عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ - Kifayatullah Sanabili Official website

2020-01-13

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ


پچھلا
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ
تین طلاق سے متعلق عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کا دو فتوی ہے ایک یہ کہ تین طلاق تین شمار ہوگی ، یہ فتوی ان کا اصل اور شرعی فتوی نہیں تھا بلکہ عمرفاروق رضی اللہ عنہ کے تعزیری فرمان کی رعایت میں تھا ، اور ان کا دوسرا فتوی یہ تھا کہ تین طلاق ایک ہی شمار ہوگی یہی ان کا اصل اورشرعی فتوی تھا ۔
اور عہدفاروقی کے ابتدائی دو سال سے قبل تو ابن عباس رضی اللہ عنہ کا صرف ایک فتوی تھا کہ تین طلاق ایک شمار ہوگی ، لیکن عہدفاروقی میں دوسال کے بعد جب عمرفاروق رضی اللہ نہ نے یہ فرمان جاری کردیا کہ جو تین طلاق دے گا تو تعزیرا اس کی تین طلاق نافذ کردی جائے ، تو اس کے بعد ابن عباس رضی اللہ عنہ اکثر عمرفاروق رضی اللہ عنہ کے تعزیری فرمان کے تحت یہی فتوی دیتے تھے کہ تین طلاق تین شمار کی جائے گی ، لیکن بسا اوقات خاص حالات کو دیکھتے ہوئے یہ بھی فتوی دیتے تھے کہ تین طلاق تین شمار ہوگی ۔
اب اس سلسلے کی روایت ملاحظہ ہوں:

✿ پہلی روایت:
امام مسلم رحمه الله (المتوفى261)نے کہا:
”حدثنا إسحاق بن إبراهيم، ومحمد بن رافع، واللفظ لابن رافع، قال إسحاق: أخبرنا، وقال ابن رافع: حدثنا عبد الرزاق، أخبرنا معمر، عن ابن طاوس، عن أبيه، عن ابن عباس، قال: كان الطلاق على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم، وأبي بكر، وسنتين من خلافة عمر، طلاق الثلاث واحدة، فقال عمر بن الخطاب: إن الناس قد استعجلوا في أمر قد كانت لهم فيه أناة، فلو أمضيناه عليهم، فأمضاه عليهم“
”سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنمہا نے کہا کہ طلاق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں اور سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کے زمانہ خلافت میں اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے زمانہ خلافت میں بھی دو برس تک ایسا امر تھا کہ جب کوئی ایک بارگی تین طلاق دیتا تھا تو وہ ایک ہی شمار کی جاتی تھی، پھر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ لوگوں نے جلدی کرنا شروع کی اس میں جس میں ان کو مہلت ملی تھی سو ہم اس کو اگر جاری کر دیں تو مناسب ہے، پھر انہوں نے جاری کر دیا (یعنی حکم دے دیا کہ جو ایک بارگی تین طلاق دے تو تینوں واقع ہو گئیں“ [صحيح مسلم 3/ 1099 رقم 1472]

صحیح مسلم کی اس حدیث سے معلوم ہوا کہ عہد رسالت میں بیک وقت دی گئی تین طلاقیں ایک ہی شمار ہوتی تھیں اور ابوبکر رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت میں بھی اسی بات پراجماع رہا ہے۔
یہ دلیل ہے اس بات کی کہ ابن عباس رضی اللہ عنہ کا موقف بھی یہی تھا کہ ایک وقت دی گی تین طلاق ایک ہی شمار ہوگی ۔

امام ابن قيم رحمه الله (المتوفى751)فرماتے ہیں:
”وكل صحابي من لدن خلافة الصديق إلى ثلاث سنين من خلافة عمر كان على أن الثلاث واحدة“
”ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت سے لیکر عمرفاروق رضی اللہ عنہ کے دور خلافت کے ابتدائی دو سال تک ہرصحابی کا یہی موقف تھا کہ تین طلاق ایک شمارہوگی“ [إعلام الموقعين عن رب العالمين 3/ 38]

✿ دوسری روایت:
امام بيهقي رحمه الله (المتوفى458) نے کہا:
”قد روى يوسف بن يعقوب القاضي، عن سليمان بن حرب، عن حماد بن زيد، عن أيوب، عن عكرمة، أنه قال: شهدت ابن عباس جمع بين رجل وامرأته طلقها ثلاثا، أتي برجل قال لامرأته: أنت طالق، أنت طالق، أنت طالق فجعلها واحدة، وأتي برجل قال: لامرأته أنت طالق، أنت طالق، أنت طالق، ففرق بينهما“
”عکرمہ کہتے ہیں کہ میں ابن عباس رضی اللہ عنہ کے پاس موجود تھا ، انہوں نے ایک آدمی اور اس کی بیوی کو ملا دیا اس آدمی نے اپنی بیوی کو تین طلاق دی تھی ، چنانچہ ایک ایسا شخص ابن عباس رضی اللہ عنہ کے پاس لایا گیا جس نے اپنی بیوی کو کہاتھا : تجھ کو طلاق ہے ، تجھ کو طلاق ہے ، تجھ کو طلاق ہے ، تو ابن عباس رضی اللہ عنہ نے اس طلاق کو ایک قراردیا ۔ اور ایک دوسرا شخص ابن عباس رضی اللہ عنہ کے پاس لایا گیا جس نے اپنی بیوی کو کہاتھا : تجھ کو طلاق ہے ، تجھ کو طلاق ہے ، تجھ کو طلاق ہے ، تو ابن عباس رضی اللہ عنہ نے ان دونوں کے درمیان جدائی کروادی“ [معرفة السنن والآثار 11/ 40 وإسناده صحيح يوسف بن يعقوب صاحب كتاب]

امام بیہقی رحمہ اللہ نے یوسف بن یعقوب القاضی سے نقل کیاہے اور یہ صاحب کتاب و صاحب السنن ہیں جیساکہ امام ذہبی نے کہا ہے [تاريخ الإسلام ت بشار 6/ 1069]
اس لئے ظاہر ہے کہ امام بیہقی نے کتاب سے نقل کیا ہے، اورسند صحیح ہے۔

اس روایت میں غور کیجئے کہ ایک ہی طرح دی گئی تین طلاق کے دو واقعہ میں ابن عباس رضی اللہ عنہ نے دو طرح کا فتوی دیا ہے ایک وقوع کا اور دوسرا عدم وقوع کا ۔
اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ ابن عباس رضی اللہ عنہ تین طلاق کے بارے میں دو طرح کی فتوی دیتے تھے ۔

ایک اعتراض اور اس کا جواب
بعض لوگ کہتے ہیں کہ امام بیہقی رحمہ اللہ نے اس روایت کے بعد امام احمد رحمہ اللہ سے اس کی یہ تشریح نقل کی ہے کہ یہ غیرمدخولہ سے متعلق ہے ۔
جوابا عرض ہے کہ :
امام بیہقی رحمہ اللہ نے اس حدیث سے متعلق امام احمد رحمہ اللہ کی تشریح قطعا نقل نہیں کی ہے اور نہ ہی اسے صرف غیر مدخولہ سے متعلق بتایا ہے بلکہ انہیں نے دراصل امام احمد رحمہ اللہ کے ایک عام فتوی کی روشنی میں اس روایت کا دو جواب دیا ہے ایک یہ کہ یہ غیر مدخولہ سے متعلق ہے اور دوسرا یہ کہ اگر مدخولہ سے متعلق ہے تو تکرار طلاق مراد ہے۔
سب سے پہلے امام احمد رحمہ اللہ کا فتوی ملاحظہ ہو:
امام احمد رحمہ اللہ کے بیٹے عبداللہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
”سمعت ابي سئل وانا اسمع عن رجل قال لامرأته انت طالق انت طالق انت طالق ،قال ان كانت غير مدخول بها فإنها واحدة لانها بانت بالأولى وان كانت مدخولا بها فأراد ان يفهمها ويعلمها ويريد الأولى فأرجو ان تكون واحدة وإلا فثلاث“
”میرے والد سے سوال کیا گیا اور میں سن رہا تھا کہ اگر کوئی شخص اگر اپنی بیوی سے کہے : تجھ کو طلاق ہے ، تجھ کو طلاق ہے ، تجھ کو طلاق ہے ، تو اس کا کیاحکم ہے ؟ امام احمد رحمہ اللہ نے جواب دیا: اگر اس کی بیوی غیر مدخولہ ہوگی تو یہ ایک طلاق ہوگی کیونکہ وہ پہلی ہی سے الگ ہوجائے گی ، اور اگر اس کی بیوی مدخولہ ہوگی تو طلاق دینے والے کا ارادہ سمجھانے اور بتانے کا ہو اور اس کی مراد ایک ہی طلاق ہو (تو بھی ایک طلاق ہوگی) ورنہ تین طلاق مانی جائے گی“[مسائل أحمد، رواية عبد الله، ت زهير: ص: 360]

امام احمد رحمہ اللہ کے اس فتوی میں غور کیجئے کہ انہوں نے فتوی ابن عباس رضی اللہ عنہ کی مذکورہ روایت کی تشریح میں نہیں دیا ہے بلکہ ان سے ایک عام سوال کیا گیا تو اس کے جواب میں بیوی کے مدخولہ اور غیرمدخولہ کے اعتبار سے دونوں صورتوں میں جواب دیا ، اسی طرح طلاق دینے والے کی الگ الگ نیت کے اعتبار سے بھی جواب دیا ، نیز بعض اعتبار سے اسے تین طلاق شمارکیا ۔

امام بیہقی رحمہ اللہ نے امام احمد رحمہ اللہ کے اسی عام فتوی کو سامنے رکھتے ہوئے ابن عباس رضی اللہ عنہ کے مذکورہ روایت سے متعلق یہ احتمال ذکر کیاہے کہ ممکن ہے یہ واقعہ غیر مدخولہ سے متعلق ہو تو ایسی صورت میں ایک ہی طلاق ہوگی جیساکہ امام احمد رحمہ اللہ کا فتوی ہے ، یا ممکن ہے کہ مدخولہ ہی سے متعلق ہو لیکن طلاق دینے والے نے ایک ہی مراد لیا ہو اور تکرار اور سمجھانے کے لئے تین بار کہہ دیا ہو تو اس صورت میں بھی ایک ہی طلاق ہوگی جیساکہ امام احمد رحمہ اللہ کا فتوی ہے ۔
چنانچہ امام بیہقی کے الفاظ یہ ہیں:
”قال أحمد: وهذا إنما يختلف باختلاف حال المرأة، بأن تكون التي جعلها فيها واحدة غير مدخول بها فبانت بالأولى فلم يلحقها ما بعدها، والتي جعلها فيها ثلاثا مدخولا بها فلحقها الثلاث، وقد يختلف باختلاف نية الرجل في المدخول بها بأن يكون في إحدى الحالين أراد تبيين الأولى، وفي الأخرى أراد إحداث طلاق بعد الأولى“
”امام احمد کہتے ہیں کہ : یہ معاملہ عورت کی مختلف حالت کے اعتبار سے مختلف ہوگا ، اس طرح کہ جس فتوی میں ایک طلاق قرار دیا اس میں عورت غیرمدخولہ ہوگی تو پہلی طلاق سے جدا ہوجائے گی اور بعد کی طلاقیں اس پر نہیں پڑیں گی ، اورجس فتوی میں تین طلاق قرار دیا اور میں عورت مدخولہ ہوگی تو اسے تینوں طلاق پڑ جائے گی ، نیز مدخولہ عورت کے بارے میں آدمی کی مختلف نیت کے اعتبار سے بھی مسئلہ مختلف ہوتا ہے ، اس طرح کی اگر پہلی حالت میں وضاحت اورسمجھانا مراد لیا ہو اور دوسری حالت میں ایک بعد دوبارہ دوسری طلاق دینا مقصود ہو“ [معرفة السنن والآثار للبيهقي: 11/ 41]

امام احمد رحمہ اللہ کا مذکورہ فتوی ان کے بیٹے کی زبانی پڑھنے کے بعد امام بیہقی رحمہ اللہ کے الفاظ دیکھنے سے روز روشن کی طرح عیاں ہوجاتا ہے کہ امام احمد رحمہ اللہ نے زیر نظر ابن عباس رضی اللہ عنہ کی روایت کی تشریح میں یہ بات قطعا نہیں کہی ہے اور نہ ہی امام بیہقی رحمہ اللہ کا یہ دعوی ہے کہ امام احمد رحمہ اللہ نے ابن عباس رضی اللہ عنہ کی اسی روایت کی یہ تشرح کی ہے ، بلکہ امام احمد رحمہ اللہ کے ایک عام فتوی کی روشنی میں امام بیہقی رحمہ اللہ نے ابن عباس رضی اللہ عنہ کی اس روایت کا جواب پیش کیا جس میں دو باتیں ہیں:
اول:
تین طلاق کو تین ماننے والا فتوی غیر مدخولہ سے متعلق ہے۔
دوم:
تین طلاق کو تین ماننے والا فتوی اگر مدخولہ سے متعلق ہی ہے تو طلاق دینے والے کا ارادہ ایک ہی طلاق کا تھا لیکن اس نے سمجھانے کے لئے تین بار طلاق کو دہرایا ۔

اب ان دونوں باتوں کے جواب میں عرض ہے کہ:
اولا:
ابن عباس رضی اللہ عنہ کی اس روایت میں دو الگ الگ حقیقی واقعہ میں ابن عباس رضی اللہ عنہ کا فتوی ذکر ہے جس میں طلاق دینے والے سے متعلق امام احمد کی مذکورہ دونوں باتوں میں سے کسی بھی بات کی صراحت موجود نہیں ہے ۔ اس لئے بغیر کسی دلیل کے ان دونوں حقیقی واقعات کو ان باتوں پر محمول کرنا بے بنیاد ہے۔
نیز امام احمد رحمہ اللہ نے ”وإلا فثلاث“ (ورنہ تینوں طلاق ہوجائے گی) کہہ کر ایک تیسری حالت یہ بھی تو بتائی ہے کہ اگر بیوی مدخولہ ہو اور تکرار مقصود نہ ہو تو یہ تینوں طلاق واقع ہوجائے گی ! پھر ابن عباس رضی اللہ عنہ والی روایت کے دونوں واقعات میں یہ تیسری حالت بھی تو ہوسکتی ہے جس میں امام احمد رحمہ اللہ کے مطابق تو تینوں طلاق ہوجائے گی ، اور ابن عباس رضی اللہ عنہ نے بھی ایک واقعہ میں یہی فتوی دیا ہے ۔ جبکہ دوسرے واقعہ میں ایک ہی طلاق قرار دیا ، کیونکہ اس حالت میں ابن عباس رضی اللہ عنہ دونوں طرح کا فتوی دیتے تھے ۔
اور غالب حالت یہی ہوتی ہے کہ آدمی اپنی مدخولہ بیوی ہی کو طلاق دیتا ہے کیونکہ طلاق زیادہ تر آپسی اختلافات کی بناپر ہی دی جاتی ہے ،اور اختلافات کی نوبت تبھی آتی ہے جب بیوی کی رخصتی ہوگئی ہو اور وہ مدخولہ ہو۔نیز اختلاف کے بعد آدمی غصہ کا شکار ہوکر ایک سے زائد طلاق دیتا ہے ، اس لئے وہ سمجھانے کی کیفیت میں نہیں ہوتا ہے بلکہ ہر طلاق سے وہ طلاق ہی مراد لیتا ہے۔
لہٰذا جب طلاق کی غالب حالت مدخولہ اور غصہ کی ہوتی ہے تو مجمل روایات کو اسی غالب حالت پر ہی محمول کیا جائے گا ، اس کے برعکس غیر مدخولہ اور سمجھانے والی حالت مراد لینے کے لئے روایت میں اس کی صراحت ہونا ضروری ہے۔اوراس روایت میں ایسی کوئی صراحت قطعا نہیں ہے ۔لہٰذا ابن عباس رضی اللہ عنہ کا یہ دونوں فتوی مدخولہ عورت کو دی گئی تین طلاق سے متعلق ہے ۔
ثانیا:
اگر مجمل تین طلاق والی روایات کو غیر مدخولہ پر محمول کیا جائے تو اس سے یہ لازم آئے گا کہ پھر مدخولہ عورت کو دی گئی تین طلاق کے تین ہونے کا فتوی کسی بھی صحابی سے ثابت نہیں ہے ، کیونکہ تین طلاق کے تین ہونے سے متعلق صحابہ کرام کے آثار میں سے صرف درج ذیل صحابہ کے آثار ہی ثابت ہیں ۔
ان میں سےشروع کے صحابہ کے فتاوی صرف غیر مدخولہ سے متعلق ہیں اور باقی تین کے فتاوی دو قسم کے ہیں ، پہلی قسم میں غیرمدخولہ کی صراحت ہے اور دوسری قسم میں مجمل بات ہے ، صرف انہیں تین صحابہ کے بارے میں ان کے مجمل فتاوی کے پیش نظر یہ بات کہی جاسکتی تھی کہ انہوں نے مدخولہ عورت کی تین طلاق کو بھی تین طلاق شمار کیا ہے ، لیکن فریق مخالف جب مجمل فتاوی کے بارے میں یہ تشریح کرتا ہے کہ اس سے غیر مدخولہ عورت مراد ہے تو پھر اس کا نتیجہ یہ نکلا یہ ان تین صحابہ کے مجمل فتاوی بھی غیر مدخولہ سے متعلق ہی ہیں ، بالخصوص جبکہ ان تین صحابہ ہی کے دیگر فتاوی میں غیرمدخولہ کی صراحت ہے۔
ایسی صورت میں مدخولہ عورت کو دی گئی تین طلاق کے تین ہونے سے متعلق کسی بھی صحابی کافتوی ثابت ہی نہیں ہوتا ہے، لہٰذا فریق مخالف کو یہ اعلان کردینا چاہئے کہ مدخولہ عورت کو دی گئی تین طلاق کے تین ہونے کا فتوی کسی بھی صحابی سے ثابت نہیں ہے۔
ثالثا:
طلاق سے متعلق صحابہ کرام کے تمام فتاوی کی روایات دیکھنے کے بعد یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ روایات میں یہ تو صراحت ہوتی ہے کہ عورت غیر مدخولہ تھی ، لیکن کسی ایک روایت میں بھی یہ صراحت نہیں کی جاتی ہے کہ عورت مدخولہ تھی ۔ جس کا مطلب یہ نکلا کہ ان فتاوی میں جب مطلق تین طلاق کا ذکر ہوگا تو مدخولہ عورت ہی مراد ہے اور جب بھی غیر مدخولہ عورت مراد ہوگی تو لازما اس کی صراحت روایت میں ہوگی ۔
اور ابن عباس رضی اللہ عنہ کی زیرنظرروایت میں غیر مدخولہ کی صراحت نہیں ہے ، اس لئے طے ہوجاتا ہے کہ یہاں مدخولہ عورت ہی مراد ہے۔

✿ تیسری روایت:
امام أبوداؤد رحمه الله (المتوفى275) نے کہا:
”وروى حماد بن زيد، عن أيوب، عن عكرمة، عن ابن عباس، إذا قال: «أنت طالق ثلاثا بفم واحد فهي واحدة»“
”ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جب کوئی( اپنی بیوی) کو کہے : تجھ کو تین طلاق ایک ہی جملے میں تو یہ ایک طلاق ہوگی“ [سنن أبي داود 2/ 260]
نوٹ:- ”بفم واحد“ (ایک ہی جملے میں) سے مراد یہ ہے کہ اس طرح کہے : ”انت طالق ثلاثا“ (تجھ کو تین طلاق)

اس روایت کو امام ابوداؤد نے اپنے شیخ الشیخ ”حماد بن زید“ سے نقل کیا ہے ، اور اپنے اور ایوب کے بیچ واسطے کو ذکر نہیں کیا ہے ۔
لیکن امام بیہقی کی ماقبل میں معرفۃ السنن والی روایت سے پتہ چلتا ہے کہ ”حماد بن زید“ سے اس روایت کو بیان کرنے والے ”سليمان بن حرب“ ہیں ، کیونکہ اس میں ”حماد بن زید“ کے اسی طریق سے ابن عباس رضی اللہ عنہ سے تین طلاق کے ایک ہونے کا فتوی منقول ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ واقعی ابن عباس رضی اللہ عنہ کا دوسرا فتوی تین طلاق کو ایک ہی ماننے کا تھا خواہ یہ تین طلاق الگ الگ جملے میں دی جائے یا ایک ہی جملے میں ، جیساکہ غیرمدخولہ سے متعلق ان کا ایسے ہی فتوی ہے کماسیاتی ۔
اور ”سليمان بن حرب“ یہ امام ابوداؤد کے استاذ ہیں بلکہ امام ابوداؤد نے بعض روایت کو ”سليمان بن حرب عن حماد بن زيد عن أيوب“ کے طریق سے بھی روایت کیا ہے مثلا:
”حدثنا سليمان بن حرب، حدثنا حماد بن زيد، عن أيوب...“ [سنن أبي داود:رقم 635]
اور امام بخاری وغیرہ نے ”سلیمان بن حرب“ کے اسی طریق سے ابن عباس رضی اللہ عنہ کی روایات بیان کی ہے مثلا:
”حدثنا سليمان بن حرب، حدثنا حماد بن زيد، عن أيوب، عن عكرمة، عن ابن عباس رضي الله عنهما قال...“ [صحيح البخاري 2/ 165 رقم 1677]
ان باتوں سے اشارہ ملتا ہے کہ ”حماد بن زید“ کی یہ روایت امام ابوداؤد نے ”سلیمان بن حرب“ ہی کے واسطے سے نقل کی ہے۔

بطور مثال عرض ہے کہ امام بخاری رحم اللہ نے صحیح بخاری میں ایک معلق روایت اس طرح ذکر کی ہے :
”قال عثمان بن الهيثم أبو عمرو، حدثنا عوف، عن محمد بن سيرين، عن أبي هريرة رضي الله عنه...“ [صحيح البخاري رقم 2311]

اس روایت کو امام بخاری رحمہ اللہ نے ”عثمان بن الهيثم“ سے نہیں سنا ہے چنانچہ امام أبو بكر بن العربي (المتوفی 543 ) رحمہ اللہ نے کہا:
”أخرجه البخاري مقطوعا“
”امام بخاری نےاسےمقطوعا (یعنی منقطعا) روایت کیا ہے“ [النكت على مقدمة ابن الصلاح للزركشي 2/ 48]
اسی طرح حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے بھی کہا:
”ولم يقل في موضع منها حدثنا عثمان فالظاهر أنه لم يسمعه منه“
”امام بخاری نے کسی بھی مقام پر حدثنا عثمان (عثمان بن الهيثم نے ہم سے بیان کیا) نہیں کہا ، اس لئے ظاہریہی ہے کہ ان سے امام بخاری نے یہ روایت نہیں سنی ہے“ [مقدمة فتح الباري لابن حجر: ص: 17]
معلوم یہ روایت معلق ہے یعنی امام بخاری اور ”عثمان بن الھیثم“ کے بیچ واسطہ مذکور نہیں ہے ۔

لیکن صحیح ابن خزیمہ میں ”عثمان بن الهيثم“ کے شاگرد ”هلال بن بشر البصري“ سے یہ  روایت ہے:
”حدثنا هلال بن بشر البصري بخبر غريب غريب حدثنا عثمان بن الهيثم، مؤذن مسجد الجامع، حدثنا عوف، عن محمد بن سيرين، عن أبي هريرة قال...“ [صحيح ابن خزيمة رقم 2424]

اور ”هلال بن بشر البصري“ یہ امام بخاری کے استاذ ہیں ، اس لئے صحیح ابن خزیمہ کی اس روایت کو سامنے رکھتے ہوئے حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے کہا:
”وأقربهم لأن يكون البخاري أخذه عنه -إن كان ما سمعه من بن الهيثم - هلال بن بشر فإنه من شيوخه“
”اگرامام بخاری نےیہ حدیث عثمان بن الهيثم سے نہیں سنی ہے تو زیادہ قریب تر بات یہ ہے کہ امام بخاری نے اسے (عثمان بن الهيثم کے شاگرد) هلال بن بشر سے سنا ہے کیونکہ یہ بھی امام بخاری کے اساتذہ میں سے ہیں“ [فتح الباري لابن حجر 4/ 488]

ہم کہتے ہیں ٹھیک یہی معاملہ ابوداؤد کی زیر نظر روایت کا بھی ہے کہ امام ابوداؤد نے اپنے اور ”حمادبن زید“ کے بیچ کا واسطہ ذکر نہیں کیا ، لیکن معرفۃ السنن میں یہی روایت ”حماد بن زید“ کے شاگرد ”سليمان بن حرب“ سے مروی ہے ، اس لئے حافظ ابن حجررحمہ اللہ کے اصول سے یہاں بھی یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ امام ابوداؤد نے ”حمادبن زید“ کی روایت اپنے استاذ ”سليمان بن حرب“ سے ہی سنی ہے۔

آخر میں بطور الزام ذکر ہے کہ فریق مخالف میں کئی لوگوں کے اصول سے یہ واسطہ معلوم نہ ہو تو بھی یہ روایت صحیح ہوگی کیونکہ ان حضرات کا اصول یہ ہے کہ جو راوی صرف ثقہ ہی سے روایت کرتا ہے کہ اس کی مدلس و مرسل روایت بھی مقبول ہے چنانچہ:
ابن التركماني حنفی رحمه الله (المتوفى750) فرماتے ہیں:
”قال أبو عمر في اوائل التمهيد وكل من عرف بأنه لا يأخذ الاعن ثقة فتد ليسه وترسيله مقبول“
”ابن عبدالبر رحمہ اللہ نے اپنی کتاب التمهيد کے شروع میں کہا ہے کہ جس راوی کے بارے میں یہ پتہ چل جائے کہ وہ صرف ثقہ ہی سے روایت کرتا ہے تو اس کی تدلیس اور ارسال مقبول ہے“ [الجوهر النقي 5/ 109]
ابن الترکمانی کی اسی بات کو ظفر احمدتھانوی صاحب نے بھی نقل کررکھاہے[علاء السنن،ت تقی عثمانی: 11/ 188]
نیز دیکھئے: [التمهيد لابن عبد البر: 1/ 30]

اور امام ابوداؤد رحمہ اللہ صرف ثقہ ہی سے روایت کرتے ہیں ، چنانچہ حافظ ابن حجر رحمه الله (المتوفى852) فرماتے ہیں:
”وقد تقدم أن أبا داود لا يروي إلا عن ثقة“ ، ”اور یہ بات گذرچکی ہے کہ امام ابوداؤد صرف ثقہ سے ہی روایت کرتے ہیں“ [تهذيب التهذيب لابن حجر، ط الهند: 3/ 180]

لہٰذا ابن عبدالبر اور ابن الترکمانی رحمہا اللہ اور ان کے ہم خیال لوگوں کی نظر میں حماد اور امام ابوداؤد کے بیچ کا واسطہ سرے سے نامعلوم ہو تو بھی یہ روایت صحیح قرارپائے گی ۔
ہماری نظرمیں یہ اصول درست نہیں ہم نے اسے الزاما پیش کیا ہے ، اور اس سے قبل ہم نے دیگر روایات کی روشنی میں واضح کردیا ہے کہ یہاں واسطہ سلیمان بن حرب کا ہے جو ثقہ ہیں لہٰذا یہ روایت بالکل صحیح ہے ۔ والحمدللہ

تنبیہ:
امام ابوداؤد نے حماد کی روایت کے بعد یہ بھی کہاہے:
”ورواه إسماعيل بن إبراهيم، عن أيوب، عن عكرمة، هذا قوله لم يذكر ابن عباس، وجعله قول عكرمة“
”اسے اسماعیل بن ابراہیم نے ایوب کے واسطے عکرمہ سے روایت کیا ہے اور اس میں ابن عباس رضی اللہ عنہ کا نام ذکر نہیں کیا ہے بلکہ عکرمہ ہی کا قول ذکر کیا ہے“ [سنن أبي داود 2/ 260]

عرض ہے کہ اس سے کوئی یہ نہ سمجھے کہ امام ابوداؤد رحمہ اللہ ”اسماعیل“ کی روایت پیش کرے اسے ”حماد بن زید“ پر فوقیت دے رہے ہیں ، کیونکہ دوسرے مقام پر خود امام ابوداؤد نے صراحت کررکھی ہے کہ ”ایوب“ سے بیان کرنے میں اگر ”اسماعیل“ اور ”حماد بن زید“ میں اختلاف ہو تو ”حماد بن زید“ ہی کی روایت کو فوقیت دی جائے گی ، چنانچہ ابو عبید الآجری فرماتے ہیں:
”قلت لأبي داود: اختلف حماد بن زيد، وإسماعيل في أيوب. فقال: القول قول حماد بن زيد، كان حماد بن زيد لا يفزغ من خلاف أحد يخالفه عن أيوب، ما أحسب حمادا إلا أعلم الناس بأيوب“
”میں نے امام ابوداؤد سے کہا: اگر ایوب سے روایت کرنے میں حماد بن زید اور اسماعیل کا اختلاف ہوجائے تو کس کا اعتبار ہوگا ، تو امام ابوداد رحمہ اللہ نے جواب دیا: اعتبار حماد بن زید کی روایت ہی کا ہوگا ، کیونکہ حماد بن زید اپنے خلاف ایوب سے روایت کرنے والوں کی پرواہ نہیں کرتے تھے ، میں حماد کے بارے میں یہی جانتا ہوں کہ وہ ایوب سے روایت کرنے میں تمام لوگوں سے زیادہ جانکار ہیں“ [سؤالات أبي عبيد الآجري أبا داود، ت الأزهري: ص: 124]

امام ابوداؤد کی طرح امام ابن معين رحمه الله (المتوفى233) نے بھی ”ایوب“ سے ”حماد“ اور ”اسماعیل“ کی روایت میں اختلاف کی صورت میں ”حماد بن زید“ ہی کو روایت کو فوقیت دی ہے چنانچہ ابن معین رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
”إذا اختلف إسماعيل بن علية وحماد بن زيد في أيوب كان القول قول حماد بن زيد قيل ليحيى فإن خالفه سفيان الثوري قال القول قول حماد في أيوب قال يحيى ومن خالفه من الناس جميعا في أيوب فالقول قوله وقال حماد جالست أيوب عشرين سنة“
”جب اسماعیل بن ابراہیم بن علیہ اور حماد بن زید ایوب سے روایت کرنے میں اختلاف کریں تو اعتبار حماد بن زید ہی کی روایت کا ہوگا ، یحیی ابن معین رحمہ اللہ سے کہا گیا : اگر حمادبن زید کی مخالفت سفیان ثوری کریں تب ؟ تو ابن معین رحمہ اللہ نے کہا: ایوب سے روایت کرنے میں ان کے مقابلے میں بھی حماد ہی کا قول معتبر ہوگا ، نیز ابن معین رحمہ اللہ نے کہا: اگر ایوب سے روایت کرنے میں حماد بن زید کی تمام لوگ بھی مخالفت کریں تو بھی حماد بن زید ہی کے قول کا اعتبار ہوگا ، اور حماد کا کہنا ہے کہ میں نے بیس سال تک ایوب کے ساتھ مجالست اختیار کی ہے“ [تاريخ ابن معين، رواية الدوري: 4/ 214]

معلوم ہواکہ امام ابن معین اور امام ابوداؤد رحمہ اللہ ”ایوب“ کے شاگر ”اسماعیل“ اور ”حماد بن زید“ میں حماد بن زید ہی کی روایت کو فوقیت دیتے ہیں ، اس لئے مذکورہ کلام میں اگر میں امام ابوداؤد رحمہ اللہ فوقت دے رہے ہیں تو ”حماد بن زید“ ہی کی روایت کو فوقیت دے رہے ۔لیکن ہماری نظر میں یہاں امام ابوداؤد رحمہ اللہ فوقیت کی بات نہیں کررہے ہیں بلکہ بطور فائدہ یہ بھی بتارہے کہ ابن عباس رضی اللہ عنہ کی طرح امام عکرمہ کا بھی یہی قول ہے جو اسی سند سے مروی ہے ، رواۃ نے اس طریق سے کبھی عکرمہ کا قول روایت کیا ہے اور کبھی ابن عباس رضی اللہ عنہ کا قول روایت کیا ہے اور دونوں ہی روایات ثابت ہیں ۔
اس کی تائید اس بات سے بھی ہوتی ہے کہ امام ابوداؤد رحمہ اللہ نے اس کے بعد ابن عباس رضی اللہ عنہ کا یہ فتوی بھی پیش کیا کہ انہوں نے تین طلاق کو تین قرار دیا اس کے بعد کہا:
”ثم إنه رجع عنه يعني ابن عباس“ ، ”پھر ابن عباس رضی اللہ عنہ اپنے اس قول سے رجوع کرلیا“ [سنن أبي داود ، تحت الرقم 2198]
اس سے صاف واضح ہوتا ہے کہ امام ابوداؤد رحمہ اللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ کے دونوں قول کو ثابت شدہ مان رہے ہیں تبھی تو رجوع کی بات کہہ رہے ہیں ورنہ رجوع کے بجائے یہ کہتے کہ ابن عباس رضی اللہ عنہ کا ایک ہی قول ثابت ہے ۔
واضح رہے کہ ابن عباس رضی اللہ عنہ نے حققیت میں کسی بھی قول سے رجوع نہیں کیا تھا بلکہ وہ حالات کے اعتبار سے دونوں طرح فتوی دیا کرتے تھے۔

✿ چوتھی روایت:
امام عبد الرزاق رحمه الله (المتوفى211) نے کہا:
”عن ابن جريج قال: أخبرني حسن بن مسلم، عن ابن شهاب، أن ابن عباس قال: إذا طلق الرجل امرأته ثلاثا، ولم يجمع كن ثلاثا قال: فأخبرت ذلك طاوسا قال: فأشهد ما كان ابن عباس يراهن إلا واحدة“
”حسن بن مسلم کہتے ہیں ابن شہاب زہری نے بیان کیا کہ ابن عباس رضی اللہ عنہ کہا : جب آدمی اپنی بیوی کو تین طلاق دے اور الگ الگ جملے میں طلاق دے تو یہ تین طلاق ہوں گی ، تو میں نے اس بات کا تذکرہ طاوس سے کیا تو انہوں نے کہا: میں گواہ ہوں کہ ابن عباس رضی اللہ عنہ ایسی تین طلاق کو صرف ایک ہی مانتے تھے“ [مصنف عبد الرزاق، ت الأعظمي: 6/ 335 وإسناده صحيح]
نوٹ:- ”لم يجمع“ (الگ الگ جملے میں) سے مراد یہ ہے کہ اس طرح کہے : ”انت طالق انت طالق انت طالق“ (تجھ کوطلاق ، تجھ کو طلاق ، طلاق)

ابن عباس رضی اللہ عنہ کے شاگرد طاووس کی گواہی سے معلوم ہوا کہ ابن عباس رضی اللہ عنہ بیک وقت تین طلاق کے ایک ہونے کا بھی فتوی دیتے تھے۔

✿ پانچویں روایت:
امام اسحاق بن راھویہ رحمہ اللہ (المتوفی 238) نے بھی روایت کرتے ہوئے کہا:
”أخبرنا عبد الرزاق، حدثنا ابن جريج أخبرني الحسن بن مسلم، عن ابن شهاب، عن ابن عباس أنه قال: التي لم يدخل بها إذا جمع الثلاث عليها وقعن عليها.قال الحسن: فذكرت ذلك لطاووس فقال: أشهد أني سمعت ابن عباس يجعلها واحدة قال: وقال عمرو : ‌واحدة ‌وإن ‌جمعهن“
”حسن بن مسلم کہتے ہیں ابن شہاب زہری نے ابن عباس رضی اللہ عنہ سے بیان کیا کہ انہوں نے کہا : غیر مدخولہ کو جب ایک ہی جملے میں (اس کا شوہر) تین طلاق دے دے تو یہ تینوں طلاقیں اس پر واقع ہوجائیں گی ، حسن بن مسلم کہتے ہیں کہ : پھر میں نے اس بات کا تذکرہ طاوس سے کیا تو انہوں نے کہا: میں گواہ ہوں کہ ابن عباس رضی اللہ عنہ ایسی تین طلاق کو صرف ایک ہی مانتے تھے ، اور عمر و نے کہا : کہ گرچہ ایک جملے میں تین طلاق دے ، یہ ایک ہی شمار ہوگی“ [ مسند إسحاق بن راهويه ، ط دار التاصیل : ص474 رقم 2478 وإسناده صحيح ، وعندہ ”قال عمر“ ، والصواب ”قال عمرو“ کما فی المطالب العالية 8/ 423 ]

✿ چھٹی روایت:
مذکورہ  روایت کے بعد امام اسحاق نے کہا ہے:
”وقال عمرو : ‌واحدة ‌وإن ‌جمعهن“ 
 ”اور عمر و نے کہا : یہ ایک ہی شمار ہوگی، گرچہ ایک جملے میں تین طلاق دے“ 
یہاں عمرو سے مراد ”عمرو بن دینار“ ہیں جو ابن عباس رضی اللہ عنہ کے شاگرد ہیں ، اور یہاں اس بات کو انہوں نے ابن عباس رضی اللہ عنہ ہی سے نقل کیا ہے ، اسی لئے امام اسحاق بن راویہ نے اسے مسند ابن عباس میں ذکر کیا ہے ، ورنہ یہ عمرو بن دینار کا محض خود کا قول ہوتا تو یہاں مسند ابن عباس رضی اللہ عنہ میں اس کے ذکر کی کوئی وجہ نہیں ہے۔
چونکہ امام اسحاق بن راھویہ نے اس سے پہلے ”ابن عباس رضی اللہ عنہ“ سے ”طاؤوس“ کے الفاظ نقل کئے ہیں ، تو اس کے بعد امام اسحاق بن راھویہ نے بطور فائدہ یہ بھی بتادیا کہ ”ابن عباس رضی اللہ عنہ“ کے دوسرے شاگرد ”عمرو بن دینار“ نے بھی ابن عباس سے یہ بات اور واضح انداز میں نقل کررکھی ہے۔
اب رہا سوال یہ کہ پھر امام اسحاق بن راھویہ کی عمرو بن دینار تک اپنی سند کہاں ہے ؟ تو عرض ہے کہ امام اسحاق بن راھویہ نے عمرو بن دینار کا یہ قول ماقبل کی سند (أخبرنا عبد الرزاق، حدثنا ابن جريج أخبرني ) سے ہی نقل کیا ہے ۔کیونکہ ابن جریج یہ عمرو بن دینار کے شاگردہیں ۔

بطور مثال صحیح بخاری کی یہ رویت دیکھئے:
 ”حدثنا سليمان بن حرب، حدثنا شعبة، عن أنس بن سيرين، قال: سمعت ابن عمر، قال: طلق ابن عمر امرأته وهي حائض، فذكر عمر للنبي صلى الله عليه وسلم فقال: «ليراجعها» قلت: تحتسب؟ قال: فمه؟ 
وعن قتادة، عن يونس بن جبير، عن ابن عمر، قال: «مره فليراجعها» قلت: تحتسب؟ قال: أرأيت إن عجز واستحمق“ [صحيح البخاري 7/ 41 رقم 5252]
اس میں پہلی روایت کے بعد امام بخاری رحمہ اللہ نے جو یہ کہا:
 ”وعن قتادة، عن يونس بن جبير، عن ابن عمر، قال...الخ“ 
تو یہ معلق روایت نہیں ہے بلکہ امام بخاری نے ماقبل کی سند (حدثنا سليمان بن حرب، حدثنا شعبة ) سے ہی اسے نقل کیا ہے ، کیونکہ شعبہ یہ قتادۃ کے شاگرد ہیں۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے بھی یہ وضاحت کی ہے کہ یہ روایت ماقبل کی سند سے جڑ کر متصل ہے [فتح الباري لابن حجر، ط المعرفة: 9/ 351]
اور قتادہ یہ ابن عمر رضی اللہ کے شاگرد نہیں تھے اس لئے امام بخاری نے آگے قتادہ سے ابن عمر تک سند پیش کردی ۔
یہی معاملہ یہاں بھی ہے عمروبن دینار کی روایت ماقبل کی سند (اخبرنا عبد الرزاق، حدثنا ابن جريج أخبرني) سے مربوط ہے اور عمروبن دینار یہ ابن عباس رضی اللہ عنہ کے شاگرد ہیں اس لئے اس سے آگے سند پیش کرنے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ یہاں مسانید ابن عباس ہی کابیان ہورہا ہے ۔
اس کی مزید تائید اس بات سے بھی ہوتی ہے کہ (ابن جریج عن عمروبن دینار عن ابن عباس) ہی کی سند سے ابن عباس رضی اللہ عنہ سے طلاق ثلاثہ کے وقوع کا فتوی بھی منقول ہے چنانچہ :
امام أبوداؤد رحمه الله (المتوفى275) نے کہا:
 ”وابن جريج، عن عمرو بن دينار، عن ابن عباس كلهم قالوا: في الطلاق الثلاث أنه أجازها“ 
 ”اور ابن جریج نے عمرو بن دينار سے اور انہوں نے ابن عباس سے روایت کیا ، ان سب نے طلاق ثلاثہ سے متعلق ابن عباس رضی اللہ عنہ سے نقل کیا کہ انہوں نے اس کے وقوع کافتوی دیا“ [سنن أبي داود 2/ 260]

لہٰذا جب اسی سند سے ابن عباس رضی اللہ عنہ سے طلاق ثلاثہ کے وقوع کا فتوی منقول ہے تو عین اسی سند سے ابن عباس رضی اللہ عنہ سے طلاق ثلاثہ کے ایک ہونے کا فتوی بھی منقول ہوسکتا ہے کیونکہ ابن عباس رضی اللہ عنہ اس مسئلہ میں دو فتوی دیا کرتے تھے۔اس لئے کسی ایک شاگرد کا دونوں فتوی نقل کرنا کوئی تعجب کی بات نہیں ہے۔
بلکہ  ماقبل میں بیہقی کی روایت گذرچکی ہے جس میں عکرمہ نے بھی ابن عباس رضی اللہ عنہ کا دونوں فتوی نقل کیا ہے اور یہ دونوں فتوی بھی ایک ہی سند سے مروی ہے۔
معلوم ہوا کہ عمربن دینار نے ابن عباس رضی اللہ عنہ سے تین طلاق کے ایک ہونے کا فتوی نقل کیا ہے۔

ابو الفيض الغُمَارِي (المتوفى 1380) لکھتے ہیں:
”وقد نقل هذا أيضًا عن ابن عباس من رواية عمرو بن دينار“ 
 ”اور تین طلاق کے ایک ہونے کا فتوی ابن عباس رضی اللہ عنہ سے عمرو بن دینار نے بھی نقل کیا ہے“ [الهداية في تخريج أحاديث البداية 7/ 15]

✿ ساتویں روایت:
امام عبد الرزاق رحمه الله (المتوفى211) نے کہا:
”عن معمر، عن أيوب قال: دخل الحكم بن عتيبة على الزهري بمكة وأنا معه فسألوه عن البكر تطلق ثلاثا قال: سئل عن ذلك ابن عباس، وأبو هريرة، وعبد الله بن عمرو، فكلهم قالوا: «لا تحل له حتى تنكح زوجا غيره» ، قال فخرج الحكم بن عتيبة، وأنا معه فأتى طاوسا وهو في المسجد، فأكب عليه، فسأله عن قول ابن عباس فيها فأخبره، وأخبره بقول الزهري قال: فرأيت طاوسا رفع يديه تعجبا من ذلك، وقال: والله ما كان ابن عباس يجعلها إلا واحدة“
”امام ایوب کہتے ہیں کہ حکم بن عتیبہ مکہ میں امام زہری کے پاس آئے اور میں ان کے ساتھ تھا تو لوگوں نے زہری سے باکرہ یعنی غیرمدخولہ عورت کی دی گئی تین طلاق سے متعلق سوال کیا تو امام زہری نے جواب دیا: ابن عباس ، ابوہریرہ اور عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہم سے بھی یہ سوال پوچھا گیا تو ان سب نے کہا کہ : اس کی بیوی اس کے لئے تب تک حلال نہیں ہوسکتی جب تک کہ وہ دوسرے شوہر سے شادی نہ کرلے ، ایوب کہتے ہیں کہ پھر حکم بن عتیبہ وہاں سے نکلے میں بھی ان کے ساتھ تھا ، وہ طاؤوس کے پاس آئے وہ مسجد میں تھے ، تو حکم بن عتیبہ ان کی طرف دوڑ پڑے اور ان سے جاکر اس مسئلہ میں ابن عباس رضی اللہ عنہ کا فتوی پوچھا زہری نے ان سے جو فتوی نقل کیا تھا وہ انہیں بتایا تو امام طاؤوس نےتعجب سے اپنے دونوں ہاٹھ اٹھائے اور کہا: اللہ کی قسم ! ابن عباس رضی اللہ عنہ ایسی طلاق کو ایک ہی شمار کرتے تھے“ [مصنف عبد الرزاق، ت الأعظمي: 6/ 335 وإسناده صحيح]

یہ دوسرا واقعہ جس میں امام زہری نے غیرمدخولہ کو دی گی تین طلاق سے متعلق ابن عباس رضی اللہ عنہ کا یہ فتوی نقل کیا کہ یہ تینوں طلاق ہوجائے گی تو حکم بن عتیبہ نے اس کی تفتیش کی جس کے بعد امام طاووس رحمہ اللہ نے اللہ کی قسم کھاکر کہا: کہ ابن عباس رضی اللہ عنہ ایسی طلاق کو ایک ہی شمار کرتے تھے۔

✿ آٹھویں روایت:
امام أحمد بن حنبل رحمه الله (المتوفى241)نے کہا:
”حدثنا سعد بن إبراهيم ، حدثنا أبي ، عن محمد بن إسحاق ، حدثني داود بن الحصين ، عن عكرمة ، مولى ابن عباس ، عن ابن عباس ، قال : طلق ركانة بن عبد يزيد أخو بني المطلب امرأته ثلاثا في مجلس واحد ، فحزن عليها حزنا شديدا ، قال : فسأله رسول الله صلى الله عليه وسلم : «كيف طلقتها ؟» قال : طلقتها ثلاثا ، قال : فقال : «في مجلس واحد ؟ » قال : نعم قال : «فإنما تلك واحدة فأرجعها إن شئت» قال : فرجعها فكان ابن عباس : يرى أنما الطلاق عند كل طهر“
”عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رکانہ بن عبدیزید نے اپنی بیوی کو ایک ہی مجلس میں تین طلاق دے دی، پھر اس پر انہیں شدید رنج لاحق ہوا ، تو اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے پوچھا: ”تم نے کیسے طلاق دی ؟“ انہوں نے کہا: میں نے تین طلاق دے دی ۔ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ سلم نے پوچھا: ”کیا ایک ہی مجلس میں ؟“ انہوں نے جواب دیا: جی ہاں ! تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”پھر یہ ایک ہی طلاق ہے تم چاہو تو اپنی بیوی کو واپس لے لو“ ، چنانچہ انہوں نے اپنی بیوی کو واپس لے لیا ۔ اس حدیث کی بنا پر ابن عباس رضی اللہ عنہ فتوی دیتے کہ طلاق الگ الگ طہر میں ہی معتبر ہوگی“ [مسند أحمد ط الميمنية: 1/ 265 رقم 2387 وإسناده صحيح ، ومن طريق أحمد أخرجه الضياء المقدسي في ”المختارة“ (11/ 363) والذهبي في ”تاريخ الإسلام“ (8/ 410 ، ت تدمري )۔وأخرجه أيضا البيهقي في ”السنن الكبرى“ ( 7/ 339،ط الهند) من طريق عبد الله بن سعد عن أبيه عن عمه إبراهيم بن سعد ۔وأخرجه أيضا أبويعلى في ”مسنده“ (4/379 ) من طريق يونس بن بكير ، وأبو نعيم في ”معرفة الصحابة“ (2/ 1113 ) من طريق يزيد بن هارون كلهم( إبراهيم بن سعدو يونس بن بكيرو يزيد بن هارون) عن ابن إسحاق به]

اس روایت کے اخیر میں ابن عباس رضی اللہ عنہ کے شاگر عکرمہ نے ابن عباس رضی اللہ عنہ کا یہ موقف بھی نقل کیا ہے کہ :
”فكان ابن عباس : يرى أنما الطلاق عند كل طهر“
”اس حدیث کی بنا پر ابن عباس رضی اللہ عنہ فتوی دیتے کہ طلاق الگ الگ طہر میں ہی معتبر ہوگی“

اس کا مطلب یہی ہے کہ وہ ایک طہر میں ایک ساتھ دی گئی تین طلاق کو تین نہیں مانتے تھے بلکہ ایک ہی مانتے تھے جیساکہ عکرمہ ہی نے مزید صراحت کے ساتھ ان سے نقل کر رکھا ہے کہ وہ بیک وقت دی گئی تین طلاق کو ایک شمار کرتے تھے ، یہ روایت ماقبل میں گذرچکی ہے۔

✿ نویں روایت:
امام عبد الرزاق رحمه الله (المتوفى211) نے کہا:
”عن ابن جريج قال: أخبرني داود بن أبي هند، عن يزيد بن أبي مريم، عن أبي عياض، أن ابن عباس قال: الثلاث والواحدة في التي لم يدخل بها سواء“
”ابوعیاض العنسى کہتے ہیں کہ ابن عباس رضی اللہ عنہ نے کہا: غیر مدخولہ کو تین طلاق اور ایک طلاق دینا ، دونوں برابر ہے“ [مصنف عبد الرزاق، ت الأعظمي: 6/ 335 ، وإسناده صحيح ومن طريق عبدالرزاق أخرجه إسحاق بن راهويه في مسنده رقم 2479 ، وانظر : المطالب العالية 2/ 105]

✿ دسويں روایت:
امام أبوداؤد رحمه الله (المتوفى275) نے کہا:
”حدثنا حميد بن مسعدة، حدثنا إسماعيل، أخبرنا أيوب، عن عبد الله بن كثير، عن مجاهد قال: كنت عند ابن عباس فجاءه رجل، فقال: إنه طلق امرأته ثلاثا، قال: فسكت حتى ظننت أنه رادها إليه، ثم قال: ينطلق أحدكم، فيركب الحموقة ثم يقول يا ابن عباس، يا ابن عباس، وإن الله قال: {ومن يتق الله يجعل له مخرجا} ، وإنك لم تتق الله فلم أجد لك مخرجا، عصيت ربك، وبانت منك امرأتك“
”مجاہد کہتے ہیں کہ میں ابن عباس رضی اللہ عنہ کے پاس بیٹھا ہوا تھا تو ان کے پاس ایک شخص آیا اور کہا کہ اس نے اپنی بیوی کو تین طلاق دے دی ہے ، اس پر ابن عباس رضی اللہ عنہ خاموش رہے یہاں تک مجھے ایسا لگا کہ ابن عباس رضی اللہ عنہ اس کی بیوی کو اس کی طرف لوٹا دیں گے ۔ پھر ابن عباس رضی اللہ عنہ نے کہا: تم لوگوں میں کوئی حماقت کرتا ہے پھر اے ابن عباس ! اے ابن عباس ! کہتا ہے ، اللہ تعالی کا فرمان ہے : جو اللہ سے ڈرتا ہے اللہ اس کے لئے مشکل سے نکلنے کوئی راستہ پیدا کردیتا ہے ، اور تم اللہ سے نہیں ڈرے اس لئے میں تمہارے لئے مشکل سے نکلنے کوئی راہ نہیں پاتا ، تم نے اپنے رب کی نافرمانی کی تمہاری بیوی تم سے جدا ہوگئی ہے“ [سنن أبي داود 2/ 260 رقم 2197 وإسناده صحيح]

اس روایت میں ابن عباس رضی اللہ عنہ کے شاگر امام مجاہد نے جو یہ کہا کہ ”فسكت حتى ظننت أنه رادها إليه“ ، (ابن عباس رضی اللہ عنہ خاموش رہے یہاں تک مجھے ایسا لگا کہ ابن عباس رضی اللہ عنہ اس کی بیوی کو اس کی طرف لوٹا دیں گے) ۔
یہ اس بات کی دلیل ہے کہ ابن عباس رضی اللہ عنہ کا تین طلاق کے بارے میں یہ بھی فتوی تھا کہ وہ اسے ایک شمار کرتے تھے اور ایسی طلاق دینے والے پر اس کی بیوی واپس کرتے تھے ۔ کیونکہ اگر ایسا نہیں ہوتا امام مجاہد رحمہ اللہ ان کی خاموشی پر ایسا گمان نہیں کرسکتے تھے۔
علامہ معلی رحمہ اللہ کی کتاب ”الحكم المشروع“ کے محقق لکھتے ہیں:
”إنما ظن مجاهد أن يرد ابن عباس الثلاث إلي واحدة لما يعلمه من مذهب ابن عباس“
”مجاہد رحمہ اللہ نے جو یہ گمان کیا کہ ابن عباس رضی اللہ عنہ تین طلاق کو ایک طلاق قرار دیں گے ، وہ اس لئے کیونکہ وہ جانتے تھے کہ ابن عباس رضی اللہ عنہ کا یہ فتوی بھی ہے“ [الحكم المشروع في الطلاق المجموع: ص 43 حاشیہ 3]

ایک اور روایت:
امام عبد الرزاق رحمه الله (المتوفى211) نے کہا:
”عن ابن جريج، عن عطاء قال: إذا طلقت امرأة ثلاثا، ولم تجمع فإنما هي واحدة، بلغني ذلك عن ابن عباس“
”امام عطاء کہتے ہیں کہ اگر کسی نے بیوی کو تین طلاق دیا اور الگ الگ جملوں میں دیا تو وہ ایک ہی طلاق شمار ہوگی ، ابن عباس رضی اللہ عنہ کا بھی یہی فتوی مجھ تک پہنچا ہے“ [مصنف عبد الرزاق، ت الأعظمي: 6/ 335]

یہ روایت بلاغا ہے یعنی امام عطاء نے یہ صراحت نہیں کیا ہے کہ ابن عباس رضی للہ عنہ کے کس شاگرد نے ان سے یہ روایت بیان کی ہے۔

ان تمام روایات سے معلوم ہوا کہ ابن عباس رضی اللہ عنہ مدخولہ اور غیر مدخولہ کو دی گئی تین طلاق کے ایک ہونے کا بھی فتوی دیتے تھے۔

No comments:

Post a Comment