متن پرچوتھا اعتراض : متعہ کو لیکر الزامی اعتراض - Kifayatullah Sanabili Official website

2020-02-15

متن پرچوتھا اعتراض : متعہ کو لیکر الزامی اعتراض


پچھلا
متن پرچوتھا اعتراض : متعہ کو لیکر الزامی اعتراض 
بعض لوگ الزاما متعہ والی یہ روایت پیش کرتے ہیں جس میں جابر رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ ہم نے عہد رسالت ، عہدصدیقی اور عہد فاروقی میں متعہ کیا پھر عمرفاروق رضی اللہ عنہ اپنے آخری دور میں اس سے منع کردیا تو اس کے بعد ہم دوبارہ متعہ نہیں کیا ۔پھر کہتے ہیں کہ یہی معاملہ ابن عباس رضی اللہ عنہ کی حدیث کا بھی ہے[فتح الباري لابن حجر، ط المعرفة: 9/ 365]

امام ابو عوانہ يعقوب بن إسحاق الإسفرائيني (المتوفى316) نے :
”حدثنا إسحاق، عن عبد الرزاق، عن ابن جريج، عن عطاء، قال: قدم جابر، فجئناه في منزله، فسأله القوم عن أشياء، ثم ذكروا له المتعة، فقال: نعم استمتعنا على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم وأبي بكر وعمر، حتى كان آخر خلافة عمر استمتع عمرو بن حريث، وذكر الحديث فنهانا عمر فلم نعد“ 
 ”امام عطاء فرماتے ہیں کہ جابر رضی اللہ عنہ تشریف لائے تو ہم ان کے گھر گئے اور لوگوں نے ان سے کئی باتیں پوچھیں پھر متعہ کاذکر کیا تو جابر رضی اللہ عنہ نے کہا: ہم نے عہد رسالت ، عہد صدیقی اور عہد فاروقی میں متعہ کیا یہاں تک عمر رضی اللہ عنہ کی خلافت کا آخری دور آیا اور عمرو بن حريث نے متعہ کیا پھر راوی نے پوری حدیث بیان کی کہ اس کے بعد عمرفاروق رضی اللہ عنہ نے ہم کو منع کردیا تو پھر ہم نے دوبارہ متعہ نہیں کیا“ [المسند الصحيح المخرج على صحيح مسلم لأبي عوانة 11/ 260]

عرض ہے کہ:
اولا:
جس طرح ہم ابن عباس رضی اللہ عنہ کی حدیث کی بنا پر یہ مانتے ہیں کہ عہد رسالت ، عہدصدیقی اور عہد فاروقی کے ابتدائی دو سال تک تین طلاق ایک شمار ہوتی تھی ، ٹھیک اسی طرح ہم جابر رضی اللہ عنہ کی مذکورہ حدیث کے سبب یہ بھی مانتے کہ عہد رسالت ، عہدصدیقی اور عہد فاروقی میں لوگوں کا متعہ پر عمل تھا ۔
لیکن ابن عباس رضی اللہ عنہ کی حدیث کو ہم محکم اور عام مانتے ہیں ، یعنی نہ تو یہ منسوخ ہے اور نہ ہی اس کے خلاف کسی کا عمل ثابت ہے ۔
 جبکہ جابر رضی اللہ عنہ کی حدیث کو ہم منسوخ اور اس پر بعض لوگوں کا عمل مانتے ہیں ، کیونکہ اس کے منسوخ ہونے کاثبوت موجود ہے اور یہ بھی ثابت ہے کہ بعض صحابہ نسخ سے آگاہ ہونے کے بعد اس پر عمل نہیں کرتے۔
ملاحظہ ہو اس کے منسوخ اور اس پرعمل کے متروک ہونے کا ثبوت:
امام مسلم رحمه الله (المتوفى261) نے کہا:
 ”حدثنا محمد بن عبد الله بن نمير، حدثنا أبي، حدثنا عبد العزيز بن عمر، حدثني الربيع بن سبرة الجهني، أن أباه، حدثه، أنه كان مع رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: «يا أيها الناس، إني قد كنت أذنت لكم في الاستمتاع من النساء، وإن الله قد حرم ذلك إلى يوم القيامة، فمن كان عنده منهن شيء فليخل سبيله، ولا تأخذوا مما آتيتموهن شيئا»“ 
 ”ربيع بن سبرة اپنے والد سبرة الجهني رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ وہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے تو اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: الے لوگو! میں نے تمہیں عورتوں سے متعہ کرنے کی اجازت دی تھی ، اور اب اللہ نے اسے قیامت تک کے لئے حرام کردیا ہے ، تو جس کے پاس بھی متعہ والی عورتوں میں سے کوئی ہو وہ اسے چھوڑ دے اور اس سے پہلے اسے جو کچھ عطا کیا ہو اسے واپس نہ لے“ [صحيح مسلم 3/ 1025 رقم 1406]
یہ حدیث مسند احمد میں بھی ہے اور اس میں یہ بھی ہے سبرة الجهني رضی اللہ عنہ نے بھی متعہ کیا تھا لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے نسخ کا حکم سنن کر متعہ والی عورت کو الگ کردیا تھا ، چنانچہ یہ اپنے متعہ کا واقعہ ذکر کرنے کے بعد کہتے ہیں: 
 ”ثم قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : من كان عنده من النساء التي تمتع بهن شيء ، فليخل سبيلها قال : ففارقتها“ 
 ”پھر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کہ جس کے پاس ایسی عورت ہو جس سے اس نے متعہ کیا ہو تو وہ اس عورت کو چھوڑ دے ، چنانچہ پھر میں نے اس عورت کو چھوڑدیا“ [مسند أحمد ط الميمنية: 3/ 405 وإسناده صحيح]
ان احادیث سے واضح طور پرثابت ہوگیا کہ عہد رسالت ہی میں متعہ کاحکم منسوخ ہوگیا تھا ، اسی طرح نسخ کا یہ حکم سننے والے صحابہ نے متعہ کرنا بند کردیا تھا ۔لہٰذ عہد رسالت ، عہد صدیقی اور عہد فاروقی کے ابتدائی ایام میں سب کا اس پر عمل نہیں تھا بلکہ صرف انہیں لوگوں کا عمل تھا جن کو نسخ سے آگاہی نہیں ہوئی تھی ۔

اب غور کیجئے کہ بھلا جابر رضی اللہ عنہ کی اس حدیث کو ہمارے خلاف کیسے پیش کیا جاسکتا ہے ؟ اسے اسی صورت میں پیش کیا جاسکتا تھا جب متعہ کے نسخ اور اس پرعمل کے ترک کی دلیل نہ ہوتی کیونکہ اس صورت میں اس کا معاملہ بلاشبہ ابن عباس رضی اللہ عنہ کی حدیث جیسا ہوتا ۔لیکن چونکہ جابر رضی اللہ عنہ حدیث سے متعلق نسخ اور اس پر عمل کے ترک ہونے کاثبوت مل گیا ہے ، اور ابن عباس رضی اللہ عنہ کی حدیث سے متعلق ایسا کچھ بھی موجود نہیں ہے ۔لہٰذا اس فرق کے سبب ابن عباس رضی اللہ عنہ کی حدیث کے خلاف الزاما جابررضی اللہ عنہ کی حدیث نہیں پیش کی جاسکتی ، فافھم۔

ثانیا:
جابر رضی اللہ عنہ کی حدیث ابن عمر رضی اللہ عنہ نے متعہ جو منع کیا تھا تو وہ اپنے اجتہاد اور رائے سے نہیں بلکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے ثابت شدہ ناسخ حدیث کی بنیاد پرمنع کیا تھا جیساکہ بعض روایات میں پوری صراحت موجود ہے مثلا:
امام ابن ماجة رحمه الله (المتوفى273) نے کہا:
 ”حدثنا محمد بن خلف العسقلاني قال: حدثنا الفريابي، عن أبان بن أبي حازم، عن أبي بكر بن حفص، عن ابن عمر، قال: لما ولي عمر بن الخطاب خطب الناس فقال: «إن رسول الله صلى الله عليه وسلم، أذن لنا في المتعة ثلاثا، ثم حرمها، والله لا أعلم أحدا يتمتع وهو محصن إلا رجمته بالحجارة، إلا أن يأتيني بأربعة يشهدون أن رسول الله أحلها بعد إذ حرمها»“ 
 ”عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ خلیفہ ہوئے ، تو انہوں نے خطبہ دیا اور کہا : رسول اللہ ﷺ نے ہم لوگوں کو تین بار متعہ کی اجازت دی پھر اسے حرام قرار دیا ، قسم ہے اللہ کی اگر میں کسی کے بارے میں جانوں گا کہ وہ شادی شدہ ہوتے ہوئے متعہ کرتا ہے تو میں اسے پتھروں سے رجم کر دوں گا ، مگر یہ کہ وہ چار گواہ لائے کہ رسول اللہ ﷺ نے اسے حرام قرار دینے کے بعد حلال کیا تھا“ [سنن ابن ماجه 1/ 631 وإسناده حسن]

جبکہ ابن عباس رضی اللہ عنہ کی روایت میں عمرفاروق رضی اللہ عنہ نے کسی ناسخ حدیث کی بنیاد پر تین طلاق کو تین قرار نہیں دیا بلکہ خود اعتراف کیا کہ ”في أمر كانت لهم فيه أناة“ ( اس میں ان کے لئے مہلت ووسعت تھی) یعنی یہ حکم منسوخ نہیں ہے ، لیکن تعزیر اور سزا ء کے طور پر ان پرتین طلاق کو نافذ کردیا۔
لہٰذا اس واضح فرق کی بناپر بھی ابن عباس رضی اللہ عنہ کی حدیث کے خلاف جابر رضی اللہ عنہ کی حدیث کو بطور الزام قطعا نہیں پیش کیا جاسکتا۔

No comments:

Post a Comment