اعتراض کی دوسری قسم : متن پر اعتراض - Kifayatullah Sanabili Official website

2020-02-13

اعتراض کی دوسری قسم : متن پر اعتراض


پچھلا
اعتراض کی دوسری قسم : متن پر اعتراض
متن پر وارد کردہ اعتراضات چار طرح کے ہیں:
اول : متن کے ثبوت پر اعتراض
دوم :  متن کے محکم ہونے پر اعتراض
سوم : متن کے مفہوم پر اعتراض
چہارم : متعہ کو لیکر الزامی اعتراض 
متن پر پہلا اعتراض : متن کے ثبوت پر اعتراض

(الف) :ابوالصھباء کے کلام اوران کے رشتہ ولاء پر اعتراض
✿ ابوالصھباء کے کلام میں نکارت کا دعوی
اس حدیث پر بعض لوگوں نے یہ اعتراض کیا ہے کہ اس کے بعض طرق میں یہ وارد ہے کہ ابوالصھباء نے ابن عباس رضی اللہ عنہ سے کہا:
”هات من هناتك“ اور ”ھنات“ یہ لفظ بری باتوں کے لئے آتا ہے پھر اس کا معنی یہ ہوا کہ ابوالصھباء کہتے ہیں کہ اے ابن عباس رضی للہ عنہ آپ اپنی بری اور منکر باتوں میں سے کچھ سنائیں ۔
ان الفاظ کا یہ مفہوم بیان کرنے کے بعد کہا جاتا ہے کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک تابعی ایک جلیل القد صحابی کو ایسے کلمات سے مخاطب کرے ؟
عرض ہے کہ:
تقلیدی برادری نے اس حدیث پر جو مظالم ڈھائے ہیں انہیں میں سے ایک ظلم یہ بھی ہے ان الفاظ کا یہ گستاخانہ مفہوم بیان کردیا ہے ، پھر اس کا سہارا لیکر اس حدیث کے خلاف لوگوں کو مشتعل کرنے کی کوشش کی ہے، حالاکہ یہ الفاظ اس حدیث کے تمام طرق میں موجود بھی نہیں ہیں ۔
بہرحال ان الفاظ کا وہ مطلب قطعا نہیں ہے جو زبردستی یہاں پہنادیا گیا ہے ، پھر ان الفاظ کا مطلب کیا ہے ؟ اسے سمجھنے کے لئے صحیح بخاری وغیرہ کی ایک دوسری حدیث دیکھئے جس میں اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں ایک شخص نے صحابی رسول عامر بن سنان رضی اللہ عنہ کے لئے یہی الفاظ کہے ہیں ، چنانچہ:
امام بخاري رحمه الله (المتوفى256) نے کہا:
 ”حدثنا مسدد، حدثنا يحيى، عن يزيد بن أبي عبيد مولى سلمة، حدثنا سلمة بن الأكوع، قال: خرجنا مع النبي صلى الله عليه وسلم إلى خيبر، قال رجل من القوم: أي عامر لو أسمعتنا من هناتك، فنزل يحدو بهم يذكر: تالله لولا الله ما اهتدينا...“ 
 ”سلمہ بن الاکوع رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ خیبر کی طرف نکلے تو لوگوں میں سے ایک شخص نے کہا: اے عامر ! ہمیں اپنے کچھ کلمات سنائیے تو انہوں نے شعر پڑھنا شروع کیا اور کہنے لگے : اللہ قسم ! اگر اللہ نہ ہوتا توہم ہدایت نہ پاتے ...“ [صحيح البخاري ، تحقیق دکتور مصطفی دیب البغا : كتاب الدعوات: 5/ 2332 رقم 5972]
اس حدیث میں ”لو أسمعتنا من هناتك“ کے الفاظ ہیں ۔
صحیح بخاری کے بعض نسخوں میں یہ تصغیر وغیرہ کے ساتھ ہیں لیکن بعض نسخوں میں ایسے ہی ہے ، بلکہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کے نسخہ میں بھی یہی لفظ ہے اسی لئے انہوں نے اس کی شرح کرتے ہوئے کہا:
 ”وقوله من هناتك بفتح الهاء والنون جمع هنة“ 
 ”حدیث کے الفاظ ”من هناتك“ ھاء اور نون پر فتحہ ہے اور یہ ”هنة“ کی جمع ہے“ [فتح الباري لابن حجر، ط المعرفة: 11/ 137]
نیز حافظ ابن حجررحمہ اللہ فتح الباری میں دوسرے مقام پر اس حدیث کے الفاظ کاحوالہ دیتے ہوئے لکھا:
 ”ووقع في الدعوات من وجه آخر عن يزيد بن أبي عبيد لو أسمعتنا من هناتك بغير تصغير“ 
 ”اور کتاب الدعوات میں دوسرے طریق سے یزید بن ابی عبید کی روایت میں ہے لو أسمعتنا من هناتك بغیرتصغیر کے ساتھ ہے“ [فتح الباري لابن حجر، ط المعرفة: 7/ 465]
اس سے واضح ہے کہ ابن حجررحمہ اللہ کے نسخہ میں ”لو أسمعتنا من هناتك“ ہی کے الفاظ ہیں ۔
نیز اس حدیث کو اسی طریق ابن ابی الدنیا نے بھی روایت کیا ہے اور ان کی روایت میں بھی ”أسمعنا من هناتك“ کے الفاظ ہیں [الإشراف في منازل الأشراف :رقم 330 وإسناده صحيح]
 صحیح بخاری وغیرہ کی اس حدیث میں ان الفاظ کا مطلب کیا ہے؟ اسے بتاتے ہوئے امام ابن الأثيررحمه الله (المتوفى606) لکھتے ہیں:
 ”وفي حديث ابن الأكوع «قال له: ألا تسمعنا من هناتك» أي من كلماتك، أو من أراجيزك“ 
 ”ابن الاکوع کی حدیث میں ہے کہ ان( عامر رضی اللہ عنہ) سے کسی نے کہا: کیا آپ اپنے ”ھنات“ نہیں سنائیں گے، یعنی اپنے کلمات یا اپنے اشعار“ [النهاية في غريب الحديث والأثر 5/ 279]
ملاحظہ فرمائیں کہ ابن الاثیر رحمہ اللہ ”ھنات“ کا سب سے پہلا مطلب کلمات بتار ہے ہیں ، جس سے واضح ہے کہ یہ لفظ کلمات یعنی باتوں اور خبروں وغیرہ کے معنی میں بھی آتا ہے ۔
اس بنا پر صحیح مسلم میں میں موجود ”هات من هناتك“ کا مطلب یہ ہوگا کہ اپنے کلمات یعنی اپنی احادیث میں سے کچھ سنائیے ۔
.
نیز مجد الدين الفيروزآبادى (المتوفى 817 ) لکھتے ہیں:
 ”وهن، كأخ معناه: شيء، تقول: هذا هنك، أي: شيئك...ج: هنات“
 ”اور ”هن“ یہ ”أخ“ کی طرح ہے اس کا معنی ہے ”چیز“ کے ، آپ کہتے ہیں ”هذا هنك“ یعنی ”یہ تمہاری چیز ہے“ ...اس کی جمع ھنات آتی ہے“ [القاموس المحيط:ص 1346 ]
اس اعتبار سے ابن عباس رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ”هات من هناتك“ کا مطلب ہوگا کہ اے ابن عباس آپ اپنی چیزوں میں سے کچھ سنائیے یعنی اپنی احادیث میں سے کچھ سنائیے ۔
امام شوکانی رحمہ اللہ اسی معنی کے  اعتبار سے تشریح کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
 ”فكأن أبا الصهباء قال لابن عباس: هات من الأشياء العلمية التي عندك“ 
 ”گویا کہ ابوالصھباء نے ابن عباس رضی اللہ عنہ سے کہا کہ : آپ کے پاس جوعلمی چیزیں ہیں ان میں سے کچھ بتائیے“ [نيل الأوطار 6/ 273]

فائدۃ :
دارقطنی اور ابونعیم کی روایت سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ ابوالصھباء نے ابن عباس رضی اللہ عنہ سے سوال کرتے ہوئے تعبیر کیوں استعمال کی ۔ دراصل ابوالصھباء غالبا شاعر بھی تھے ، جیساکہ خطیب بغدادی کی ایک مسلسل بالشعراء کی سند میں ان کا بھی ذکر ہے اور انہیں بھی شاعر کہا گیا ہے ، اور اس سند میں یہ مشہور شاعر فرزدق کے شاگرد ہیں ، دیکھئے: [تاريخ بغداد، مطبعة السعادة: 3/ 98]
یہ سند صحیح نہیں ہے لیکن ممکن ہے کہ یہ شاعر بھی رہے ہوں ، تو جب یہ ابن عباس رضی اللہ عنہ کے پاس آئے پہلے ابن عباس رضی اللہ عنہ نے ہی ان سے یہ الفاظ کہے چنانچہ :
دارقطنی کی روایت کے الفاظ ہیں:
”أن أبا الصهباء جاء إلى ابن عباس , فقال له ابن عباس: «هات من هنيئاتك ومن صدرك ومما جمعت....الخ“ [سنن الدارقطني، ت الارنؤوط: 5/ 80 وإسناده حسن]
اور ابو نعیم کی روایت کے الفاظ ہیں:
 ”أن أبا الصهباء أتاه فقال له ابن ‌عباس : هات من صدرك أو من هناتك...الخ“ [ المسند المستخرج على صحيح مسلم 4/ 153 وإسناده صحيح]
یعنی ابن عباس رضی اللہ عنہ نے ان سے کہا تم نے جو کلمات یعنی اشعار یاد کر رکھے ہیں ان میں سے کچھ سناؤ ۔
یہ ایسے ہی ہے جیسے اوپر حدیث گذرچکی ہے کہ صحابی رسول عامر بن سنان رضی اللہ عنہ سے بھی ایک شخص نے انہیں الفاظ شعر سنانے کی فرمائش کی ، اسی طرح یہاں ابن عباس رضی اللہ عنہ نے انہیں الفاظ میں شعر سنانے کی فرمائش کی ، اس کے بعد ممکن ہے ابوالصھباء نے پہلے شعر سنایا ہو یا شعر نہیں سنایا لیکن انہیں الفاظ میں ابن عباس رضی اللہ عنہ سے حدیث سنانے کی فرمائش کردی ، کیونکہ وہ ابن عباس رضی اللہ عنہ کے حدیث سننے ہی کے لئے آئے تھے ۔
ان روایات سے  ان الفاظ کا مطلب اور پس منظر دونوں واضح ہوجاتا ہے کہ ان میں کوئی برا مفہوم نہیں ہے ۔
اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ اس حدیث کے بعض طرق میں موجود الفاظ ”هات من هناتك“ میں کوئی گستاخانہ مفہوم نہیں ہے لہٰذا ان الفاظ کا سہارا لیکر اس روایت پر طعن کرنا بھی درست نہیں ہے۔

✿ ابوالصھباء کے رشتہ ولاء پر اعتراض
بعض لوگ کہتے ہیں کہ ابن عباس کے موالی میں ابوالصھباء نام کا شخص معروف نہیں ہے ۔
ابن بطال رحمہ اللہ (المتوفى449) کہتے ہیں:
”إن أبا الصهباء الذى سأل ابن عباس عن ذلك ‌لا ‌يعرف ‌فى ‌موالى ‌ابن ‌عباس“ 
 ”جس ابوالصھباء نے ابن عباس رضی اللہ عنہ سے یہ سوال کیا ہے ابن عباس رضی للہ عنہ کے موالی میں معروف نہیں ہے“ [ شرح صحيح البخارى لابن بطال: 7 /392]

عرض ہے کہ :
 ❀ اولا:
اس حدیث کے تمام طرق میں ”ابوالصھباء“ کا ذکر نہیں ہے ۔لہٰذا ابوالصھباء کا معاملہ کیسا بھی ہو دوسرے طریق سے یہ حدیث صحیح وثابت ہے۔
 ❀ ثانیا:
اس حدیث میں ”ابوالصھباء“ کا ذکر صرف سائل کی حیثیت سے ہے ، راوی کی حیثیت سے نہیں ، کیونکہ ابن عباس سے حدیث کو روایت کرنے والے امام طاووس رحمہ اللہ ہیں۔
لہٰذا جب ابوالصھباء حدیث کا راوی نہیں ہے تو اس کی شخصیت پر بحث بالکل فضول و لایعنی امر ہے ، یہ ایسے ہی جیسے تین طلاق کو تین کہنے سے متعلق ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی بعض فتاوی میں کسی سائل کا ذکر ہے لیکن اس حالت تو درکنار اس کا نام تک معلوم نہیں ہے ۔
ظاہر ہے کہ اس کی وجہ ان فتاوی کی روایات کو نہیں جھٹلا سکتے کیونکہ یہ مبہم سائل روایت کا راوی نہیں ہے۔
 ❀ ثالثا: 
اہل تاریخ اور اہل فن کی طرف سے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ یاکسی بھی صحابی کے تمام موالی کے ذکر اور ان کے استیعاب کا اہتمام نہیں ہوا کہ یہ کہہ دیا جائے کہ ان میں ابوالصھباء کا نام نہیں ملتا ۔
 ❀ رابعا:
کتب رجال وتراجم کے مؤلفین نے ”ابوالصھباء“ کو مولی ابن عباس کہا ہے چنانچہ:
 ●امام عجلى رحمه الله (المتوفى261) نے کہا:
”صهيب مولى ابن عباس“ 
 ”صھیب یہ مولی ابن عباس رضی اللہ عنہ ہیں“ [تاريخ الثقات للعجلي: ص: 230]
 ● امام أبو زرعة الرازي رحمه الله (المتوفى264) سے سوال وجواب نقل کرتے ہوئے ابن ابی حاتم رحمہ اللہ نے کہا:
 ”سئل أبو زرعة، عن أبي الصهباء صهيب، مولى ابن عباس، فقال: مديني ثقة“ 
 ”امام ابوزرعہ رحمہ اللہ سے ابوالصھباء صھیب مولی ابن عباس کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے کہا: یہ مدینی اور ثقہ ہیں“ [الجرح والتعديل لابن أبي حاتم، ت المعلمي: 4/ 444 وإسناده صحيح]
معلوم ہوا کہ امام ابو زرعہ اور ان کے شاگرد بھی ابوالصھباء کو مولی ابن عباس جانتے تھے ، اس لئے بعد کے لوگوں کی طرف سے اس رشتہ کا انکار کوئی معنی نہیں رکھتا۔
 ● امام ابن عبد البر رحمه الله (المتوفى463) نے کہا:
 ”وقد قيل: ان أبا ‌الصهباء صهيب هذا ‌مولى ‌ابن ‌عباس وهو الذى روى عنه في ‌طلاق الثلاث ...الخ“ 
 ”اور کہا گیا ہے کہ ابوالصھباء صھیب یہ مولی ابن عباس ہیں اور یہ وہی ہیں جنہوں نے ابن عباس رضی اللہ عنہ سے تین طلاق والی حدیث روایت کی ہے ..“ [ الاستغناء لابن عبدالبر: 2/ 781]
 ● امام مزي رحمه الله (المتوفى742) نے بھی کہا ہے :
 ”صهيب أبو الصهباء البكري البصري ، ويقال : المدني ، مولى ابن عباس.روى عن : مولاه عبد الله بن عباس“ 
 ”صھیب ابوالصھباء ، بکری ، بصری ، ان کو مدنی بھی کہاجاتا ہے یہ ابن عباس کے مولی (آزادہ کردہ ) ہیں اور یہ اپنے مولی (آزاد کرنے والے) عبدللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں“ [تهذيب الكمال للمزي: 13/ 241]
● حافظ مغلطائی(المتوفی 762) جن کا معمول تھا امام مزی کی غلطیوں کو ڈھونڈ ڈنڈھ کرنکالنا انہویں نے بھی اس پر تعاقب نہیں کیا ہے بلکہ خود لکھا ہے:
”صهيب أبو الصهباء البكري البصري، وقيل: المدني مولى ابن عباس“ 
”صہیب ابوالصھباء بکری ، بصری اور کہا گیا ہے کہ یہ مولی بن عباس رضی اللہ عنہ ہیں“ [إكمال تهذيب الكمال لمغلطاي 7/ 8]
 ❀ خامسا:
اگر یہ تسلیم کرلیں کہ ابوالصھباء یہ ابن عباس رضی اللہ عنہ کے مولی نہیں ہیں ، تو اس سے صرف رشتہ ولاء کی نفی کی جاسکتی ہے ، لیکن ابن عباس رضی اللہ عنہ کے ساتھ ان کی صحبت اور شاگردی کی نفی نہیں کی جاسکتی ہے ، کیونکہ رشتہ ولاء کا ذکر صرف ایک سند میں ہے لیکن صحبت و شاگردی کا ذکرکئی سندوں میں ہے بلکہ ابن عباس رضی اللہ عنہ کی بعض دوسری احادیث کو انہوں نے روایت بھی کررکھا ہے۔دیکھئے :[المعجم الكبير للطبراني 12/ 201 وإسناده صحيح]
 ❀ سادسا:
یہ بات تو مسلم ہے کہ ابوالصھباء یہ ابن عباس رضی اللہ عنہ کے ساتھی اور ان کے شاگرد ہیں ، فریق مخالف کا اعتراض یہ ہے کہ طلاق والی حدیث میں ان کو ابن عباس رضی اللہ عنہ کا مولی کہا گیا ہے جبکہ ابن عباس کے مولی کے طور اس نام کا کوئی شخص معروف نہیں ہے ۔
عرض کہ طلاق والی احادیث کے طرق اور اس کی کئی سندیں ہیں لیکن اس کی صرف اور صرف ایک سند میں ہی ابوالصھباء کو ابن عباس رضی اللہ عنہ کا مولی کہا گیا ہے وہ سند یہ ہے:
امام عبد الرزاق الصنعانی رحمه الله (المتوفى211) نے کہا:
 ”عن عمر بن حوشب قال: أخبرني عمرو بن دينار، أن طاوسا، أخبره قال: دخلت على ابن عباس ومعه مولاه أبو الصهباء، فسأله أبو الصهباء عن الرجل يطلق امرأته ثلاثا...“ [مصنف عبد الرزاق، ت الأعظمي: 6/ 392]
اس سند کو فریق مخالف ضعیف مانتے ہیں اور ”عمر بن حوشب الصنعانی“ کے بارے میں مجہول کا کلام نقل کرتے ہیں ، مثلا:
 ● امام ابن القطان رحمه الله (المتوفى628) نے کہا:
 ”عمر بن حوشب مجهول الحال أيضا ، ولا يعرف روى عنه غير عبد الرزاق ، وهو صنعاني“ 
 ”عمربن حوشب بھی مجہول الحال ہے،عبدالرزاق کے علاوہ اس سے کسی دوسرے راوی کا روایت کرنا معروف نہیں ہے اور یہ صنعانی ہے“ [بيان الوهم والإيهام في كتاب الأحكام 5/ 104]
 ● امام ذهبي رحمه الله (المتوفى748) نے کہا:
 ”عمر بن حوشب، شيخ لعبد الرزاق، يجهل حاله“ 
 ”عمربن حوشب یہ عبدالرازق کا استاذ ہے اور اس کی حالت مجہول ہے“ [ميزان الاعتدال للذهبي ت البجاوي: 3/ 192]
 ● حافظ ابن حجر رحمه الله (المتوفى852) نے کہا:
 ”عمر بن حوشب الصنعاني مجهول“ ، ”عمربن حوشب صنعانی مجہول ہے“ [تقريب التهذيب لابن حجر: رقم 4885]

تو جب فریق مخالف کی نظر میں یہ بات ثابت ہی نہیں ہے کہ طلاق والی حدیث میں موجود ابن عباس رضی للہ عنہ کے شاگرد ابوالصھباء کو مولی ابن عباس کہا گیا تو پھر اس بنیاد پر اعتراضات کی ساری عمارت منہدم ہوجاتی ہے۔

واضح رہے کہ ہماری نظر میں ”عمر بن حوشب“ مجہول نہیں بلکہ ثقہ راوی ہے کیونکہ :
⟐ امام ابن حبان رحمہ اللہ نے اسے ثقات میں ذکر کیاہے [الثقات لابن حبان ط االعثمانية: 8/ 439]
⟐ نیز ان کے استاذ امام عبدالرزاق رحمہ اللہ نے ایک سند میں انہیں ”رجل صالح“ کہا ہے چنانچہ:
امام أحمد بن حنبل رحمه الله (المتوفى241) نے کہا:
”حدثنا عبد الرزاق ، أخبرنا عمر بن حوشب رجل صالح أخبرني عمرو بن دينار ، عن عطاء ، عن رجل ، من هذيل ، قال...“ [مسند أحمد ط الميمنية: 2/ 199]
امام عبدالرزاق کا اپنے استاذ عمر بن حوشب کو ”رجل صالح“ بتاکر ان کے طریق سے حدیث بیان کرنے کا یہی مطلب ہے کہ وہ اسے قابل اعتماد ہی بتارہے ۔
بطور مثال عرض ہے کہ مروان بن محمد الطاطري نے بھی اپنے استاذ ”أبو يزيد الخولاني“ سے ایک روایت بیان کرتے ہوئے انہیں ”وكان شيخ صدق“ کہا ہے چنانچہ:
امام أبوداؤد رحمه الله (المتوفى275) نے کہا:
 ”حدثنا محمود بن خالد الدمشقي، وعبد الله بن عبد الرحمن السمرقندي، قالا: حدثنا مروان - قال عبد الله: حدثنا أبو يزيد الخولاني وكان شيخ صدق وكان ابن وهب يروي عنه، حدثنا سيار بن عبد الرحمن - قال محمود: الصدفي - عن عكرمة، عن ابن عباس، قال: «فرض رسول الله صلى الله عليه وسلم زكاة الفطر طهرة للصائم من اللغو والرفث، وطعمة للمساكين، من أداها قبل الصلاة، فهي زكاة مقبولة، ومن أداها بعد الصلاة، فهي صدقة من الصدقات»“ 
 ”عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صدقہ فطر صائم کو لغو اور بیہودہ باتوں سے پاک کرنے کے لیے اور مسکینوں کے کھانے کے لیے فرض کیا ہے، لہٰذا جو اسے (عید کی) نماز سے پہلے ادا کرے گا تو یہ مقبول صدقہ ہو گا اور جو اسے نماز کے بعد ادا کرے گا تو وہ عام صدقات میں سے ایک صدقہ ہو گا“ [سنن أبي داود 2/ 111 رقم 1609]
اس حدیث کو بیان کرتے ہوئے مروان بن محمد الطاطري نے اپنے استاذ ”أبو يزيد الخولاني“ کو ”وكان شيخ صدق“ کہاہے ، جس کا مطلب یہی ہے کہ وہ وہ اسے قابل اعتماد ہی بتارہے ۔
أبو يزيد الخولاني کی توثیق میں مروان بن محمد الطاطري کے اس قول کے علاوہ کسی بھی امام کا قول نہیں ملتا ہے ، حتی کہ امام ابن حبان نے بھی اسے ثقات میں ذکر نہیں کیاہے ، لیکن اہل علم نے محض مروان بن محمد الطاطري کی اس تعدیل کے سبب اسے صدوق مانا ہے ،اور مذکورہ حدیث کو حسن تسلیم کیا ہے ۔
تو پھراسی اصول سے عمر بن حوشب سے متعلق امام عبدالرزاق کی تعدیل کو بھی حجت ماننا چاہئے۔ اور اس کے ساتھ امام ابن حبان رحمہ اللہ کی توثیق کو شامل کرلیں تو اس راوی کے ثقہ ہونے میں شک نہیں رہ جاتاہے۔
کتب رجال میں جن لوگوں نے اس کا ترجمہ ذکر کیا ہے انہوں امام عبدالرزاق کی یہ تعدیل ذکر نہیں کی ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ ان کی نگاہ اس پر نہیں پڑ سکی ، ورنہ یہ لوگ ان کے ترجمہ میں یہ تعدیل بھی ذکر کرتے اور انہیں مجہول نہیں کہتے ۔
 ⟐ بلکہ حافظ ابن حجررحمہ اللہ نے گرچہ تقریب میں اسے مجہول کہا ہے لیکن جب ان کے سامنے مسند احمد کی مذکورہ روایت آئی جس میں امام عبدالرزاق نے عمربن حوشب کی تعدیل کی ہے ، تو انہوں نے اس سند میں ”رجل من هذيل“ یعنی ہذلی شخص کے علاوہ باقی سند کے سارے رجال کو ثقہ کہہ دیا ، چنانچہ حافظ ابن حجررحمہ اللہ نے کہا:
 ”ورجاله ثقات إلا الهذلي فإنه لم يسم“ 
 ”اس کے رجال ثقہ ہیں سوائے ھذلی کے کیونکہ اس کا نام مذکور نہیں“ [الإصابة لابن حجر: 8/ 220]

 ⟐ امام هيثمي رحمه الله (المتوفى807) نے بھی مسند احمد والی اس حدیث میں ھذلی کے علاوہ باقی سارے رجال کو ثقہ قرار دیا چنانچہ کہا:
 ”رواه أحمد والهذلي لم أعرفه، وبقية رجاله ثقات“ 
 ”اسے احمد نے روایت کیا ہے ، ھذلی کو میں جان نہیں سکا اور اس کے بقیہ رجال ثقہ ہیں“ [مجمع الزوائد للهيثمي: 8/ 18]

معلوم ہواکہ اس راوی کو امام عبدالرزاق ، امام ابن حبان ،حافظ ابن حجر اور امام ہیثمی رحمہم اللہ نے ثقہ کہا ہے ۔اور اس پر ایک حرف کی بھی جرح موجود نہیں ہے لہٰذا یہ راوی ثقہ ہے ۔
علامہ البانی رحمہ اللہ نے امام عبدالرزاق کی تعدیل کے سبب اسے ثقہ قرار دیتے ہوئے کہا:
 ”وهذا إسناد رجاله ثقات إلا الرجل المبهم، ولم يسم“ 
 ”اس سند کے سارے رجال ثقہ ہیں سوائے مبہم شخص کے کیونکہ اس کا نام مذکور نہیں ہے“ [جلباب المرأة المسلمة ص: 142]
اور جن لوگوں نے اسے مجہول کہا ان پر رد کرتے ہوئے علامہ البانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
 ”فإن الحكم عليه بالجهالة لا يتمشى مع تصريح عبد الرزاق بأنه رجل صالح ؛ فإن من علم حجة على من لم يعلم، ومن الظاهر أن الذي ترجموه لم يقفوا على تصريحه هذا، وإلا لنقلوه“ 
”اس پر جہالت کا حکم لگانے والی بات چل نہیں سکتی کیونکہ امام عبدالرزاق نے صراحت کردی ہے کہ یہ نیک آدمی ہے ، اور جس کے پاس علم ہے وہ حجت ہے اس پر جس کے پاس علم نہیں ہے ، اور ظاہر یہی ہے کہ جن لوگوں نے اس کا ترجمہ لکھا ہے وہ لوگ امام عبدالرزاق کی اس صراحت پر آگاہ نہیں ہوسکے ورنہ اسے بھی نقل کرتے“ [جلباب المرأة المسلمة ص: 144]
اس تفصیل سے واضح ہوجاتا ہے کہ یہ راوی ثقہ ہے ، اور ساتھ ہی یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ صحیح مسلم کی اس حدیث کو طاوس سے صرف ابن طاوس ہی نے نہیں بلکہ عمرو بن دینار نے بھی نقل کیا ہے۔

(ب):متن میں اضطراب کا دعوی
ابو العباس القرطبي (المتوفى656) کا اعتراض:
ابو العباس القرطبي نے زیر بحث روایت کی سند پر جو اعتراض کیا تھا اس کا جواب سند کی بحث میں دیا جاچکا ہے ، انہوں نے نے اس کے متن میں بھی اضطراب کا اعتراض کیا ہے ،چنانچہ موصوف نے  سنن ابی داؤد سے ابن عباس رضی اللہ عنہ  کی وہ روایت  پیش کی جس میں غیر مدخولہ کا ذکر ہے اس کے بعد فرماتے ہیں:
”فقد اضطرب فيه أبو الصهباء عن ابن عباس في لفظه كما ترى“
”اس میں ابوالصھباء ابن عباس کے الفاظ بیان کرنے میں اضطراب کا شکار ہوا ہے جیساکہ آپ دیکھ رہے ہیں“[المفهم  للقرطبی 13/ 79]
عرض ہے کہ:
یہ غیر مدخولہ والی روایت ثابت ہی نہیں ہے ، بلکہ ضعیف ومردود ہے ، لہٰذا ایک ضعیف ومردود روایت کو لیکر اضطراب کا اعتراض کرنا باطل ہے ۔اس غیر مدخولہ والی روایت پر تفصیلی بحث آگے آرہی ہے ۔واضح رہے کہ ابوالصھباء نے کسی بھی سند میں اس روایت کو ابن عباس سے بیان نہیں کیا ہے بلکہ انہوں نے صرف سوال کیا تھا اور اصل حدیث کو امام طاووس نے ہی بیان کیا ہے، جیساکہ سند کی بحث میں ہم نے  ابو العباس القرطبي  کی اس غلط فہمی کی تردید کردی ہے۔

امام شوكاني رحمه الله (المتوفى1250) فرماتے ہیں:
”ومن الأجوبة دعوى الاضطراب كما زعمه القرطبي في المفهم، وهو زعم فاسد لا وجه له“ 
 ”اس حدیث کا ایک جواب دیتے ہوئے اس میں اضطراب کا دعوی کیا گیا ہے ، جیساکہ قرطبی نے ”المفهم“ میں گمان کیا ہے ور یہ گمان فاسد ہے اس کی کوئی بنیاد نہیں ہے“ [نيل الأوطار 6/ 277]

تنبیہ:
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے ابوالعباس القرطبی سے اضطراب کا اعتراض نقل کرتے ہوئے کہا:
”قال القرطبي في المفهم وقع فيه مع الاختلاف على بن عباس الاضطراب في لفظه وظاهر سياقه يقتضي النقل عن جميعهم ......“ 
 ”قرطبی نے المفھم میں کہا ہے کہ اس روایت میں ابن عباس رضی اللہ عنہ سے نقل کرنے میں اختلاف کے ساتھ ساتھ اس کے الفاظ میں اضطراب بھی واقع ہوا ہے اور اس کے سیاق کا ظاہر یہ تقاضا کرتا ہے کہ یہ بات اس وقت کے تمام لوگوں سے نقل ہونی چاہئے ....“ [فتح الباري لابن حجر، ط المعرفة: 9/ 364]
 عرض ہے کہ :
ابن حجررحمہ اللہ سے نقل میں چوک ہوئی کیونکہ ان الفاظ میں اضطراب کا اعتراض نہیں بلکہ تفرد کا اعتراض ہے جیساکہ ابوالعباس القرطبی کی کتاب میں ہے بلکہ ان الفاظ سے پہلے ابوالعباس القرطبی نے صاف لفظوں میں لکھا ہے:
 ”لو سلمنا سلامته من الاضطراب ...“ 
 ”اگر ہم یہ تسلیم کرلیں کہ یہ حدیث اضطراب سے محفوظ ہے یعنی مضطرب نہیں ہے تو ....“ [المفهم للقرطبی13/ 81]
اس کے بعد ابوالعباس نے مذکورہ اعتراض پیش کیا ہے جس سے واضح ہے کہ ان الفاظ میں اضطراب کا اعتراض نہیں بلکہ ابن عباس رضی اللہ عنہ پر تفرد کا اعتراض ہے اور اس کا جواب شروع میں دیا جاچکا ہے۔


✿ بعض معاصر دیوبندی حضرات کا اعتراض:
عصر حاضر کےبعض دیوبندی حضرات اس روایت پر اضطراب کا اعتراض اس طرح کرتے کہ :
ایک روایت میں عہد فارقی کی مدت ذکر نہیں ہے۔
ایک روایت میں عہد فاروقی کے تین سال کا ذکر ہے۔
ایک روایت میں عہد فاروقی کے دس سال کا ذکر ہے ۔

جوابا عرض ہے کہ:
 ❀  اولا:
اگر بالفرض اس کو اضطراب مان بھی لیں تو اس روایت میں صرف عہد فاروقی ک مدت کی مقدار والی بات مضطرب ہوگی باقی عہد فاروقی کا ذکر نیز روایت کے دوسرے حصوں کا ثبوت برقرار رہے گا کیونکہ ان میں ساری روایات کا متن یکساں ہے، اور یہ یکساں متن ہی محل شاہد ہے جو کہ اضطراب والے اعتراض کی زد سے محفوظ ہے ، لہٰذا محض مدت عہد فاروقی کی مقدار پر اضطراب کا اعتراض فضول ہے کیونکہ اس سے اصل متن حدیث پر کوئی فرق نہیں پڑتا ۔
❀  ثانیا:
مدت عہد فاروقی کے بیان میں مذکورہ تینوں باتوں میں کوئی حقیقی اختلاف نہیں ہے کیونکہ پہلی بات میں اجمال اوربقیہ میں تفصیل ہے اور اجمال اور تفصیل میں کوئی تعارض نہیں ہوتا ۔رہی دوسری اور تیسری بات تو اہل عرب کا معمول تھا کہ وہ مدت بتاتے وقت کسر(Fraction)کو کبھی مکمل کرکےبتاتے ، کبھی کسر (Fraction)کوختم کرکے بتاتے ، یعنی انہیں اگر ایک سال اور نصف سال ، یعنی ڈیڑھ سال کی مدت بتانی ہو تو وہ کبھی کسر (Fraction)کو مکمل کرکے دوسال ذکر کرتے ، اورکبھی کسر(Fraction) کو ختم کرکے ایک سال ذکر کرتے ، یہی معاملہ اس حدیث میں بھی ہے کیونکہ عہدفارقی کی مدت دوسال سے کچھ زائد ہے اس بناپر:
 ●  جس روایت میں صرف عہد کا ذکر ہے اس میں اجمال ہے ۔
 ● جس روایت میں تین سال کا ذکر ہے اس میں کسر کو مکمل کردیاگیا ہے ۔
 ● اور جس روایت دو سال کا ذکر ہے اس میں کسر کو ختم کردیا گیا ہے ۔

بطور مثال عرض ہے کہ انس رضی اللہ عنہ نے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نو سال کچھ ماہ خدمت کی ہے ، لیکن انس رضی اللہ عنہ جب اس خدمت کا تذکرہ کرتے تو کبھی اجمالا ذکر کرتے ، اور جب مدت کی تفصیل بتاتے تو کبھی کسر(Fraction) کو مکمل کرتے ہوئے دس سال بتاتے ، کبھی کسر (Fraction)کوختم کرکے نو سال بتاتے چنانچہ:
① ایک روایت میں انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں:
”فخدمته في السفر والحضر“ ، ”میں نے حضر اور سفر میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت کی ہے“ [صحیح بخاری رقم6911 ، صحیح مسلم رقم 2309]
② ایک دوسری روایت میں انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں:
 ”خدمت النبي صلى الله عليه وسلم عشر سنين“ ، ”میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دس سال خدمت کی ہے“ [صحیح بخاری رقم 6038 صحیح مسلم 2309]
③ ایک تیسری روایت میں انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں:
 ”خدمت النبي صلى الله عليه وسلم تسع سنين“ ، ”میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نو سال خدمت کی ہے“ [صحیح مسلم رقم 2309 مسند احمد رقم 11974]

ان روایت میں کوئی اضطراب نہیں ہے بلکہ اہل عرب کے معمول کے مطابق انس رضی للہ عنہ نے الگ الگ انداز میں یہ بیان کیا ہے چنانچہ پہلی بات میں اجمالا خدمت کا ذکر ہے اوربقیہ میں تفصیل ہے ، اوراجمال اور تفصیل میں کوئی تعارض نہیں ہے۔
رہی دوسری اور تیسری روایت تو دوسری روایت میں کسر(Fraction)کو مکمل کرکے ذکر کیا ہے اورتیسری روایت میں کسر (Fraction)کو ختم کرکے ذکر کیا ہے ۔ حافظ ابن حجرر حمہ للہ یہی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
”ولا منافاة بين الروايتين فإن مدة خدمته كانت تسع سنين وبعض أشهر فألغى الزيادة تارة وجبر الكسر أخرى“
”دونوں روایات میں کوئی تعارض نہیں ہے کیونکہ انس رضی اللہ عنہ کی خدمت کی مدت نوسال کچھ ماہ تھی ، تو کبھی انہوں نے کسر(Fraction)کو ختم کرکے بیان کیا اور کبھی کسر(Fraction) کو مکمل کرکے بیان کیا“ [فتح الباري لابن حجر، ط المعرفة: 9/ 231]

❀  ثالثا:
فریق مخالف طلاق ثلاثہ کے مسئلہ میں صحابہ کے فتاوی سے متعلق جو روایات پیش کرتے ہیں ان میں تو طلاق کی عدد وغیرہ کو لیکر اس سے بھی کہیں زیادہ اختلاف موجود ہے ، پھر اگر ان کے اضطراب والی پالیسی سے ان فتاوی والی روایات کو دیکھا جائے تو ان میں سے ایک روایت بھی اضطراب کی زد سے نہیں بچ پائے گی۔
مثلا تین طلاق کو تین بتانے سے متعلق فریق مخاف ابن عباس رضی اللہ عنہ کے اس فتوی کو پیش کرتے ہیں جسے ان سے ان کے شاگرد سعید بن جبیر نے روایت کیا اب اس کے متن میں اختلاف دیکھیں:
دارقطنی کی روایت میں ہے: ”طلق امرأته مائة“ ، ”اپنی بیوی کو سو طلاق دے دی“ [سنن الدارقطني 5/ 24]
عبدالرزاق کی روایت میں ہے: ”طلقت امرأتي ألفا“ ، ”میں نے اپنی بیوی کو ہزار طلاق دے دی“ [مصنف عبد الرزاق، ت الأعظمي: 6/ 397 ]
دارقطنی کی ایک اور روایت میں ہے : ”أن رجلا طلق امرأته عدد النجوم“ ، ”ایک شخص نے اپنی بیوی کو ستاروں کے مانید طلاق دے دی“ [سنن الدارقطني 5/ 38 ]
نوٹ:- پہلی یعنی دارقطنی والی روایت کی سند ضعیف ہے لیکن ہم الزاما اسے پیش کررہےہیں کیونکہ فریق مخالف نے اضطراب دکھانے کے لئے ہرطرح کی سندوں کو پیش کیاہے ، البتہ مؤخر الذکر دونوں روایات کی سند صحیح ہے۔
ملاحظہ فرمائیں:
پہلی روایت میں (سو طلا ق) کا ذکر ہے۔
دوسری میں اس سے دس گنا زائد یعنی( ہزار طلاق) کا ذکر ہے ۔
اور تیسری میں تو بے شمار یعنی (ستاروں کی تعداد کے برابر طلاق) کا ذکر ہے۔
لیکن فریق مخالف اس قدر اختلاف کے باوجود بھی ایسی روایت کو مضطرب نہیں کہتے ، ہم ان حضرات سے عرض کرتے ہیں کہ اگر آپ (سو) ، (ہزار) اور (ستاروں کی تعداد) جیسے تین مختلف بیانات کو بھی اضطراب کی دلیل نہیں مانتے تو صرف تین سال اور دو سال جیسے معمولی اختلاف کو کس منہ سے اضطراب کی دلیل بنائے پھرتے ہیں۔

✿ ایک دیوبندی مولانا منیر احمد منور صاحب دارقطنی کی سنن کی ایک روایت کاحوالہ دیتے ہوئے  اضطراب کی ایک اور شکل بتاتے ہوئے کہا کہ صحیح مسلم(1/ 478) کی روایت میں ہے ابوالصھباء نے ابن عباس رضی اللہ عنہ سے کہا : ”هات من هناتك“ اور سنن دارقطنی (5/ 80)کی روایت میں کہ ابن عباس نے ابوالصھباء سے یہی کہاہے [حرام کاری سے بچائے : ص332]

عرض کہ :
● اولا : 
اگر یہ اضطراب ثابت بھی ہوجائے تو اس روایت میں صرف یہ بات مشکوک ہوگی کہ یہ جملہ کس نے کہا لیکن اس کا اثر اس روایت کے دوسرے مضمون پر نہیں پڑے گا کیونکہ دوسرے مضمون میں کوئی اختلاف نہیں ہے ۔اور یہ دوسرا مضمون ہی استدلال کا محل ہے ، اور شروع کا جملہ کس نے کہا اس سے استدلال میں کچھ لینا دینا نہیں ، لہٰذا اس پر اضطراب کا اعتراض فضول ہے۔
● ثانیا:
علامہ عظیم آبادی رحمہ اللہ نے التعلق المغنی میں دارقطنی کی روایت اور مسلم کی روایت میں تطبیق دیتے ہوا کہا ہے کہ:
”ولا تعارض بين رواية المصنف ورواية مسلم ، فإنه يمكن أن ابن عباس سأله أولا عن أخبار و أمور كانت عنده فأجابه بما يستلزم السؤال عن هنات ابن عباس“ 
 ”مصنف (دارقطنی ) کی روایت اور مسلم کی روایت میں کوئی تعارض نہیں ہے کیونکہ ممکن ہے کہ ابن عباس رضی اللہ عنہ نے پہلے ابوالصھباء سے ان کے پاس موجود اخبار وامور سے متعلق پوچھا ہو پھر انہوں نے جواب دینے کے بعد اسی طرح ابن عباس رضی اللہ عنہ سے سوال کیا ہو“ [سنن الدارقطني، ت الارنؤوط: 5/ 80 -81]

فائدہ:-
مولانا منیر احمد منور صاحب نے  یہ روایت  دارقطنی کی سنن سے نقل کی ہے اور دارقطنی کی سند اس طرح ہے:
امام دارقطني رحمه الله (المتوفى385) نے کہا:
 ”نا ابن مبشر , نا أحمد بن سنان , نا محمد بن أبي نعيم , نا حماد بن زيد , نا أيوب , عن إبراهيم بن ميسرة , عن طاوس , أن أبا الصهباء جاء إلى ابن عباس , فقال له ابن عباس: «هات من هنيئاتك ومن صدرك ومما جمعت....الخ“ [سنن الدارقطني، ت الارنؤوط: 5/ 80]
اس کی سند میں ”محمد بن أبي نعيم“ ہے ، اکثر محدثین نے اس کی توثیق کی ہے چنانچہ
امام أحمد بن سنان رحمه الله (المتوفى259) نے کہا:
”ثقة صدوق“ ، ”یہ ثقہ وصدوق ہے“ [الجرح والتعديل لابن أبي حاتم، ت المعلمي: 8/ 83 وإسناده صحيح]

امام أبو زرعة الرازي رحمه الله (المتوفى264) نے ان روایت کیا [الجرح والتعديل لابن أبي حاتم، ت المعلمي: 8/ 83]
اور یہ صرف ثقہ سے روایت کرتے ہیں ۔

امام أبو حاتم الرازي رحمه الله (المتوفى277) نے کہا:
 ”صدوق“ ، ”یہ صدوق ہے“ [الجرح والتعديل لابن أبي حاتم، ت المعلمي: 8/ 83]

ان سب کے برخلاف امام ابن معین رحمہ اللہ (المتوفى233)نے ان پر شدید جرح کرتے ہوئے کہا:
 ”كذاب خبيث“ ، ”یہ بہت بڑا جھوٹا اور خبیث ہے“ [الكامل لابن عدي طبعة الرشد: 9/ 358وإسناده صحيح]
لیکن امام ابوحاتم نے بذات خود ابن معین سے سخت جرح نقل کرنے کے باوجود خود اسے صدوق کہا ہے۔[الجرح والتعديل لابن أبي حاتم، ت المعلمي: 8/ 83]
جس سے اشارہ ملتا ہے کہ ابن معین رحمہ اللہ کی جرح مقبول نہیں ہے ۔
شاید یہی وجہ ہے کہ حافظ ابن حجررحمہ اللہ نے ابن معین کی جرح کو رد کرتے ہوئے اسے صدوق قرار دیتے ہوئے کہا:
 ”صدوق لكن طرحه بن معين“ ، ”یہ صدوق ہے لیکن ابن معین نے اس پرسخت جرح کی ہے“ [تقريب التهذيب لابن حجر: رقم 6337]
بنابریں ہمارے نزدیک بھی راجح یہی معلوم ہوتا ہے کہ یہ راوی صدوق ہے ۔
علامہ البانی رحمہ اللہ بھی فرماتے ہیں:
”وابن أبي نعيم صدوق“ ، ”ابن ابی نعیم صدوق ہے“ [سلسلة الأحاديث الضعيفة 3/ 271]
بہرحال یہ الفاظ اصل حدیث کے مضطرب ہونے پر دلالت نہیں کرتے کیونکہ تطبیق پیش کی جاچکی ہے ، نیز اصل حدیث سے ان الفاظ کا کوئی تعلق بھی نہیں ہے جیساکہ وضاحت کی جاچکی ہے

(ج): متن کے مرفوع ہونے سے انکار
بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ متن مرفوع نہیں ہے۔کیونکہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ایسا ہونے سےیہ ضروری نہیں ہے کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم تک بھی یہ بات پہنچی ہو اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا اقرار کیا ہو ، ابن حجررحمہ اللہ نے بعض کہہ کے یہ اعتراض نقل کیا ہے لیکن معترض کے نام کی صراحت نہیں کی ہے[فتح الباري لابن حجر، ط المعرفة: 9/ 365]
جوابا عرض ہے کہ:

✿ اولا:
امام ابن القيم رحمه الله (المتوفى751) اس کا جوب دیتے ہوئے فرماتے ہیں:
”هذا بهتان عظيم أن يستمر هذا الجعل الحرام المتضمن لتغيير شرع الله ودينه، وإباحة الفرج لمن هو عليه حرام، وتحريمه على من هو عليه حلال، على عهد رسول الله - صلى الله عليه وسلم - وأصحابه خير الخلق، وهم يفعلونه، ولا يعلمونه، ولا يعلمه هو، والوحي ينزل عليه، وهو يقرهم عليه، فهب أن رسول الله - صلى الله عليه وسلم - لم يكن يعلمه، وكان الصحابة يعلمونه، ويبدلون دينه وشرعه، والله يعلم ذلك، ولا يوحيه إلى رسوله، ولا يعلمه به، ثم يتوفى الله رسوله - صلى الله عليه وسلم - والأمر على ذلك، فيستمر هذا الضلال العظيم، والخطأ المبين عندكم مدة خلافة الصديق كلها يعمل به ولا يغير إلى أن فارق الصديق الدنيا، واستمر الخطأ والضلال المركب صدرا من خلافة عمر، حتى رأى بعد ذلك برأيه أن يلزم الناس بالصواب فهل في الجهل بالصحابة، وما كانوا عليه في عهد نبيهم وخلفائه أقبح من هذا“ 
 ”یہ بہت بڑا بہتان ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں اللہ کی شریعت اور دین کی تبدیلی پر مبنی یہ حرام کا ہوتا رہا اور جو شرمگاہ جس پر حرام تھی اسے اس کے لئے حلال کیا جاتا رہا اور جس کے لئے حلال تھی اس کے لئے حرام کیا جاتارہا یہ سب صحابہ کرتے رہے اورانہیں اس کے حرام ہونے کا علم نہ ہوا ،اور نہ ہی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی خبر ہوئی اور وحی نازل ہوتی رہی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کا اقرار کرتے رہے ، ذرا فرض کیجئے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو اس بات کا علم نہیں ہوا اور صحابہ اس مسئلہ کو ایسے ہی سمجھتے رہے اور اللہ کے دین و شریعت کو بدلتے رہے ، اور اللہ ان باتوں کو جانتا تھا لیکن اپنے رسول پر وحی کرکے ان باتوں سے باخبر و آگاہ نہیں کیا ، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوجاتی ہے اور معاملہ ایسے ہی چلتا رہتا ہے، اور تمہارے بقول یہ سنگین گمراہی اور واضح غلطی ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پورے دور خلافت تک جاری رہتی ہے ، اس پر عمل کیا جارہا ہے اور ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ بھی ان کی اصلاح نہیں کرتے ، یہاں تک اس دنیا سے رخصت ہوجاتے ہیں ، اور اس غلطی اور گمراہی کا سلسلہ عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے ابتدائی دور تک چلتا رہتا ہے ، اس کے بعد عمر فاروق رضی اللہ عنہ کو توفیق ملتی ہے کہ وہ اپنی رائے سے لوگوں کی اصلاح کریں ، تو بتلائیے کہ صحابہ کی لاعلمی اور عہدرسالت اور عہد خلفاء میں صحابہ کی بدعملی کی اس سے بدترین کوئی مثال ہوسکتی ہے ؟“ [زاد المعاد، ن مؤسسة الرسالة: 5/ 246]

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ اس کا جواب دیتے ہوئے لکھتے ہیں:
 ”وتعقب بأن قول الصحابي كنا نفعل كذا في عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم في حكم الرفع على الراجح حملا على أنه اطلع على ذلك فأقره“ 
 ”اور اس اعتراض کا یہ جواب دیا گیا ہے کہ صحابی کا یہ کہنا کہ ہم اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں ایسا کرتے تھے یہ راجح قول کے مطابق مرفوع کے حکم میں ہے یہ اس بات پر محمول ہے کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی اطلاع ہوئی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا اقرار کیا“ [فتح الباري لابن حجر، ط المعرفة: 9/ 365]

محمود عالم صفدر اوکاڑوی دیوبندی صاحب لکھتے ہیں:
”( أنهم كانوا يفعلون في زمان النبي صلي الله عليه وسلم كذا) یہ بھی حکما مرفوع ہی ہے ، یہ اس لئے کہ چونکہ صحابہ کو دینی امور کے متعلق آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے تحقیق کرنے کا نہایت شغف تھا ۔ لہٰذا ممکن نہیں کہ آپ کو اطلاع کئے بغیر انہوں نے اس فعل کو کیا ہو ، علاوہ اس کے وہ وحی کا زمانہ تھا اس لئے اگر وہ فعل ناجائز ہوتا تو ممکن نہیں صحابہ اس کو ہمیشہ کریں اور بذریعہ وحی روکے نہ جائیں“ [قطرات العطر : ص 248، 249]

عصر حاضر کے بعد دیوبندیوں نے اعتراض کرتے ہوئے یہ مثال دی ہے کہ عہدرسالت میں ایک موقع پر عماربن یاسر رضی اللہ عنہ نے جنابت کے بعد تیمم کرتے وقت پورے بدن پر مٹی ملی اور عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے پانی نہ ملے پر نماز ہی نہیں پڑھی جیساکہ صحیح بخاری حدیث نمبر (338 )میں ہے ۔
عرض ہے کہ:
یہ مثال خود ان کے خلاف ہے کیونکہ اسی حدیث میں یہ مذکور ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی اطلاع دی گئی پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تیمم کا صحیح طریقہ سکھایا چنانچہ اس حدیث میں عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ کے الفاظ ہیں:
 ”فذكرت للنبي صلى الله عليه وسلم، فقال النبي صلى الله عليه وسلم: «إنما كان يكفيك هكذا» فضرب النبي صلى الله عليه وسلم بكفيه الأرض، ونفخ فيهما، ثم مسح بهما وجهه وكفيه“ 
 ”تو میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا تذکرہ کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا: تمہارے لئے کافی تھا کہ تم اس طرح کرلیتے ، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی دونوں ہتھیلیوں کو زمین پرمارا پھر ان میں پھونکا پھر انہیں چہرے اور دونوں ہتھیلیوں پر پھیرا“ [صحيح البخاري 1/ 75 رقم 338 ]
یہ حدیث تو اس بات کی دلیل ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں صحابہ جو کرتے تھے اس کی اطلاع نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دی جاتی تھی اور اگر وہ کام غلط ہوتا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس کی اصلاح کرتے ۔

 ✿ ثانیا:
احناف یہ مانتے ہیں کہ فطرہ میں گیہوں کی مقدار نصف صاع ہے اور یہی صحیح بھی ہے ، امام طحاوی حنفی رحمہ اللہ نے اس کی دلیل میں یہ حدیث پیش کیا ہے:
امام طحاوي رحمه الله (المتوفى321)نے کہا:
 ”حدثنا فهد بن سليمان , وعلي بن عبد الرحمن قالا: حدثنا ابن أبي مريم قال: أخبرني يحيى بن أيوب أن هشام بن عروة حدثه عن أبيه أن أسماء ابنة أبي بكر أخبرته أنها كانت تخرج على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم عن أهلها الحر منهم والمملوك مدين من حنطة أو صاعا من تمر“ 
 ”اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہا نے بیان فرمایا کہ وہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں اپنے گھرانے میں ہرایک کی طرف سے خواہ آزاد ہوں یا غلام ، دو مد (یعنی آدھا صاع ) گیہوں یا ایک صاع کھجور نکالتی تھیں“ [شرح مشكل الآثار 9/ 27 رقم 3408 قال الالبانی اسنادہ صحیح علی شرط الشیخین وھو کذلک]۔
اس حدیث میں دیکھئے کہ اسماء رضی اللہ عنہا کے بارے میں ذکر ہے کہ وہ عہد رسالت میں نصف صاع گیہوں فطرہ میں دیتی تھیں ، لیکن یہاں یہ دعوی نہیں کیا جاتا کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی اطلاع نہیں ملی بلکہ عہد رسالت کے حوالے کی بناپر اسے مرفوع ہی مانا جاتا ہے ، یہی معاملہ طلاق والی صحیح مسلم کی اس حدیث کا بھی ہے۔

نیز عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے فطرہ میں اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے صرف دد چیز کھجو اور جو کا ذکر کیا ہے [صحيح البخاري 2/ 130 رقم1503]
لیکن ابوسعید الخدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
 ”كنا نخرج زكاة الفطر صاعا من طعام، أو صاعا من شعير، أو صاعا من تمر، أو صاعا من أقط، أو صاعا من زبيب“ 
 ”ہم فطرہ کی زکوٰۃ ایک صاع طعام یعنی ایک صاع جَو یا ایک صاع کھجور یا ایک صاع پنیر یا ایک صاع زبیب (کشمش) نکالا کرتے تھے“ [صحيح البخاري 2/ 131 رقم 1506]
یہاں ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ نے عہد رسالت میں بطور فطرہ پنیر اور کشمش دینے کا بھی ذکرکیا ہے ، اور ابن حزم ظاہری نے اس پر بھی یہ اعتراض کیا ہے کہ پنیر اور کشمش دینا اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں ہے اور اس حدیث کے بارے میں کہا :
 ”وهذا غير مسند“ ، ”یہ حدیث مرفوع نہیں ہے“ [المحلى لابن حزم، ت بيروت: 4/ 245]
اور دوسری جگہ کہا:
 ”إنه ليس من هذا كله خبر مسند؛ لأنه ليس في شيء منه أن رسول الله - صلى الله عليه وسلم - علم بذلك فأقره“ 
 ”ان میں سے کوئی حدیث مرفوع نہیں ہے کیونکہ ان میں سے کسی حدیث میں بھی یہ ذکر نہیں ہے کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کا علم ہوا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا اقرار کیا“ [المحلى لابن حزم، ت بيروت: 4/ 246]
کیا خیال ہے ؟
کیا اہل تقلید ابن حزم رحمہ اللہ کی طرح فطرہ میں صرف کھجور اور جو ہی دینے کو مرفوعا ثابت مانیں گے اور پنیر ، کشمش اورگیہوں والی احادیث کے مرفوع ہونے کا انکار کردیں گے ؟ اگر ایسا نہیں تو پھر صحیح مسلم کی اس حدیث کے مرفوع ہونے کا انکار بھی کوئی معنی نہیں رکھتا ۔

 ✿ ثالثا:
اس بات کا صراحتا ثبوت موجود ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں تین طلاق دی گئی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی اطلاع بھی ملی اور خود آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان تینوں طلاقوں کو ایک قرار دیاچنانچہ:
امام أحمد بن حنبل رحمه الله (المتوفى241)نے کہا:
 ”حدثنا سعد بن إبراهيم ، حدثنا أبي ، عن محمد بن إسحاق ، حدثني داود بن الحصين ، عن عكرمة ، مولى ابن عباس ، عن ابن عباس ، قال : طلق ركانة بن عبد يزيد أخو بني المطلب امرأته ثلاثا في مجلس واحد ، فحزن عليها حزنا شديدا ، قال : فسأله رسول الله صلى الله عليه وسلم : «كيف طلقتها ؟» قال : طلقتها ثلاثا ، قال : فقال : «في مجلس واحد ؟ » قال : نعم قال : «فإنما تلك واحدة فأرجعها إن شئت» قال : فرجعها فكان ابن عباس : يرى أنما الطلاق عند كل طهر“ 
 ”عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رکانہ بن عبدیزید نے اپنی بیوی کو ایک ہی مجلس میں تین طلاق دے دی، پھر اس پر انہیں شدید رنج لاحق ہوا ، تو اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے پوچھا: ”تم نے کیسے طلاق دی ؟“ انہوں نے کہا: میں نے تین طلاق دے دی ۔ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ سلم نے پوچھا: ”کیا ایک ہی مجلس میں ؟“ انہوں نے جواب دیا: جی ہاں ! تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”پھر یہ ایک ہی طلاق ہے تم چاہو تو اپنی بیوی کو واپس لے لو“ ، چنانچہ انہوں نے اپنی بیوی کو واپس لے لیا ۔ اس حدیث کی بنا پر ابن عباس رضی اللہ عنہ فتوی دیتے کہ طلاق الگ الگ طہر میں ہی معتبر ہوگی“ [مسند أحمد ط الميمنية: 1/ 265 رقم 2387 وإسناده صحيح]

اس حدیث کی استنادی حالت پر تفصیلی بحث آگے آرہی ہے ۔
اس حدیث کے سامنے آنے کے بعد اس دعوی کی قطعا کوئی گنجائش نہیں رہ جاتی ہے کہ عہد رسالت میں تین طلاق کو ایک ماننا نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں ہے ، کیونکہ اس حدیث میں صراحتا اس بات کا ثبوت موجود ہے اور یہ حدیث یہ بھی واضح کردیتی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان ہی کی بناپر عہد رسالت اور عہد صدیقی اور عہد فاروقی کے میں تین طلاق کو ایک مانا جاتا تھا ۔

متن پردوسرا اعتراض : متن کے محکم ہونے پر اعتراض
(الف) متن کے نسخ کا دعوی 
بعض لوگ کہتے ہیں کہ ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی صحیح مسلم والی حدیث منسوخ ہے ۔یہ اعتراض امام بیہقی رحمہ اللہ نے امام شافعی سے نقل کرکے اس کی تائید کرنے کی کوشش کی ہے[فتح الباري لابن حجر، ط المعرفة: 9/ 364، السنن الكبرى للبيهقي، ط الهند: 7/ 338]
امام طحاوی رحمہ اللہ نے بھی نسخ کی بات کہی ہے دیکھیں :[شرح معاني الآثار، ت النجار: 3/ 56]
عرض ہے کہ یہ اتنی کمزور اور بے کار بات کے زاہد کوثری جیسے متعصب حنفی شخص نے بھی اس بات کررد کردیا ہے چنانچہ لکھا:
”ولم أتعرض لإحتمال النسخ لأنه احتمال ضعيف جدا وإنما تعرض له الشافعي“ 
 ”ميں نے نسخ كا احتمال پيش کیونکہ یہ احتمال بہت ضعیف ہے ، اسے امام شافعی نے پیش کیا ہے“ [الإشفاق في أحكام الطلاق : ص 48]
دراصل منسوخ کا دعوی کرنے کے لئے ضروری ہے کہ آپ کے پاس صحیح سند سے ناسخ موجود ہو ، اور یہاں صحیح سند تو دور کی بات کسی ضعیف سند سے بھی ناسخ موجود نہیں ہے۔
امام ابن القيم رحمه الله (المتوفى751) فرماتے ہیں:
”وأما دعواكم نسخ الحديث، فموقوفة على ثبوت معارض مقاوم متراخ، فأين هذا؟“ 
 ”رہا تمہارا حدیث کے منسوخ ہونے کا دعوی ، تو اس کے لئے ضروی ہے کہ متاخر اور ثابت شدہ ناسخ موجود ہو ، لیکن اس کا وجود ہی کہاں ہے؟“ [زاد المعاد، ن مؤسسة الرسالة: 5/ 243]
.
بعض لوگ کہتے ہیں کہ اجماع اس کے منسوخ ہونے کی دلیل ہے۔
عرض ہے کہ:
اول تو تین طلاق کےتین ہونے پر اجماع ہوا ہی نہیں ، بلکہ تین طلاق کے ایک ہونے پر اجماع ہواہے۔
دوسرے یہ کہ اجماع یہ امت اور مخلوق کی طرف ہوتا ہے اور دین خالق یعنی اللہ کی طرف سے ہوتا ہے اور اللہ کے دین کو مخلوق یعنی امت منسوخ نہیں کرسکتی ، یہ واضح بات ہے۔
.
بعض لوگ کہتے ہیں کہ :
اجماع بذات خود ناسخ نہیں ہے لیکن یہ ناسخ کے وجود پر دلالت کرتا ہے ، یعنی عمرفاروق رضی اللہ عنہ کے سامنے یہ ناسخ تھا یہ اور بات ہے کہ ہم تک یہ نہیں پہنچ سکا۔
عرض ہے کہ:
اول تو عمرفاروق رضی اللہ عنہ نے جو فیصلہ کیا تھا اس میں قدیم حکم کے منسوخ ہونے کا فیصلہ تھا ہی نہیں ، بلکہ انہوں نے تو صاف اعتراف کیا کہ اس معاملے میں تمہارے لئے مہلت تھی لیکن تمہاری لا پرواہی کے سبب بطور سزا یہ مہلت ختم کی جاری اور اب طلاق بدعت نافذ کردی جائے گی۔
دوسرے یہ کہ اللہ تعالی نے دین کی حفاظت کی ذمہ داری لی ہے اور دین قرآن و حدیث دونوں پر مشتمل ہے اس لئے دین سےمتعلق قرآن کی کوئی آیت یا اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی کوئی حدیث قطعا گم نہیں ہوسکتی ، بلکہ قیامت تک محفوظ رہے گی جیسے قرآن محفوظ رہے گا۔
امام ابن حزم رحمه الله (المتوفى456) نے کہا:
”أن الله تعالى قد قال {إنا نحن نزلنا لذكر وإنا له لحافظون} فمضمون عند كل من يؤمن بالله واليوم الآخر أن ما تكفل الله عز وجل بحفظه فهو غير ضائع أبدا لا يشك في ذلك مسلم وكلام النبي صلى الله عليه وسلم كله وحي بقوله تعالى { وَمَا يَنْطِقُ عَنِ الْهَوَى ، إِنْ هُوَ إِلَّا وَحْيٌ يُوحَى} [النجم: 3، 4] والوحي ذكر بإجماع الأمة كلها والذكر محفوظ بالنص فكلامه عليه السلام محفوظ بحفظ الله عز وجل ضرورة منقول كله إلينا لا بد من ذلك فلو كان هذا الحديث الذي ادعى هذا القائل أنه مجمع على تركه وأنه منسوخ كما ذكر لكان ناسخه الذي اتفقوا عليه قد ضاع ولم يحفظ وهذا تكذيب لله عز وجل في أنه حافظ للذكر كله ولو كان ذلك لسقط كثير مما بلغ عليه السلام عن ربه وقد أبطل ذلك رسول الله صلى الله عليه وسلم في قوله في حجة الوداع اللهم هل بلغت“ 
 ”اللہ تعالی نے کہہ رکھا ہے کہ : (ذکرکو ہم نے ہی نازل کیا ہے اورہم ہی اس کی حفاظت کریں گے )[الحجر: 9] اس آیت کی بنا پر اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھنے والے ہرشخص کا یہ عقیدہ ہے کہ اللہ نے جس چیز کی حفاظت کا ذمہ لے لیا وہ کبھی بھی ضائع نہیں ہوسکتی ، اس میں کسی مسلمان کو کوئی شک نہیں ہے ، اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث بھی سب کی سب وحی ہیں جیساکہ اللہ نے کہا: { آپ اپنی خواہش سے کچھ نہیں بولتے بلکہ جو کچھ بھی بولتے ہیں وہ اللہ کی طرف سے وحی ہوتی ہے} [النجم: 3، 4] اور وحی بھی ذکر ہے جیساکہ اس پر ساری امت کااجماع ہے اور ذکر کی حفاظت کا ذمہ اللہ نے لے لیا ہے ، تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث بھی محفوظ ہیں ، اللہ نے ان کی حفاظت کی بھی ذمہ داری لی ہے ، ان ساری احادیث کا امت تک پہنچا ضروری ہے ۔تو یہ حدیث جس کے بارے میں اس شخص نے یہ دعوی کیا کہ اس کے ترک کرنے پراور اس کے منسوخ ہونے پر لوگوں کا اتفاق ہے جیساکہ یہ شخص کہتا ہے تو اس کا مطلب یہ نکلا کہ اس منسوخ حدیث کا جو ناسخ ہے وہ گم ہوگیا اور اس کی حفاظت نہیں ہوسکی ! اور ایسا کہنا اللہ تعالی کی اس بات کو جھٹلانا ہے کہ اس نے ہرذکر کی حفاظت کی ذمہ داری لی ہے ، اگر اس طرح کی باتیں مان لی جائیں تو اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے رب کے دین جو حصہ امت تک پہنچایا ہے ان میں سے اکثر حصہ ساقط قرار پائےگا ، نیز حجۃ االوداع کے موقع پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان کا بھی کوئی معنی نہیں رہ جائے گا کہ کہ اللہ گواہ رہ میں نے دین لوگوں تک پہنچا دیا ہے“ [الإحكام في أصول الأحكام لابن حزم 2/ 71]
حدیث کے محفوظ ہونے سے متعلق یہی بات شیخ الاسلام ابن تیمیہ نے بھی کہہ رکھی اور عصر حاضر کے عظیم محدث علامہ البانی رحمہ اللہ نے بھی یہی وضاحت کی ہے ۔دیکھئے: [جامع المسائل لابن تيمية - 4/ 162، التوسل أنواعه وأحكامه ص: 114]
معلوم ہوا کہ اجماع بھی ناسخ کے وجود پر دلیل نہیں ہے کیونکہ اگر کسی ناسخ کا وجود ہوتا تو وہ ناسخ گم نہیں ہوسکتا تھا بلکہ اللہ اسے محفوظ رکھتا ۔واضح رہے کہ اجماع کا یہ دعوی بھی محض خیالی ہے اس کی کوئی سچائی نہیں ہے ، جیساکہ آگے تفصیل آرہی ہے ۔

نسخ کی دلیل کے لئے پیش کی جانے والی ابوداؤد کی حدیث کاجائزہ:
بعض لوگوں نے ابن عباس رضی اللہ عنہ کے اس قول سے نسخ پراستدلال کرنے کی کوشش کی ہے ، امام أبوداؤد رحمه الله (المتوفى275) نے کہا:
”حدثنا أحمد بن محمد المروزي، حدثني علي بن حسين بن واقد، عن أبيه، عن يزيد النحوي، عن عكرمة، عن ابن عباس قال: {والمطلقات يتربصن بأنفسهن ثلاثة قروء، ولا يحل لهن أن يكتمن ما خلق الله في أرحامهن} الآية، وذلك أن الرجل كان إذا طلق امرأته، فهو أحق برجعتها، وإن طلقها ثلاثا، فنسخ ذلك، وقال: {الطلاق مرتان}“ 
 ”عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے {اور جن عورتوں کو طلاق دے دی گئی ہے وہ تین طہر تک ٹھہری رہیں اور ان کے لیے حلال نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے رحم میں جو پیدا کر دیا ہے اسے چھپائیں} یہ اس وجہ سے کہ جب آدمی اپنی بیوی کو طلاق دے دیتا تھا تو رجعت کا وہ زیادہ حقدار رہتا تھا گرچہ اس نے تین طلاقیں دے دی ہوں پھر اسے منسوخ کر دیا گیا اور ارشاد ہوا «الطلاق مرتان» یعنی طلاق کا اختیار صرف دو بار ہے“ [سنن أبي داود 2/ 259 رقم 2195]
ابن عباس رضی اللہ عنہ کے اس قول کو بعض لوگوں نے اس بات کی دلیل بنانے کی کوشش کی ہے کہ طلاق ثلاثہ کو ایک ماننے والی بات منسوخ ہے[فتح الباري لابن حجر، ط المعرفة: 9/ 364، السنن الكبرى للبيهقي، ط الهند: 7/ 338]

عرض ہے کہ:
 ❀ اولا:
اس حدیث کا صحیح مفہوم یہ ہے کہ پہلے لوگوں کے لئے طلاق دینے کی تعداد مقرر نہیں تھی ، اور ایک شخص بار بار طلاق دے کر بار بار رجوع کرتا رہتا، خواہ وہ الگ الگ زمانے میں ہی طلاق دیتا تھا ، مثلا ایک شخص نے ایک طلاق دے کر رجوع کیا ، پھر ایک مدت کے بعد دوسری طلاق دے کر پھر رجوع کیا ، پھر ایک مدت کے بعد تیسری طلاق دیا تو اس سے بھی رجوع کرسکتا تھا ، حتی کہ اس کے بعد چوتھی طلاق دے کر اس سے بھی رجوع کرسکتا تھا ، یعنی اسی طرح زندگی بھر وہ طلاق اور رجوع کا سلسلہ جاری رکھ سکتا تھا ، خواہ ہر طلاق الگ الگ زمانہ میں ہی دی ہو ، تو اللہ تعالی نے اسی سلسلہ پر روک لگائی ۔
اس کی دلیل یہ ہے کہ اسی حدیث میں آگے ابن عباس رضی اللہ عنہ نے کہا:
 ”فنسخ ذلك، وقال: {الطَّلَاقُ مَرَّتَانِ}“ 
 ”پھر یہ چیز منسوخ کردی گئی اور اللہ نے کہا: {طلاق (رجعی) دوبار ہی ہے}“ [ سنن أبي داود رقم 2195]
اور ان دو کے بعد تیسری بار طلاق دے گا تو بیوی حرام ہوجائے گی جیساکہ اس آیت کے بعد فورا ہے :
 {فَإِنْ طَلَّقَهَا فَلَا تَحِلُّ لَهُ مِنْ بَعْدُ حَتَّى تَنْكِحَ زَوْجًا غَيْرَهُ} 
 {اگر اس کے بعد پھر(یعنی تیسری بار) طلاق دے گا تو اس کی بیوی حرام ہوجائے گی جب تک دوسرے شوہر سے شادی نہ کرے} [البقرة: 230]
معلوم ہوا کہ ابن عباس رضی للہ عنہ یہاں جس چیز کو منسوخ بتارہے ہیں وہ بغیر کسی حد کے بار بار طلاق اور بار بار رجوع کا معاملہ ہے نہ کہ بیک وقت تین طلاق کو ایک ماننے کا معاملہ ۔
اور ناسخ اس حکم کو بتارہے ہیں کہ اس کے بعد تین طلاق کی حد متعین کردی گئی ، یعنی اب اگر کوئی دو بار طلاق دے کر رجوع کرلیا ، تو تیسری بار طلاق کی صورت میں اسے رجوع حق نہیں ملے گا بلکہ اس کی بیوی اس کے لئے حرام ہوجائے گی۔

امام ابن كثير رحمه الله (المتوفى774) رحمہ اللہ نے بھی ابن عباس رضی اللہ عنہ کی اس حدیث کا یہی مفہوم بیان کیا ہے چنانچہ کہا:
 ”هذه الآية الكريمة رافعة لما كان عليه الأمر في ابتداء الإسلام، من أن الرجل كان أحق برجعة امرأته، وإن طلقها مائة مرة ما دامت في العدة، فلما كان هذا فيه ضرر على الزوجات قصرهم الله عز وجل إلى ثلاث طلقات، وأباح الرجعة في المرة والثنتين، وأبانها بالكلية في الثالثة، فقال: {الطَّلاقُ مَرَّتَانِ فَإِمْسَاكٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِيحٌ بِإِحْسَانٍ}“ 
 ”یہ آیت کریمہ اس حکم کو ختم کرتی ہے جو ابتداء اسلام میں تھا ، اس طرح کی ایک آدمی طلاق دینے کے بعد عدت میں رجوع کرسکتا تھا خواہ سیکڑوں بار طلاق دے چکا ہو ، لیکن اس میں بیویوں کے لئے مصیبت تھی اس لئے اللہ تعالی نے تین طلاق تک حد مقرر کردی اور پہلی اور دوسری طلاق کے بعد ہی رجوع کا اختیار دیا ، اور تیسری بار طلاق دینے پر عورت کو کلی طور سے جدا کردیا چنانچہ فرمایا: {طلاق دو مرتبہ ہیں، پھر (ہرایک کے بعد) یا تو اچھائی سے روکنا ہے یا عمدگی کے ساتھ چھوڑ دینا ہے}“ [تفسير ابن كثير / دار طيبة 1/ 610]
یہ کہنے کے فورا بات امام ابن کثیر رحمہ اللہ نے اپنی تائید میں ابن عباس رضی اللہ عنہ کی اسی حدیث کو پیش کیا ہے ، جس واضح ہے کہ امام ابن کثیر رحمہ اللہ نے اس حدیث کا یہی مفہوم سمجھا ہے ۔

بلکہ ایک دوسری مرسل حدیث سے بھی ابن عباس رضی اللہ عنہ کی اس حدیث کا یہی مفہوم واضح ہوتا ہے چنانچہ:
امام مالك رحمه الله (المتوفى 179) نے کہا:
 ”عن هشام بن عروة، عن أبيه أنه قال: كان الرجل إذا طلق امرأته ثم ارتجعها قبل أن تنقضي عدتها، كان ذلك له، وإن طلقها ألف مرة فعمد رجل إلى امرأته فطلقها حتى إذا شارفت انقضاء عدتها راجعها، ثم طلقها، ثم قال لا والله لا آويك إلي، ولا تحلين أبدا، فأنزل الله تبارك وتعالى {الطَّلَاقُ مَرَّتَانِ فَإِمْسَاكٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِيحٌ بِإِحْسَانٍ} فاستقبل الناس الطلاق جديدا من يومئذ، من كان طلق منهم أو لم يطلق“ 
 ”عروہ بن زبیر فرماتے ہیں کہ پہلے ایک آدمی جب اپنی بیوی کوطلاق دیتا تھا اور عدت ختم ہونے قبل رجوع کرلیتا تھا ،تو اس کے لئے یہ جائز تھا خواہ وہ ہزار بار ایسا کرے ، تو ایک شخص نے اپنی بیوی کو طلاق دے دیا یہاں تک جب اس عدت کے اختتام کا وقت آیا تو پھر سے رجوع کرلیا ، اور اس کے بعد پھر طلاق دے دیا اور کہا کہ : اللہ کی قسم میں تجھے نہیں اپناؤں گا اور تو کبھی حلال بھی نہیں ہوسکتی ، تو اللہ تعالی نے یہ آیت نازل کی : {طلاق دو مرتبہ ہیں، پھر (ہرایک کے بعد) یا تو اچھائی سے روکنا ہے یا عمدگی کے ساتھ چھوڑ دینا ہے} پھر اس دن کے بعد سے لوگوں نے نئے طریقہ پر طلاق دینا شروع کیا ، جو پہلے طلاق دے چکے تھے وہ بھی اور جنہوں نے نہیں دیا انہوں نے بھی“ [موطأ مالك ت عبد الباقي: 2/ 588 وإسناده صحيح إلي عروة]
عروہ تک اس کی سند صحیح ہے۔
لیکن عروۃ نے اسے مرسلا بیان کیا ہے، اور مرسل حدیث احناف کے یہاں حجت ہوتی ہے۔
بہرحال ابن عباس رضی اللہ عنہ نے اس حدیث میں بیک وقت تین طلاق کو ایک ماننے والے مسئلہ کو منسوخ نہیں بتایا ہے بلکہ ابتدائے اسلام میں میں لا محدود طلاق دینے اور رجوع کرنے کے حکم کو منسوخ بتایا ہے۔
اس کی ایک زبردست دلیل یہ بھی کہ فرمان فاروقی والی حدیث میں ابن عباس رضی اللہ عنہ نے ہی صراحت کی ہے کہ عہدرسالت ، عہد صدیقی اور عہد فاروقی کے ابتدائی دوسال تک تین طلاق کو ایک مانا جاتا تھا اس کا معنی یہ ہوا کہ ابن عباس رضی اللہ عنہ بیک وقت تین طلاق کے ایک ماننے کو منسوخ نہیں جانتے تھے۔

 ❀ ثانیا:
ابن عباس رضی اللہ عنہ کی یہ حدیث ضعیف ہے۔
سند میں ”علي بن حسين بن واقد“ ضعیف راوی ہے ۔
امام نسائی نے ”ليس به بأس“ کا قول منقول ہے لیکن ان سے بسند صحیح ثابت نہیں ہے ۔
امام ابن حبان رحمہ اللہ نے اسے ثقات میں ذکر کیا ہے لیکن کوئی صریح توثیق نہیں کی ہے۔
اس کے مقابل میں امام أبو حاتم الرازي رحمه الله (المتوفى277) نے کہا:
 ”ضعيف الحديث“ ، ”یہ ضعیف الحدیث ہے“ [الجرح والتعديل لابن أبي حاتم، ت المعلمي: 6/ 179وإسناده صحي]

امام ابوحاتم رحمہ اللہ کی اس صریح تضعیف کے مد مقابل کوئی بھی توثیق موجود نہیں ہے ۔
متاخرین میں بعض نے اسے سچا کہا ہے لیکن حفظ وضبط کے لحاظ سے اسے ثقہ نہیں مانا ہے مثلا امام ذہبی(المتوفى748) رحمہ اللہ نے کہا:
 ”صدوق وثق“ ، ”یہ سچا ہے اس کی کمزور توثیق کی گئی ہے“ [المغني في الضعفاء للذهبي، ت نور: 2/ 445]
امام ذہبی رحمہ اللہ صیغہ تمریض کے ساتھ ”وثق“ اس راوی کے بارے میں کہتے ہیں جسے ابن حبان رحمہ اللہ نے ثقات میں ذکر کیا ہو اور اس کی کوئی معتبر توثیق موجود نہ ہو۔
مثلا ”عبد الله بن أبي الجعد“ کو ابن حبان نے ثقات میں ذکر کیا اور باقی کسی نے ان کو ثقہ نہیں کہا ہے تو امام ذہبی رحمہ اللہ نے کہا:
 ”عبد الله هذا وإن كان قد وثق ففيه جهالة“ ، ”عبداللہ ، اس کی گرچہ کمزور توثیق کی گئی ہے لیکن اس کے اندر جہالت ہے“ [ميزان الاعتدال للذهبي ت البجاوي: 2/ 400]
اس سے واضح ہوتا ہے کہ صیغہ تمریض کے ساتھ ”وثق“ کا لفظ امام ذہبی رحمہ اللہ کی خاص اصطلاح ہے جس سے وہ یہ بتانا چاہتے ہیں کہ ابن حبان نے اسے ثقات میں ذکرکیاہے اور یہ کمزور توثیق ہے ، جیساکہ ان کی ساری کتابوں سے یہ واضح ہے ۔
بہرحال اس روای کی کوئی بھی ایسی توثیق موجود نہیں ہے جو امام ابوحاتم رحمہ اللہ جیسے زبردست ناقد ومتقدم امام کی صریح تضعیف کا مقابلہ کرسکے اس لئے یہ راوی ضعیف ہی ہے۔
.
تحرير التقريب كي مؤلفين (دكتور بشار عواد اور شعيب ارنؤوط):
 ”ضعيفٌ يعتبر به في المتابعات والشواهد“ ، ”یہ ضعیف ہے ، متابعات اور شواہد میں اس کا اعتبار کیا جاسکتا ہے“ [تحرير تقريب التهذيب رقم 4717]

نوٹ:-
علامہ البانی رحمہ اللہ نے مؤطا کی عروہ بن زبیر والی مرسل حدیث کو اس کا شاہد بناکراسے صحیح کہا ہے یعنی دونوں کے مفہوم کو ایک جانا ہے۔
لیکن فریق مخالف ان دونوں کے مفہوم کو ایک نہیں مانتے اس لئے ان فہم کے اعتبار سے عروہ بن زبیر والی مرسل حدیث اس کے لئے شاہد نہیں ہوسکتی ۔لہٰذا وہ ضعیف ہی رہے گی ۔نیز دیکھئے: [الحكم المشروع في الطلاق المجموع للمعلمی : ص61 ،62]

نسخ پر ابن عباس رضی اللہ عنہ کے فتوی سے استدلال:
بعض لوگوں نے اپنے مطلب کے لئے یہ اصول بنا رکھا ہے کہ صحابی اگر اپنی روایت کردہ حدیث کے خلاف فتوی دے تو وہ حدیث منسوخ ہوگی ، ابن عباس رضی اللہ عنہ کا فتوی ان کی اس حدیث کے خلاف ہے اس لئے یہ حدیث منسوخ ہے۔

عرض ہے کہ :
اولا:
یہ اصول باطل ہے کیونکہ مرفوع حدیث وحی ہے جو خالق کی طرف سے ہے ، جبکہ صحابی کاعمل وحی نہیں ہے اور مخلوق کی طرف سے ، پھر خالق کی بات کو مخلوق کی بات کیسےمنسوخ کرسکتی ہے ؟
اگرکہا جائے صحابی کا عمل ناسخ نہیں ہے لیکن صحابی کے علم میں نسخ کی دلیل ہوگی اسی لئے انہوں نے حدیث کے خلاف عمل کیا ، تو عرض ہے کہ اگر کسی ناسخ کا وجود ہوتا تو وہ ناسخ گم نہیں ہوسکتا تھا بلکہ اللہ اسے محفوظ رکھتا ، جیساکہ ماقبل میں وضاحت کی جاچکی ہے۔نیز صحابی کا اپنی روایت کردہ حدیث کے خلاف عمل حالات یا کسی مصلحت کے سبب بھی ہوسکتا ہے ، اس لئے نسخ کی دلیل قطعا نہیں ہوسکتا ۔
حافظ ابن حجر رحمه الله (المتوفى852) نے کہا:
”وأن الصحابي إذا عمل بخلاف ما رواه لا يكون كافيا في الحكم بنسخ مرويه“ 
 ”صحابی جب اپنی روایت کردہ حدیث کے خلاف عمل کرے تو یہ چیز اس کی حدیث کے منسوخ ہونے کے لئے کافی نہیں ہے“ [فتح الباري لابن حجر، ط المعرفة: 3/ 106]
ثانیا:
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے اس مفہوم کی حدیث روایت کی ہے کہ لونڈی کو آزاد کرنا طلاق نہیں ہے ، اور پھر اس کےخلاف انہوں نے یہ فتوی دیا ہے کہ لونڈی کو آزاد کرنا طلاق ہے ، لیکن کسی نے ابن عباس رضی اللہ عنہ کے اس فتوی کے سبب ان کی روایت کردہ حدیث کو منسوخ نہیں کہا ہے، جیساکہ تفصیل گذرچکی ہے ۔
نیز اماں عائشہ رضی اللہ عنہا نے لبن الفحل سے متعلق حرمت رضاعت والی حدیث نقل کی ہے اوراس کے خلاف خود اماں عائشہ رضی اللہ عنہا کا عمل وموقف یہ تھا کہ لبن الفحل کا اعتبار نہیں ہے ، اور احناف اس مسئلہ میں بھی اماں عائشہ رضی اللہ عنہا کا فتوی چھوڑ کی ان کی حدیث کو لیتے ، ان دونوں مسئلہ پر تفصیل بھی گذرچکی ہے۔ دیکھئے اسی کتاب کا صفحہ
ثالثا:
ابن عباس رضی اللہ عنہ نے صحیح مسلم والی اپنی اس حدیث کے موافق بھی فتوی دیا ہے جیساکہ اس سلسلے میں ان سے دس روایات آگے پیش کی جائیں گے ۔

مولانا کرم شاہ ازہری بریلوی فرماتے ہیں:
”مزید برآں حضرات فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ کے الفاظ اس جواب کو قبول نہیں کرتے ، آپ فرماتے ہیں: إن الناس قد استعجلوا في أمر قد كانت لهم فيه أناة ( یقینا لوگوں نے جلدی کرنا شروع کی اس میں جس میں ان کو مہلت ملی تھی ) ان الفاظ پر غور کیجئے اور بتائیے کہ کیا منسوخ حکم میں بھی کوئی مہلت ہوا کرتی ہے ؟ حکم تو منسوخ ہوچکا ، اس پرعمل پیرا ہونے سے روک دیا گیا اب اس میں مہلت کا کیا معنی ؟ تو معلوم ہوا کہ یہ حکم منسوخ نہ تھا ورنہ حضرت فاروق رضی اللہ عنہ یہ نہ فرماتے“[ دعوت فکرونظر: مطبوع در مجموعہ مقالات ص238 ]

(ب)  ابن عباس رضی اللہ عنہ کے فتوی سے معارضہ 
بعض لوگوں نے صحیح مسلم والی حدیث ابن عباس رضی اللہ عنہ کو یہ بہانا بناکر رد کرنے کی کوشش کی ہے کہ خود اس کے راوی عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کا فتوی اس کے خلاف ہے ۔
عرض ہے کہ:
امام بیہقی رحمہ اللہ ہی نے قرات خلف الامام کے مسئلہ میں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مرفوعا مروی ایک حدیث پر یہ اعتراض کیا کہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ہی سے موقوفا مروی حدیث اس کے خلاف ہے تو یہ اعتراض نقل کرکے اس کا جواب دیتے ہوئے مولانا سرفرازصفدر دیوبندی صاحب لکھتے ہیں:
 ”اعتراض : بیہقی رحمہ اللہ اس پر یہ اعتراض کرتے ہیں کہ اصل روایت میں لاصلاۃ خلف الامام کا جملہ نہیں ہے جیساکہ علاء بن عبدالرحمن رحمہ اللہ نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کا موقوف اثر نقل کیا ہے اور اس میں یہ جملہ مذکور نہیں ہے..الخ 
جواب: یہ اعتراض چنداں وقعت نہیں رکھتا اولا: اس لئے کہ مرفوع حدیث کو موقوف اثر کے تابع بناکر مطلب لینا خلاف اصول ہے ۔ وثانیا : اس کی بحث اپنے مقام پر آئے گی کہ اعتبار راوی کی مرفوع حدیث کا ہوتا ہے اس کی اپنی ذاتی رائے کااعتبار نہیں ہوتا“ [احسن الکلام 1/ 298]

مولانا سرفرازصفدر نے ایک دوسرے مقام پر لکھا:
 ”روایت کے مقابلے میں راوی کی رائے کا کوئی اعتبار نہیں ہوتا“ [احسن الکلام 2/ 118]
ایک بریلوی عالم کا بھی ایسا قول آگے آرہاہے ۔
اب اس اعتراض کے مزید جوابات ملاحظہ ہوں:
❀  اولا:
محدثین کے یہاں یہ مسلم ہے کہ کوئی بھی راوی اگر اپنی روایت کردہ حدیث کے خلاف عمل کرلے یا فتوی دے دے تو اس سے اس کی روایت کردہ حدیث پر کوئی جرح واقع نہیں ہوگی چنانچہ:

امام ابن الصلاح رحمه الله (المتوفى643) نے کہا:
”إن عمل العالم أو فتياه على وفق حديث ليس حكما منه بصحة ذلك الحديث، وكذلك مخالفته للحديث ليست قدحا منه في صحته ولا في راويه“ 
 ”عالم کا عمل یا فتوی کسی حدیث کے موافق ہوجائے تو یہ اس کی طرف سےاس حدیث کی تصحیح نہیں ہے ، اسی طرح عالم کا عمل یا فتوی کسی حدیث کے خلاف ہوجائے تو یہ اس کی طرف سے نہ تو اس حدیث پر کوئی جرح ہے اورنہ ہی اس کے راویوں پر پر کوئی جرح ہے“ [مقدمة ابن الصلاح، ت عتر: ص: 111]

امام نووي رحمه الله (المتوفى676) نے کہا:
 ”وعمل العالم وفتياه على وفق حديث رواه ليس حكماً بصحته ولا مخالفته قدح في صحته ولا في راويه“ 
 ”عالم کا کسی حدیث کے موافق عمل کرنا یہ فتوی دینا یہ اس کی طرف سےاس حدیث کی تصحیح نہیں ہے ، اسی طرح عالم کسی حدیث کی مخالفت کرنا اس کی طرف سے اس حدیث یا اس کے راویوں پر کوئی جرح نہیں ہے“ [التقريب والتيسير للنووي ص: 49]

ابن التركماني الحنفی رحمه الله (المتوفى750) نے کہا:
 ”مذهب الشافعي والمحدثين ان الراوي إذا روى حديثا ثم خالف كان العبرة لما روى لا لما رأى ولا يكون رأيه جرحا في الحديث“ 
 ”امام شافعی اور محدثین کا کہنا یہ ہے کہ راوی جب ایک حدیث بیان کرے اور اس کی مخالفت کردے تو اعتبار اس کی حدیث کا ہوگا نہ کہ اس کی مخالفت کا ، اور اس کی مخالفت اس کی روایت کردہ حدیث پر جرح شمار نہیں ہوگی“ [الجوهر النقي 2/ 159]

 ❀  ثانیا:
جب قرآن اور صحیح حدیث سے ایک مسئلہ ثابت ہوجائے تو اسی کو لیا جائے گا اس کے خلاف کسی بھی امتی کا قول نہیں لیا جاسکتا کیونکہ قرآن و حدیث وحی ہے جس میں غلطی کا امکان نہیں ہے جبکہ امتی کے قول میں غلطی کا امکان ہے اور یہ بھی ممکن ہے کہ امتی نے حالات یا کسی مصلحت کے سبب نص کے خلاف فتوی دیا ہو  جس میں وہ معذورہوں ۔
حتی کہ کوئی صحابی ایک حدیث روایت کریں اور خود اس کے خلاف فتوی دیں تو بھی ان کی روایت کردہ حدیث ہی کو لیا جائے گا نہ کہ اس کے خلاف ان کے فتوی کو ، کیونکہ ان کے اس طرح کے فتوی میں بھی مذکورہ احتمالات ہوسکتے ہیں ۔
بلکہ ابن عباس رضی اللہ عنہ ہی کی روایت کردہ بعض مرفوع احادیث اور ان کے خلاف ان کے فتوی کی کچھ مثالیں ملاحظہ ہوں:
پہلی مثال:
 بریرہ رضی اللہ عنہا جب لونڈی تھی تبھی ان کی شادی ہوگئی تھی بعد میں ان کے مالک نے انہیں اماں عائشہ رضی اللہ عنہا سے بیچ دیا اور اماں عائشہ رضی اللہ عنہا نے انہیں خریدنے کے بعد آزاد کردیا ، لیکن اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس خرید وفروخت کو طلاق قرار نہیں دیا بلکہ انہیں اختیاردیا کہ وہ چاہیں تو بدستور اپنے شوہر کی بیوی بنی رہیں اور چاہیں تو الگ ہوجائیں ۔
اس حدیث کو ابن عباس رضی اللہ عنہ نے بھی روایت کیا ہے جس کا مفاد یہ ہے کہ شادی شدہ لونڈی کو بیچ دینے یا اسے آزاد کردینے سے اس کی طلاق واقع نہیں ہوتی ہے۔لیکن دوسری طرف ابن عباس رضی اللہ عنہ سے بسند صحیح یہ فتوی بھی ثابت ہے کہ لونڈی کو بیچنا ہی اس کی طلاق ہے ،  یعنی  ابن عباس رضی اللہ عنہ نے اپنی ہی روایت کردہ حدیث کے خلاف فتوی دیا ہے ۔ لیکن اہل علم نے یہاں ان کے فتوی کو نہیں لیا بلکہ ان کی حدیث کو لیا ہے۔
لونڈی سے متعلق  ابن عباس رضی اللہ کی یہ حدیث اور اس کے خلاف ان کا فتوی ہم گذشتہ صفحات میں تفصیل سے پیش کرچکے ہیں ، دیکھئے: ص
دوسری مثال:
ابن عباس رضی اللہ عنہ نے یہ مرفوع حدیث روایت کی ہے کہ صلاۃ وسطی سے مراد صلاۃ عصر ہے ۔
امام أحمد بن حنبل رحمه الله (المتوفى241) نے کہا:
”حدثنا عبد الصمد ، حدثنا ثابت ، حدثنا هلال ، عن عكرمة ، عن ابن عباس ، قال : قاتل النبي صلى الله عليه وسلم عدوا ، فلم يفرغ منهم حتى أخر العصر عن وقتها ، فلما رأى ذلك قال : اللهم من حبسنا عن الصلاة الوسطى ، فاملأ بيوتهم نارا ، واملأ قبورهم نارا“ 
”ابن عباس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے قتال کیا اور دشمنوں سے عصر کے آخری وقت ہی فارغ ہوئے ، جب آپ نے یہ دیکھا تو فرمایا: اے اللہ ! جن لوگوں نے ہمیں صلاۃ وسطی سے روک دیا ہے ان کے گھروں اور قبروں کو آگ سے بھر دے“ [مسند أحمد ط الميمنية: 1/ 301 وإسناده صحيح وأخرجه عبد بن حميد في المنتخب طريق محمد بن الفضل عن ثابت به ، وأخرجه أيضا البزار كما في كشف الأستار 1/ 197 من طريق عباد بن العوام، و الطبراني في الكبير 11/ 329 والأوسط 2/ 284 من طريق أبي عوانه ، كلاهما عن هلال به]

لیکن ابن عباس رضی اللہ عنہ نے اپنی روایت کردہ اس حدیث کے خلاف یہ فتوی دیا ہے کہ صلاۃ وسطی سے مراد صلاۃ فجر ہے ۔
امام ابن أبي شيبة رحمه الله (المتوفى235) نے کہا:
 ”حدثنا وكيع، عن قرة, قال: حدثنا أبو رجاء، قال: صليت مع ابن عباس الصبح في مسجد البصرة، فقال: هذه الصلاة الوسطى“ 
 ”ابورجاء کہتے ہیں کہ میں نے ابن عباس رضی اللہ عنہ کے ساتھ بصرہ کی مسجد میں فجر کی نماز پڑھی تو انہوں نے کہا: یہی صلاۃ وسطی ہے“ [مصنف ابن أبي شيبة، ط الفاروق 3/ 516 وإسناده صحيح وأخرجه الطحاوی في شرح معاني الآثار، ت النجار: 1/ 170 من طريق أبي داؤد عن قرة به ،وأخرجه أيضا عبد الرزاق في مصنفه رقم 2207 والطحاوي في شرح معاني الآثار، ت النجار: 1/ 170 من طريق عوف عن أبي رجاء به ، وأخرجه أيضا اسماعيل القاضي من طريق آخر و صححه كما في التمهيد لابن عبد البر: 4/ 285، وله طرق كثيرة عن ابن عباس]
واضح رہے کہ جن روایات میں یہ آیا ہے کہ ابن عباس رضی اللہ عنہ نے بھی صلاۃ عصر کو صلاۃ وسطی کہا ہے وہ ساری روایات ضعیف ہے ، قدرے تفصیل کے لئے دیکھئے :[ تفسير سنن سعيد بن منصور:3/ 917 تا 920 حاشیہ]
تیسری مثال:
ابن عباس رضی اللہ ہی سے متعلق ایک اور مثال ایک بریلوی عالم کی زبانی سنئے ، مولانا کرم شاہ ازہری بریلوی صاحب فرماتے ہیں:
”ہم آپ کو فقہ کے بیسوں مسائل دکھا سکتے ہیں کہ فقہاء نے راوی کی روایت پر عمل کیا ہے اور اس کی رائے کو چھوڑ دیا ہے ، حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ ہی کی ایک مثال ملاحظہ فرماویں: ”عن ابن عباس أن النبي صلى الله عليه وسلم أمر أصحابه أن يرملوا الأشواط الثلاثة“ (بخاري رقم 1602)
اور آپ کا قول یہ ہے کہ ‌ ”ليس الرمل ‌بسنة“ (سنن أبي داود رقم 1885) اب عمل روایت پر ہے ان کی رائے پر نہیں“ [ دعوت فکرونظر: مطبوع در مجموعہ مقالات ص241]

اس دوسری مثال سے متعلق ابن حزم رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
 ”فإن قيل: إن ابن عباس قال في الرمل: ليس سنة، وهو راوي الحديث؟ قلنا: لا حجة في أحد مع رسول الله - صلى الله عليه وسلم“ 
 ”اگر کہا جائے کہ ابن عباس رضی اللہ عنہ کا فتوی ہے کہ رمل سنت نہیں ہے ، اور رمل والی حدیث ابن عباس رضی اللہ عنہ نے ہی روایت کی ہے ، تو ہم کہتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف کسی کا قول بھی حجت نہیں ہے“ [المحلى لابن حزم، ط بيروت: 5/ 84]

 ❀ ثالثا:
ابن عباس رضی اللہ عنہ نے اپنی اس حدیث کے موافق بھی فتوی دیا ہے جیساکہ اس سلسلے میں ان سے دس روایات آگے پیش کی جائیں گے ، اس لئے یہ اعتراض سرے  سے بے معنی ہوگیا ۔

(ج) نام نہاد اور خیالی اجماع سے معارضہ
بعض لوگ کہتے ہیں کہ تین طلاق کے ایک ماننے پر اجماع ہوگیا ہے اور غلط چیز پر امت کا اجماع نہیں ہوسکتا ، اس لئے اجماع پر اس حدیث کو مقدم نہیں کریں گے بلکہ کوئی بھی تاویل وتوجیہ کرکے اس حدیث کو ناقابل عمل قرا ردیں گے۔
عرض ہے کہ :
 ❀ اولا: 
یہاں جن بنادوں پر اجماع کا دعوی کیا جاتا ہے ان کی روشنی میں یہ اجماع معلوم نہیں بلکہ اجماع ظنی ہے اور اجماع ظنی قطعا حجت نہیں ہے ، اس کی تفصیل گذشتہ صفحات میں پیش کی جاچکی ہے دیکھئے:
 ❀ ثانیا:
 تین طلاق کو تین ماننے پر کبھی بھی اجماع نہیں ہوا بلکہ ہرصدی میں اختلاف کا ثبوت موجود ہے نیز ہر صدی میں تین طلاق کے ایک ہونے کا فتوی دینے والے اہل علم بھی موجود رہے ہیں اس بارے میں آگے مکمل تفصیل آرہی ہے۔
 ❀ ثالثا:
عہد صدیقی اورعہد فاروقی کے ابتدائی دوسال میں اسی بات پر اجماع ہوچکا ہے کہ تین طلاق ایک مانی جائے گی ، اور اس دور میں اس اجماع کے خلاف کسی کا بھی کوئی قول موجود نہیں ہے ، اس بارے میں تفصیل آگے آرہی ہے ، دیکھئے:
 لہٰذا ابن عباس رضی اللہ عنہ کی حدیث حقیقی اجماع کے موافق ہے اور فریق مخالف جس اجماع کا دعوی کرتے ہیں وہ کبھی واقع ہی نہیں  ہوا ہی نہیں ہے ۔

(د) غیرمقبول ہونے کا دعوی
بعض لوگوں کا کہنا ہے اس روایت کو محدثین اور فقہاء نے قبول نہیں کیا ہے ۔
عرض ہے کہ یہ دعوی بالکل بے بنیاد ہے ، محدثین کے نزدیک اس روایت کے قبول ہونے زبردست دلیل یہی ہے کہ امام مسلم نے اسے اپنی صحیح میں روایت کیاہے اور اور صحیح مسلم کی احادیث کے صحیح ومقبول ہونے پر امت کا اجماع ہے چنانچہ:

✿امام مسلم رحمه الله (المتوفى261) نے کہا:
”ليس كل شيء عندي صحيح وضعته ها هنا إنما وضعت ها هنا ما أجمعوا عليه“ 
 ”میں نے اس کتاب میں ہرصحیح حدیث درج نہیں کی ہے بلکہ صرف ان صحیح احادیث کو درج کیا ہے جن کی صحت پر محدثین کا اجماع ہے“ [صحيح مسلم 2/ 304 تحت رقم 404]

✿ محمد بن طاهر ابن القيسراني رحمه الله (المتوفى507) فرماتے ہیں:
 ”أجمع المسلمون على قبول ما أخرج في الصحيحين لأبي عبد اللّه البخاري ، ولأبي الحسين مسلم بن الحجاج النيسابوري“ 
 ”صحیحین میں امام بخاری ومسلم نے جو احادیث روایت کی ہیں ان کی قبولیت پر مسلمانوں کا اجماع ہے“ [صفوة التصوف لابن القيسراني (ورقۃ 87 ، 88) بحوالہ أحاديث الصحيحين بين الظن واليقين للشیخ الزاہدی ]

✿ امام ابن الصلاح رحمه الله (المتوفى643) لکھتے ہیں:
 ”جميع ما حكم مسلم بصحته من هذا الكتاب فهو مقطوع بصحته والعلم النظري حاصل بصحته في نفس الأمر وهكذا ما حكم البخاري بصحته في كتابه وذلك لأن الأمة تلقت ذلك بالقبول سوى من لا يعتد بخلافه ووفاقه في الإجماع“ 
 ”وہ تمام احادیث کہ جن کو امام مسلم نے اپنی کتاب میں صحیح کہاہے ان کی صحت قطعی ہے اور ان سے حقیقت میں علم نظری حاصل ہوتا ہے 'اسی طرح کامعاملہ ان احادیث کا بھی ہے کہ جن کو امام بخاری نے اپنی کتاب میں صحیح کہا ہے ۔اور اس کی وجہ یہ ہے کہ تمام امت کے نزدیک ان کتابوں کو 'تلقی بالقبول'حاصل ہے سوائے ان افراد کے کہ جن کے اختلاف یا اتفاق سے اس اجماع کی صحت پر کوئی اثر نہیں پڑتا“ [صيانة صحيح مسلم ص: 85]

✿ امام نووي رحمه الله (المتوفى676) فرماتے ہیں:
 ”اتفق العلماء رحمهم الله على أن أصح الكتب بعد القرآن العزيز الصحيحان البخاري ومسلم وتلقتهما الامة بالقبول“ 
 ”علماء رحمہم اللہ کا اتفاق ہے کہ قرآن عزیز کے بعدسب سے صحیح کتاب صحیح بخاری اور صحیح مسلم ہے ، امت کی طرف سے اسے تلقی بالقبول حاصل ہے“ [شرح النووي على مسلم 1/ 14]

✿ امام ابن كثير رحمه الله (المتوفى774) فرماتے ہیں:
 ”أجمع العلماء على قبوله وصحة ما فيه، وكذلك سائر أهل الإسلام“ 
 ”صحیح بخاری کی مقبولیت اور اس احادیث کی صحت پر علماء اور تمام مسلمانوں کا اجماع ہے“ [البداية والنهاية ط إحياء التراث 11/ 30]

✿ حافظ ابن حجر رحمہ الله (المتوفى852) نے کہا:
”وتلقي العلماء لكتابيهما بالقبول“ 
 ”علماء کے یہاں ان دونوں کتابوں کو تلقی بالقبول حاصل ہے“ [نزهة النظر في توضيح نخبة الفكر ص: 60]

✿ ملا علي القاري رحمہ اللہ(المتوفى1014)فرماتے ہیں:
 ”ثم اتفقت العلماء على تلقي الصحيحين بالقبول، وأنهما أصح الكتب المؤلفة“ 
 ”پھر علماء کا صحیحین کو قبول کرنے پر اتفاق ہے اور اس بات پر کہ تمام کتابوں میں یہ صحیح تریں کتابیں ہیں“ [مرقاة المفاتيح للملا القاري: 1/ 18]

جہاں تک فقہاء کی بات تو صحیح مسلم کی احادیث کی قبولیت پر اتفاق کرنے والوں میں فقہائے محدثین بھی شامل ہیں ، نیز ہرصدی میں اس حدیث کے مطابق فتوی دینے والے فقہاء موجود رہے ہیں جیساکہ آگے تفصیل آرہی ہے ۔
اور اس حدیث کی قبولیت پراجماع ہونے کے بعد نیز ہر صدی میں فقہاء کی ایک جماعت کا اس پر اعتماد کرنے اور اس کے مطابق فتوی دینے کے بعد بعض فقہاء کا اسے قبول نہ کرنا کوئی معنی نہیں رکھتا ہے۔

ہم یہاں احناف میں سے دو بڑے حنفی علماء کاحوالہ پیش کرتے ہیں جنہوں نے یہ شہادت کی ہے کہ محدثین وفقھاء نے اس حدیث کو نہ صرف صحیح تسلیم کیا ہے بلکہ اس سے استدلال کرتے ہوئے اس کے موافق موقف بھی اپنایا ہے۔
امام أبو جعفر طحاوي رحمه الله (المتوفى321) نے کہا:
 ”حدثنا روح بن الفرج قال ثنا أحمد بن صالح قال: ثنا عبد الرزاق قال: أخبرنا ابن جريج قال: أخبرني ابن طاوس , عن أبيه , أن أبا الصهباء قال لابن عباس: أتعلم أن الثلاث كانت تجعل واحدة على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم وأبي بكر وثلاثا من إمارة عمر؟ قال ابن عباس: «نعم» 
 قال أبو جعفر: فذهب قوم إلى أن الرجل إذا طلق امرأته ثلاثا معا , فقد وقعت عليها واحدة إذا كانت في وقت سنة , وذلك أن تكون طاهرا في غير جماع. واحتجوا في ذلك بهذا الحديث“ 
 ”امام طحاوی اپنی سند سے یہ حدیث نقل کرتے ہیں کہ ابوالصھباء نے ابن عباس رضی اللہ عنہ سے کہا: کیا آپ کوعلم ہے کہ عہد رسالت ، عہد صدیقی اور عمرفاروق رضی اللہ عنہ کے ابتدائی تین سال تک تین طلاق ایک شمار ہوتی تھی ؟ تو ابن عباس رضی اللہ عنہ نے کہا : ہاں !
امام ابوجعفر الطحاوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ : اہل علم کی ایک جماعت کا کہنا یہ ہے کہ جب کوئی شخص اپنی بیوی کو ایک ساتھ تین طلاق دے دے تو وہ ایک ہی طلاق شمار ہوگی ، اگر اس نے سنت کے مطابق دی ہے ، وہ اس طرح کی بیوی کی پاکی کی حالت میں ہمبستری سے پہلے طلاق دیا ، ان لوگوں یہ بات اسی حدیث سے استدلال کرتے ہوئے کہی ہے“ [شرح معاني الآثار، ت النجار: 3/ 55]

علامه عينى رحمه الله (المتوفى855) فرماتے ہیں:
”ووضع البخاري هذه الترجمة إشارة إلى أن من السلف من لم يجوز وقوع الطلاق الثلاث، وفيه خلاف. فذهب طاووس ومحمد بن إسحاق والحجاج بن أرطأة والنخعي وابن مقاتل والظاهرية إلى أن الرجل إذا طلق امرأته ثلاثا معا فقد وقعت عليها واحدة، واحتجوا في ذلك بما رواه مسلم“ 
 ”امام بخاری نے یہ ترجمہ قائم کرکے اس بات کی طرف اشارہ کیا ہے کہ سلف میں کچھ لوگ ایسے تھے جو تین طلاق کے وقوع کے قائل نہ تھے ، اور اس مسئلہ میں اختلاف ہے ، چنانچہ طاووس ، محمدبن اسحاق ، حجاج بن ارطاۃ ، نخعی ، ابن مقاتل اور ظاھریہ کا کہنا ہے کہ اگر آدمی نے اپنی بیوی کو ایک ساتھ تین طلاق دے دیا تو اس پر ایک ہی طلاق واقع ہوگئی ، اس کے لئے ان اہل علم نے صحیح مسلم کی حدیث سے استدلال کیا ہے“ [عمدة القاري شرح صحيح البخاري 20/ 233]

احناف کو کم از کم اپنے  ان دد بڑے اماموں کی شہادت پر یقین کرنا چاہئے جو کہہ رہے کہ محدثین و فقہاء نے اس حدیث کو قبول ہے اور اس سے استدلال کرتے ہوئے اس کے مطابق موقف اپنایاہے۔ 

No comments:

Post a Comment