنا ہوتا ہے جس میں سب یا اکثر ثقہ ہوتے ہیں تو وہ بوقت روایت اپنے اساتذہ کانام نہیں لیتا بلکہ غیر واحد کہہ کر بیان کرتا ہے ، لہذا ایسی روایت صحیح مانی جائے گی۔
عرض ہے کہ :
اولا:
اوپر وضاحت کی جاچکی ہے کہ اگر کوئی محدث یا راوی اپنے اساتذہ کا نام لئے بغیر حدیث بیان کرتا ہے تو اہل فن کے نزدیک اس کے اساتذہ کو مجہول مانا جاتا ہے اور اس کی روایت صحیح تسلیم نہیں کی جاتی ، جیساکہ قاضی عیاض اور امام نووی کا حوالہ گذرا بلکہ قاضی عیاض نے اسی قول میں یہ بھی صراحت کردی ہے کہ اگر راوی اپنے استاذ کو ثقہ بتائے لیکن نام نہ بتائے تو بھی اس کے استاذ کومجہول ہی مانا جائے گا۔
قاضی عیاض نے ایسا اس وجہ سے کہا کیوںکہ وہ راوی گرچہ اس کے شاگرد کی نظرمیں ثقہ ہو لیکن دوسروں کی نظرمیں ضعیف بھی ہوسکتا ہے اس لئے اس کا نام ظاہر کرنا ضروری ہے۔
ثانیا:
 کسی روایت میں متعدد اساتذہ ہونے پر محدثین کا عمومی طرزعمل یہی ہوتا ہے کہ وہ سب کا نام ذکرکرتے ہیں ، یا کم ازکم ان میں سے کسی ایک کا نام ذکر کرتے ہیں ، کیونکہ انہیں معلوم ہوتا ہے کہ اگر ایک کا بھی نام ذکر نہیں کیا تو ان کی حدیث ضعیف شمار ہوگی ، بطور مثال چند اسانید ملاحظہ ہوں جن میں رواۃ نے غیر واحد سے نقل کیا ہے مگر ان میں سے کم از کم ایک کا نام لیا ہے:
 ”حدثنا علي بن مسلم، حدثنا هشيم، أخبرنا غير واحد منهم: مغيرة، وفلان ورجل ثالث أيضا، عن الشعبي...“ [صحيح البخاري رقم 6473 ]
 ”حدثنا محمد بن المثنى، وابن بشار، قالا: حدثنا ابن أبي عدي، عن سعيد، عن قتادة، قال: حدثني غير واحد لقي ذاك الوفد، وذكر أبا نضرة...“ [صحيح مسلم رقم18]
 ”حدثنا أبو بكر محمد بن زنجويه البغدادي، وغير واحد قالوا: حدثنا الحسين بن محمد قال:...“ [سنن الترمذي ت شاكر رقم4 ،]
نیز دیکھے سنن ترمذی حدیث نمبرات : 66 ، 268 ، 305 ، 430 ، 524

ابراہیم نخعی رحمہ اللہ کا مخصوص طرزعمل :
بعض لوگ علامہ البانی رحمہ اللہ کے حوالے سے کہتے ہیں کہ علامہ البانی رحمہ اللہ نے علامہ معلمی کی کتاب التنکیل کے حاشیہ میں یہ وضاحت کی ہے ابراہیم جب بغیر واسطہ ذکر کئے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت کریں ، تو ان کی روایت صحیح ہوگی ، کیونکہ ابراہیم کے اساتذہ جو ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں سب کے سب ثقہ ہیں ، لہٰذا یہاں بھی اگر ایوب نے غیر واحد کے واسطے سے طاوس سے روایت کیا ہے تو ان کی روایت بھی صحیح ہونی چاہئے۔کیونکہ ایوب کے اساتذہ جو طاووس سے روایت کرتےہیں سب کے سب ثقہ ہیں۔
عرض ہے کہ:
اولا:
ماقبل میں قاضی عیاض اور امام نووی رحمہ اللہ کے اقوال کی روشنی میں واضح کیا جاچکاہے کہ اہل فن کے یہاں ایسے مجہول واسطوں والی ضعیف ہی ہوتی ۔لہٰذا اس کے برخلاف عصر حاضر کے علماء کا موقف غیر مقبول ہے۔واضح رہے کہ علامہ البانی رحمہ اللہ کا یہ موقف بھی صرف ایک خاص طریق سے متعلق ہے وضاحت آگے آرہی ہے ۔
ثانیا:
علامہ معلمی رحمہ اللہ نے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے ابراہیم کی بلاواسطہ روایت پرکئی اعتراضات میں سےایک اعتراض یہ بھی کیا تھا کہ ممکن ہے ابراہیم کے واسطے والے راوی نے ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے نہ سنا ہو۔
علامہ معلمی رحمہ اللہ نے ایسا اس وجہ سے کہا کیونکہ انہوں نے اس سلسلے میں ابراہم نخعی کا قول تہذیب سے نقل کیا تھا جس میں ابراہیم کا قول ان الفاظ میں تھا:
 ”وإذا قلت قال عبد الله فهو عن غيرواحد عن عبد الله“ 
 ”اگر میں کہوں کہ : عبداللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ نے کہا تو یہ عبداللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ سے روایت کرنے والے کئی رواۃ کے واسطے سے ہے“ [تهذيب التهذيب لابن حجر، ط الهند: 1/ 178]
اس قول پر علامہ معلی رحمہ اللہ نے کہا:
 ”لا يدفع الانقطاع لاحتمال أن يسمع إبراهيم عن غير واحد ممن لم يلق عبد الله“ 
 ”اس سے انقطاع دور نہیں ہوسکتا کیونکہ یہ بھی احتمال ہے کہ ابراہیم نے ان غیر واحد سے روایت کیا ہو جن کی عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے ملاقات ہی نہ ہو“ [التنكيل بما في تأنيب الكوثري من الأباطيل 2/ 898]
تہذیب والے قول پر علامہ معلمی رحمہ اللہ کا یہ اعتراض بالکل درست ہے کیونکہ اس میں ابراہیم نے یہ صراحت نہیں کی ہے کہ ان کے واسطے والے غیر واحد کون ہوں گے ؟ کیا یہ ابن مسعود رضی للہ عنہ کے شاگر ہی ہوں گے ؟ یا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت کرنے والے ایسے لوگ ہوں گے جن کی ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے ملاقات ہی نہ ہو۔

تو علامہ البانی رحمہ اللہ نے ابراہیم کا قول تہذیب کے بجائے طبقات ابن سعد سے نقل کیا جس میں ابراہم کے یہ الفاظ تھے :
 ”إذا قلت: قال عبد الله فقد سمعته من غير واحد من أصحابه“ 
 ”ابراہیم کہتے ہیں کہ جب میں کہوں کہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا تو اس بات کو میں نے ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے کئی شاگردوں سے سنا ہوتا ہے“ [الطبقات الكبرى ط دار صادر 6/ 272 وإسناده صحيح]
ابراہیم کے اس قول کو پیش کرتے ہوئے علامہ البانی رحمہ اللہ نے واضح کیا کہ اس میں ابراہیم نے یہ بھی صراحت کردی ہے کہ جب میں بلا واسطہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت کروں تو یہ روایت ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے کئی شاگردوں سے میں نے سنی ہوتی ہے۔
ظاہر ہے کہ اس میں اس احتمال کی گنجائش نہیں ہے جسے علامہ معلمی رحمہ اللہ نے پیش کیا تھا اسی لئے علامہ البانی رحمہ اللہ نے اس دوسرے حوالے کو پیش کرکے ان پر رد کیا اور علامہ معلمی کو معذور بھی جانا کیونکہ انہوں نے تہذیب والے الفاظ کی بناپر اعتراض کیا تھا جس میں واقعی اس اعتراض کی گنجائش تھی ، چنانچہ علامہ البانی رحمہ اللہ کے الفاظ ہیں:
 ”وإذا تأمل الباحث في قول إبراهيم «من غير واحد من من أصحابه» يتبين له ضعف بعض الإحتمالات التي أوردها المصنف على ثبوت رواية إبراهيم إذا قال: قال ابن مسعود، فأن قوله: «من أصحابه» يبطل قول المصنف «أن يسمع إبراهيم من غير واحد ممن لم يلق عبد الله» ، كما هو ظاهر. وعذره في ذلك، أنه نقل قول إبراهيم هذا من «التهذيب» ، ولم يقع فيه قوله: «من أصحابه» الذي هو نص في الاتصال“ 
 ”جب ایک محقق ابراہیم کے قول ”من غير واحد من أصحابه“ (ابن مسعود کے کئی شاگردوں سے) پر غور کرے گا تو اس کے لئے علامہ معلمی کا وہ اعتراض کمزور ظاہر ہوگا جو انہوں نے ”إبراهيم إذا قال: قال ابن مسعود“ (ابراہیم جب کہیں کہ ابن مسعود نے کہا) کے ثبوت پر وارد کیا تھا ، کیونکہ ابراہیم کا ”من أصحابه“ (ابن مسعود کے شاگردوں) کی صراحت کرنا علامہ معلمی کے اس احتمال کو غلط ثابت کرتا ہے کہ ”ابراہم نے ان غیرواحد سے نقل کیا ہو جن کی ابن مسعود سے ملاقات ہی نہ ہو“ ، جیساکہ ظاہر ہے ، اور علامہ معلمی کا عذر یہ ہے کے انہوں نے ابراہیم کا یہ قول تہذیب سے نقل کیا جس میں ”من أصحابه“ (ابن مسعود کے شاگردوں) کے الفاظ نہیں ہیں جو اتصال پردلالت کرتے ہیں“ [التنكيل بما في تأنيب الكوثري من الأباطيل 2/ 898 حاشیہ 1]
اس سے واضح ہوتا ہے کہ:
 اگر علامہ البانی رحمہ اللہ کو طبقات ابن سعد میں ابراہیم کے قول میں ”من أصحابه“ (ابن مسعود کے شاگردوں) کی صراحت نہ ملتی تو وہ بھی علامہ معلمی رحمہ اللہ سے متفق ہوتے۔
اس تفصیل سے واضح ہوگیا کہ علامہ البانی رحمہ اللہ نے ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے بلاواسطہ ابراہیم کی روایت کو اس لئے صحیح کہا کیونکہ خود ابراہیم نخعی نے یہ صراحت کردی ہے کہ میں ایسی روایت کو ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے شاگردوں سے ہی نقل کرتاہوں، اور ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے سارے شاگرد جو ابراہیم کے استاذ ہیں ثقہ ہیں۔

اب ذرا سنن ابی داؤد والی زیربحث روایت کو دیکھئے اس میں ایوب نے طاوس سے غیرواحد کے واسطے سےنقل کیاہے ۔
لیکن کیا ابراہیم نخعی کی طرح ایوب نے بھی کہیں پر یہ صراحت کی ہے کہ میں جب طاوس سے غیر واحد کہہ کر نقل کرتا ہوں تو یہ روایت طاووس کے کئی شاگردوں کے ذریعہ ہوتی ہے ؟
یقینا ایوب نے کہیں پر بھی ایسی کوئی صراحت نہیں کی ہے ۔لہٰذا ان کی طاوس سے غیر واحد کے ذریعہ روایت میں یہ احتمال رہے گا کہ انہوں نے ایسے واسطوں سے نقل کیا ہو جن کی طاووس سے ملاقات ہی نہ ہو۔
اس لئے بعض دیوبندی حضرات کا طاوس کے ان ثقہ شاگردوں کی لسٹ پیش کرنا جن سے ایوب روایت کرتے ہیں ، بالکل غلط ہے ، کیونکہ ایوب نے کہیں پر بھی صراحت نہیں کی ہے انہوں نے جن واسطوں سے طاوس سے نقل کیا ہے وہ لوگ طاووس کے شاگرد ہی ہیں ۔لہذا یہاں ایوب کے واسطے میں موجود لوگ ایسے بھی ہوسکتے ہیں جن کی طاووس سے ملاقات ہی نہ ہو۔
یہی وجہ ہے کہ علامہ البانی رحمہ اللہ نے ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے ابراہیم کی روایت کو تو صحیح کہا ہے لیکن زیر بحث سنن ابی داؤد کی روایت کو قطعا صحیح نہیں کہا ہے بلکہ اسے ضعیف قرار دیتے ہوئے اس کی پہلی وجہ یہی بتائی کہ ایوب اور طاوس کے بیچ جو واسطہ ہے وہ نامعلوم ہے چنانچہ علامہ البانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
”قلت: هذا إسناد ضعيف؛ وله ثلاثُ عِللٍ: جهالةُ الواسطة بين ‌أيوب وطاوس، واختلاطُ أبي النًعْمان- واسمه: محمدُ بنُ الفضْل-، وتفرُدُه بقوله: قبل أن يدخل بها“ 
”یہ سند ضعیف ہے ، اس میں تین علتیں ہیں ، اول: ایوب اور طاوس کے بیچ واسطہ نامعلوم ہے ، دوم ابو النعمان اس کا نام محمدبن الفضل ہے یہ مختلط ہے ، سوم : یہ ؟غیر مدخولہ والےالفاظ بیان کرنے میں منفرد ہے“ [ ضعيف أبي داود :2/ 233 ]

نیز سلسلہ ضعیفہ  میں حافظ منذری سے نقل کرتے ہوئے کہتے ہیں :
 ”وأعله المنذري في مختصر السنن (3/124) بقوله: الرواة عن طاوس مجاهيل“ 
 ”حافظ منذری نے مختصر السنن (3/124) میں یہ کہتے ہوئے اس روایت کومعلول قرار دیا ہے کہ: طاوس سے روایت کرنے رواۃ مجہول ہیں“ [سلسلة الأحاديث الضعيفة 3/ 272]
علامہ البانی رحمہ اللہ نے یہاں یہ وہ بات بالکل نہیں کہی جو عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے ابراہیم کی روایت سے متعلق کہی ہے، بالکہ ایوب اور طاوس کے درمیان کے رواۃ کو مجہول ہی گرادانا ہے۔
اس وضاحت کے بعدعرض ہے کہ ایوب کے اساتذہ میں کئی رواۃ بالاتفاق ضعیف ہیں ، اور کئی  جمہور کے نزدیک ضعیف ، مختلف فیہ اور مدلس رواۃ بھی ہیں، لہٰذا زیر بحث حدیث کی سند میں ایوب کے نامعلوم اساتذہ ان ضعیف ومجروح وغیرہ لوگوں میں سے بھی ہوسکتے ہیں ، لہٰذا یہ روایت ضعیف ومردود ہے۔

ثالثا:
اگریہ فرض بھی کرلیں کہ یہاں ایوب نے اپنے جن اساتذہ سے روایت کیا ہے وہ سب طاوس کے شاگرد ہی ہیں تو بھی سند صحیح نہیں ہوسکتی ، کیونکہ ایوب کے جو اساتذہ طاوس کے شاگرد ہیں ان میں بعض ضعیف،بعض مدلس اور بعض نامعلوم ہیں ، مثلا:
① ابو امیہ عبد الكريم بن أبي المخارق ،یہ بالاتفاق ضعیف راوی ہے۔
یہ ایوب کا استاذ ہے دیکھئے :[المعجم الأوسط 8/ 321]
اور یہ طاوس کاشاگرد بھی ہے ، دیکھئے:[صحيح البخاري تحت الرقم 1120، مصنف عبد الرزاق، ت الأعظمي: 2/ 37 ،مسند الحميدي رقم 502 ص 440]
② قتادة بن دعامة السدوسي یہ مشہور مدلس راوی ہیں۔
یہ ایوب کے استاذ ہیں دیکھئے : [تهذيب الكمال للمزي: 3/ 458]
اور یہ طاوس کے شاگرد بھی ہیں ، دیکھئے:[تاريخ ابن أبي خيثمة 3/ 309 وإسناده صحيح]
واضح رہے کہ قتادہ کے بعض قدری عقیدہ کے سبب طاووس ان سے ناراض تھے ، لیکن قتادہ ان کے پاس طلب علم کے لئے جاتے رہتے تھے ، نیز فریق مخالف غیر مدخولہ کی طلاق سے متعلق طاوس کا جو فتوی نقل کرتے ہیں اسے طاوس سے قتادہ ہی روایت کرتے ہیں، کما سیاتی۔
③ ”رجل“ ، ایک شخص
مصنف ابن ابی شیبہ میں ”أيوب ، عن رجل ، عن طاووس“ کے طریق سے ایک روایت ہے۔[مصنف بن أبي شيبة ت عوامة: 16/ 292]
یہ ”رجل“ (شخص) ایوب کا استاذ بھی ہے اور طاووس کا شاگرد بھی ہے، مگر یہ ہے کون ؟ اس کا کچھ پتہ نہیں !
یا درہے کہ ایوب نے یہاں مجرد واسطہ کا حوالہ نہیں بلکہ ایک ”رجل“ (شخص) کا ذکر کیا ہے ، یہ رجل ایوب کے دیگر معروف اساتذہ کے علاوہ بھی کوئی ہوسکتا ہے۔

حافظ ابن حجررحمہ اللہ کی عبارت کا سہارا:
بعض لوگ کہتے ہیں کہ اس روایت میں ایوب کا استاذ ابراہم بن میسرہ ہے جیساکہ حافظ ابن حجررحمہ اللہ نے فتح الباری میں کہا ہے۔
عرض ہے کہ:
اولا:
فتح الباری میں ابن حجررحمہ اللہ کے الفاظ یہ ہیں:
”أخرجها أبو داود لكن لم يسم إبراهيم بن ميسرة وقال بدله عن غير واحد ولفظ المتن أما علمت أن الرجل كان إذا طلق امرأته ثلاثا قبل أن يدخل بها جعلوها واحدة الحديث“
”اسے ابوداود نے روایت کیا ہے لیکن سند میں ابراہم بن میسرہ کا نام نہیں لیا ہے بلکہ اس کی جگہ غیر واحد کہا ہے اور اس کے متن میں بھی یہ ہے کہ کیا تمہیں نہیں معلوم کہ جب کوئی اپنی بیوی کو دخول سے پہلے تین طلاق دیتا تھا تو اسے ایک شمار کرتے تھے“ [فتح الباري لابن حجر، ط المعرفة: 9/ 363]
یہاں ابن حجررحمہ اللہ نے یہ فیصلہ نہیں کیا ہے کہ ابوداود والی روایت میں جس کا نام نہیں ہے وہ ابراہم بن میسرہ بلکہ انہوں نے صرف سند کا اختلاف ذکرکیا ہے ، کہ دوسری سندوں جس مقام پر ابراہیم بن میسرہ کا نام ہے اس مقام پر ابوداود کی سند میں غیر واحد کا لفظ ہے ۔ نیز ابن حجررحمہ اللہ نے آگے متن کا بھی اختلاف بتاتے ہوئے کہا کہ اس میں غیرمدخولہ کے الفاظ ہیں یہ سیاق بھی بتارہا ہے کہ ابن حجررحمہ اللہ یہاں سن ابی داود والی روایت میں سند و متن کا اختلاف ذکر کرہے ہیں ۔
نیز اس بات پرغور کریں کہ سنن ابی داود والی روایت میں نامعلوم رواۃ کی تعداد ایک سے زائد ہے ، اس لئے اگر ابن حجررحمہ اللہ کو ان نامعلوم رواۃ کے نام بتانے ہوتے تو سب کا نام بتاتے لیکن انہوں نے ایسا نہیں کیا ہے جس کا مطلب واضح ہے کہ وہ محض سند کا اختلاف بتارہے ۔
ثانیا:
اگر یہ فرض بھی کرلیں کہ ان نامعلوم رواۃ میں ایک ابراہیم بن میسرہ ہے تو یہ ماننا لازم ہے کہ اس روایت میں جو الفاظ ذکر ہوئے ہیں وہ ابراہیم بن میسرہ کی روایت کے الفاظ نہیں ہیں بلکہ دوسرے نامعلوم رواۃ کے الفاظ ہیں کیونکہ صرف ابراہیم بن میسرہ کا نام لیکر جن لوگوں نے بھی یہ روایت بیان کی ہے ان میں سے کسی نے بھی غیرمدخولہ والے الفاظ ذکر نہیں کئے ہیں۔
چنانچہ پانچ رواۃ ① سليمان بن حرب ② عفان بن مسلم  ③ يحيى بن آدم ④ خالد بن خداش  ⑤ محمد بن أبي نعيم نے حماد عن أيوب کے طریق سے ابراہیم بن میسرہ کا نام لیکر یہ روایت بیان کی لیکن ان پانچوں میں سے کسی نے بھی غیرمدخولہ والےالفاظ ذکر نہیں کئے ہیں ۔
اسی طرح ابراہیم بن میسرہ کے دوسرے شاگرد ابن جریج نے براہ راست ابراہیم بن میسرہ سے یہ روایت بیان کی ہے لیکن انہوں نے بھی غیرمدخولہ والےالفاظ ذکر نہیں کئے ہیں ۔
 ان سب کی روایات کے حوالے ماقبل میں دوسری علت کے تحت گذرچکے ہیں ، دیکھے:


امام ایوب السختیانی کا ثقہ ہی سے روایت کرنا :
بعض لوگ کہتے ہیں ایوب صرف ثقہ سے ہی روایت کرتے ہیں اس لئے ان کے اساتذہ ثقہ ہی ہیں گرچہ انہوں نے ان کا نام نہیں بتایا ہے۔
عرض ہے کہ:
اولا:
اس سے زیادہ سے زیادہ صرف یہ ثابت ہوسکتا ہے کہ یہ لوگ ایوب کی نظر میں ثقہ ہیں ، لیکن دیگر تمام محدثین کے نزدیگ بھی ثقہ ہوں یہ قطعا ثابت نہیں ہوتا ، اوریہ بات سب کو معلوم ہے کہ کسی راوی کو ایک محدث ثقہ کہہ دیتا ہے لیکن دوسرے محدثین کی تحقیق میں وہ ضعیف ہوتا ہے اور اس کا ضعیف ہونا ہی راجح ہوتا ہے ۔
چنانچہ ایوب کے اساتذہ میں بھی بعض رواۃ ایسے ہیں جن کے ضعیف ہونے پر تمام محدثین کا اتفاق واجماع ہے مثلا:
ابن أبي مليكة [مسند أحمد ط الميمنية: 1/ 252]
ابو امیہ عبد الكريم بن أبي المخارق[المعجم الأوسط للطبراني: 8/ 321]
عبد الله بن نافع العدوي [سنن الدارقطني، ت الارنؤوط: 5/ 542]
یہ ایوب کے وہ اساتذہ ہیں جن کے ضعیف ہونے پر تمام محدثین کا اجماع ہے، اور ایوب نے بھی کہیں ان کو صراحتا ثقہ نہیں کہا ہے ، لیکن اگر ان سے ایوب کی روایت کے سبب مان بھی لیا جائے کہ یہ ایوب کی نظر میں ثقہ ہیں تو بھی اس کا کوئی فائدہ نہیں کیونکہ دیگرتمام محدثین انہیں ضعیف بتلانے پر متفق اللسان ہیں ۔
اسی لئے قاضی عیاض نے صراحت کی ہے جیساکہ ماقبل میں نقل کیا جاچکا ہے  کہ کوئی محدث اگر اپنے استاذ کا نام نہ لے اور اسے ثقہ بتاکر بھی روایت کرتے تو بھی اس کی روایت قبول نہیں ہوگی کیونکہ وہ دوسروں کے نزدیگ ضعیف ہوسکتا ہے۔
ثانیا:
بطور الزام عرض ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ بھی صرف ثقہ سے روایت کرتے ہیں ۔[شفاء السقام في زيارة خير الأنام: ص13 ، إعلاء السنن 3/ 69]
اور امام بخاری رحمہ اللہ کہتے ہیں:
”حدثنا صاحب لنا عن حمدويه قال: قلت لمحمد بن مسلمة: ما لرأي النعمان دخل البلدان كلها إلا المدينة؟ قال: إن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: لا يدخلها الدجال ولا الطاعون، وهو دجال من الدجاجلة“ 
 ”ہمارے ایک ساتھی نے ہم سے حمدویہ سے روایت بیان کیا کہ انہوں نے کہا: میں نے محمد بن مسلمہ سے کہا کہ : ابوحنیفہ نعمان بن ثابت رحمہ اللہ کی رائے کا کیا مسئلہ ہے کہ یہ سارے شہروں میں پہنچ گئی سوائے مدینہ کے تو انہوں نے کہا: اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے : کہ مدینہ میں دجال اور طاعون داخل نہیں ہوگا اور وہ (امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ) دجالوں میں سے ایک دجال ہے“ [الضعفاء الصغير للبخاري ت أبي العينين ص: 132]

اس روایت میں امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنے استاذ کا نام نہیں لیا ہے ۔اس پر زاہد کوثری حنفی صاحب لکھتے ہیں:
 ”وقول البخاري حدثنا صاحب لنا ، رواية عن مجهول ، ولو كان هذا الصاحب من شرط البخاري أن يروي عن مثله لصرح بإسمه فدل علي أن الرواية لا تعويل عليها“ 
 ”اور بخاری کا کہنا کہ ہم سے ہمارے ساتھی نے بیان کیا یہ مجہول سے روایت ہے ، اگر یہ ساتھی بخاری کے اس معیار پر ہوتا کہ وہ اس سے روایت کرتے تو وہ اس کے نام کی بھی صراحت کردیتے ، لہٰذا یہ دلیل ہے کہ یہ روایت ناقابل اعتماد ہے“ [تانيب الخطيب ص 204 دوسرا نسخہ ص 103]

زاہد کوثری صاحب کے اسی اصول سے پتہ چلا کہ بخاری کی طرح ایوب بھی جب ثقہ سے روایت کرتے ہیں تو انہوں نے بھی جن کا نام نہیں بتایا ہے وہ اس لائق نہیں ہیں کہ ایوب ان سے روایت کریں ،اسی لئے ایوب نے ان کے نام کی صراحت نہیں کی ہے، لہٰذا یہ دلیل ہے کہ ایوب کی یہ روایت بھی ناقابل اعتماد ہے۔

امام طاوس رحمہ اللہ کے فتوی کا سہارا :
بعض لوگ کہتے ہیں کہ امام طاووس سے یہ فتوی منقول ہے کہ غیرمدخولہ کو دی گئی تین طلاق ایک ہوتی ہے اس سے بھی پتہ چلتا ہے کہ اس روایت میں غیرمدخولہ ہی کاذکرہوگا ، تبھی تو انہوں نے اپنی روایت کے مطابق فتوی دیا ہے۔
عرض ہے کہ:
اولا:
امام طاووس کا یہ فتوی دو سند سے مروی ہے اور دونوں ضعیف ہی:
امام ابن أبي شيبة رحمه الله (المتوفى235) نے کہا:
”حدثنا إسماعيل ابن علية، عن ليث، عن طاووس وعطاء، أنهما قالا: إذا طلق الرجل امرأته ثلاثا قبل أن يدخل بها، فهي واحدة“ 
 ”طاووس وعطاء سے مروی ہے کہ انہوں نے کہا کہ جب آدمی اپنی بیوی کو دخول سے قبل تین طلاق دے دے تو وہ ایک شمار ہوگی“ [مصنف ابن أبي شيبة، ت الشثري: 10/ 127]
اس کی سند میں موجود لیث یہ لیث بن ابی سلیم ہے اور یہ مشہور ضعیف راوی ہے۔تفصیل کے لئے دیکھئے ہماری کتاب: [یزید بن معاویہ ص527 تا 529]
امام ابن أبي شيبة رحمه الله (المتوفى235) نے کہا:
 ”حدثنا محمد بن بشر, قال: حدثنا سعيد، عن قتادة، عن طاووس وعطاء وجابر بن زيد؛ أنهم قالوا: إذا طلقها ثلاثا قبل أن يدخل بها فهي واحدة“ 
 ”طاووس ، عطاء اور جابربن زید سے مروی ہے کہ انہوں نے کہا: جب آدمی اپنی بیوی کو دخول سے قبل تین طلاق دے دے تو وہ ایک شمار ہوگی“ [مصنف ابن أبي شيبة، ت الشثري: 10/ 128]
اس سند میں قتادہ کا عنعنہ ہے اوریہ مدلس ہیں ، اسی طرح سعید یعنی سعيد بن أبي عروبة کا بھی عنعنہ ہے اور یہ بھی مدلس ہیں ، ان کے بارے میں ابن حجررحمہ اللہ نے کہا:
 كثير التدليس ، یہ بہت زیادہ تدلیس کرتے تھے[تقريب التهذيب لابن حجر: رقم 2365 ]
ثانیا:
یہ روایت جن الفاظ کے ساتھ صحیح و ثابت ہے اس میں الفاظ مطلق وعام ہیں جو مدخولہ وغیرمدخولہ دونوں کو شامل ہیں ، اس لئے امام طاووس عموم و اطلاق سے استدلال کرتے ہوئے بھی غیرمدخولہ کو دی گئی تین طلاق کے ایک ہونے کا فتوی دےسکتے ہیں ، لہٰذا ان کا فتوی اس روایت کے الفاظ کی تخصیص و تقیید کی دلیل نہیں بن سکتا۔

ابن نصرالمروزي رحمہ اللہ کے دعوائے اجماع کا سہارا:
بعض لوگ کہتے ہیں کہ امام محمد بن نصرالمروزي نے اس بات پراجماع نقل کیا ہے کہ مدخولہ کو بیک گئی بیک وقت دی گئی تین طلاق تین شمار ہوگی ، لہٰذا اس حدیث کا مفہوم یہی ہوگا کہ اس سے غیرمدخولہ مراد ہے ۔چنانچہ:
امام محمد بن نصرالمروزي(المتوفی294) نے کہا:
”ولا اختلاف بين أَهْل العلم أَنَّهُا إِذَا كانت مدخولا بِهَا فقَالَ لها أَنْتَ طالق أَنْتَ طالق أَنْتَ طالق سكت أَوْ لم يسكت فيما بينهما عنها طالق ثلاثا“ 
 ”اہل علم کے مابین اس مسئلہ میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ اگر کسی کی بیوی مدخولہ ہو اوراس کے شوہر نے اسے تجھے طلاق ہے ، تجھے طلاق ہے ، تجھے طلاق ہے کہہ دے اورجملے کے درمیان رکے یا نہ رکے تو اس کو تین طلاق پڑ جائے گی“ [اختلاف العلماء للمروزي ص 248]

عرض ہے کہ:
اس سلسلے میں عدم اختلاف کا دعوی غلط ہے کیونکہ امام محمد بن نصرالمروزي(المتوفی294) نے اپنی معلومات کی بناپر ایسا کہا ہے اور انہیں اس مسئلہ میں اختلاف کا علم نہیں ہوسکا ۔
اور ان سے پہلے فوت ہونے والے امام بخاري رحمه الله (المتوفى256) نے باب قائم کیا کہ:
”باب من أجاز طلاق الثلاث“ ، ”جس نے تین طلاق کو واقع قرار دیا اس بارے میں بیان“ [صحيح البخاري قبل الحدیث رقم5259]
اس باب کے تحت امام بخاری رحمہ اللہ نے جو احادیث ذکرکی ہیں وہ مدخولہ ہی سے متعلق ہیں۔
اس بات کی تشریح میں ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
 ”وفي الترجمة إشارة إلى أن من السلف من لم يجز وقوع الطلاق الثلاث“ 
 ”اس عنوان میں اشارہ ہے کہ سلف میں سے بعض لوگ ایسے بھی تھے جو تین طلاق کے وقوع کے قائل نہ تھے“ [فتح الباري لابن حجر، ط المعرفة: 9/ 362]

نیز محمد بن نصرالمروزي(المتوفی294)  ہی کے معاصر اور انہیں کے دور کے دوسرے عالم امام طحاوی(المتوفى321) نےاس مسئلہ میں علماء کا اختلاف نقل کیا ہے اور علماء کی ایک جماعت کا یہ قول نقل کیا ہے کہ وہ مدخولہ کودی گئی تین طلاق کو ایک شمار کرتے ہیں ، اور امام طحاوی رحمہ اللہ نے یہ بھی واضح کردیا کہ علماء کی یہ جماعت صحیح مسلم والی حدیث سے استدلال کرتے ہوئے یہ بات کہتی ہے ، چنانچہ:
امام أبو جعفر طحاوي رحمه الله (المتوفى321) نے کہا:
 ”حدثنا روح بن الفرج قال ثنا أحمد بن صالح قال: ثنا عبد الرزاق قال: أخبرنا ابن جريج قال: أخبرني ابن طاوس , عن أبيه , أن أبا الصهباء قال لابن عباس: أتعلم أن الثلاث كانت تجعل واحدة على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم وأبي بكر وثلاثا من إمارة عمر؟ قال ابن عباس: «نعم» 
 قال أبو جعفر: فذهب قوم إلى أن الرجل إذا طلق امرأته ثلاثا معا , فقد وقعت عليها واحدة إذا كانت في وقت سنة , وذلك أن تكون طاهرا في غير جماع. واحتجوا في ذلك بهذا الحديث“ 
 ”امام طحاوی اپنی سند سے یہ حدیث نقل کرتے ہیں کہ ابوالصھباء نے ابن عباس رضی اللہ عنہ سے کہا: کیا آپ کوعلم ہے کہ عہد رسالت ، عہد صدیقی اور عمرفاروق رضی اللہ عنہ کے ابتدائی تین سال تک تین طلاق ایک شمار ہوتی تھی ؟ تو ابن عباس رضی اللہ عنہ نے کہا : ہاں !
امام ابوجعفر الطحاوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ : اہل علم کی ایک جماعت کا کہنا یہ ہے کہ جب کوئی شخص اپنی بیوی کو ایک ساتھ تین طلاق دے دے تو وہ ایک ہی طلاق شمار ہوگی ، اگر اس نے سنت کے مطابق دی ہے ، وہ اس طرح کی بیوی کی پاکی کی حالت میں ہمبستری سے پہلے طلاق دیا ، ان لوگوں یہ بات اسی حدیث سے استدلال کرتے ہوئے کہی ہے“ [شرح معاني الآثار، ت النجار: 3/ 55]
امام طحاوی رحمہ اللہ کے الفاظ ”اذا كانت في وقت سنة , وذلك أن تكون طاهرا في غير جماع“ ( اگر اس نے سنت کے مطابق دی ہے، وہ اس طرح کی بیوی کی پاکی کی حالت میں ہمبستری سے پہلے طلاق دیا ) پرغور کیجئے ، یہ الفاظ صاف بتارہے ہیں کہ امام طحاوی مدخولہ کو دی گئی تین طلاق کے بارے میں بات کررہے ہیں کیونکہ پاکی اور ہمبستر ی سے پہلے کی شرط مدخولہ پر ہی صادق آتی ہے ۔
 ملاحظہ فرمائیں کہ امام طحاوی رحمہ اللہ کا کلام کس قدر واضح ہے وہ نہ صرف یہ کہ غیر مدخولہ کو دی گئی تین طلاق کو ایک شمار کرنے والا قول ایک جماعت سے نقل کررہے ہیں بلکہ ساتھ ہی ساتھ یہ بھی صراحت کررہے ہیں کہ اس جماعت نے ابن عباس رضی اللہ عنہ کی اس حدیث سے استدلال کرتے ہوئے ہی یہ بات کہی ہے۔
لہٰذا اس کے مقابلے میں امام محمد بن نصرالمروزي کے کلام کی کوئی اہمیت نہیں ہوسکتی کیونکہ انہوں نے اس حدیث کی تشریح کرتے ہوئے اپنی بات نہیں کہی ہے نیز ان کا کلام اختلاف سے عدم علم پر مبنی ہے جبکہ امام طحاوی کا کلام اختلاف کے علم پر مبنی ہے ، اور یہ اصول ہے کہ علم والے کی بات عدم علم والے کی بات پرمقدم ہوگی۔
اس کے علاوہ ابن عباس رضی اللہ عنہ کے فتاوی گذرچکے ہیں کہ انہوں نے مدخولہ کو دی گئی تین طلاق کو ایک قرار دیاہے ، اس سلسلے میں مزید اقوال کا بیان آگے آرہا ہے۔

(ب) طلاق البتہ پر محمول کرنا 
بعض لوگوں نے یہ کہا ہے کہ صحیح مسلم والی حدیث میں تین طلاق سے مراد طلاق البتہ ہے ، چونکہ طلاق البتہ تین طلاق کو بھی کہتے ہیں اس لئے راوی نے روایت بالمعنی کرتے ہوئے اسے تین طلاق سے تعبیر کردیا ۔
عرض ہے کہ:
❀ اولا:
یہ تاویل قطعا غلط ہے کیونکہ اس حدیث کے کسی بھی طریق میں البتہ کا لفظ وارد نہیں ہے جبکہ یہ حدیث کئی طرق سے مروی ہے۔
❀ ثانیا:
عہد رسالت میں طلاق البتہ صرف اس طلاق کو کہا جاتا تھا، جو سنت کے مطابق تیسری بار دی جاتی تھی جو کہ طلاق بائن بینونۃ کبری ہوتی تھی ، یعنی طلاق رجعی کو طلاق البتہ نہیں کہاجاتا تھا ، مثلا سنت کے مطابق ایک ہی طلاق دی گئی ، یا سنت کے مطابق دوسری طلاق دی گئی تو اس کو طلاق البتہ نہیں کہا جاتا تھا، بلکہ سنت کے مطابق تیسری طلاق ہی کو طلاق البتہ کہا جاتا تھا ۔
اور اس حدیث کے اندر عہد صحابہ کے ساتھ ساتھ عہد رسالت میں بھی تین طلاق کو ایک ماننے کا ذکر ہے جو اس بات کی قطعی دلیل ہے کہ اس سے طلاق البتہ مراد نہیں ہے ۔کیونکہ عہد رسالت میں طلاق البتہ کو ایک ماننے کا مطلب یہ ہوگا کہ سنت کے مطابق الگ الگ وقت میں دی گئی تین طلاق کو بھی ایک کہا جاتا تھا اور یہ ناممکن ہے اس کا کوئی بھی قائل نہیں ہے۔
نوٹ:-طلاق البتہ کی مزید تفصیل اور اس سلسلے کی صحیح وضعیف روایات کی وضاحت آگے اپنے اپنے مقام پر آرہی ہے۔
 ❀ ثالثا:
عہد صحابہ میں بائن کی نیت سے دی گئی ایک طلاق یا بیک وقت دی گئی تین طلاق کو بھی البتہ کہا جانے لگا ، بلکہ البتہ کے صیغے سے ہی طلاق دی جانے لگی تو عمرفارق رضی اللہ عنہ نے اسے کبھی بھی تین طلاق قرار نہیں دیا بلکہ اسے ایک ہی طلاق شمار کیا ،چنانچہ:
امام سعيد بن منصور رحمه الله (المتوفى227)نے کہا:
 ”حدثنا سعيد قال: نا سفيان، عن ابن أبي خالد، عن الشعبي، عن عبد الله بن شداد، أن عمر بن الخطاب، رضي الله عنه قال: «البتة واحدة، وهو أحق بها»“ 
 ”عبداللہ بن شداد کہتے ہیں کہ عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے کہا: طلاق البتہ ایک شمار ہوگی اور شوہر اپنی بیوی کو واپس لینے کا حق رکھتا ہے“ [سنن سعيد بن منصور: 1/ 431 وإسناده صحيح ، ومن طريق سفيان أخرجه أيضا ابن أبي شيبه في مصنفه 5/ 66 وعبدالرازق في مصنفه 6/ 357وأخرجه أيضا سعيد في سننه 1/ 431 من طريق هشيم ، وابن أبي شيبه في مصنفه 5/ 66 من طريق ابن ادريس ، كلاهما (هشيم و ابن ادريس) عن الشيباني ، عن الشعبي به]
یہ بھی اس بات کی دلیل ہے کہ اس حدیث میں طلاق البتہ مراد نہیں ہے کیونکہ طلاق البتہ کو تو عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے کبھی بھی تین طلاق نہیں قرار دیا بلکہ اسے ایک ہی طلاق شمار کیا کرتےتھے ۔

(ج) تاکید والی طلاق ثلاثہ پر محمول کرنا
ابن حجر رحمہ اللہ ابن سریج شافعی سے نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
”فقال بن سريج وغيره يشبه أن يكون ورد في تكرير اللفظ كأن يقول أنت طالق أنت طالق أنت طالق وكانوا أولا على سلامة صدورهم يقبل منهم أنهم أرادوا التأكيد فلما كثر الناس في زمن عمر وكثر فيهم الخداع ونحوه مما يمنع قبول من ادعى التأكيد حمل عمر اللفظ على ظاهر التكرار فأمضاه عليهم“ 
 ”ابن سریج وغیرہ نے کہا ہے کہ ہوسکتا ہے کہ یہ حدیث اس سلسلے میں وارد ہو کہ پہلے لوگ ایک طلاق دیتے وقت محض الفاظ کو دہرا دیتے تھے اوریوں کہتے تھے ، تجھے طلاق ہے ، تجھے طلاق ہے ، تجھے طلاق ہے ، اور شروع میں ان کے دل صحیح وسالم تھے اس لئے ان کا یہ بیان قبول کرلیا جاتا تھا کہ انہوں نے محض تاکید کے ارادے سے طلاق کا لفظ دہرا دیا ہے ، لیکن جب عمرفاروق رضی اللہ عنہ کے زمانے میں یہ چیز کثرت سے ہونے لگی اور لوگوں کے اندر دھوکہ بازی وغیرہ بہت ہونے لگی تو یہ چیز ان کے دعوائے تاکید کو قبول کرنے سے مانع ہوگئی اور عمرفاروق رضی اللہ عنہ نے ان کے الفاظ کو ظاہری تکرار پر ہی محمول کیا اور ان کے طلاق کو ان پر نافذ کردیا“ [فتح الباري لابن حجر، ط المعرفة: 9/ 364]

عرض ہے کہ:
اولا:
اگر ایسی بات ہے تو یہ چیز بھی اس روایت کے کسی ایک طریق میں آنی چاہئے لیکن ایسا بالکل نہیں ہے۔
ثانیا:
ابن عباس رضی اللہ عنہ ہی کی دوسری حدیث سے یہ ثابت ہے کہ عہد رسالت میں تین طلاق بغیر نیت تاکید وتکرار سے دی گئی اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے ایک طلاق قراردیا ، جیساکہ رکانہ کے واقعہ سے متعلق صحیح حدیث آگے آرہی ہے۔
ثالثا:
صحابہ وتابعین کے بارے میں یہ کہنا کہ پہلے ان کے دل صحیح وسالم تھے بعد میں ان میں دھوکہ بازی کی کثرت ہوگئی اس لئے ان کے بیان کا اعتبار نہیں کیا گیا ، بہت بڑی جسارت ہے ، ان سے غلطیاں تو ہوسکتی ہیں لیکن ان میں ایسی دھوکہ بازی کی کثر ت ہونا کہ یہ خلاف واقعہ بیان دینے لگے ، یہ اس دور کے لوگوں پر بکثرت جھوٹ بولنے کی تہمت دھرنا نہیں تو اور کیا ہے ؟
ابومالک کمال ابن السید سالم لکھتے ہیں:
”ثم إنه لا وجه مقبول للقول بإن الخداع كثر في الناس زمان عمر ، لأن الناس في زمنه هم أصحاب النبي صلي الله عليه وسلم في غالبيتهم العظمي ، ومن وجد فيهم من التابعين فهم تلامذتهم ، وزمان عمر هو خيرالازمان بعد زمن النبي صلي الله عليه وسلم وزمن أبي بكر فكيف يصح القول بكثرة الخداع فيهم؟“ 
”نیز یہ کہنے کی کوئی مقبول وجہ نہیں ہے کہ عمرفاروق رضی اللہ عنہ کے زمانے میں دھوکہ بازی عام ہوچکی تھی، کیونکہ ان کے زمانے کے لوگ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم تھے اور ان میں اکثریت کبار صحابہ کی تھی ، اور اس وقت جو تابعین تھے وہ انہیں صحابہ کے شاگرد تھے ، اور عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا زمانہ عہد رسالت اور عہدصدیقی کے بعد سب سےبہترین زمانہ تھا تو یہ کہنا کیسے صحیح ہوسکتا ہے کہ اس زمانہ میں دھوکہ دہی عام ہوچکی تھی ؟“ [صحيح فقه السنه :ص288]
بغیر کسی ثبوت ودلیل کے محض ظن وگمان کے سہارے خیر القرون کے لوگوں پر بکثرت دھوکہ دہی اور جھوٹ بولنے کی تہمت کسی بھی صور ت میں قبول نہیں ہے ۔
فریق مخالف سے مطالبہ ہے کہ اس طرح کی جسارت کرنے سے پہلے کوئی ایک ایسی صحیح روایت پیش کریں جس میں اس دور کے کسی شخص نے تین طلاق دینے کے بعد یہ دعوی کیا ہو کہ میں نے تو صرف تاکیدو تکرار کے لئے تین طلاق دیا تھا ۔
اورستم تو یہ ہے کہ بعض نے خیرالقرون کے لوگوں پر دھوکہ دہی اور غلط بیانی کی تہمت لگاکر ان کی طرف سے طلاق میں تاکید وتکرار کے دعوئے کو ناقابل قبول بتادیا گیا ، لیکن یہ بھول گئے کہ بعد میں اپنے اپنے دور کے لوگوں کی طرف سے طلاق میں اس طرح کے دعوے کو علماء نے بلکہ چاروں مذاہب کے علماء نے قابل قبول بتایا گیا ہے جیساکہ آگے اس طرح کاایک حوالہ آگے آرہا ہے دیکھئے :ص
صرف یہی نہیں بلکہ بعض نے تو یہ بھی صراحت کردی ہے کہ اگرشوہر طلاق میں تاکید کا دعوی کرے اور اس کی بیوی اس کو جھٹلا تے ہوئے استئناف وتجدید کا دعوی کرے تو بھی شوہر کا دعوی ہی قبول ہوگا کیونکہ وہ اپنی نیت کا اعتراف کررہاہے البتہ اس سے قسم بھی لے لی جائے گی چنانچہ:
أبو اسحاق الشيرازي (المتوفى476) فرماتے ہیں:
”وإن قال لها أنت طالق أنت طالق أنت طالق وادعى أنه أراد التأكيد وادعت المرأة أنه أراد الاستئناف ‌فالقول ‌قوله ‌مع ‌يمينه ‌لأنه ‌اعترف ‌بنيته“ 
 ”اگر شوہر نے بیوی کو طلاق دیتے ہوئے کہا: تجھ کو طلاق ہے ، تجھ کوطلاق ہے، تجھ کو طلاق ہے ، اور پھرتاکید کا دعوی کرے اور اس کی بیوی استئناف وتجدید کا دعوی کرے تو شوہر کا دعوی ہی قابل قبول ہوگا قسم کے ساتھ کیونکہ وہ اپنی نیت کا اعتراف کررہا ہے“ [ المهذب في فقة الإمام الشافعي للشيرازي: 3/ 45]

سوال یہ ہے کہ کیا بعد کے ادوار کے لوگوں کے دل خیرالقرون کے لوگوں سے زیادہ صحیح وسالم ہوگئے ؟؟؟
اوروہ اس حد تک پاز باز اور متقی ہوگئے تھے ان کے دعوائے تاکید کو ان کی بیوی جھٹلا بھی دے تو وہ بھی اس پر کچھ فرق پڑنے والا نہیں ؟
پھر آخر خیر القرون کے صحابہ وتابعین کا کیا قصور تھا کہ ان کے دعوائے تاکید کو یکسر جھٹلا دیا گیا  ، حتی کی ان کی بیویاں بھی ان سے اتفاق کریں تو بھی ان سے دھوکہ دہی کی تہمت رفع نہیں ہوسکتی !! سبحان اللہ ھذا بھتان عظیم !
اللہ ان بزرگوں کی مغفرت فرمائے جو تقلیدی بھنور میں پھنس کر محسوس ہی نہ کرسکے ، کہ ان کی زبان وقلم کیا صادر ہورہا ہے ۔
بہرحال یہ تاویل خیرالقرون کی اکثرت پر بغیر کسی دلیل وبرہان کے محض وہم وگمان کے سہارے لگائے گئے اتہام پر مبنی ہے لہٰذا قطعا باطل و مردود ہے۔

اس تاویل کو پیش کرنے والے بعض حضرات کو شاید اس بات کا احساس ہوگیا کہ اس طرح تو خیرالقرون کے لوگوں پر سنگین تہمت لگتی ہے ، اس لئے انہوں نے اس تاویل میں اس طرح ترمیم کردی کہ پہلے لوگ تاکید لئے تین دیتے تھے تو انہیں ایک ہی مانا جاتا تھا، لیکن بعد میں لوگ تجدید کی نیت سے تین دینے لگے تو ان کی نیت کے اعتبار سے تینوں طلاقیں ان پر نافذ کردی گئی چنانچہ:
امام أبو العباس القرطبي رحمه الله (المتوفى656) فرماتے ہیں:
”قال غير البغداديين: المراد بذلك الحديث من تكررَّ الطلاق منه، فقال: أنت طالق، أنت طالق، أنت طالق. فإنها كانت عندهم محمولة في القدم على التأكيد. فكانت واحدة. وصار الناس بعد ذلك يحملونها على التجديد، فأُلزِمُوا ذلك لَمَّا ظهر قصدَهم إليه. ويشهد بصحة هذا التأويل قول عمر ـ رضي الله عنه ـ: إن الناس قد استعجلوا في أمر كانت لهم فيه أناة“ 
 ”غیر بغدادی لوگوں نے یہ کہا ہے کہ اس حدیث سے وہ لوگ مراد ہیں جو لفظ طلاق کی تکرار کرتے ہوئے اس طرح طلاق دیتے تھے ، تجھ کو طلاق ہے ، تجھ کو طلاق ہے ، تجھ کو طلاق ہے ، تو پہلے کے لوگ تاکید کے لئے ایسا کہتے تھے اس لئے ان کی طلاق ایک شمار ہوتی تھی ، لیکن بعد کے لوگوں نے تجدید کی نیت سے ایسا کہنے لگے اس لئے ان کی نیت کے مطابق ان کی تین طلاق ان پر نافذ کردی گئی ، اس تاویل کے درست ہونے کی تائید عمرفاروق رضی اللہ عنہ کے اس جملے سے بھی ہوتی ہے کہ : لوگوں نے جلدی کرنا شروع کی اس میں جس میں ان کو مہلت ملی تھی“ [المفهم للقرطبي: 4/ 243]

عرض ہے کہ :
 بعد کے لوگ جب خود ہی تجدید مراد لیتے تھے ، یعنی خود ہی تین طلاق کو شمار کرتے تھے ، تو اس میں عمرفاروق رضی اللہ عنہ کو یہ کہنے کی ضرورت کیوں پڑ گئی کہ ”فلو أمضيناه عليهم؟“ ”اگر ہم اس کو نافذ کردیں تو ؟“ اور پھر آگے چل کر بالاخر عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے ”فأمضاه عليهم“ ( ان طلاقوں کو ان پر نافذ کردیا ) !
سوال یہ ہے کہ یہ لوگ جب خود ہی تجدید کی نیت سے تین طلاق دیتے تھے ، یعنی خود ہی تین کو تین ہی شمار کرتے تھے ، تو عمر فاروق رضی اللہ عنہ کو تین شمار کرنے کے لئے تنفیذی کارروائی کی ضرورت کیوں پڑی ؟
اگر کہا جائے کہ یہ لوگ تجدید کی نیت سے تین طلاق دے کر تاکید کا دعوی کرتے تھے تو پھر وہی اتہام والی جسارت کا اعادہ ہوگیا جس کا بطلان اوپر واضح کیا جاچکاہے۔
اور اگر کہا جائے کہ کہ یہ لوگ تجدید کی نیت سے تین طلاق دے کر بھی اسے ایک ہی شمار کرتے تھے ، تو پھر یہی تو ہمارا کہنا ہے کہ یہ لوگ تین طلاق دے کر بھی ایک ہی شمار کرتے تھے ، یہی عہد فاروقی کے ابتدائی دوسال اور اس سے پہلے عہدصدیقی اور اس سے بھی پہلے عہد نبوی میں معمول رہا ہے کہ لوگ وہ بیک وقت تین طلاق دینے کے بعد اسے ایک ہی شمار کرتے تھے۔والحمدللہ۔
اور عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا یہ جملہ  ”إن الناس قد استعجلوا في أمر كانت لهم فيه أناة“ (لوگوں نے جلدی کرنا شروع کی اس میں جس میں ان کے لئے مہلت ووسعت تھی) ،اس سے طلاق اصل یعنی اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ شریعت میں ایک ہی دفعہ طلاق دینے کی تعلیم ہے جس کے بعد رجوع یا نکاح جدید کی مہلت ورخصت ہے۔اورایک سے زائد بار طلاق دینا خواہ تاکید و تکرار ہی کے لئے ہو یہ طلاق اصل نہیں ہے ، اس لئے عمرفاروق رضی اللہ عنہ کا یہ جملہ طلاق تاکید کے لئے قطعا نہیں ہے۔
نوٹ:- اس ترمیم شدہ تاویل کے بقیہ دو جوابات وہی ہیں جو اوپر اصل تاویل کے دئے گئے ہیں ۔

(د) مجرد خبر پر محمول کرنا
علامہ المازري المالكي (المتوفى 536) فرماتے ہیں:
”وأما قول ابن عباس: كان طلاق الثلاث واحدة على عهد النبيء - صلى الله عليه وسلم -: فقال بعض العلماء البغداديين: المراد به أنه كان المعتاد في زمن النبي - صلى الله عليه وسلم - تطليقة واحدة وقد اعتاد الناس الآن التطليق بالثلاث، فالمعنى: كان الطلاق الموقع الآن ثلاثا يُوقع بواحدة فيما قبل إنكارًا لخروجهم عن السنة“ 
 ”ابن عباس رضی اللہ عنہ کا یہ کہنا کہ عہد نبوی میں تین طلاق ...تو بعض بغدادی علماء اس سے ابن عباس رضی اللہ عنہ کی مراد یہ بتاتے ہیں کہ وہ یہ خبر دے رہے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں ایک طلاق دینے کا رواج تھا ، اور آج لوگوں میں تین طلاق دینا رائج ہوگیا ، یعنی آج جس طلاق سے عورت کو الگ کیا جاتا ہے وہ تین طلاق ہے جبکہ عہد نبوی میں ایک ہی طلاق سے عورت کو الگ کیا جاتا تھا ، اس سے ابن عباس رضی اللہ عنہ کا مقصود ان پر نکیر کرنا تھا کہ طلاق دینے میں سنت کے طریقے سے ہٹ گئے ہیں“ [المعلم بفوائد مسلم 2/ 192]
اس تاویل کو ابن العربی نے بہتر کہا ہے اوراسے ابوزرعہ الرازی کی طرف بھی منسوب کیا ہے[فتح الباري لابن حجر، ط المعرفة: 9/ 364]

عرض ہے کہ:
اس تاویل کے بطلان کے لئے ابوالصھباء اور ابن عباس رضی اللہ عنہ کا سوال وجواب ہی کافی ہے، چانچہ:
 ”أن أبا الصهباء، قال لابن عباس: أتعلم أنما «كانت الثلاث تجعل واحدة على عهد النبي صلى الله عليه وسلم، وأبي بكر، وثلاثا من إمارة عمر»؟ فقال ابن عباس: «نعم»“ 
 ”ابوالصھباء نے ابن عباس رضی للہ عنہ سے کہا: کیا آپ کو علم ہے کہ عہد نبوی ، عہد صدیق اور عہد فاروقی کے ابتدائی تین سال تک تین طلاق کو ایک بنایا جاتا تھا؟ تو ابن عباس رضی اللہ عنہ نے کہا: ہاں“ [صحيح مسلم 3/ 1099 رقم1472]
اب غور کریں کہ اگرعہدنبوی میں تین طلاق دی ہی نہیں جاتی تھی تو کس طلاق کو ایک بنایا جاتا تھا ؟

ولانا کرم شاہ ازہری بریلوی صاحب فرماتے ہیں:
”حدیث کے الفاظ اس جواب کے متحمل نہیں ”أتعلم أنما كانت الثلاث تجعل واحدة ...قال نعم“ ، کیا آپ جانتے ہیں کہ تین طلاقوں کو ایک بنادیا جاتاتھا ؟ آپ نے فرمایا: ہاں ! اگر تین طلاقیں دی ہی نہیں جاتی تھیں تو ایک کس کو بنایا جاتا تھا؟“ [ دعوت فکرونظر: مطبوع در مجموعہ مقالات ص226 ]

شهاب الدين الألوسي (المتوفى 1270) فرماتے ہیں:
”واعترض عليه بعدم مطابقته للظاهر المتبادر من كلام عمر لا سيما مع قول ابن عباس رضي الله تعالى عنهما: الثلاث إلخ، فهو تأويل بعيد لا جواب حسن فضلا عن كونه أحسن“ 
”اس جواب پر اعتراض یہ کیا گیا ہے کہ یہ عمر رضی اللہ عنہ کے کلام کے ظاہر اور متبادر مفہوم سے میل نہیں کھاتا ، خاص طور سے ابن اعباس رضی اللہ عنہ کے قول تین طلاق ...الخ  سے ، اس لئے یہ تاویل بعید ہے ،یہ جواب سرے سے اچھا ہی نہیں ہے ، چہ جائے کہ اس سے سب سے اچھا جواب کہا جائے“ [ روح المعاني 1/ 532]

علامہ المازري کوبھی احساس ہوا کہ ”عہد نبوی میں تین طلاق کوایک بنانے والے الفاظ“ سے تو یہ تاویل بہت بعید معلوم ہوتا ہے اس لئے انہوں نے ان الفاظ کو بھی کھینچ تان کر تاویل کے بھینٹ چڑھادیا چنانچہ آگےان الفاظ کو نقل کرنے کے بعد فرمایا:
 ”وإن كان هذا اللفظ الثاني أبعد من الأول قليلاً لقوله: كانت الثلاث تجعل واحدة ولكن يصح أن يريد كانت الثلاث الموقعة الآن تجعل واحدة، بمعنى توقع واحدة“ 
 ”دوسری روایت کے ان الفاظ میں گرچہ گذشتہ معنی تھوڑا بعید لگتا ہے کیونکہ اس میں یہ ذکر ہے کہ ”تین طلاق کو ایک بنایا جاتا تھا“ ، لیکن یہاں یہ مراد لینا بھی درست ہوسکتا ہے کہ آج جن تین طلاقوں کے ذریعہ طلاق واقع کی جاتی ہے اسے ایک بنایا جاتا تھا یعنی ایک سے ہی طلاق واقع کی جاتی تھی“ [المعلم بفوائد مسلم 2/ 192]
عرض ہے کہ:
اس پرتکف تاویل سے کام نہیں چلنے والا کیونکہ ابن عباس رضی اللہ عنہ کی حدیث کے ایک طریق میں یہ الفاظ بھی مروی ہیں:
 ”أنَّ أبا الصَّهْباءِ أتى ابن ‌عبّاس فقال له: أنها علمت أنه كان على عَهْدالنّبيّ -صلى الله عليه وسلم- وأبي بكرٍ مَنْ طلَّق ثلاثًا جُعِلْن واحدة. قال: قدْ كان ذلك“ 
 ”ابوالصھباء ابن عباس رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اورکہا: کیا آپ کوعلم ہے کہ دور نبوی اور دور صدیقی میں جو شخص تین طلاقین دیتا تھا تو اس کی تینوں طلاقیں ایک بنائی جاتی تھیں“[مستخرج أبي عوانة 11/ 568، رقم 4969 وإسناده صحيح]
ملاحظہ فرمائیں کہ اس روایت میں تو کھل کر صراحت آگئی کہ دور نبوی اور دور صدیقی میں کوئی شخص تین طلاق دیتا تھا تو اسی شخص کی دی ہوئی تین طلاقوں کو ایک بنایا جاتا تھا۔اس سے مذکورہ تاویل کے لئے کوئی جگہ نہیں رہ جاتی ہے۔

نیز مذکورہ تاویل کے لئے حدیث میں مستعمل لفظ ”تجعل“ (بنائی جاتی تھی) کو توڑ مروڑ کر تاویل کے بھینٹ چڑھا یا گیا لیکن بعض روایت میں اس کی جگہ ”ترد “ (لوٹائی جاتی تھیں) کے الفاظ ہیں :
”هل علمت أن الثلاثة كانت ترد على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم إلى الواحدة؟ , قال: فقال ابن عباس: نعم“ 
”کیا آپ کوعلم ہے کہ دور نبوی میں تین طلاق کو ایک طلاق کی طرف لوٹا دیا جاتا تھا ، تو ابن عباس رضی اللہ عنہ نے کہا : ہاں“ [سنن الدارقطني، ت الارنؤوط: 5/ 80 رقم 4019 وإسناده حسن]

 ”ألم تعلم أن ثلاثة كانت على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم وأبي بكر، وثلاث من إمارة عمر ترد إلى واحدة؟ قال: نعم“ 
 ”کیا آپ کوعلم ہے کہ عہدرسالت ، عہد صدیقی اور عہد فاروقی کے ابتدائی تین سال تک تین طلاق کو ایک طلاق کی طرف لوٹا دیا جاتا تھا ، تو ابن عباس رضی اللہ عنہ نے کہا : ہاں“ [مستخرج أبي عوانة 3/ 152رقم 4533وإسناده صحیح ]
اب الفاظ میں تو کھینچ تان کر بھی تاوی نہیں ہوسکتی۔

 بلکہ اس سے بھی آگے بڑھئے بعض روایات میں تو اس جگہ ”يحسبن“ (شمارکی جاتی تھیں) کے الفاظ ہیں:
”فقال له أبو الصهباء أما علمت أن الثلاث كن يحسبن على عهد النبي صلى الله عليه وسلم واحدة فقال ابن ‌عباس بلى“ 
”ابوالصھباء نے ابن عباس رضی اللہ عنہ سے کہا: کیا آپ کو علم نہیں کہ عہد نبوی میں تین طلاقیں ایک شمار ہوتی تھیں؟ تو ابن عباس رضی اللہ عنہ نے کہا : کیوں نہیں؟“[ المسند المستخرج على صحيح مسلم 4/ 153وإسناده صحيح]

حدیث ابن عباس رضی اللہ عنہ ہی کے ان دیگر طرق کو دیکھنے کے بعد ہر انصاف پسند شخص پکار اٹھے گا کہ مذکورہ تاویل انتہائی بعید اور لایعنی ہے ۔
بلکہ أبو الحسن الماوردي (المتوفى 450) رحمہ اللہ نے یہ درناک اعتراف بھی کیا ہے کہ:
”وإنما حملناه على هذا الاحتمال مع بعده؛ لأن ...“ 
 ”اس احتمال کے بعید ہونے کے باوجود بھی ہم نے حدیث کو اس پر اس لئے محمول کیا ہے کیونکہ...“ [ الحاوي الكبير:10 / 122]
عرض ہے کہ کیونکہ کے بعد والے شبہ کا بار بار جواب دیا جاچکاہے اس لئے اس بعید احتمال کی قطعا کوئی ضرورت نہیں ہے۔

نیز اس بات پر غور کیجئے کہ اس حدیث میں یہ ہے کہ عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے اپنے دور خلافت میں دو سال کے بعد تین طلاق کو نافذ کردیا ، یہ بھی اس بات کی دلیل ہے کہ پہلے جب تین طلاق دی جاتی تھی تو نافذ نہیں کی جاتی تھی ، بلکہ ایک شمار ہوتی تھی ، حدیث کے انہیں الفاظ کو دیکھتے ہوئے احناف میں سے بھی کئی اہل علم نے مذکورہ باطل تاویل کو رد کردیا ہے چنانچہ:
كمال الدين ابن الهمام الحنفی (المتوفى 861) فرماتے ہیں:
”وما قيل في تأويله أن الثلاث التي يوقعونها الآن إنما كانت في الزمان الأول واحدة تنبيه على تغير الزمان ومخالفة السنة فيشكل إذ لا يتجه حينئذ قوله فأمضاه عمر رضي الله عنه“ 
”اور اس حدیث کی تاویل میں جو یہ بات کہی گئی ہے کہ اب  لوگ تین طلاق دینے لگے ہیں جبکہ پہلے زمانے میں ایک ہی طلاق دیتے تھے ، اس میں بدلے ہوئے زمانے اور سنت کی مخالفت کی خبر ہے ، تو اس تاویل میں اشکال ہے کیونکہ ایسی صورت میں یہ تاویل حدیث کے ان الفاظ کا ساتھ نہیں دیتی کہ عمرفاروق رضی اللہ عنہ نے اسے نافذ کردیا“ [فتح القدير للكمال ابن الهمام 3/ 471]

 احمد بن محمد بن اسماعیل الطحطاوی الحنفی رحمہ اللہ (المتوفی1231) فرماتے ہیں:
وهذ الحمل لايتجه مع قوله ”فأمضاه عليهم عمر“، ويؤيد ذلك ماذكره القهستاني أنه كان في الصدر الأول إذا أرسل الثلاث جملة لم يحكم إلا بوقوع واحدة إلى زمن عمر - رضي الله تعالى عنه -، ثم حكم بوقوع الثلاث سياسة لكثرته بين الناس“ 
یہ تاویل حدیث کے اندر موجود ان الفاظ سے میل نہیں کھاتی کہ”پھر عمرفاروق رضی اللہ عنہ نے تین طلاق کو ان پر نافذ کردیا“ اور اس (تاویل کے بطلان) کی تائید اس بات سے بھی ہوتی جسے قھستانی نے ذکر کیا ہے کہ صدر اول میں جب ایک ہی جملے میں تین طلاق دی جاتی تھی تو عمرفاروق رضی اللہ عنہ کے دور تک ایک ہی شمار کی جاتی تھی ، پھر عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے سیاسی فرمان کے تحت تین کے وقوع کا فیٖصلہ کردیا کیونکہ لوگ بکثرت ایسا کرنے لگے تھے“ [حاشية الطحطاوى على الدر المختار: ج 2 ص 105جدیدنسخہ  ج 4ص 363 وانظر:جامع الرموز للقھستانی :ص 277 مطبوعہ کلکتہ]

مولانا اشرف تھانوی صاحب نے بھی اس حدیث کے صحیح مفہوم کا اقرار کیا ہے ، لکھتے ہیں:
”اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں یہ تینوں طلاق ایک سمجھی جاتی تھی“ [تقریر ترمذی ص346]

الغرض مذکورہ تاویل باطل ہے اور اس حدیث کا صحیح مفہوم وہی ہے جو اس حدیث کے الفاظ سے واضح ہے کہ عہد نبوی ، عہد صدیقی اور عہد فاروقی کےابتدائی دو سال تک تین طلاق ایک شمار کی جاتی تھی ، نیز اس حدیث کے تمام طرق کے الفاظ اسی مفہوم کا ساتھ دیتے تھے ۔
نوٹ:-اس تاویل کے مزید جوابات میں وہ دو ابتدائی جوابات بھی شامل کرلیں جو اس سےقبل تاکید وتکرار والی تاویل کے رد میں دئے گئے ہیں ۔

زیر بحث حدیث کے ترجمہ پر ایک پر جہالت اعتراض:
صحیح مسلم کی اس حدیث میں عہد رسالت ، عہد صدیقی اور عہد فاروقی کے ابتدائی دو سالوں میں تین طلاق کو ایک قراردئے جانے کی بات ہے ، اس حدیث کا سیاق صاف دلالت کرتا ہے کہ یہاں بیک وقت دی گئی تین طلاق کو ایک قرار دینے کے بات منقول ہے ۔
اسی سیاق کو دیکھتے ہوئے بعض علماء نے بیک وقت یا یکبارگی تین طلاق کا ترجمہ کیا تو بعض دیوبندیوں نے اسے جھوٹ قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ یکبارگی والا کوئی لفظ متن حدیث میں موجود نہیں ہے ۔حالانکہ متن کے سیاق میں اس کا مفہوم موجودہے ۔
ماسٹر امین اوکاڑوی صاحب لکھتے ہیں:
”جب لفظ کا مطلب موجود ہو تو لفظ کا مطالبہ کرنا ایک دھوکہ ہوتا ہے“[ فتوحات صفدر 1/ 208]
اور بعض دیوبندیوں نے اسی اعتراض کو لیکر اس حدیث کا یہ جواب بھی دینے کی کوشش کی کہ تین طلاق کا ذکر ہے لیکن بیک وقت دی گئی تین طلاق کا ذکر نہیں ہے ، اس لئے یہ حدیث بیک وقت دی گئی تین طلاق کے ایک ہونے کی دلیل نہیں بن سکتی ۔
عرض ہے کہ:
اس حدیث میں تین طلاقوں کو ایک قرار دئے جانے کی بات ہے ، یہی اس بات کی دلیل ہے کہ یہاں بیک وقت دی گئی تین طلاق کا ذکر ہے ، ورنہ الگ الگ وقت میں سنت کے مطابق دی گئی تین طلاقوں میں یہ مسئلہ ہی نہیں پیدا ہوگا کہ انہیں ایک شمار کیا جائے ۔
واضح رہے کہ ہم نے اس حدیث کا جو ترجمہ پیش کیا ہے وہ ہمارا نہیں بلکہ جناب غلام رسول سعیدی حنفی بریلوی صاحب کا ہے ، اور انہوں نے بھی بیک وقت تین طلاق کا ترجمہ کیا ہے ، اسی طرح دیوبندی حضرات میں پالن حقانی دیوبندی صاحب نے نے بھی اس طرح ترجمہ کیا ہے :
”حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی خلافت میں ، اور دوسال تک حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی خلافت میں ایک ساتھ تین طلاقیں دینے کو ایک خیال جاتا ہے“ [شریعت یا جہالت :ص199]
لہٰذا بریلوی اور دیوبندی حضرات اپنے مترجمین کا ترجمہ دیکھ کر ہی اطمئنان کرلیں۔

No comments:

Post a Comment