صحیح بخاری میں معلق روایت«حسبت علي بتطليقة» - Kifayatullah Sanabili Official website

2020-01-13

صحیح بخاری میں معلق روایت«حسبت علي بتطليقة»


دوسر روایت: صحیح بخاری میں معلق روایت«حسبت علي بتطليقة»

نوٹ:-
اس روایت کی تحقیق میں ہم نے یہ  مضمون  تین سال قبل عربی زبان میں لکھا تھا ، اور مشہور عربی فورم ملتقی اہل حدیث اسی طرح المجلس العملمی پر نشر کیا تھا جہاں اب بھی یہ مضمون موجود ہے، نیز اسے بہت سارے اہل علم کو بھی ارسال کیا ، تاکہ علماء کی طرف  سے اس پر نقد و تبصرہ آئے اور اس سے استفادہ کیا جاسکے، اور پہلے عربی میں لکھنے کا مقصد یہ تھا کہ اہل علم ہی کوئی رائے دیں ، اس دوران کسی بھی جانب سے کوئی نقد موصول نہیں ہوا بلکہ حدیث کے بعض متخصص اہل علم نے تائید ہی فرمائی ،  لہٰذا اب ہم  اسے اردو میں منتقل کرکے اس کتاب میں شامل کررہے ہیں، تاہم اب بھی کوئی حتمی فیصلہ نہیں کررہے ہیں بلکہ اہل علم و اہل فن کے مزید تبصروں کے منتظر ہیں ، ان شاء اللہ اس کے بعد ہم اس مسئلہ میں کوئی حتمی فیصلہ کریں گے، واضح رہے امام ابن القیم رحمہ اللہ کی تحقیق بھی وہی ہے جو اس مضمون کاماحصل ہے ، جیساکہ مضمون میں حوالہ موجود ہے۔
”وقال أبو معمر: حدثنا عبد الوارث، حدثنا أيوب، عن سعيد بن جبير، عن ابن عمر، قال: «حسبت علي بتطليقة»“ 
 ”امام بخاری رحمہ اللہ نے کہا اور ابومعمر عبداللہ بن عمرو منقری نے کہا ہم سے عبدالوارث بن سعید نے، کہا ہم سے ایوب سختیانی نے، انہوں نے سعید بن جبیر سے، انہوں نے ابن عمر رضی اللہ عنہما سے، انہوں نے کہا کہ مجھ پرمیری طلاق شمار کی گئی“ [صحيح البخاري (ناشردار طوق النجاة) 7/ 41 رقم 5253 نیز دیکھئے ہندوستانی درسی نسخہ ج2ص790]

یہ روایت معلق ہے:
سب سے پہلے تو یہ وضح ہونا چاہئے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس روایت کو اپنے شیخ سے تعلیقا ذکرکیاہے حافظ ابن حجراورعلامہ عینی رحمھما اللہ نے صراحت کی ہے کہ صرف ابوذر کے نسخہ میں یہاں حدثنا ہے باقی صحیح بخاری کے تمام نسخوں میں یہ روایت تعلیقا ہی ہے ۔[فتح الباري لابن حجر 9/ 352،عمدة القاري للعینی 20/ 228 ]

ممکن ہے کہ کوئی کہے کہ جس طرح مدلس کی ”عن“ والی روایت کے دوسرے طریق میں ”تحدیث“ کی صراحت آجاتی ہے تو ”عن“ والے صیغہ کو بھی سماع پر محمول کیا جاتا ہے ، اسی طرح یہاں بھی جب ایک نسخہ کی روایت میں ”تحدیث“ کا صیغہ آگیا تو ”قال“ والے صیغہ کو بھی سماع پر محمول کرنا چاہئے۔
توعر ض ہے کہ:
صحیح بخاری میں امام بخاری کے صیغہ روایت کو عام راوی یا مدلس کے صیغہ کی طرح سمجھ لینا بہت بڑی غلط فہمی ہے ، اور اسی غلط فہمی کے نتیجے میں بعض لوگوں نے امام بخاری رحمہ اللہ پر تدلیس کا بھی الزام لگا دیاہے ، کیونکہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی اس کتاب میں کئی مقامات پر اپنے اساتذہ سے ”قال“ کے صیغہ سے ایسی روایات درج کی ہیں جنہیں امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنے ان اساتذہ سے خود نہیں سناہے بلکہ کسی اور کے واسطے سے سنا ہے،ایسی بعض روایات کا تذکرہ آگے آرہا ہے، نیز امام بخاری پر تدلیس کے الزام کا جواب بھی آرہا ہے۔
دراصل مدلس جب کسی روایت کو اپنے استاذ سے براہ راست سن لے ، تو اس کے بعد وہ اس روایت کو دو طرح بیان کرسکتا ہے ، یا تو ”سماع کےصیغہ“ سے یا ”عن کے صیغہ“ سے، اس لئے کہ سماع ثابت ہونے کے بعد یہ دونوں صیغہ ایک دوسرے کے ہم معنی ہوں گے دونوں میں کوئی تضاد نہیں ہوگا۔تو جب ایک سند میں مدلس کے سماع کی صراحت مل جائے تو دوسری سند میں جب وہ ”عن“ کہے گا تو ہم اس ”عن“ کو سماع ہی پر محمول کریں گے ، کیونکہ ”عن“ کا صیغہ بھی سماع کے مقام پر استعمال ہوتا ہے۔
لیکن امام بخاری رحمہ اللہ اپنی کتاب صحیح بخاری میں جن دو صیغوں سے روایات درج کرتے ہیں وہ ایک دوسرے کے ہم معنی نہیں ہیں ، دراصل امام بخاری نے اپنی کتاب میں دو طرح کی روایات درج کی ہیںَ:
اول: کتاب کی اصل روایات
دوم: کتاب کی ضمنی روایات
پہلی قسم کی روایات کو پیش کرنے کے لئے امام بخاری نے ”صیغہ تحدیث“ کو خاص کیا ہے۔
اور دوسری قسم کی روایات کو پیش کرنے کے لئے ”صیغہ تعلیق“ کو خاص کیا ہے۔
اس لئے امام بخاری کی کتاب صحیح بخاری میں ”صیغہ تحدیث“ اور ”صیغہ تعلیق“ دونوں ہم معنی نہیں ، بلکہ دونوں کا الگ الگ مفہوم ہے۔لہٰذا صحیح بخاری میں اگر کوئی روایت صرف اور صرف ایک ہی مقام پر ہو اسے امام بخاری رحمہ اللہ یا تو صیغہ تحدیث سے پیش کریں گے یا پھر صیغہ تعلیق سے پیش کریں گے ۔
اب اگر صحیح بخاری میں کوئی روایت صرف ایک ہی مقام پر ہو ، اور امام بخاری نے اسے جس صیغہ سے پیش کیا ہے اس کے بارے میں نسخوں میں اختلاف ہو کسی میں ”تحدیث“ کا صیغہ ہو اور کسی میں ”تعلیق“ کا صیغہ ہو تو ان دونوں صیغوں کو درست نہیں کہا جاسکتا ، کیونکہ امام بخاری کی اصطلاح کے مطابق دونوں ہم معنی نہیں ہیں بلکہ دونوں ایک دوسرے خلاف ہیں ۔لہٰذا ایسی صورت میں ترجیح دے کر کسی ایک ہی صیغہ کو درست مانا جائے گا۔ اور زیر بحث روایت میں تعلیق کا صیغہ ہی راجح قرار پائے گا کیونکہ نسخہ ابوذر کے علاوہ صحیح بخاری کے سارے نسخوں کا اسی پراتفاق ہے۔

یہی وجہ ہے کہ محدثین صحیح بخاری کے حوالے سے اسے تعلیقا ہی نقل کرتے آئے مثلا دیکھئے:[السنن الكبرى للبيهقي (7/ 535) ، الجمع بين الصحيحين 2/ 180، جامع الأصول (7/ 603) ،تحفة الأشراف بمعرفة الأطراف (5/ 428) ،المحرر في الحديث (ص: 568) ]

علامہ البانی رحمہ اللہ بھی فرماتےہیں:
 ”هكذا أخرجه البخارى معلقا: وقال أبو معمر: حدثنا عبد الوارث حدثنا أيوب عن سعيد بن جبير“ 
 ”اسے اسی طرح امام بخاری نے تعلیقا روایت کیا کہ ابو معمر نے کہا :ہم سے عبدالوارث نے بیان کیا کہاکہ: ہم سے ابوب نے بیان کیا ، انہوں نے سعید بن جبیر کے واسطے اسے نقل کیا“ [إرواء الغليل للألباني: 7/ 128]

الغرض یہ کہ صحیح بخاری میں یہ روایت مسندا نہیں بلکہ تعلیقا ہے معاصرین میں علامہ البانی رحمہ اللہ بھی اسے معلق ہی مانتے ہیں ۔

معلقات بخاری کا درجہ :
صحیح بخاری میں مذکورہ روایت کے وجودکی نوعیت واضح ہوجانے کے بعد معلوم ہونا چاہئے کہ صحیح بخاری میں موجود وہ معلقات جنہیں امام بخاری نے پوری کتاب میں کہیں بھی مسند روایت نہیں کیا ہے وہ امام بخاری کی کتاب کااصل حصہ نہیں ہیں جیساکہ امام بخاری کی کتاب کے نام سے ہی ظاہرہے اس کی تفصل ہم نے اپنی کتاب (حدیث یزید محدثین کی نظر میں) ص 84 تا 95 پرپیش کردی اس کی طرف مراجعت کی جائے ۔

امام بخاری کے شیوخ سےان کی معلقات کا درجہ:
صحیح بخاری میں موجود معلقات کی ایک قسم وہ جس میں امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنے شیخ سے تعلیقا روایت کی ہے یعنی اپنے استاذ سے سماع کی صراحت کئے بغیر (قال) کے صیغہ سے روایت نقل کی ہے اورپوری کتاب میں کہیں بھی اسے مسندروایت نہیں کیا ہے جیساکہ زیر بحث روایت کامعاملہ ہے۔
اس قسم کی معلقات کے بارےمیں اتنی بات تو طے شدہ ہے کہ یہ معلقات بھی امام بخاری رحمہ اللہ کی اصل کتاب کا حصہ نہیں یعنی ان کی شرط پرنہیں ہیں ، کیونکہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اصل کتاب کی روایات کے لئے حدثنا یا اس جیسے دیگر صیغہ سماع کو خاص کررکھا ہے لیکن جب وہ کسی روایت کو بیان کرتے ہوئے حسب عادت اس طرح کا صیغہ سماع استعمال نہ کریں تو یہ واضح دلیل ہے کہ یہ ان کی شرط پر نہیں ہے اور ان کی کتاب میں یہ شامل نہیں ۔اس بارے میں اہل فن کی تصریحات بھی دیکھ لیجئے ۔

(أصبغ بن الفرج ) امام بخاری کے شیوخ میں سے ہیں امام بخاری رحمہ اللہ نے ان سے صحیح بخاری میں ( وقال أصبغ: أخبرني ابن وهب، عن جرير بن حازم۔۔۔) کہہ کرمعلق روایت بیان کی ہے۔ دیکھئے: صحیح بخاری : كتاب العقيقة ،رقم (5471 )
اس بارے میں امام أبو بكر الإسماعيلي فرماتے ہیں:
 ”لم يخرج البخاري في الباب حديثا صحيحا على شرطه أما حديث حماد بن زيد يعني الذي أورده موصولا فجاء به موقوفا وليس فيه ذكر إماطة الأذى الذي ترجم به وأما حديث جرير بن حازم فذكره بلا خبر وأما حديث حماد بن سلمة فليس من شرطه في الاحتجاج“ 
 ”اس باب میں امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی شرط پرکوئی بھی صحیح حدیث نہیں روایت کی ہے۔رہی حمادبن زید کی موصول حدیث تو یہ موقوف ہے اور اس میں امامۃ الاذی کا ذکر نہیں ہے جوکہ ترجمہ کا موضوع ہے۔اوررہی جریربن حازم کی حدیث تو اس سے بلا خبر (یعنی منقطعا) ذکرکیا ہے۔ اوررہی حمادبن سلمہ کی حدیث تو یہ ان کے احتاج کی شرط پرنہیں ہے“ [فتح الباري لابن حجر 9/ 590]

حافظ ابن حجر رحمه الله (المتوفى852)نے کہا:
 ”ظهر لي أن البخاري مع ذلك فيما يورده من تراجم الأبواب على اطوار ان وجد حديثا يناسب ذلك الباب ولو على وجه خفي ووافق شرطه أورده فيه بالصيغة التي جعلها مصطلحة لموضوع كتابه وهي حدثنا وما قام مقام ذلك والعنعنة بشرطها عنده وان لم يجد فيه الا حديثا لا يوافق شرطه مع صلاحيته للحجة كتبه في الباب مغايرا للصيغة التي يسوق بها ما هو من شرطه ومن ثمة أورد التعاليق“ 
 ”مجھے معلوم ہوتا ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ ابواب کے تراجم میں جو احادیث پیش کرتے ہیں ان کی کئی قسمیں ہوتی ہیں اگروہ کوئی ایسی حدیث پاتے ہیں جو باب کے موافق ہوتی ہے خواہ مخفی طور پرہی سہی نیز وہ حدیث ان کے شرط کے مطابق ہوتی ہے تو اسے اس صیغہ سے پیش کرتے ہیں جس صیغہ کو انہوں نے اپنی کتاب کے موضوع کے مطابق بطور اصطلاح اختیار کیا ہے اور وہ صیغہ (حدثنا) ہے اور اس کے قائم مقام صیغے ہیں اور عنعنہ کا ان کے نزدیک مشروط معاملہ ہے ،اور اگرامام بخاری رحمہ اللہ کسی عنوان کے تحت صرف ایسی حدیث پاتے ہیں جو قابل احتجاج ہونے کے باوجود بھی ان کی شرط پر نہیں ہوتی ہے تو اسے باب میں اس صیغہ سے نہیں لکھتے ہیں جس صیغے سے اپنی شرط پر پوری اترنی والےاحادیث لکھتےہیں اور اسی وجہ سے انہوں نے معلق روایات بیان کی ہیں“ [مقدمة فتح الباري لابن حجر: ص:8، 9]

امام أبو العباس القرطبي (المتوفی656) بخاری کے شیخ سے ان کی ایک معلق روایت کے بارے میں کہتےہیں:
 ”لكنه لم يسنده ليفرق به بين ما كان على شرطه في أصل الكتاب وبين ما ليس كذلك“ 
 ”لیکن امام بخاری نے اس روایت کو مسند (یعنی حدثنا کے صیغہ سے ) نہیں بیان کیا ہے تاکہ وہ فرق کریں ان روایات میں جو ان کی شرط پر ان کی اصل کتاب کا حصہ ہیں اوران روایات میں جو اس شرط پرنہیں ہیں“ [كشف القناع عن حُكم الوجد والسماع ص36]

امام بخاری رحمہ اللہ کے طرزعمل او اہل فن کی ان تصریحات سے واضح ہے کہ صحیح بخاری میں امام بخاری نے اپنے شیوخ سے جو روایات تعلیقا درج کی ہیں وہ ان کی شرط پرنہیں ہیں اور ان کی کتاب کااصل حصہ نہیں ہیں اسی لئے اس طرح کی کسی روایت کے بارے میں علی الاطلاق یہ کہنا صحیح نہیں کہ اسے بخاری نے روایت کی ہے بلکہ یوں کہنا چاہئے کہ اسے بخاری نے تعلیقا روایت کیا ہے یا تعلیقا ذکرکیا ہے۔

معلقات البخاری عن شیوخہ کاحکم صحت وضعف کے اعتبار سے
ماقبل میں یہ واضح کیا جاچکا ہے کہ معلقات البخاری عن شیوخہ امام بخاری کی شرط پر نہیں ہیں لیکن اب سوا ل یہ ہے کہ ان معلقات کا صحت وضعف کے لحاظ سے کیاحکم ہے ؟ تو اس سلسلے میں محدثین کے کئی اقوال ہیں:

پہلاقول: (یہ منقطع یعنی ضعیف شمار ہوں گی)
یہ بہت سارے محدثین کا قول ہے بعض کے حوالے ملاحظہ ہوں:

امام أبو بكر الإسماعيلي(المتوفی371 ) رحمہ اللہ
(أصبغ بن الفرج ) امام بخاری کے شیوخ میں سے ہیں امام بخاری رحمہ اللہ نے ان سے صحیح بخاری میں ( وقال أصبغ: أخبرني ابن وهب، عن جرير بن حازم۔۔۔) کہہ کرمعلق روایت بیان کی ہے۔ دیکھئے: صحیح بخاری : كتاب العقيقة ،رقم (5471 )
اس بارے میں امام أبو بكر الإسماعيلي فرماتے ہیں:
”لم يخرج البخاري في الباب حديثا صحيحا على شرطه ۔۔۔۔وأما حديث جرير بن حازم فذكره بلا خبر“ 
 ”اس باب میں امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی شرط پرکوئی بھی صحیح حدیث نہیں روایت کی ہے۔۔۔اور جہاں تک جریر بن حازم کی روایت کاتعلق ہے تو اسے بلا خبر ( یعنی منقطعا) ذکرکیا ہے“ [فتح الباري لابن حجر 9/ 590]
حافظا ابن حجررحمہ اللہ أبو بكر الإسماعيلي کے قول پرتبصرہ کرتے ہوئے فرماتےہیں:
 ”وقوله إنه ذكره بلا خبر يعني لم يقل في أول الإسناد أنبأنا أصبغ بل قال قال أصبغ لكن أصبغ من شيوخ البخاري قد أكثر عنه في الصحيح فعلى قول الأكثر هو موصول كما قرره بن الصلاح في علوم الحديث وعلى قول بن حزم هو منقطع وهذا كلام الإسماعيلي يشير إلى موافقته“ 
 ”أبو بكر الإسماعيلي کے قول بلا خبر کا مطلب یہ ہے کہ سند کی ابتداء میں امام بخاری نے أنبأنا أصبغ نہیں کہا بلکہ قال أصبغ کہا ہے۔لیکن أصبغ یہ امام بخاری کے شیوخ میں سے ہیں اور صحیح بخاری میں امام بخاری نے ان سے بکثرت روایت لی ہے تو اکثر کے بقول یہ موصول ہے جیساکہ ابن صلاح نے علوم الحدیث میں واضح کیا ہے ۔اور ابن حزم کے قول کے مطابق یہ منقطع ہے اور أبو بكر الإسماعيلي کے کلام میں ابن حزم کی موافقت کا اشارہ ہے“ [فتح الباري لابن حجر 9/ 591]

تنبیہ :-
 واضح رہے کہ ابن حجررحمہ اللہ نے ابن صلاح کی جس وضاحت کاحوالہ دیاہے خود ابن صلاح ہی نے اس کے خلاف بات کہی ہے جو قائلین انقطاع کے موافق ہے ان کے اس دوسرے موقف کی طرف کئی اہل علم نے اشارہ کیا بلکہ خود حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے بھی یہ بات کہی ہے دیکھئے : [تغليق التعليق لابن حجر: 2/ 8]

امام ابن حزم رحمه الله (المتوفى456) رحمہ اللہ
(هشام بن عمار) امام بخاری کے شیوخ میں سے ہیں امام بخاری رحمہ اللہ نے ان سے صحیح بخاری میں (وقال هشام بن عمار۔۔۔) کہہ کرحدیث معازف کو معلق روایت کیا ہے۔ دیکھئے: صحیح بخاری : كتاب الأشربة ،رقم (5590)
اس بارے میں امام ابن حزم رحمه الله فرماتے ہیں:
 ”وهذا منقطع لم يتصل ما بين البخاري وهشام“ 
 ”یہ منقطع ہے بخاری اور ھشام کے بیچ سند متصل نہیں“ [المحلى لابن حزم، ت بيروت: 7/ 565، [مقدمة ابن الصلاح: ص: 68]
نوٹ: یاد رہے حدیث معازف دوسری سندوں کے ساتھ ثابت وصحیح ہے۔

أبو بكر بن العربي (المتوفی 543 ) رحمہ اللہ:
(عثمان بن الهيثم أبو عمرو ) امام بخاری کے شیوخ میں سے ہیں امام بخاری رحمہ اللہ نے ان سے صحیح بخاری میں ( وقال عثمان بن الهيثم أبو عمرو۔۔۔) کہہ کرمعلق روایت بیان کی ہے۔ دیکھئے: صحیح بخاری : كتاب الوكالة ،رقم (2311)
اس بارے ابو بکرابن العربی فرماتے ہیں:
 ”أخرجه البخاري مقطوعا“ 
 ”امام بخاری نےاسےمقطوعا (یعنی منقطعا) روایت کیا ہے“ [النكت على مقدمة ابن الصلاح للزركشي 2/ 48]
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کہتے ہیں :
 ”وزعم بن العربي أنه منقطع“
 ”ابن العربی کاخیال ہے کہ یہ روایت منقطع ہے“ [فتح الباري لابن حجر 4/ 488]

خودحافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے بھی کہا:
 ”ولم يقل في موضع منها حدثنا عثمان فالظاهر أنه لم يسمعه منه“ 
 ”امام بخاری نے کسی بھی مقام پر حدثنا عثمان (عثمان بن الهيثم نے ہم سے بیان کیا) نہیں کہا ، اس لئے ظاہریہی ہے کہ ان سے امام بخاری نے یہ روایت نہیں سنی ہے“ [مقدمة فتح الباري لابن حجر: ص: 17]
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے تغلیق التعلیق میں اس کی کئی موصول سندیں ذکر کی ہے جن میں سے ایک میں عثمان بن الهيثم سے هلال بن بشر روایت کرتے ہیں جیساکہ صحیح ابن خزیمہ رقم (2424) میں ہے، اسے پیش نظررکھتےہوئےحافظ ابن حجررحمہ اللہ فرماتےہیں:
 ”وأقربهم لأن يكون البخاري أخذه عنه -إن كان ما سمعه من بن الهيثم - هلال بن بشر فإنه من شيوخه“ 
 ”اگرامام بخاری نےیہ حدیث عثمان بن الهيثم سے نہیں سنی ہے تو زیادہ قریب تر بات یہ ہے کہ امام بخاری نے اسے (عثمان بن الهيثم کے شاگرد) هلال بن بشر سے سنا ہے کیونکہ یہ بھی امام بخاری کے اساتذہ میں سے ہیں“ [فتح الباري لابن حجر 4/ 488]

عبد الحق الإشبيلي ( 582 ) رحمہ اللہ
(هشام بن عمار) امام بخاری کے شیوخ میں سے ہیں امام بخاری رحمہ اللہ نے ان سے صحیح بخاری میں (وقال هشام بن عمار۔۔۔) کہہ کرحدیث معازف کو معلق روایت کیا ہے۔ دیکھئے: صحیح بخاری : كتاب الأشربة ،رقم (5590)
اس بارے عبد الحق الإشبيلي رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
 ”ولم يصل سنده بهذا الحديث“ 
 ”امام بخاری نے اس کی سند کو متصل بیان نہیں کیا ہے“ [الجمع بين الصحيحين للإشبيلي 3/ 249 رقم 3508]
نوٹ: یاد رہے حدیث معازف دوسری سندوں کے ساتھ ثابت وصحیح ہے۔

مذکورہ دونوں ائمہ کا موقف بتاتےہوئے امام سخاوي رحمه الله (المتوفى902) فرماتے ہیں:
 ”قد حكم عبد الحق وابن العربي السني بعدم اتصاله“ 
 ”عبد الحق الإشبيلي اور ابن العربي السني نے ایسی روایت پرغیرمتصل (یعنی منقطع) ہونے کا فیصلہ کیا ہے“ [فتح المغيث بشرح ألفية الحديث 1/ 79]

محمد بن عمر بن مكي المعروف بابن الوكيل (المتوفی716) رحمہ اللہ:
امام بدر الدين الزركشي رحمه الله ان کی کتاب سے ان کا قول نقل کرتےہوئے فرماتےہیں:
 ”الذي أراه أنه لا يحمل على السماع وإن ثبت اللقاء لجواز أن يكون بلغه من عدل عنده لو ذكره لنا لعرفنا فسقه أو رآه في كتابه فيكون وجادة وبهذا رد ابن حزم حديث البخاري في المعازف لقوله فيه قال هشام بن عمار مع أنه شيخ البخاري“ 
 ”میرا موقف یہ ہے کہ استاذ سے نقل کردہ معلق روایت کو سماع پر محمول نہیں کیاجائے گا گرچہ دونوں کی آپس میں ملاقات ثابت ہے کیونکہ ممکن ہے معلق بیان کرنے والے کو روایت ایسے شخص کے واسطے پہنچی ہو جو اس کے نزدیک تو عادل ہو لیکن وہ اگراس کا نام بتادے تو ہیں اس کے فسق پر آگاہی ہوجائے ۔ یا ہوسکتا ہے معلق بیان کرنے والے نے کتاب سے وجادۃ بیان کیا ہے ۔ ابن حزم نے اسی وجہ سے معازف سے متعلق بخاری کی قال ھشام بن عمار کے ذریعہ روایت کو رد کردیا ہے جبکہ ھشام امام بخاری کے شیخ ہیں“ [ الإنصاف لابن وکیل نقلا عن النكت على مقدمة ابن الصلاح للزركشي 2/ 43]

امام ذهبي رحمه الله (المتوفى748) رحمہ اللہ
مذکورہ حدیث معازف کے بارےمیں امام ذہبی رحمہ اللہ فرماتےہیں:
 ”أخرجه البخاري عن هشام عن غير سماع“ 
 ”امام بخاری نے اسے (اپنے استاذ) ھشام سے بغیرسماع کے (یعنی منقطعا) روایت کیا ہے“ [تذكرة الحفاظ للذهبي، ط دار الكتب: 4/ 88]

امام سخاوي رحمه الله کا امام ذہبی کا موقف نقل کرتےہوئے لکھتے ہیں:
 ”وقال الذهبي حكمه الانقطاع“ 
 ”امام ذہبی رحمہ اللہ نے کہا کہ اس کا (یعنی بخاری کی اپنے شیخ سے معلق روایت کا ) حکم انقطاع کا ہے“ [فتح المغيث بشرح ألفية الحديث 1/ 79]

حافظ مغلطاي بن قلي الحنفي (المتوفى762)رحمہ اللہ
احناف میں حافظ مغلطاي بن قلي الحنفي (المتوفى762) نے بھی یہی موقف اختیار کیا ہے فرماتےہیں:
 ”قد راینا ان البخاري ذکر فی آخر الجنائز: وقال حجاج بن منهال: ثنا جرير عن عن الحسن، ثنا جندب كان برجل جراح، فقتل نفسه وحجاج شیخہ روی عنہ الکثیر ، ثم انہ لما خرج ھذا الحدیث في أخبار بني إسرائيل قال: ثنا محمد ثنا حجاج بن منهال فذکرہ ۔فقد بين أنه إذا أتى بهذه الصيغة تكون عنده منقطعة، إلا أن يظهر خلافها بأمر واضح لا محيص فيه“ 
 ”ہم نے دیکھا کہ کہ امام بخاری نے کتاب الجنائز کے اخیر میں معلق بیان کرتے ہوے کہا: (وقال حجاج بن منهال: ثنا جرير عن عن الحسن، ثنا جندب كان برجل جراح، فقتل نفسه ) پھر جب امام بخاری نے اسی حدیث کی تخریج بنو اسرائیل کے واقعات بیان کرتے ہوے کی تو کہا: (ثنا محمد ثنا حجاج بن منهال فذکرہ )۔ تو اس طرح امام بخاری نے یہ واضح کردیا ہے کہ وہ جب اس طرح کے صیغے سے روایت بیان کریں گے تو وہ منقطع ہوگی الا یہ کہ کہیں پراس کے خلاف کوئی ناقابل انکار دلیل مل جائے“ [إصلاح كتاب ابن الصلاح :ص 128]


ایک شبہہ کاازالہ:
صحیح بخاری میں امام بخاری رحمہ اللہ کے شیخ سے ان کی معلق روایات کوسماع پر محمول نہ کئے جانے پر ایک اعتراض یہ اٹھتا ہے کہ کیا اس سے امام بخاری کا مدلس ہونا ثابت نہیں ہوتا ؟ کیونکہ وہ اپنے شیخ سے قال کے ذریعہ وہ روایت بیان کررہے ہیں جسے انہوں نے اپنے اس شیخ سے سنا ہی نہیں ! اسی چیز کا نام تو تدلیس ہے۔
اس شبہہ کے ازالے میں سب سے پہلے تو یہ عرض ہے کہ اگرہم یہ تسلیم بھی کرلیں کہ صحیح بخاری میں امام بخاری کے شیخ سے ان کی عام معلق روایات سماع پر محمول ہیں تو بھی اس سے یہ اعتراض ختم نہیں ہوجاتا کیونکہ صحیح بخاری میں ہی امام بخاری نے اپنے شیخ سے کئی ایسی معلق روایات درج کی ہے جنہیں دوسری جگہ خود امام بخاری رحمہ اللہ نے مسند روایت کیا تو اپنے اور اپنے اس شیخ کے بارے میں ایک مزید واسطہ ذکر کیا ہے جو اس بات کی دلیل ہے کہ ان معلق روایات کو امام بخاری رحمہ اللہ اپنے معلق عنہم شیوخ سے نہیں سنا تھا ۔
اگر کوئی کہے کہ یہ المزید متصل الاساند کی صورت ہوسکتی ہے ، تو معلوم ہونا چاہئے کہ المزید فی متصل الاسانید کے لئے یہ شرط ہے کہ اضافی راوی کو حذف کرنے کے بعد وہاں سماع کی صراحت ہونی چاہئے ، حافظ ابن حجررحمہ اللہ فرماتے ہیں:
”وشرطه أن يقع التصريح بالسماع في موضع الزيادة، وإلا فمتى كان معنعنا، مثلا، ترجحت الزيادة“ 
 ”المزید فی متصل الاسانید کے لئے یہ شرط ہے کہ اضافہ کی جگہ پر سماع کی صراحت ہو ، ورنہ اگر یہاں ایسا نہ ہو مثلا عنعنہ ہو تو اضافہ والی سند ہی راجح قرار پائے گی“ [نزهة النظر في توضيح نخبة الفكر ت الرحيلي ص: 117]
یہ شرط بہت اہم ہے کیونکہ اگریہ شرط ہٹا لی جائے تو پھر ہرمدلس کے بارے میں یہی کہا جاسکتا ہے کہ جہاں اس نے راوی کو ساقط کیا ہے وہ المزید فی متصل الاسانید کے قبیل سے ہے ، لہٰذا یہ شرط ضروری ہے اور امام بخاری رحمہ اللہ جہاں واسطہ کے بغیر روایت کرتے ہیں وہاں اپنے اس شیخ سے سماع کی صراحت نہیں کرتے بلکہ معلق ہی بیان کرتے ہیں ۔
 لہٰذا ایسے مقامات پر سماع پر محمول کرنا اصول حدیث کے خلاف ہوگا، بنا بریں دیگرعام معلق روایات کوسماع پرمحمول کرنے سے بھی یہ اعتراض رفع نہیں ہوتا اس لئے سماع پرمحمول کرنے والی بات بھی بے سود اوررفع اعتراض کے لئے غیرمفید ہے۔

اس سلسلے میں سب سے صحیح بات وہی ہے جو حافظ ابن حجررحمہ اللہ نے پیش کی ہے وہ یہ ہے کہ اگرعام کتابوں میں اورعام حالات میں کوئی شخص اپنے استاذ سے عن یا اس کے قائم مقام صیغے مثلا قال وغیرہ سے ایسی روایت بیان کرتا جنہیں اپنے اس استاذ سے نہیں سنا ہوتا ہے تو یہ اس کے مدلس ہونے کی دلیل ہوگی ۔
لیکن اگرکوئی محدث خود صراحتا یا اشارتا کسی خاص مقام پریاکسی خاص کتاب میں یہ واضح کردے کہ یہاں وہ عن یا قال وغیرہ سے سماع کا تاثر نہیں دے رہا ہے تو ان حالات میں تدلیس کی بات کی قطعا نہیں کہی جاسکتی کیونکہ ایسی صورت میں محدث خود واضح کررہا ہے کہ اس کا قال یا عن کہنا سماع کے برابرنہیں ہے۔
صحیح بخاری میں امام بخاری رحمہ اللہ کا یہی معاملہ ہے کیونکہ وہ اپنی پوری کتاب میں اصل روایات کو سماع کی صراحت ہی کے ساتھ نقل کرتےہیں لیکن بعض مقامات پر ان کا اپنی اس خاص عادت کے برخلاف قال سے روایت بیان کرنا خود ان کی طرف سے اشارہ ہے کہ ان رویات کا معاملہ علیحدہ ہے۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ اسی بات کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتےہیں:
 ”لا يلزم من كونه يفرق في مسموعاته بين صيغ الأداء من أجل مقاصد تصنيفه أن يكون مدلسا“
 ”امام بخاری کا اپنی کتاب کے مقصد کے پیش نظر اپنی مسموعات کے بیان میں صیغوں کی تفریق کرنے یہ لازم نہیں آسکتا کہ وہ مدلس ہیں“ [النكت على كتاب ابن الصلاح لابن حجر 2/ 601]
ایک اور مقام پر لکھتے ہیں:
 ”لا يلزم من هذا الفعل الاصطلاحي له أن يوصف بالتدليس لأنا قد قدمنا الأسباب الحاملة للبخاري على عدم التصريح بالتحديث في الأحاديث التي علقها حتى لا يسوقها مساق أصل الكتاب فسواء عنده علقها عن شيخه أو شيخ شيخه وسواء عنده كان سمعها من هذا الذي علقه عنه أو سمعها عنه بواسطة“ 
 ”امام بخاری کے اس اصطلاحی طرزعمل سے یہ لازم نہیں آتا کہ انہیں مدلس کہہ دیا جائے کیونکہ ہم ان اسباب کا تذکرہ کرچکے ہیں جن کی بنا پر امام بخاری رحمہ اللہ معلق روایات میں سماع کی تصریح نہیں کرتے اور انہیں اپنی اصل کتاب کے منہج پر بیان نہیں کرتے ، خواہ یہ تعلیق ان کے شیخ سے ہو یا شیخ الشیخ سے ہوا نیز انہو ں نے معلق عنہ سے ڈائریکٹ سنا ہو یا کسی واسطے سے سنا ہو“ [تغليق التعليق لابن حجر: 2/ 9]

یہی معاملہ اس محدث کا بھی ہے جس نے کہیں پربھی اپنی یہ عادت اور اپنا یہ معمول نہ بنایا ہو کہ وہ اپنے شیخ سے قال کے ذریعہ عموما سماع والی روایات ہی بیان کرکے گا۔کیونکہ ایسی صورت میں وہ قال کے ذریعہ اپنے شیخ سے روایت بیان کرتے ہوئے سماع کا تاثر دینے والا نہیں قرار نہ پائے گا اس لئے اسے مدلس بھی نہیں کہہ سکتے کیونکہ مدلس وہ ہوگا جو قال وغیرہ سے سماع کا تاثر دے ۔
اسی آخری بات کو حافظ ابن حجررحمہ اللہ پیش کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
 ”ولا يلزم من ذلك أن يكون مدلسا عنهم فقد صرح الخطيب وغيره بأن لفظ قال لا يحمل على السماع إلا ممن عرف من عادته أنه لا يطلق ذلك إلا فيما سمع فاقتضى ذلك أن من لم يعرف ذلك من عادته كان الأمر فيه على الاحتمال“ 
 ”اور اس طرز عمل سے یہ لازم نہیں آتا کہ یہ ان سے تدلیس کرتے ہیں کیونکہ خطیب بغدادی وغیرہ نے یہ صراحت کر رکھی ہے کہ لفظ قال تبھی سماع پر محمول ہوگا جب اس کے کہنے والی کی یہ عادت معروف ہو کہ وہ سنے ہوئے مقامات پر اس کا استعمال کرتا ہے ۔اس کا مطلب یہ نکلا کہ جس کی یہ عادت معروف نہ ہو اس کی طرف سے اس (قال کے صیغہ) میں (انقطاع اور اتصال دونوں کا ) احتمال رہے گا“ [مقدمة فتح الباري لابن حجر: ص: 17]

دوسرا قول: (یہ متصل یعنی صحیح شمارہوں گی)
اس سلسلے میں دوسرا قول یہ ہے کہ امام بخاری سے ان کے شیوخ کی تعلیقات سماع پرمحمول ہوں گی یہ وضاحت ابن الصلاح رحمہ اللہ نے کی ہے لیکن خود ابن صلاح نے بھی اس سلسلے میں دوسری بات بھی کہہ رکھی ہے جیسا کہ ماقبل میں وضاحت کی جاچکی ہے۔
اور ابن الصلاح کی اس وضاحت کے بعد متاخرین کی اکثریت نے یہ بات دھرائی ہے۔لیکن ان میں سے بھی کئی ایک نے دوسری بات بھی کہہ رکھی ہے ۔ بہر حال یہ مشہور قول ہے اس لئے اس کی تفصیلات پیش کرنا ضروری نہیں ہے ۔
البتہ ابن الصلاح کے اس قول کے بعد بعض اہل علم نے ابن الصلاح کا تعاقب بھی کیا ہے اور ان کے اس موقف کی تردید کی ہے ان میں سے بعض کے حوالے پیش کردینا مناسب ہے چناں چہ:

ابن صلاح پر سب سے پہلے جس نے رد کیا ہے اور امام ابن حزم کے موقف کی حمایت کی ہے وہ حنفی عالم حافظ مغلطاي بن قليج (المتوفى762)رحمہ اللہ ہیں ۔ آپ کی ایک عبارت ماقبل میں پیش کی جاچکی ہے ایک مقام سےان کے الفاظ دیکھتےہیں جہاں پروہ ابن الصلاح کا موقف نقل کرتے ہوئے ان کی پرزورتردید کرتےہیں چانچہ لکھتے ہیں:
 ”وذكر أن البخاري إذا قال عن شيخ له في كتابه الصحيح: (وقال فلان)، أخذه عنه مذاكرة. انتهى كلامه. وليس جيدا، فإن البخاري قال في أواخر كتاب الجنائز: (وقال حجاج بن منهال: ثنا جرير بن حازم) فذكر حديث الرجل الذي كان به جراح فقتل نفسه. ثم إنه خرجه بعد في أخبار بني إسرائيل فقال: (ثنا محمد قال: ثنا حجاج بن منهال: ثنا جرير) به. فهذا كما ترى قال عن شيخه: (وقال)، ثم رواه بعد عنه بواسطة. وهذا يقوي ما ذهب إليه ابن حزم في حديث المعازف“ 
 ”ابن صلاح نے یہ ذکر کیا کہ بخاری جب اپنے شیخ سے اپنی کتاب صحیح میں (وقال فلان) کہیں تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ انہوں نے اپنے اس شیخ سے مذاکرۃ روایت کیا ہے (حافظ مغطایی کہتے ہیں): یہ درست بات نہیں ہے کیونکہ امام بخاری نے کتاب الجنائز کے اخیر میں معلق بیان کرتے ہوے کہا: (وقال حجاج بن منهال: ثنا جريربن حازم ) یہاں امام بخاری نے ایک زخمی شخص کی خود کشی والی حدیث ذکرکی ہے ۔ پھر اس کے بعد اسی روایت کوامام بخاری نے بنو اسرائیل کے واقعات بیان کرتے ہوے کی تو کہا: (ثنا محمد قال: ثنا حجاج بن منهال: ثنا جرير)یہاں بھی وہی متن بیان کیا ۔ تویہاں آپ دیکھ رہے ہیں کہ امام بخاری نے اپنے شیخ سے وقال کہہ روایت بیان کی لیکن پھر بعد اسی شخص سے ایک واسطہ کے ساتھ اسی روایت کو بیان کیا ! اس سے ابن حزم کے موقف کی تائید ہوتی ہے جو انہوں نے بخاری کی حدیث معازف سے متعلق اپنایا ہے“[إصلاح كتاب ابن الصلاح :ص 83 ، 84]
نوٹ: یاد رہے حدیث معازف دوسری سندوں کے ساتھ ثابت وصحیح ہے۔
حافظ مغلطای نے جس دلیل کی بنا پر ابن صلاح پر رد کیا ہے وہی دلیل حافظ ابن حجررحمہ اللہ کے سامنے بخاری کی شرح کرتےہوئے آئی تو انہوں نے بھی ابن صلاح اور ان کے موافقین کا رد کرتے ہوئے کہا:
 ”ففيه رد على من قال كل ما يعلقه عن مشايخه محمول على أنه سمعه منهم“ 
 ”اس میں ان لوگوں کا رد ہے جو کہتے ہیں کہ امام بخاری اپنے مشائخ سےجو بھی روایت کرتے ہیں وہ اس بات پرمحمول ہے کہ امام بخاری نے انہیں اپنے مشائخ سے سنا ہے“ [فتح الباري لابن حجر 6/ 310]

تیسرا قول: ( صحیح بخاری میں اندراج کے اعتبار سے منقطع شمارہوں گی لیکن اصلا اور حقیقتا صحیح تسلیم کی جائیں گی)
امام أبو العباس القرطبي (المتوفی656) بخاری کے شیخ سے ان کی ایک معلق روایت کے بارے میں کہتےہیں:
 ”وعلى هذا فلا يلتفت إلى ما قيل في حديث البخاري من أنه منقطع، لأن البخاري لا يعلق في كتابه إلا ما كان في نفسه مسندا صحيحالكنه لم يسنده ليفرق به بين ما كان على شرطه في أصل الكتاب وبين ما ليس كذلك“ 
 ”اس بنیاد پر اس قول کی طرف التفات نہیں کیا جائے جو بخاری کی حدیث کے بارے میں کہا گیا کہ یہ منقطع ہے ، کیونکہ امام بخاری اپنی کتاب میں جو معلق روایات بیان کرتےہیں وہ اصلا فی نفسہ متصل ہوتی ہیں۔لیکن امام بخاری نے اس روایت کو مسند (یعنی حدثنا کے صیغہ سے متصل ) نہیں بیان کیا ہے تاکہ وہ فرق کریں ان روایات میں جو ان کی شرط پر ان کی اصل کتاب کا حصہ ہیں اوران روایات میں جو اس شرط پرنہیں ہیں“ [كشف القناع عن حُكم الوجد والسماع ص36]

یہی قول ابن امام ابن دقيق العيد رحمه الله (المتوفى702) کا بھی ہے دیکھئے: [الإلمام بأحاديث الأحكام لابن دقيق العيد 1/ 260 ، النكت على مقدمة ابن الصلاح للزركشي 2/ 49]

چوتھا قول: (اتصال اورانقطاع دونوں کااحتمال ہوگا لیکن سند معلق عنہ تک صحیح ہوگی)
یہ قول بھی کئی اہل علم کا ہے لیکن ان میں سب سے اہم نام حافظ ابن حجررحمہ اللہ کا ہے ہم ذیل میں صرف ان کے موقف کی تفصیل پیش کرتے ہیں ۔
گذشتہ سطور میں بتایا جاچکا ہے کہ حافظ ابن حجررحمہ اللہ نے بھی ابن صلاح رحمہ اللہ کے موقف کی تردید کی ہے بلکہ ایک مقام پرحافظ ابن حجررحمہ اللہ بڑے واضح انداز میں لکھتےہیں:
 ”إذا ما علق الحديث عن شيوخه الذين سمع منهم فقد ذكر الشيخ أبو عمرو بن الصلاح أن حكم قال حكم عن وأن ذلك محمول على الاتصال ثم اختلف كلامه في موضع آخر فمثل التعاليق التي في البخاري بأمثلة ذكر منها شيوخ البخاري كالقعنبي والمختار الذي لا محيد عنه أن حكمه مثل غيره من التعاليق فإنه وإن قلنا يفيد الصحة لجزمه به فقد يحتمل أنه لم يسمعه من شيخه الذي علق عنه بدليل أنه علق عدة أحاديث عن شيوخه الذين سمع منهم ثم أسندها في موضع آخر من كتابه بواسطة بينه وبين من علق عنه“ 
 ”امام بخاری جب اپنے ان شیوخ سے جن سے انہوں نےسنا ہے معلق روایت بیا ن کریں تو ابن صلاح نے کہا ہے کہ قال یہ عن کے حکم میں ہے اور یہ اتصال پرمحمول ہے پھر دوسری جگہ ابن صلاح کی بات بدل گئی ہے چنانچہ انہوں نے تعلیقات بخاری کی مثال میں وہ روایات ذکر کردی ہیں جنہیں امام بخاری نے اپنے شیوخ مثلا قعنبی سے تعلیقا روایت کیا ہے ۔ اور مختار بات جسے مانے بغیر کوئی چارہ نہیں ہے وہ یہ ہے کہ امام بخاری کی ان کےشیوخ سے معلق روایات بھی عام معلق روایات ہی کی طرح ہیں کیونکہ گرچہ ہم یہ کہیں کہ بالجزم بیان کرنا صحت کی طرف اشارہ کرتا ہے تاہم اس بات کااحتمال موجود ہے امام بخاری نے اپنی اس شیخ سے نہ سنا ہو جس سے تعلیقا روایت کیا ہے اس کی دلیل یہ ہے کہ انہوں نے اپنے جن شیوخ سے سنا ہے ان سے کچھ ایسی روایات تعلیقا بیان کی ہیں کہ دوسری جگہ جب انہیں موصولا بیان کیا تو اپنے اور ان مشائخ کے بیچ ایک واسطہ کا ذکر کیا ہے“ [تغليق التعليق لابن حجر: 2/ 8 ، وانظر مقدمة فتح الباري لابن حجر: ص: 17]

اس قول میں حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے یہ تسلیم کیا ہے امام بخاری کی ان کے شیوخ سے معلق روایات منقطع ہوسکتی ہے لیکن اس کے ساتھ یہ کہا ہے کہ امام بخاری کا بالجزم بیان کرنا اس کی صحت کی طرف اشارہ کرتا ہے ۔
لیکن ابن حجر رحمہ اللہ کے اس قول کا مطلب یہ ہے کہ جس شیخ سے امام بخاری نے بالجزم بیان کیا ہے اس شیخ تک سندصحیح ہوگی یعنی معلق عنہ تک سند صحیح ہوگی ۔ دوسرے مقام پر بالجزم سے صحت پر استدلال کی وضاحت کرتے ہوئے ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
’وأما الثاني: وهو ما لا يوجد فيه إلا معلقا، فهو على صورتين:إما بصيغة الجزم وإما بصيغة التمريض.فأما الأول: فهو صحيح إلى من علقه عنه، وبقي النظر فيماأبرز من رجاله‘‘
’’رہی (معلقات البخاری کی) دوسری قسم جو صحیح بخاری میں صرف تعلیقا ہی پائی جاتی ہیں ، توان کی دوصورتیں ہیں۔(الف)یا تویہ صیغۂ جزم کے ساتھ مذکور ہوں گی(ب) یا صیغۂ تمریض کے ساتھ ۔جہاں تک پہلی صورت( صیغۂ جزم والی تعلیقات)کی بات ہے،تواس کی سند معلق عنہ تک تو صحیح ہوگی لیکن اس کے ظاہرکردہ رواۃ میں غوروفکر کی ضرورت باقی رہے گی ‘‘ [النكت على كتاب ابن الصلاح لابن حجر 1/ 325]

مثلا صحیح بخاری میں امام بخاری نے ’’قال طاؤس۔۔۔‘‘ کہہ کربالجزم ایک معلق روایت بیان کی ہے اس کے بارے میں حافظ ابن حجر کہتے ہیں:
’’هذا التعليق صحيح الإسناد إلى طاوس لكن طاوس لم يسمع من معاذ فهو منقطع فلا يغتر بقول من قال ذكره البخاري بالتعليق الجازم فهو صحيح عنده لأن ذلك لا يفيد إلا الصحة إلى من علق عنه وأما باقي الإسناد فلا‘‘
یہ تعلیق طاؤس تک صحیح الاسناد ہے ،لیکن طاؤس نے اسے معاذ t سے نہیں سنا اس لئے یہ منقطع ہے۔ لہذا ان لوگوں کے قول سے دھوکہ نہیں کھاناچاہئے جو کہتے ہیں کہ’’ امام بخاری نے اس تعلیق کو بالجزم بیان کیا ہے اس لئے امام بخاری کے نزدیک یہ صحیح ہے۔‘‘کیونکہ صیغۂ جزم صرف اس بات کافائدہ دے رہاہے کہ یہ معلق عنہ(طاؤس) تک صحیح ہے،رہی باقی (طاؤس سے آگے کی)سند تو وہ صحیح نہیں ‘‘ [فتح الباري لابن حجر 3/ 312]

ایک دوسرے مقام پر صیغہ جزم والی تعلیقات کے ضعیف ہونے کی وجہ بتلاتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’ وبعضه يكون ضعيفا من جهة الانقطاع خاصة‘‘
’’اوربعض ( صیغۂ جزم والی)تعلیقات ضعیف ہوں گی بالخصوص انقطاع کی وجہ سے‘‘[النكت على كتاب ابن الصلاح لابن حجر 1/ 326]

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کا یہ کہنا کہ بالخصوص انقطاع کی وجہ یہ دلیل ہے کہ انقطاع کے علاوہ بھی مثلا شذوذ وغیرہ کی وجہ سے بھی بعض جزم والی تعلیقات ضعیف ہوسکتی ہیں ۔

ان اقوال میں ترجیح:
ان اقوال میں دوسرا قول بالکل بے دلیل اور بے بنیاد ہے ۔ تیسرے قول میں یہ احتمال ہے کہ تفصیل کے اعتبار سے وہ بھی چوتھے قول ہی کی طرح ہے۔باقی رہا پہلا اور چوتھا قول تو عرض ہے کہ :

پہلے قول کی ترجیح کے لئے یہ بات کہی جاسکی ہے کہ اس کی بنیاد واضح دلیل پر مبنی ہے نیز صحیح بخاری کی معلق روایات سے متعلق یہ سب سے پہلا اور سب سے قدیم موقف ہے ابن صلاح کے بعد اس موقف میں اختلاف ہوا لیکن ان کے بعد بھی متعدد اہل علم مثلا ابن الوکیل ، امام ذہبی اور حافظ مغلطائ وغیرہم کا موقف رہاہے ۔

دوسرے قول کی ترجیح میں یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ یہ ابن حجر رحمہ اللہ کا اختیار کردہ ہے جنہوں نے صحیح بخاری کی تعلیقات پرسب سے زیادہ کام کیا ہے لہٰذا وہ اس معاملے میں متخصص ہیں، نیز یہ درمیانی اور معتدل قول ہے ۔لیکن یہ دلیل پر مبنی نہیں ہے بلکہ اس حسن ظن پر مبنی ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے جب بالجزم روایت کیا ہے تو ان کی نظر میں روایت صحیح ہی ہوگی ۔
اس کے جواب میں ابن الوکیل کا قول گذرچکا ہے کہ امام بخاری کی نظر میں کسی راوی کے عادل ہونے سے یہ لازم نہیں آتا کہ دوسروں کی نظر میں بھی وہ عادل ہو۔اس لئے اس بات کا احتمال ہے کہ امام بخاری معلق عنہ تک اپنی سند پیش کردیں تو دوسروں کی تحقیق میں اس سند کاکوئی راوی ضعیف ثابت ہوسکتا ہے۔

بہرحال اگر پہلے قول کو راجح مانا جائے تو یہ روایت منقطع ہوگی اور اس وقت تک صحیح ثابت نہیں ہوگی جب کہ اس کی دوسری متصل اور شذوذ وعلل سے پاک سند نہ مل جائے ۔
ہمارے ناقص علم کی حد تک صحیح بخاری سے باہر اس کی کوئی متصل سنددسیتاب نہیں ہے شارحین بخاری نے یہ ضرور کہا ہے کہ امام ابونعیم نے اسے موصول روایت کیا ہے لیکن امام ابونعیم کی مکمل سند میرے ناقص مطالعہ کی حد تک کسی نے نقل نہیں کی ہے۔
اور اگر دوسرے قول راجح قرار دیاجائے تو امام بخاری کے شیخ تک سند صحیح ہوجائے گی لیکن اس کے بعد کی سند رجال اور شذوذ وعلل کے لحاظ سے قابل بحث ہوگی ۔
اورآگے تفصیل آرہی ہے کہ امام بخاری کے شیخ تک سند صحیح ہونے کے بعد بھی بعد کا مرحلہ قابل نقد ہے جیساکہ ابن القیم کی تحقیق ہے کما سیاتی ۔

اس روایت کی متصل سند؟
مذکورہ تفصیل سے یہ بات واضح ہے کہ صحیح بخاری میں یہ روایت تعلیقادرج ہے لیکن اب سوال یہ ہے کہ کیا صحیح بخاری کے علاوہ کسی اور کتاب میں اس کی متصل سند موجود ہے ؟
حافظ ابن حجررحمہ اللہ نے صحیح بخاری کی شرح کرتےہوئے اس کی معلق روایت کی تخریج کی ہے بلکہ اس پرالگ سے تغلیق التعلیق کے نام سے ایک کتاب بھی لکھی ہے اس کتاب میں حافظ ابن حجررحمہ اللہ نے اس معلق روایت کو نقل کیا ہے اورکہا:
”قال وقال أبو معمر ثنا عبد الوارث ثنا أيوب عن سعيد بن جبير عن ابن عمر قال حسبت علي بتطليقة ، وهكذا وقع في روايتنا من طريق أبي الوقت وغيره وفي روايتنا من طريق أبي ذر ثنا أبو معمر فذكره فهو متصل من تلك الطريق“ 
 ”امام بخاری رحمہ اللہ نے کہاکہ : ابومعمر نے کہا: ہم سے عبدالوارث نے بیان کہا کہ : ہم سے ایوب نے بیان کیا انہوں نے سعید بن جبیر سے بیان کیا وہ ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا: مجھ پر ایک طلاق شمار کی گئی“ [تغليق التعليق لابن حجر: 4/ 434]

ملاحظہ فرمائیے یہاں پر حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اس معلق روایت کی کوئی الگ سے موصول سند نہیں پیش کی ہے بلکہ صرف یہ کہنے پراکتفاء کیا ہے کہ صحیح بخاری کا جو ابوذر والا نسخہ ہے اس میں حدثنا کی صراحت ہے ۔
حالانکہ خود حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے بھی یہ اعتراف کیا ہے کہ باقی تمام نسخوں میں یہ روایت معلق ہی ہے ، ظاہر ہے کہ صحیح بخاری جسے ایک بڑی جماعت نے روایت کیا ہے اس پوری جماعت کے خلاف صرف ایک شخص کے نسخہ میں ”حدثنا“ ملتا ہے تو غالب ظن یہی ہے کہ یہ کاتب کی غلطی ہی ہے۔
اور ماقبل میں ہم بتلا چکے ہیں کہ صحیح بخاری سے جن جن محدثین نے یہ روایت نقل کی ہے سب نے اسے تعلیقا ہی نقل کیا ہے عصر حاضر میں علامہ البانی رحمہ اللہ نے بھی اسے معلق ہی مانا ہے یعنی ابوذر والے نسخہ کی شاذ روایت پر کسی نے اعتماد نہیں کیا ہے، اس لئے اس شاذ روایت کی بنیاد پر اس معلق روایت کو موصول تسلیم کرنا محل نظر ہے ۔واللہ اعلم۔

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے تغلیق التعلیق میں اس روایت کے وصل کے لئے ابوذر کے نسخہ کا حوالہ دیا ہے کہ لیکن صحیح بخاری کی شرح فتح الباری میں اس روایت کے وصل کا حوالہ دیتے ہوئے کہا:
 ”وقد أخرجه أبو نعيم من طريق عبد الصمد بن عبد الوارث عن أبيه مثل ما أخرجه البخاري مختصرا وزاد يعني حين طلق امرأته فسأل عمر النبي صلى الله عليه وسلم عن ذلك“ 
 ”اسے ابونعیم نے عبد الصمد بن عبد الوارث کے طریق سے ان کے والد کے واسطے امام بخاری کی طرح مختصرا روایت کیا ہے اور اس میں یہ اضافہ ہے : جب ابن عمر رضی اللہ عنہ نے اپنی بیوی کو طلاق دے دیا تو عمر رضی اللہ عنہ نے اس سلسلے میں اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے استفصار کیا“ [فتح الباري لابن حجر 9/ 352]

علامه عينى رحمه الله اپنی شرح میں فرماتے ہیں:
 ”وأخرج هذا المعلق أبو نعيم من طريق عبد الصمد بن عبد الوارث عن أبيه مثل ما أخرجه البخاري مختصرا، وزاد يعني: حين طلق امرأته، فسأل عمر، رضي الله تعالى عنه، النبي صلى الله عليه وسلم“ 
 ”اس معلق روایت کو ابونعیم نے عبد الصمد بن عبد الوارث کے طریق سے ان کے والد کے واسطے امام بخاری کی طرح مختصرا روایت کیا ہے اور اس میں یہ اضافہ ہے : جب ابن عمر رضی اللہ عنہ نے اپنی بیوی کو طلاق دے دیا تو عمر رضی اللہ عنہ نے اس سلسلے میں اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے استفصار کیا“ [عمدة القاري شرح صحيح البخاري 20/ 228]

عرض ہے کہ حافظ ابن حجر اور علامہ عینی نے امام ابونعیم سے لیکر عبد الصمد بن عبد الوارث تک کی سند نقل کی نہیں ہے ۔
عبد الصمد بن عبد الوارث کی وفات 207 ہجری میں ہوئی ہے [تهذيب الكمال للمزي: 18/ 102]
اور امام ابونعیم کی پیدائش 336 ہجری میں ہوئی ہے [تاريخ الإسلام ت بشار 9/ 468 ]
یعنی دونوں کے زمانے میں ایک صدی سے بھی زائد کا فاصلہ ہے ۔

دیگرطرق کا دراسہ
ماقبل میں ہم نے واضح کردیا ہے کہ صحیح بخاری میں یہ روایت معلق ہے اور اس کی کوئی موصول سند دستیاب نہیں ہے ، لیکن اگر اس کی موصول سند مل بھی جائے تو بھی یہ روایت شاذ ہونے کے سبب ضعیف ہی ہوگی جیساکہ ابن القیم رحمہ اللہ نے کہا ہے جس کا کلام آگے آرہا ہے ، ذیل میں ہم اس حدیث کے تمام طرق کو سامنے رکھنے ہوئے اس کاجائزہ پیش کرتے ہیں جس سے امام ابن القیم کی زبردست تائید ہوتی ہے۔

یہ روایت کا بنیادی طریق ”سعید بن جبیر عن ابن عمر“ ہے۔
سعید بن جبیر سے اسے درج ذیل لوگوں نے روایت کیاہے:
● 1۔ أبو بشر جعفر بن إياس الواسطى
● 2۔يونس بن عبيد بن دينار العبدي
● 3۔أيوب بن أبى تميمة كيسان السختيانى

(1)طریق أبی بشر جعفر بن إياس الواسطى
امام ابن حبان رحمه الله (المتوفى354)نے کہا:
”أخبرنا عبد الله بن أحمد بن موسى، قال: حدثنا وهب بن بقية، قال: حدثنا هشيم، عن أبي بشر، عن سعيد بن جبير، عن ابن عمر قال: طلقت امرأتي وهي حائض، «فرد علي رسول الله صلى الله عليه وسلم ذلك حتى طلقتها وهي طاهر“ 
 ”عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ میں نے اپنی بیوی کو طلاق دے دی اور وہ حیض سے تھی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طلاق کو مجھ پرلوٹا دیا ۔یہاں تک کہ جب وہ حیض سے پاک و صاف ہو گئی تب میں نے اسے طلاق دی“ [صحيح ابن حبان 10/ 81 رقم 4264 وإسناده صحيح على شرط مسلم و اخرجہ أبو داود الطيالسي فی مسندہ (3/ 396) و أبو يعلى فی مسندہ (10/ 19) من طریق سريج بن يونس و واخرجہ النسائي فی سننہ (6/ 141) من طریق زياد بن أيوب و الطحاوی فی شرح معاني الآثار(3/ 52) من طریق سعيد بن منصور کلھم (أبو داود الطيالسي وسريج بن يونس و زياد بن أيوب وسعيد بن منصور) من طریق ھشیم عن أبي بشربہ ]

”أبو بشر جعفر بن إياس الواسطى“ ثقہ ہونے کے ساتھ ساتھ کتب ستہ کے راوی اور بہت بڑے حافظ وامام ہیں اس کے ساتھ ان کی ایک خاص خوبی یہ ہے کہ یہ سعیدبن جبیر سے روایت کرنے میں سب سےبڑے ثبت ہیں ۔
امام برديجي رحمه الله (المتوفى 301)نے کہا:
 ”كان ثقة وهو من أثبت الناس في سعيد بن جبير“ 
 ”یہ ثقہ تھے اور سعیدبن جبیر سے روایت کرنے میں تمام لوگوں میں سب سے زیادہ ثبت تھے“ [تهذيب التهذيب لابن حجر، ط الهند: 2/ 84]
حافظ ابن حجر رحمه الله (المتوفى852)نےبھی کہا:
 ”ثقة من أثبت الناس في سعيد بن جبير“ 
 ”یہ ثقہ تھے اور سعیدبن جبیر سے روایت کرنے میں تمام لوگوں میں سب سے زیادہ ثبت تھے“ [تقريب التهذيب لابن حجر: رقم930]
اور یہ روایت انہوں نے سعید بن جبیر ہی سے بیان کی ہے اس لئے ان کی مخالفت کوئی کرکے گا تو اس کا اعتبار نہیں ہوگا۔

(2)طریق يونس بن عبيد بن دينار العبدي
امام سعيد بن منصور رحمه الله (المتوفى227) نے کہا:
 ”نا هشيم، أنا يونس، عن سعيد بن جبير، عن ابن عمر، «أنه طلق امرأته وهي حائض فرد ذلك رسول الله صلى الله عليه وسلم حتى طلقها وهي طاهر“ 
 ”عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ انہوں نے اپنی بیوی کو طلاق دے دی اور وہ حیض سے تھی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طلاق کو (ان پر) لوٹا دیا ۔یہاں تک کہ جب وہ حیض سے پاک و صاف ہو گئی تب انہوں نے اسے طلاق دی“ [سنن سعيد بن منصور: 1/ 402 واسنادہ صحیح ]

يونس بن عبيد بن دينار العبدي ثقہ ہونے کے ساتھ ساتھ کتب ستہ کے راوی اوربہت بڑے امام ہیں۔

ملاحظہ فرمائیں مذکور دو جلیل القدر ائمہ نے سعید بن جبیر کے طریق سے اسی روایت کو بیان کیا ہے لیکن ان دونوں میں سے کسی نے بھی ”حسبت علي بتطليقة“ کے الفاظ ذکر نہیں کئے ہیں ۔یعنی طلاق حیض کو شمار کئے جانے کی بات روایت نہیں کی ہے بلکہ اس کے عین برعکس طلاق کو رد کرنے کی بات روایت کی ہے۔

(3)طریق أيوب بن أبى تميمة كيسان السختيانى
ایوب سے اس روایت کو دو لوگوں نے روایت کیا ہے:

 ➊ معمر بن راشد الأزدى الحدانى
 ➋ عبد الوارث بن سعيد بن ذكوان
ان میں سے پہلے شاگرد نے ”ایوب“ سے روایت بیان کی تو انہوں نے بھی حیض میں دی گئی طلاق کو شمار کئے جانے کی بات روایت نہیں کی بلکہ معنوی طور پر تقریبا وہی بات بیان کی جو ایوب کے دونوں متابع ”أبو بشر جعفر بن إياس الواسطى“ اور ”يونس بن عبيد بن دينار العبدي“ نے بیان کی ہے ۔چنانچہ:

امام عبد الرزاق رحمه الله (المتوفى211) نے کہا:
 ”عن معمر، عن أيوب، عن ابن سيرين، و سعيد بن جبير، أن ابن عمر كان طلق امرأته التي طلق على عهد النبي صلى الله عليه وسلم حائضا، فذكر ذلك للنبي صلى الله عليه وسلم، فأمره أن يراجعها، ثم يتركها، حتى إذا حاضت، ثم طهرت طلقها قبل أن يمسها قال: «فتلك العدة التي أمر الله أن تطلق النساء لها“ 
 ”ابن عمررضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں اپنی بیوی کو حیض کی حالت میں طلاق دے دی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اس بات کا تذکرہ کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں حکم دیا کہ تو بیوی کوواپس لیں اور پھر اسے حیض آنے تک چھوڑے رکھیں پھر جب وہ پاک ہوجائے تو اسے جماع کرنے سے پہلے طلاق ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: پس یہی وہ عدت ہے جس میں اللہ تعالی نے حکم دیا ہے کہ عورتوں کوطلاق دی جائے“ [مصنف عبد الرزاق، ت الأعظمي: 6/ 308 واسنادہ صحیح علی شرط الشیخین]

لیکن ایوب کے دوسرے شاگر ”عبد الوارث بن سعيد بن ذكوان“ نے ایوب سے روایت کیا تو اس نے طلاق شمار کئے جانے کی بات ذکر کردی چنانچہ:
امام بخاري رحمه الله (المتوفى256) نے تعلیقا روایت کرتے ہوئے کہا:
 ”وقال أبو معمر: حدثنا عبد الوارث، حدثنا أيوب، عن سعيد بن جبير، عن ابن عمر، قال: «حسبت علي بتطليقة»“ 
 ”امام بخاری رحمہ اللہ نے کہا اور ابومعمر عبداللہ بن عمرو منقری نے کہا ہم سے عبدالوارث بن سعید نے، کہا ہم سے ایوب سختیانی نے، انہوں نے سعید بن جبیر سے، انہوں نے ابن عمر رضی اللہ عنہما سے، انہوں نے کہا یہ طلاق جو میں نے حیض میں دی تھی مجھ پر شمار کی گئی“ [صحيح البخاري (ناشردار طوق النجاة) 7/ 41 رقم 5253 نیز دیکھئے ہندوستانی درسی نسخہ ج2ص790]

صحیح بخاری میں موجود یہ روایت معلق ہے امام ابونعیم نے اسے موصول بیان کیا ہے مگر اس کی سند دستیاب نہیں ہے ماقبل میں تعلیق البخاری عن شیوخہ پر تفصیل پیش کی جاچکی ہے محدثین کی ایک جماعت کے نزدیک یہ معلقات بھی منقطع ہیں اگر اس قول کو ترجیح دی جائے توظاہر ہے کہ معمر بن راشد کی متصل اور صحیحین کی شرط پرصحیح روایت خلاف عبدالوارث بن اس معلق روایت کا کوئی اعتبار نہیں ہے۔

اور اگر معلقات البخاری عن شیوخہ سے متعلق حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کی بات راجح قراردی جائے کہ یہ معلقات معلق عنہ تک صحیح ہوتی ہیں تو معلق عنہ کے بعد سند و متن کا حصہ قابل بحث ہوگا۔
پھرایسی صورت میں عبدالوارث بن سعید کی روایت کا اعتبار نہیں ہوگا کیونکہ اس نے جوبات بیان کی ہے اسے سند کے کسی بھی طبقہ کے رواۃ بیان نہیں کرتے بلکہ بعض طبقہ کے رواۃ اس کے بالکل برعکس بات بیان کرتے چنانچہ :
اولا:
 ”عبدالوارث بن سعید“ نے اپنے شیخ ”ایوب“ سے جو بات بیان کی ہے اسے ایوب ہی کے دوسرے بڑے اوراوثق شاگرد ”معمر بن راشد الأزدی“ نے بیان نہیں کیا ہے۔
ثانیا:
اسی طرح ”عبدالوارث بن سعید“ کے شیخ الشیخ ”سعید بن جبیر“ سے اس روایت کو دو جلیل القدر ائمہ ”أبو بشر جعفر بن إياس الواسطى“ اور ”يونس بن عبيد بن دينار العبدي“ نے بیان کیا ہے ان دونوں میں سے کسی نے بھی ”عبدالوارث بن سعید“ والی بات بیان نہیں کی ہے بلکہ ان دونوں نے تو بلکہ ان دونوں نے تو بالکل اس کے برعکس یہ بیان کیا ہے کہ یہ طلاق رد کردی گئی اوراس کے عین برعکس ”عبدالوارث“ کا یہ بیان کرنا کہ یہ طلاق شمار کی گئی یہ صریح مخالفت ہے ۔
ثالثا:
اسی طرح ”عبدالوارث بن سعید“ کے شیخ الشیخ کےاستاذ اور اصل راوی حدیث ابن عمررضی اللہ عنہ سے یہ حدیث ان کے شاگردوں کی ایک بڑی تعداد کے ذریعہ منقول ہے ان میں سے کسی نے بھی عبدالوارث والی بات بیان نہیں کی ہے ان میں سے بعض روایات سندا ضعیف ہیں لیکن اکثر روایات صحیح ہیں ذیل میں ابن عمر رضی اللہ عنہ کے دس (10) شاگردوں کی روایات بسند صحیح ملاحظہ ہوں مختصرحوالے ملاحظہ ہوں:

 ➊ نافع مولی ابن عمر( صحيح البخاري 7/ 41 رقم 5251 )
 ➋ سالم بن عبد الله(صحيح البخاري 6/ 155رقم 4908)
 ➌ یونس بن جبیر (صحيح البخاري 7/ 59 رقم 5333 )
 ➍ أنس بن سيرين (صحيح مسلم 2/ 1097رقم1471)
 ➎ عبداللہ بن دینار(صحيح مسلم 2/ 1095رقم 1471)
 ➏ طاوس بن کیسان (صحيح مسلم 2/ 1097رقم 1471)
 ➐ محمد بن مسلم ابو الزبیر (مصنف عبد الرزاق 6/ 309 رقم 10960 واسنادہ صحیح)
 ➑ شقيق بن سلمةأبو وائل (مصنف ابن أبي شيبة. سلفية: 5/ 3 واسنادہ صحیح )
 ➒ میمن بن مھران (السنن الكبرى للبيهقي، ط الهند: 7/ 326 واسنادہ صحیح)
 ➓ مغيرة بن يونس(شرح معاني الآثار 3/ 53 رقم 4464 واسنادہ حسن)

ملاحظہ فرمائیں ”عبدالوارث“ نے سند کے ہر طبقہ کے رواۃ کی کی مخالفت کی بلکہ بعض رواۃ کے بالکل متضاد بات بیان کی ہے ، لہٰذا یہ صرف زیادت ثقہ کی بات نہیں ہے بلکہ یہاں صریح  مخالفت بھی موجود ہے ، اس لئے  اتنی شدید نیز متضاد مخالفت کے ہوتے عبدالوارث کا بیان قطعا معتبرنہیں ہوسکتا۔

امام ابن قيم رحمه الله (المتوفى751) کا نقد
امام ابن القیم رحمہ اللہ نے زیر بحث روایت کو اس بنیاد پر شاذ بتلایا ہے کہ ابن عمررضی اللہ عنہ کے شاگردوں میں سعد بن جبیر کے علاوہ کسی نے بھی طلاق شمار کئے جانے کی بات نقل نہیں کی ہے ، لکھتے ہیں:
”وفي لفظ للبخاري عن سعيد بن جبير عن بن عمر فحسبت علي بتطليقة ولكن هذه اللفظة انفرد بها سعيد بن جبير عنه وخالف نافع وأنس بن سيرين ويونس بن جبير وسائر الرواة عن بن عمر فلم يذكروا فحسبت علي“ 
 ”بخاری میں عن سعيد بن جبير عن بن عمر کے طریق سے مروی ہے فحسبت علي بتطليقة یعنی مجھ پریہ طلق شمار کی گئی ،لیکن ابن عمر سے یہ الفاظ نقل میں کرنے میں سعید بن جبیر منفرد ہیں اور نافع ،أنس بن سيرين ، يونس بن جبير اور ابن عمر رضی اللہ عنہ کے دیگرتمام تلامذہ نے ان کی مخالفت کی ہے اورطلاق شمار کئے جانے والی بات کا ذکر نہیں کیا ہے“ [عون المعبود مع حاشية ابن القيم: 6/ 171، 172، تهذيب السنن لابن القیم : ص 868 تا 870]

امام ابن القیم رحمہ اللہ نے یہاں بخاری کی معلق روایت کو اس بنیاد پر شاذ بتلایا ہے کہ ابن عمررضی اللہ عنہ کے شاگردوں میں سعد بن جبیر کے علاوہ کسی نے بھی طلاق شمار کئے جانے کی بات نقل نہیں کی ہے، یعنی یہ شاذ ہے۔
اورماقبل میں ہم بتلاچکے ہیں کہ سعید بن جبیر سے بھی ابن عمر رضی اللہ عنہ کی مخالفت ثابت نہیں کیونکہ ان سے روایت کرنے والے دو جلیل القدر ائمہ نے یہ لفظ بیان نہیں کی ہے ۔صرف ایوب کے طریق میں یہ الفاظ ہیں اور ایوب کے بھی دوسرے شاگرد نے اسے بیان نہیں کیاہے بلکہ صرف عبدالوارث نے بیان کیا ہے جیساکہ تفصیل پیش کیا جاچکی ہے۔

علامہ البانی کے شاگرد أبو بكر رعد بن عبد العزيز حسين بكر النعيمي نے بھی زیر بحث روایت کوسعید بن جبیر سے مروی دیگر طرق کے مخالف ہونے کے سبب شاذ قرار دیا ہے۔ دیکھئے:[النهي يقتضي الفساد بين العلائي وابن تيمية : ص 139]
لیکن انہوں نے غالبا مسلم کی ایک روایت کے بارے میں یہ سمجھ لیا کہ اس میں بھی سعید بن جبیر کی روایت کی طرح ابن عمررضی اللہ عنہ سے طلاق شمار کئے جانے کی بات ہے۔
حالانکہ مسلم کی اس روایت میں صاف لکھا ہے کہ یہ قول ابن عمر کا نہیں بلکہ ان کے شاگرد سالم کا ہے مسلم کے الفاظ ہیں:
 ”وكان عبد الله طلقها تطليقة واحدة، فحسبت من طلاقها“ 
 ”عبداللہ بن عمر نے اپنی بیوی کو ایک طلاق دی تھی اور یہ ایک طلاق شمارکی گئی“ [صحيح مسلم 3/ 1095 رقم 1471]

صاف واضح ہے کہ یہ ابن عمر رضی اللہ عنہ کاقول نہیں بلکہ ان کے شاگرد سالم کا قول ہے نیز سالم کی مراد یہ ہے کہ یہ طلاق شمار کرنے والے ابن عمررضی اللہ عنہ ہی تھے جیساکہ اسی حدیث کے دیگر الفاظ میں صراحت ہےچنانچہ:
صحیح مسلم میں اس کے فورا والی روایت میں یہ الفاظ ہیں:
”قال ابن عمر: فراجعتها، وحسبت لها التطليقة التي طلقتها“
 ”عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: پھر میں اپنی بیوی کو واپس لیا اور اسے جوطلاق دی تھی اسے میں نے شمار کیا“[صحيح مسلم رقم 1471]
نیز سنن نسائی میں موجود اسی روایت کے الفاظ ہیں:
 ”قال عبد الله بن عمر: فراجعتها وحسبت لها التطليقة التي طلقتها“ 
 ”عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: پھر میں اپنی بیوی کو واپس لیا اور اسے جوطلاق دی تھی اسے میں نے شمار کیا“[سنن النسائي 6/ 138 رقم 3391 ]
اسی طرح صحیح ابوعوانہ میں موجود اسی روایت کے الفاظ ہیں:
 ”قال ابن عمر: فراجعتها وحسبت لها التطليقة التي طلقتها“
 ”عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: پھر میں اپنی بیوی کو واپس لیا اور اسے جوطلاق دی تھی اسے میں نے شمار کیا“[صحیح أبي عوانة 3/ 146 رقم 4512 ]

الغرض مسلم کی کسی روایت میں سعید بن جبیر والے الفاظ ابن عمر سے مروی نہیں ہیں ۔ اورعلامہ البانی کے شاگردأبو بكر رعد بن عبد العزيز حسين بكر النعيمي نے بھی ان الفاظ کو شاذ قرار دیا ہے۔

امام بخاری رحمہ اللہ نے اس روایت کو معلق کیوں بیان ؟
صحیح بخاری میں امام بخاری رحمہ اللہ بہت سے اسباب کے سبب بعض روایات کو معلق بیان کرتے انہیں میں سے ایک سبب یہ بتانا بھی ہوتا ہے کہ یہ معلق روایت والی بات پر بھی امام بخاری کی نظر ہے مگر یہ درست نہیں ہے۔ذیل میں دو مثالیں پیش خدمت ہیں :
❀ امام بخاري رحمه الله (المتوفى256) نے کہا:
 ⟐ ”حدثنا عاصم بن علي، حدثنا ابن أبي ذئب، عن سعيد، عن أبي شريح، أن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «والله لا يؤمن، والله لا يؤمن، والله لا يؤمن» قيل: ومن يا رسول الله؟ قال: «الذي لا يأمن جاره بوايقه» تابعه شبابة، وأسد بن موسى“ 
 ⟐  ”وقال حميد بن الأسود، وعثمان بن عمر، وأبو بكر بن عياش، وشعيب بن إسحاق، عن ابن أبي ذئب، عن المقبري، عن أبي هريرة“ [صحيح البخاري، رقم 6016]
یہاں ملاحظہ کیجئے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے پہلے جو اصل کتاب کی حدیث ذکر کی ہے وہ ابوشریح رضی اللہ عنہ سے مروی ہے۔
لیکن ایک دوسرےطریق میں راوی نے غلطی سے یہاں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کا ذکر کردیا ، توامام بخاری رحمہ اللہ نےاس دوسرے طریق کو معلق ذکر کرتے ہوئے یہی اشارہ دیا ہے کہ یہ روایت غلط ہے۔

 ❀ امام بخاري رحمه الله (المتوفى256) نے کہا:
 ⟐  ”حدثنا عبد الله بن مسلمة، عن مالك عن أبي حازم، عن سهل بن سعد، قال: «كان الناس يؤمرون أن يضع الرجل اليد اليمنى على ذراعه اليسرى في الصلاة» قال أبو حازم لا أعلمه إلا ينمي ذلك إلى النبي صلى الله عليه وسلم“ 
 ⟐  ”قال إسماعيل: ينمى ذلك ولم يقل ينمي“ [صحيح البخاري ، رقم 740]
یہاں امام بخاری رحمہ اللہ نے پہلے جو اصل کتاب کی حدیث ذکر کی ہے اس میں سہل بن سعد رضی اللہ عنہ کے ذریعہ متن نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب ہے۔
لیکن ایک دوسرےطریق میں راوی کی غلطی سے متن مرسلا ذکر ہوگیا تو ، توامام بخاری رحمہ اللہ نےاس دوسرے طریق کو معلق ذکر کرتے ہوئے یہی اشارہ دیا ہے کہ یہ روایت غلط ہے۔

یہ صرف دو مثالیں ہیں ورنہ صحیح بخاری میں ایسی اور بھی کئی مثالیں موجود ہیں کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے بطور اصل حدیث بیان کرنے کے بعد کوئی معلق روایت ذکر کردیا ہے ، اور مقصد یہ بتلانا ہے کہ اس روایت پر بھی امام بخاری کی نظر ہے ، مگر یہ روایت صحیح نہیں ہے اس لئے امام بخاری رحمہ اللہ نے اس سے استدلال نہیں کیا ہے۔

دکتور شریف حاتم العونی فرماتے ہیں:
 ”يقول الحافظ بن حجر: أَنَّه وَجَدَ الإمام البخاري إذا حصل اختلاف في الحديث في إسناده ، أو في متنه، فإنه يخرج في صحيحه الرواية الراجحة مسندة متصلة ، ثم يعلق الرواية المرجوحة ليبين لك أنه على علم بالخلاف ، لا يأتي واحد ويقول: والله الإمام البخاري فاته الخلاف ولعل الرواية التي تركها هي الأرجح من الرواية التي ذكرها ، فيذكر الرواية المرجوحة مُعَلَّقة حتى يعرف القارئ أن الإمام البخاري كان على إطلاع بهذه الرواية وإنما تركها لأنها عنده مرجوحة أي خطأ ووهم ممن رواها“
 ”حافظ ابن حجرکہتے ہیں کہ انہوں نے امام بخاری رحمہ اللہ کا یہ منہج پایا ہے کہ امام بخاری کی نظر میں جب کسی حدیث کے اندر سند یا متن کا اختلاف ہوتا ہے تو اپنی اصل کتاب صحیح بخاری میں متصل سند کے ساتھ پہلے راجح روایت ہی درج کرتے ہیں ، اس کے بعد مرجوح روایت کو بھی معلق ذکر کرکے یہ بتانا چاہتے ہیں کہ یہ بھی امام بخاری کے علم میں ہے۔تاکہ بعد میں کوئی یہ نہ کہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ کو یہ روایت نہیں مل سکی ، اور امام بخاری نے اسے چھوڑ کر جس روایت کو ذکر کیا ہے اس سے بہتر تو یہی روایت تھی ۔تو یہ ہے وہ اصل وجہ جس کی بناپر امام بخاری رحمہ اللہ مرجوح روایت کو بھی تعلیقا ذکر کردیتے ہیں تاکہ پڑھنے والے کو پتہ چل جائے کہ امام بخاری رحمہ اللہ کو بھی یہ روایت معلوم تھی ، لیکن انہوں نے اسے اصل کتاب میں اس لئے ذکر نہیں کیا کیونکہ یہ مرجوح تھی یعنی اس کے راویوں سے اس میں غلطی اور وہم کا صدور ہوگیا“ [مصادر السنة ومناهج مصنفيها، الشريط الثاني ص: 16مفرغ]

امام أبو العباس القرطبي (المتوفی656) نے بھی یہی بات کہی ہے چنانچہ بخاری کے شیخ سے ان کی ایک معلق روایت کے بارے میں کہتےہیں:
 ”لكنه لم يسنده ليفرق به بين ما كان على شرطه في أصل الكتاب وبين ما ليس كذلك“ 
 ”لیکن امام بخاری نے اس روایت کو مسند (یعنی حدثنا کے صیغہ سے ) نہیں بیان کیا ہے تاکہ وہ فرق کریں ان روایات میں جو ان کی شرط پر ان کی اصل کتاب کا حصہ ہیں اوران روایات میں جو اس شرط پرنہیں ہیں“ [كشف القناع عن حُكم الوجد والسماع ص36]

امام بخاری رحمہ اللہ کا یہ منہج معلوم ہونے کے بعد واضح ہو کہ زیر بحث روایت کا بھی یہی معاملہ ہے چنانچہ:
 ❀ امام بخاري رحمه الله (المتوفى256) نے کہا:
 ”باب إذا طلقت الحائض تعتد بذلك الطلاق“ 
  ⟐ ”حدثنا سليمان بن حرب، حدثنا شعبة، عن أنس بن سيرين، قال: سمعت ابن عمر، قال: طلق ابن عمر امرأته وهي حائض، فذكر عمر للنبي صلى الله عليه وسلم فقال: «ليراجعها» قلت: تحتسب؟ قال: فمه؟ وعن قتادة، عن يونس بن جبير، عن ابن عمر، قال: «مره فليراجعها» قلت: تحتسب؟ قال: أرأيت إن عجز واستحمق“ 
  ⟐ ”حدثنا أبو معمر، حدثنا عبد الوارث، حدثنا أيوب، عن سعيد بن جبير، عن ابن عمر، قال: «حسبت علي بتطليقة»“ [صحيح البخاري ، رقم 5252]

یہاں امام بخاری رحمہ اللہ نے باب باندھا کہ ”باب إذا طلقت الحائض تعتد بذلك الطلاق“ یعنی (جب حائضہ عورت کو طلق دے دی جائے تووہ اس طلاق کو شمار کرے گی) اس باب کے تحت اصل کتاب کی جو حدیث ذکر کی ہے وہ صریح اور واضح نہیں ہے ۔اب کسی کے ذہن میں یہ بات آسکتی ہے کہ یہاں اصل کتاب میں امام بخاری نے ”حسبت علي بتطليقة“ والی روایت ذکر کیوں نہیں کہ جو اس سے زیادہ واضح تھی ، تو امام بخاری رحمہ اللہ قارئین کو اس غلط فہمی سے بچانے کے لئے باب کی اصل حدیث کے فورا بعد زیر بحث روایت کو تعلیقا ذکر کرکے یہ بتادیا ہے کہ یہ روایت امام بخاری کی نظر میں ہے مگر ثابت نہیں ہے کیونکہ دیگر رواۃ کا بیان اس کے خلاف ہے ، اس لئے اس لائق نہیں باب کے تحت اصل کتاب میں اسے ذکر کیا جائے۔

اس وضاحت سے معلوم ہوا کہ خود امام بخار ی رحمہ اللہ کی نظر میں بھی یہ روایت ثابت نہیں ہے ۔ والحمد للہ

حدیث مذکورسے استدلال کا دوسرا جواب
اس حدیث کو صحیح ماننے کی صورت میں اس سے استدلال کا دوسرا جواب جو قائلین عدم وقوع کے یہاں مشہور ہے وہ یہ کہ اس روایت میں یہ صراحت نہیں ہے کہ ان کی اس طلاق کو عہدرسالت میں ہی شمار کیا گیا تھا ،امام ابن القیم رحمہ اللہ نے اس روایت پر کلام کرنے کے بعد اس کا دوسرا جواب یہ بھی دیا ہے کہ :
”ورواية سعيد بن جبير غير صريحة في الرفع فإنه لم يذكر فاعل الحساب فلعل أباه رضي الله عنه حسبها عليه بعد موت النبي في الوقت الذي ألزم الناس فيه بالطلاق الثلاث ، وحسبه عليهم , اجتهادا منه , ومصلحة رآها للأمة , لئلا يتتابعوا في الطلاق المحرم , فإذا علموا أنه يلزمهم وينفذ عليهم أمسكوا عنه , وقد كان في زمن النبي صلى الله عليه وسلم لا يحتسب عليهم به ثلاثا في لفظ واحد فلما رأى عمر الناس قد أكثروا منه رأى إلزامهم به , والاحتساب عليهم به“ 
”سعید بن جبیر کی روایت مرفوع ہونے میں غیرصریح ہے کیونکہ انہوں نے شمار کرنے والے کی صراحت نہیں کی ہے تو ہوسکتا ہے کہ ان کے والد نے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد اس وقت اسے شمار کرلیا ہوجب انہوں نے تین طلاقوں کو لوگوں پر نافذ کردیا تھا اور انہیں شمار کرلیا تھا ، اپنی طرف سے اجتہاد کرتے ہوئے اور امت کی مصلحت کو دیکھتے ہوئے ، تاکہ لوگ حرام طلاق دینے سے باز آجائیں ، کیونکہ جب انہیں یہ پتہ چلے گا کہ عمر رضی اللہ عنہ حرام طلاق کو بھی لازم اورنافذ کردیتے ہیں تو وہ اس سے باز آجائیں گے ، بالکل ایسے ہی جیسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ایک ہی لفظ میں تین طلاق کو تین شمار نہیں کیا جاتا تھا ، لیکن جب عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے دیکھا کہ لوگ کثرت سے ایک ساتھ تین طلاق دینے لگے ہیں تو انہوں نے ایسی طلاق کو ان پر لازم کرنے اور انہیں شمار کرنے کا فیصلہ کیا“ [عون المعبود مع حاشية ابن القيم: 6/ 171، 172، تهذيب السنن لابن القیم : ص 868 تا 870]

بلکہ اگر یہ بھی مان لیں کہ ان کی طلاق کو عہد رسالت میں ہی شمار کیا گیا تھا ، تو اس روایت میں یہ صراحت نہیں ہے کہ ان کی کون سی طلاق کو شمار کیا گیا تھا ، کیونکہ انہوں نے اپنی بیوی کو دوبار طلاق دی تھی ، ایک بار حیض کی حالت میں جسے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے رد کردیا تھا ، اور دوسری طلاق انہوں نے طہر کی حالت میں اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بتائے ہوئے طریقہ کے مطابق دی تھی چنانچہ صحیح مسلم کی روایت میں ابن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
 ”فراجعتها، ثم طلقتها لطهرها“ ، ”پھر میں نے اپنی بیوی واپس لے لی اور اسے طہر میں طلاق دیا“ [صحيح مسلم رقم 1471]
تو یہ بھی ممکن ہے کہ اس روایت میں اس دوسرے طلاق کو شمار کئے جانے کا ذکر ہے ۔
علامہ معلمی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
”فلم يتبين لنا متى حُسِبَتْ عليه، فقد ثبت في صحيح مسلم عنه: ”ثم طلَّقتُها لطهرها“ فيحتمل أن يكون النبي صلى الله عليه وسلم بيَّن له حين أمره بالمراجعة أن تلك الطلقة محسوبة عليه“ 
 ”ہمیں یہ نہیں معلوم کہ کس وقت ان کی طلاق شمار کی گئی ، کیوکہ صحیح مسلم میں ابن عمر رضی اللہ عنہ کا یہ قول ثابت ہے کہ ”پھر میں نے اسے طہر میں طلاق دیا“ ، تو اس بات کا احتمال ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جب انہیں بیوی واپس لینے کاحکم دیا تھا تو اسی وقت بتادیا ہوکہ تم جو طہر میں طلاق دو گے وہ شمار ہوگی“ [آثار الشيخ العلامة عبد الرحمن بن يحيي المعلمي اليماني 17/ 682]
 اس کی تائید اس بات سے بھی ہوتی ہے کہ ابن عمر رضی اللہ عنہ کے پہلے طلاق سے متعلق ان کے کئی شاگردوں نے سوال کیا لیکن ابن عمررضی اللہ عنہ نے کسی کے سوال کا جواب دیتے ہوئے یہ نہیں کہا کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے شمار کرلیا تھا۔

No comments:

Post a Comment