پچھلا
چوتھی دلیل
تین طلاق کے عدم وقوع پر اجماع صحابہ
عہد صدیقی اور عہد فاروقی کے ابتدائی دور کا اجماع
گزشتہ صفحات میں صحیح مسلم کی حدیث بار بار گزرچکی ہے کہ عہد صدیقی اور عہد فاروقی کے ابتدائی دو سال تک تمام صحابہ وتابعین کا اتفاق تھا کہ بیک وقت دی گئی تین طلاق ایک ہوتی ہے۔یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ عہدفاروقی کے ابتدائی دوسال سے قبل امت مسلمہ کا اس بات پر اجماع ہوچکا تھا کہ بیک وقت تین طلاق ایک ہوتی ہے۔
امام ابن القيم رحمه الله (المتوفى751)فرماتے ہیں:
”وكل صحابي من لدن خلافة الصديق إلى ثلاث سنين من خلافة عمر كان على أن الثلاث واحدة فتوى أو إقرارا أو سكوتا. ولهذا ادعى بعض أهل العلم أن هذا إجماع قديم“
”ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت سے لیکر عمرفاروق رضی اللہ عنہ کے دور خلافت کے ابتدائی دو سال تک ہرصحابی کا فتوی دے کر، یا اقرار کرکے ،یا سکوت اختیار کرکے یہی موقف تھا کہ تین طلاق ایک شمارہوگی ، اسی لئے بعض اہل علم نے طلاق ثلاثہ کے ایک ہونے پر قدیم اجماع کا دعوی کیا ہے“ [إعلام الموقعين عن رب العالمين 3/ 38]
امام ابن القیم رحمہ اللہ دوسرے مقام پر فرماتے ہیں:
”فنحن أحق بدعوى الإجماع منكم لأنه لا يعرف في عهد الصديق أحد رد ذلك ولا خالفه“
”ہم تم سے زیادہ اس بات کا حق رکھتے ہیں کہ اپنے موقف پر اجماع کا دعوی کریں کیونکہ عہد صدیقی میں کسی ایک نے بھی اس مسئلہ کا نہ تو رد کیا اور نہ مخالفت کی“ [إغاثة اللهفان 1/ 289]
ایک اور جگہ امام ابن القیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
”بل لو شئنا لقلنا، ولصدقنا: إن هذا كان إجماعا قديما لم يختلف فيه على عهد الصديق اثنان“
”بلکہ اگرہم چاہیں تو کہہ سکتے ہیں اورہماری یہ بات سچ ہوگی کہ طلاق ثلاثہ کو ایک ماننے پر عہد صدیقی میں اجماع ہوچکا ہے ، اس وقت اس مسئلہ میں کوئی دوسری رائے تھی ہی نہیں“ [زاد المعاد، ن مؤسسة الرسالة: 5/ 247]
امام یوسف بن احمد جمال الدین رحمہ اللہ (المتوفی798 ) فرماتے ہیں:
”الطلاق الثلاث واحدة، كما صحت به السنة، واجتمعت عليه الصحابة في زمن رسول الله صلى الله عليه وسلم، وخلافة أبي بكر، وبعض خلافة عمر“
”تین طلاق ایک شمار ہوگی جیساکہ سنت سے یہی ثابت ہے اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا عہدرسالت اور پھر عہد صدیقی اور عہد فاروقی کے شروع میں اسی پر اجماع تھا“ [سير الحاث إلى علم الطلاق الثلاث ص: 466 نقلا عن كتابه]
علامہ البانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
”فهل يجوز مع هذا كله أن يترك الحكم المحكم الذي أجمع عليه المسلمون في خلافة أبي بكر وأول خلافة عمر، من أجل رأي بدا لعمر واجتهد فيه، فيؤخذ باجتهاده، ويترك حكمه الذي حكم هو به أول خلافته تبعا لرسول الله صلى الله عليه وسلم وأبي بكر؟ ! اللهم إن هذا لمن عجائب ما وقع في الفقه الإسلامي“
”کیا ان تمام دلائل کے باوجود بھی یہ جائز ہوگا کہ اس محکم(واضح وغیرمنسوخ) حکم کو چھوڑ دیا جائے جس پر مسلمانوں کا ابوبکر الصدیق اور عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے ابتدائی دور میں اجماع تھا ، صرف اس وجہ سے کہ بعد میں عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے اجتہاد کرتے ہوئے ایک دوسری رائے دی ، لہٰذا ان کے اسی اجتہاد کو لے لیاجائے اورخود عمر فاروق رضی اللہ عنہ ہی کے اس موقف کو چھوڑ دیا جائے جس کے مطابق وہ اپنے ابتدائی دور خلافت میں اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کرتے ہوئے نیز ابوبکر رضی اللہ عنہ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے (تین طلاق کے ایک ہونے کا) فتوی دیتے تھے ؟ اللہ کی قسم ! یہ اسلام کی فقہی تاریخ کا عجوبہ ہے“ [سلسلة الأحاديث الضعيفة 3/ 272]
واضح رہے کہ بعد میں عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے دوسرے فرمان سے یہ لازم نہیں آتا کہ انہوں نے اس قدیم اجماع کی مخالفت کی ہے ، کیونکہ ان کا دوسرا فرمان شرعی فتوی نہیں تھا بلکہ ایک طرح کی سزا وتعزیر تھی جسے انہوں نے ان لوگوں کے لئے طے کررکھی تھی جو طریقہ طلاق میں کتاب وسنت کی مخالفت کرتے تھے۔
امام ابن القيم رحمه الله (المتوفى751)فرماتے ہیں:
”ثم نقول: لم يخالف عمر إجماع من تقدمه، بل رأى إلزامهم بالثلاث عقوبة لهم لما علموا أنه حرام، وتتايعوا فيه، ولا ريب أن هذا سائغ للأئمة أن يلزموا الناس بما ضيقوا به على أنفسهم، ولم يقبلوا فيه رخصة الله عز وجل وتسهيله، بل اختاروا الشدة والعسر، فكيف بأمير المؤمنين عمر بن الخطاب رضي الله عنه، وكمال نظره للأمة، وتأديبه لهم، ولكن العقوبة تختلف باختلاف الأزمنة والأشخاص“
”ہم کہتے ہیں کہ عمرفاروق رضی اللہ عنہ نے اپنے سے پہلے اجماع کی مخالفت نہیں کی ہے ، بلکہ انہوں نے لوگوں کو سزا دینے کے لئے ان پر تین طلاق کو نافذ کرنے کا فیصلہ کیا ، کیونکہ لوگ اسے حرام جاننے کے باوجود بھی بکثرت اس کا ارتکاب کرنے لگے تھے۔ اور اس میں کوئی شک نہیں کہ حکام وقت کے لئے یہ جائز ہے کہ وہ لوگوں پر اس چیز کو مسلط کردیں جسے انہوں نے خود اپنے گلے ڈال لیا ہے اور اس سلسلے میں اللہ کی طرف سے دی ہوئی رخصت اور آسانی کو قبول نہیں کیا بلکہ شدت اور سختی کو اختیار کیا ۔پھر امیر المؤمنین عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ تو بدرجہ اولی ایسی سزا دینے کا حق رکھتے ہیں ، یقینا امت کے لئے آپ کی بالغ نظری اور ان کی تادیب کے لئے آپ کی کوششوں کا کوئی جواب نہیں ہے ۔لیکن ہر سزا ہر زمانے اور ہرطرح کے لوگوں کے لئے نہیں ہوا کرتی ہے“ [زاد المعاد، ن مؤسسة الرسالة: 5/ 248]
امام ابن القيم رحمه الله (المتوفى751)فرماتے ہیں:
”بل لم يزل فيهم من يفتي به قرنا بعد قرن، وإلى يومنا هذا“
”بلکہ امت میں ہمیشہ ایسے لوگ رہے ہیں جو مسلسل ہردور میں تین طلاق کے ایک ہونے کا فتوی دیتے رہے ہیں اورہماری دور تک یہی تسلسل رہا ہے“ [إعلام الموقعين ت مشهور: 4/ 386]
مولانا کرم شاہ ازہری بریلوی صاحب طلاق ثلاثہ سے متعلق اختلاف نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں:
”جس مسئلہ میں ہر زمانے کے ائمہ اسلام اختلاف کررہے ہوں ، اسے کہنا کہ مجمع علیہ ہے ، بڑے دل گردے کا کام ہے“ [ دعوت فکرونظر: مطبوع در مجموعہ مقالات ص240 ]
ابن تیمیہ رحمہ اللہ ہی کے معاصر بلکہ ان سے پہلے پیدا ہونے والے أبو حيان الأندلسي رحمہ اللہ (مولود654 المتوفى 745 ) اپنی تفسیر میں فرماتے ہیں:
”وما زال يختلج في خاطري أنه لو قال: أنت طالق مرتين أو ثلاثا، أنه لا يقع إلا واحدة“
”میرے دل میں ہمیشہ یہ بات آئی کہ کسی نے یہ کہا تجھے دو بار طلاق ، یا تجھ کو تین طلاق تو یہ ایک ہی طلاق واقع ہوگی“ [البحر المحيط في التفسير 2/ 463]
اب آئیے ہم ابن تیمیہ رحمہ اللہ(مولود661متوفی728)سے پہلے ہر صدی کے بعض ان اہل علم کا حوالہ پیش کرتے ہیں ، جنہوں نے تین طلاق کے ایک ہونے کا فتوی دیا ہے، اور ان اقوال کے ثابت ہونے میں کسی قسم کا شک وشبہ نہیں کیا جاسکتا۔
ساتویں صدی ہجری اور تین طلاق کے ایک ہونے کا فتوی:
امام محمد بن القاسم بن هبة الله التكريتي رحمہ اللہ (المتوفی624) کا فتوی:
امام محمد بن القاسم بن هبة الله التكريتي رحمہ اللہ بہت بڑے امام ، فقیہ اور مفتی تھے ۔ ان کے ہم عصر امام ابن الساعی (مولود593متوفی 674) اپنی تاریخ میں فرماتے ہیں:
”الفقيه الشافعي تفقه ببغداد على أبي القاسم بن فضلان، ثم أعاد بالنظامية، ودرس في غيرها، وكان يشتغل كل يوم عشرين درسا، وليس له دأب إلا الاشتغال وتلاوة القرآن ليلا ونهارا، وكان بارعا، كثير العلوم، قد أتقن المذهب والخلاف، وكان يفتي في مسألة الطلاق الثلاث بواحدة، فتغيظ عليه قاضي القضاة أبو القاسم عبد الله بن الحسين الدامغاني، فلم يسمع منه، ثم أخرج إلى تكريت، فأقام بها ثم استدعي إلى بغداد، فعاد إلى الاشتغال، وأعاده قاضي القضاة نصر بن عبد الرزاق إلى إعادته بالنظامية، وعاد إلى ما كان عليه من الاشتغال والفتوى والوجاهة إلى أن توفي في هذه السنة - رحمه الله تعالى“
”آپ فقیہ اور شافعی ہیں ، بغداد میں ابوالقاسم بن فضلان کے پاس تفقہ حاصل کیا ، پھر دیگر کئی مدارس میں علم حاصل کرنے کے بعد مدرسہ نظامیہ میں مقرر ہوگئے، یہ روز آنہ بیس درس دیتے تھے ، دن رات قرآن کی تلاوت اور علمی مصروفیات کے علاوہ ان کا کوئی دوسرا کام تھا ہی نہیں ، آپ بہت بڑے عالم تھے اور کئی علوم پر دسترس رکھتے تھے ، آپ کو مذہب شافعی اور اختلافی مسائل میں بڑی مہارت تھی ، آپ تین طلاق کے مسئلہ میں اس کے ایک ہونے کا فتوی دیتے تھے ، اس پر قاضی ابو القاسم عبد الله بن الحسين الدامغانی برہم ہوئے اور ان سے کچھ نہیں سنا ، پھر آپ کو تکریب بھیج دیا گیا ، جہاں آپ نے اقامت اختیارکی ، اس کے بعد آپ کو دوبارہ بغداد بلایا گیا ، اور پھر آپ یہاں دوبارہ اپنی علمی مصروفیات میں لگ گئے ، اور نصر بن عبد الرزاق نے انہیں دوبارہ مدرسہ نظامیہ میں مقرر کردیا ، اس طرح آپ نے یہاں پر ایک بار پھر سے اپنی سرگرمیوں اور فتاوی دینے کا کام شروع کیا اور اور اپنے مقام ومرتبہ پر واپس آگئے“ [تاریخ ابن السباعی :ج 9 ص 323تا 324 ، البداية والنهاية ط هجر:17/ 170]
یادرہے کہ امام محمد بن القاسم بن هبة الله رحمہ اللہ (المتوفی624) سے یہ قول انہیں کے معاصر امام ابن السباعی (مولود593متوفی 674)نے نقل کیا ہے، لہٰذا یہ قول ثابت ہے ۔
ابن السباعی بہت بڑے امام اور حافظ ہیں ، امام ذہبی رحمہ اللہ نے ان کا ذکر تذکرۃ الحفاظ کرتے ہوئے کہا:
”الإمام المؤرخ البارع“ ، ”یہ بہت بڑے امام اور مؤرخ ہیں“ [تذكرة الحفاظ للذهبي، ط دار الكتب: 4/ 173]
ابن العماد رحمه الله (المتوفى 1089) فرماتے ہیں:
”كان إماما، حافظا، مبرّزا على أقرانه. ذكره ابن ناصر الدّين“
”یہ امام اور حافظ تھے ، اور اپنے ساتھیوں پر فائق تھے ، ان کا تذکرہ ابن ناصر الدین نے کیا ہے“ [شذرات الذهب لابن العماد: 7/ 599]
فائدہ :
اس حوالے سے یہ بھی معلوم ہوا کہ مقلدین نے تین طلاق کے مسئلہ میں علمی ومنصبی دادا گیری سے کام لیا ہے اور ہر وہ شخص جو ان سے اس مسئلہ میں اختلاف کرتا اسے نہ صرف یہ کہ ہر طرح سے تکلیف دینے کی کوشش کی ہے بلکہ اس پر طرح طرح کی تہمتیں لگانے سے بھی دریغ نہیں کرتے تھے ۔
امام محمد بن القاسم بن هبة الله التكريتي رحمہ اللہ کے معاصرین نے انہیں معمولی تکلیف دی لیکن ان کی وفات کے کئی سال بعد پیدا ہونے بعض مقلدین نے ان کے اس فتوی کے سبب ان پر عجوبہ نگاری وغیرہ تہمت لگائی ہے ،یہ ساری تہمتیں مسلکی تعصب کی وجہ سے ہیں ، نیز بے دلیل اور بے سند ہیں لہٰذا باطل ومردد ہیں ۔
چھٹی صدی ہجری اور تین طلاق کے ایک ہونے کا فتوی:
✿ امام بن رشد الحفيد القرطبي (المتوفى 595) کا فتوی:
آپ فرماتے ہیں:
”وكأن الجمهور غلبوا حكم التغليظ في الطلاق سدا للذريعة، ولكن تبطل بذلك الرخصة الشرعية والرفق المقصود في ذلك - أعني: في قوله تعالى: {لَعَلَّ اللَّهَ يُحْدِثُ بَعْدَ ذَلِكَ أَمْرًا}“
”گویا کہ جمہور نے طلاق کے مسئلہ میں سد ذریعہ کی خاطر سخت موقف اپنایا ہے ، لیکن اس سے وہ شرعی رخصت اور نرمی باطل قرار پاتی ہے جو مطلوب ہے یعنی اللہ تعالی کے اس قول میں{شاید اس کے بعد اللہ تعالی کوئی نیا معاملہ پیدا کردے}“ [بداية المجتهد 3/ 84]
مزید فرماتے ہیں:
”ولذلك ما نرى - والله أعلم - أن من ألزم الطلاق الثلاث في واحدة، فقد رفع الحكمة الموجودة في هذه السنة المشروعة“
”اس لئے -واللہ اعلم- ہماری رائے یہ ہے کہ جن بیک وقت تین طلاق کو لازم کردیا اس نے اس مشروع سنت میں موجود حکمت کو ختم کردیا“ [بداية المجتهد 3/ 85]
علامہ معلی رحمہ اللہ کی کتاب ”الحكم المشروع“ کے محقق ابن رشد رحمہ اللہ کے الفاظ نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں:
”وهذا كالصريح في الدلالة علي ميله إلي هذا القول ، وفي عرضه للمسئلة وذكره لأدلة الفريقين ، مايدل علي ميله لقول الظاهريه ومن وافقهم“
”یہ الفاظ گویاصراحت کے ساتھ دلالت کرتے ہیں کہ وہ اسی قول کی طرف مائل ہیں ، اور ان کا یہ مسئلہ ، اور اس میں فریقین کے دلائل پیش کرنے کاانداز دلالت کرتا کہ وہ ظاہریہ اور ان کے موافقین کے قول (تین طلاق کے ایک ہونے) کی طرف ہی میلان رکھتے ہیں“ [الحكم المشروع في الطلاق المجموع: ص 13]
مجموعہ مقالات کے مقالہ نگار مولانا سید احمد عروج قادری لکھتے ہیں:
”خود قاضی ابن رشد کا اپنا رجحان بھی یہی معلوم ہوتا ہے کہ اس کاحکم ایک ہی طلاق ہونا چاہئے“ [ مجموعہ مقالات ص 49]
✿ امام فخر الدين الرازي رحمہ اللہ (المتوفى 606) کا فتوی:
آپ فرماتے ہیں:
”وهو اختيار كثير من علماء الدين، أنه لو طلقها اثنين أو ثلاثا لا يقع إلا الواحدة، وهذا القول هو الأقيس، لأن النهي يدل على اشتمال المنهي عنه على مفسدة راجحة، والقول بالوقوع سعي في إدخال تلك المفسدة في الوجود وأنه غير جائز، فوجب أن يحكم بعدم الوقوع“
”اسی موقف کو علمائے دین میں بہت سے لوگوں نے اختیار کیا ہے کہ اگر کسی نے ایک ہی وقت دو یا تین طلاق دے دی تو وہ ایک ہی طلاق واقع ہوگی ، یہ قول زیادہ قرین قیاس ہے ، کیونکہ کسی کام سے منع کیا جانا اس بات کی دلیل ہے کہ وہ کام بڑے فساد پر مبنی ہے ، اور تین طلاق کے وقوع کا فتوی دینا اس فساد کو اس میں شامل کرنے کی کوشش ہے ، اور یہ ناجائز ہے ، لہٰذا واجب ہے کہ ایسی طلاق کے عدم وقوع کا فتوی دیا جائے“ [تفسير الرازي 6/ 442]
پانچویں صدی ہجری اور تین طلاق کے ایک ہونے کا فتوی:
✿ امام احمدبن محمد بن مغیث (مولود 406متوفی459) کا فتوی:
آپ نے اپنی کتاب ”المقنع في علم الشروط“ میں فرماتے ہیں :
”فطلاق السنة هو الواقع علي الوجه الذي ندب الشرع إليه“
”طلاق سنت وہ ہوتی ہے جو اسی طریقہ پر واقع ہوتی ہے جس طریقہ کی طرف شریعت نے رہنمائی کی ہے“ [المقنع في علم الشروط: 80 ]
اس کے بعد امام ابن مغیث رحمہ اللہ نے اس مسئلہ میں اختلاف ذکرنے کے بعد صرف تین طلاق کے عدم وقوع والے قول کے دلائل پیش کئے ہیں اور اس سلسلے بڑی تفصیل سے اس کی تائید میں صحابہ و اہل علم کے اقوال نقل کئے ہیں ۔دیکھئے:[المقنع في علم الشروط: 80 تا 82]
یہ اس بات کی دلیل ہے کہ ان کا موقف بھی تین طلاق کو ایک ماننے کا ہے ۔
محمدابن القاضي عياض رحمہ اللہ(المتوفی655) فرماتے ہیں:
”وهو مذهبه أعني أحمد بن مغيث يدل علي ذلك ظاهر كلامه في مقنعه“
”تین طلاق کو ایک ماننا یہی احمدبن مغیث کا موقف ہے ، ان کی کتاب مقنع میں ان کے کلام کا ظاہر اسی پر دلالت کرتا ہے“ [مذاهب الحكام للقاضی عیاض وولدہ : ص 289]
چوتھی صدی ہجری اور تین طلاق کے ایک ہونے کا فتوی:
اس صدی کے ایک مشہور حنفی امام أبو جعفر طحاوي رحمه الله (المتوفى321) نے اس مسئلہ میں اختلاف کا ذکرتے ہوئے کہا:
”فذهب قوم إلى أن الرجل إذا طلق امرأته ثلاثا معا , فقد وقعت عليها واحدة إذا كانت في وقت سنة , وذلك أن تكون طاهرا في غير جماع. واحتجوا في ذلك بهذا الحديث“
”اہل علم کی ایک جماعت کا کہنا یہ ہے کہ جب کوئی شخص اپنی بیوی کو ایک ساتھ تین طلاق دے دے تو وہ ایک ہی طلاق شمار ہوگی ، اگر اس نے سنت کے مطابق دی ہے ، وہ اس طرح کی بیوی کی پاکی کی حالت میں ہمبستری سے پہلے طلاق دیا ، ان لوگوں یہ بات اسی (صحیح مسلم وغیرہ کی ابن عباس رضی اللہ عنہ والی) حدیث سے استدلال کرتے ہوئے کہی ہے“ [شرح معاني الآثار، ت النجار: 3/ 55]
✿ امام ابن زنباع رحمہ اللہ کا فتوی:
امام احمدبن محمد بن مغیث (مولود 406متوفی459) فرماتے ہیں :
”وبه قال ابن زنباع من شيوخ قرطبة شيخ وقتنا هذا“
”اورتین طلاق کے ایک ہونے کا فتوی مشائخ قرطبہ میں سے اس وقت کے شیخ ابن زنباع رحمہ اللہ نے بھی دیا ہے“ [المقنع في علم الشروط: 80]
امام ابن زنباع کی تاریخ وفات کا علم نہیں ہوسکا لیکن ابن مغیث رحمہ اللہ نے انہیں اپنے وقت کا شیخ قرار دیا ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ ان سے کافی بڑے ہوں ہوں گے ، اور ابن مغیث رحمہ اللہ کی پیدائش 406 ہجری ہے ، اس سے واضح ہے کہ ابن زنباع رضی اللہ اس چوتھی صدی ہجری کے عالم ہیں اور پانچویں صدی ہجری تک بھی یہ باحیات رہے ہیں ۔
✿ امام احمدبن بقی بن مخلد(المتوفی344) رحمہ اللہ کافتوی:
آپ کا بھی یہ فتوی امام ابن مغیث رحمہ اللہ نے نقل کیا ہے دیکھئے :[المقنع في علم الشروط: 81]
واضح رہے کہ المقنع میں ”محمد بن بقی“ چھپ گیا ہے ، لیکن ان کا صحیح نام ”احمد بن بقی“ ہے ، اور مذاہب حکام میں ابن مغیث کی کتاب مقنع ہی سے ان کا فتوی بھی نقل کیا گیاہے اور اس میں یہ نام صحیح طور سے ”احمدبن بقی“ ہی نقل کیا گیا ہے۔ دیکھئے : [مذاھب الحکام ص 289]
اسی طرح ”المعيار المعرب“ میں بھی ابن مغیث کی کتاب سے یہی نام منقو ل ہے دیکھئے:[ المعيار المعرب 1/ 499]
”احمدبن بقی بن مخلد“ صاحب تصنیف ہیں ، اور ان کے اقوال سندوں کے نقل ہونا معروف نہیں ہیں ، اس لئے ظاہر ہے کہ یہ ان کی کسی کتاب ہی سے نقل کیا گیا ہے۔
تیسری صدی ہجری اور تین طلاق کے ایک ہونے کا فتوی:
✿ امام داؤد بن علی الظاھری رحمہ اللہ (المتوفی270) کا فتوی
امام داؤد ظاہری ائمہ متبوعین میں سے ہیں ، جس طرح چاروں اماموں کے نام سے چار مذاہب ہیں ایسے ہی امام داؤد ظاہری کے نام سے بھی ایک مذہب ہے جسے مذہب ظاہری کہتے ہیں ، امام داؤد ظاہری اس مذہب کے امام ہیں ۔
خطيب بغدادي رحمه الله (المتوفى463) فرماتے ہیں:
”وهو امام أصحاب الظاهر“ ، ”امام داود بن علی رحمہ اللہ اصحاب ظاہر کے امام ہیں“ [تاريخ بغداد، مطبعة السعادة: 8/ 369]
امام ابن القيم رحمه الله (المتوفى751) فرماتے ہیں:
”فأفتى به داود بن علي وأكثر أصحابه، حكاه عنهم ابن المغلِّس“
”تین طلاق کے ایک ہونے کا فتوی داؤد بن علی اور ان کے اکثر اصحاب نے بھی دیا ہے ، ان سے یہ فتوی ابن المغلس نے نقل کیا ہے“ [إعلام الموقعين ت مشهور: 4/ 388]
ابن المغلس رحمہ اللہ (المتوفی324) یہ امام داؤد ظاہری کے شاگرد ہیں ،دیکھئے:[الإحكام في أصول الأحكام لابن حزم 5/ 103]
اور ابن المغلس رحمہ اللہ صاحب تصنیفات ہیں بلکہ فقہ پر بھی ان کی ایک کتاب ”الموضح“ کے نام سے ہے ، دیکھئے:[سير أعلام النبلاء للذهبي: 15/ 77]
اس لئے ظاہر ہے کہ ابن القیم رحمہ اللہ نے ان کی یہ بات ان کی کتاب سے نقل کی ہے ، لہٰذا یہ فتوی بھی ثابت ہے۔
ہر دور میں تین طلاق کو ایک قرار دینے کا فتوی
بعض لوگ یہ پروپیگنڈہ کرتے ہیں ، کہ تین طلاق کے ایک ہونے کا فتوی سب سے پہلے ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے دیا ہے ان سے قبل کسی نے یہ فتوی نہیں دیا ہے ، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ہر دور میں تین طلاق کے ایک ہونے کا فتوی دینے والے اہل علم موجود رہے ہیں ، جیساکہ متعدد اہل علم نے اس کی صراحت کی ہے چنانچہ:امام ابن القيم رحمه الله (المتوفى751)فرماتے ہیں:
”بل لم يزل فيهم من يفتي به قرنا بعد قرن، وإلى يومنا هذا“
”بلکہ امت میں ہمیشہ ایسے لوگ رہے ہیں جو مسلسل ہردور میں تین طلاق کے ایک ہونے کا فتوی دیتے رہے ہیں اورہماری دور تک یہی تسلسل رہا ہے“ [إعلام الموقعين ت مشهور: 4/ 386]
مولانا کرم شاہ ازہری بریلوی صاحب طلاق ثلاثہ سے متعلق اختلاف نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں:
”جس مسئلہ میں ہر زمانے کے ائمہ اسلام اختلاف کررہے ہوں ، اسے کہنا کہ مجمع علیہ ہے ، بڑے دل گردے کا کام ہے“ [ دعوت فکرونظر: مطبوع در مجموعہ مقالات ص240 ]
ابن تیمیہ رحمہ اللہ ہی کے معاصر بلکہ ان سے پہلے پیدا ہونے والے أبو حيان الأندلسي رحمہ اللہ (مولود654 المتوفى 745 ) اپنی تفسیر میں فرماتے ہیں:
”وما زال يختلج في خاطري أنه لو قال: أنت طالق مرتين أو ثلاثا، أنه لا يقع إلا واحدة“
”میرے دل میں ہمیشہ یہ بات آئی کہ کسی نے یہ کہا تجھے دو بار طلاق ، یا تجھ کو تین طلاق تو یہ ایک ہی طلاق واقع ہوگی“ [البحر المحيط في التفسير 2/ 463]
اب آئیے ہم ابن تیمیہ رحمہ اللہ(مولود661متوفی728)سے پہلے ہر صدی کے بعض ان اہل علم کا حوالہ پیش کرتے ہیں ، جنہوں نے تین طلاق کے ایک ہونے کا فتوی دیا ہے، اور ان اقوال کے ثابت ہونے میں کسی قسم کا شک وشبہ نہیں کیا جاسکتا۔
ساتویں صدی ہجری اور تین طلاق کے ایک ہونے کا فتوی:
امام محمد بن القاسم بن هبة الله التكريتي رحمہ اللہ (المتوفی624) کا فتوی:
امام محمد بن القاسم بن هبة الله التكريتي رحمہ اللہ بہت بڑے امام ، فقیہ اور مفتی تھے ۔ ان کے ہم عصر امام ابن الساعی (مولود593متوفی 674) اپنی تاریخ میں فرماتے ہیں:
”الفقيه الشافعي تفقه ببغداد على أبي القاسم بن فضلان، ثم أعاد بالنظامية، ودرس في غيرها، وكان يشتغل كل يوم عشرين درسا، وليس له دأب إلا الاشتغال وتلاوة القرآن ليلا ونهارا، وكان بارعا، كثير العلوم، قد أتقن المذهب والخلاف، وكان يفتي في مسألة الطلاق الثلاث بواحدة، فتغيظ عليه قاضي القضاة أبو القاسم عبد الله بن الحسين الدامغاني، فلم يسمع منه، ثم أخرج إلى تكريت، فأقام بها ثم استدعي إلى بغداد، فعاد إلى الاشتغال، وأعاده قاضي القضاة نصر بن عبد الرزاق إلى إعادته بالنظامية، وعاد إلى ما كان عليه من الاشتغال والفتوى والوجاهة إلى أن توفي في هذه السنة - رحمه الله تعالى“
”آپ فقیہ اور شافعی ہیں ، بغداد میں ابوالقاسم بن فضلان کے پاس تفقہ حاصل کیا ، پھر دیگر کئی مدارس میں علم حاصل کرنے کے بعد مدرسہ نظامیہ میں مقرر ہوگئے، یہ روز آنہ بیس درس دیتے تھے ، دن رات قرآن کی تلاوت اور علمی مصروفیات کے علاوہ ان کا کوئی دوسرا کام تھا ہی نہیں ، آپ بہت بڑے عالم تھے اور کئی علوم پر دسترس رکھتے تھے ، آپ کو مذہب شافعی اور اختلافی مسائل میں بڑی مہارت تھی ، آپ تین طلاق کے مسئلہ میں اس کے ایک ہونے کا فتوی دیتے تھے ، اس پر قاضی ابو القاسم عبد الله بن الحسين الدامغانی برہم ہوئے اور ان سے کچھ نہیں سنا ، پھر آپ کو تکریب بھیج دیا گیا ، جہاں آپ نے اقامت اختیارکی ، اس کے بعد آپ کو دوبارہ بغداد بلایا گیا ، اور پھر آپ یہاں دوبارہ اپنی علمی مصروفیات میں لگ گئے ، اور نصر بن عبد الرزاق نے انہیں دوبارہ مدرسہ نظامیہ میں مقرر کردیا ، اس طرح آپ نے یہاں پر ایک بار پھر سے اپنی سرگرمیوں اور فتاوی دینے کا کام شروع کیا اور اور اپنے مقام ومرتبہ پر واپس آگئے“ [تاریخ ابن السباعی :ج 9 ص 323تا 324 ، البداية والنهاية ط هجر:17/ 170]
یادرہے کہ امام محمد بن القاسم بن هبة الله رحمہ اللہ (المتوفی624) سے یہ قول انہیں کے معاصر امام ابن السباعی (مولود593متوفی 674)نے نقل کیا ہے، لہٰذا یہ قول ثابت ہے ۔
ابن السباعی بہت بڑے امام اور حافظ ہیں ، امام ذہبی رحمہ اللہ نے ان کا ذکر تذکرۃ الحفاظ کرتے ہوئے کہا:
”الإمام المؤرخ البارع“ ، ”یہ بہت بڑے امام اور مؤرخ ہیں“ [تذكرة الحفاظ للذهبي، ط دار الكتب: 4/ 173]
ابن العماد رحمه الله (المتوفى 1089) فرماتے ہیں:
”كان إماما، حافظا، مبرّزا على أقرانه. ذكره ابن ناصر الدّين“
”یہ امام اور حافظ تھے ، اور اپنے ساتھیوں پر فائق تھے ، ان کا تذکرہ ابن ناصر الدین نے کیا ہے“ [شذرات الذهب لابن العماد: 7/ 599]
فائدہ :
اس حوالے سے یہ بھی معلوم ہوا کہ مقلدین نے تین طلاق کے مسئلہ میں علمی ومنصبی دادا گیری سے کام لیا ہے اور ہر وہ شخص جو ان سے اس مسئلہ میں اختلاف کرتا اسے نہ صرف یہ کہ ہر طرح سے تکلیف دینے کی کوشش کی ہے بلکہ اس پر طرح طرح کی تہمتیں لگانے سے بھی دریغ نہیں کرتے تھے ۔
امام محمد بن القاسم بن هبة الله التكريتي رحمہ اللہ کے معاصرین نے انہیں معمولی تکلیف دی لیکن ان کی وفات کے کئی سال بعد پیدا ہونے بعض مقلدین نے ان کے اس فتوی کے سبب ان پر عجوبہ نگاری وغیرہ تہمت لگائی ہے ،یہ ساری تہمتیں مسلکی تعصب کی وجہ سے ہیں ، نیز بے دلیل اور بے سند ہیں لہٰذا باطل ومردد ہیں ۔
چھٹی صدی ہجری اور تین طلاق کے ایک ہونے کا فتوی:
✿ امام بن رشد الحفيد القرطبي (المتوفى 595) کا فتوی:
آپ فرماتے ہیں:
”وكأن الجمهور غلبوا حكم التغليظ في الطلاق سدا للذريعة، ولكن تبطل بذلك الرخصة الشرعية والرفق المقصود في ذلك - أعني: في قوله تعالى: {لَعَلَّ اللَّهَ يُحْدِثُ بَعْدَ ذَلِكَ أَمْرًا}“
”گویا کہ جمہور نے طلاق کے مسئلہ میں سد ذریعہ کی خاطر سخت موقف اپنایا ہے ، لیکن اس سے وہ شرعی رخصت اور نرمی باطل قرار پاتی ہے جو مطلوب ہے یعنی اللہ تعالی کے اس قول میں{شاید اس کے بعد اللہ تعالی کوئی نیا معاملہ پیدا کردے}“ [بداية المجتهد 3/ 84]
مزید فرماتے ہیں:
”ولذلك ما نرى - والله أعلم - أن من ألزم الطلاق الثلاث في واحدة، فقد رفع الحكمة الموجودة في هذه السنة المشروعة“
”اس لئے -واللہ اعلم- ہماری رائے یہ ہے کہ جن بیک وقت تین طلاق کو لازم کردیا اس نے اس مشروع سنت میں موجود حکمت کو ختم کردیا“ [بداية المجتهد 3/ 85]
علامہ معلی رحمہ اللہ کی کتاب ”الحكم المشروع“ کے محقق ابن رشد رحمہ اللہ کے الفاظ نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں:
”وهذا كالصريح في الدلالة علي ميله إلي هذا القول ، وفي عرضه للمسئلة وذكره لأدلة الفريقين ، مايدل علي ميله لقول الظاهريه ومن وافقهم“
”یہ الفاظ گویاصراحت کے ساتھ دلالت کرتے ہیں کہ وہ اسی قول کی طرف مائل ہیں ، اور ان کا یہ مسئلہ ، اور اس میں فریقین کے دلائل پیش کرنے کاانداز دلالت کرتا کہ وہ ظاہریہ اور ان کے موافقین کے قول (تین طلاق کے ایک ہونے) کی طرف ہی میلان رکھتے ہیں“ [الحكم المشروع في الطلاق المجموع: ص 13]
مجموعہ مقالات کے مقالہ نگار مولانا سید احمد عروج قادری لکھتے ہیں:
”خود قاضی ابن رشد کا اپنا رجحان بھی یہی معلوم ہوتا ہے کہ اس کاحکم ایک ہی طلاق ہونا چاہئے“ [ مجموعہ مقالات ص 49]
✿ امام فخر الدين الرازي رحمہ اللہ (المتوفى 606) کا فتوی:
آپ فرماتے ہیں:
”وهو اختيار كثير من علماء الدين، أنه لو طلقها اثنين أو ثلاثا لا يقع إلا الواحدة، وهذا القول هو الأقيس، لأن النهي يدل على اشتمال المنهي عنه على مفسدة راجحة، والقول بالوقوع سعي في إدخال تلك المفسدة في الوجود وأنه غير جائز، فوجب أن يحكم بعدم الوقوع“
”اسی موقف کو علمائے دین میں بہت سے لوگوں نے اختیار کیا ہے کہ اگر کسی نے ایک ہی وقت دو یا تین طلاق دے دی تو وہ ایک ہی طلاق واقع ہوگی ، یہ قول زیادہ قرین قیاس ہے ، کیونکہ کسی کام سے منع کیا جانا اس بات کی دلیل ہے کہ وہ کام بڑے فساد پر مبنی ہے ، اور تین طلاق کے وقوع کا فتوی دینا اس فساد کو اس میں شامل کرنے کی کوشش ہے ، اور یہ ناجائز ہے ، لہٰذا واجب ہے کہ ایسی طلاق کے عدم وقوع کا فتوی دیا جائے“ [تفسير الرازي 6/ 442]
پانچویں صدی ہجری اور تین طلاق کے ایک ہونے کا فتوی:
✿ امام احمدبن محمد بن مغیث (مولود 406متوفی459) کا فتوی:
آپ نے اپنی کتاب ”المقنع في علم الشروط“ میں فرماتے ہیں :
”فطلاق السنة هو الواقع علي الوجه الذي ندب الشرع إليه“
”طلاق سنت وہ ہوتی ہے جو اسی طریقہ پر واقع ہوتی ہے جس طریقہ کی طرف شریعت نے رہنمائی کی ہے“ [المقنع في علم الشروط: 80 ]
اس کے بعد امام ابن مغیث رحمہ اللہ نے اس مسئلہ میں اختلاف ذکرنے کے بعد صرف تین طلاق کے عدم وقوع والے قول کے دلائل پیش کئے ہیں اور اس سلسلے بڑی تفصیل سے اس کی تائید میں صحابہ و اہل علم کے اقوال نقل کئے ہیں ۔دیکھئے:[المقنع في علم الشروط: 80 تا 82]
یہ اس بات کی دلیل ہے کہ ان کا موقف بھی تین طلاق کو ایک ماننے کا ہے ۔
محمدابن القاضي عياض رحمہ اللہ(المتوفی655) فرماتے ہیں:
”وهو مذهبه أعني أحمد بن مغيث يدل علي ذلك ظاهر كلامه في مقنعه“
”تین طلاق کو ایک ماننا یہی احمدبن مغیث کا موقف ہے ، ان کی کتاب مقنع میں ان کے کلام کا ظاہر اسی پر دلالت کرتا ہے“ [مذاهب الحكام للقاضی عیاض وولدہ : ص 289]
چوتھی صدی ہجری اور تین طلاق کے ایک ہونے کا فتوی:
اس صدی کے ایک مشہور حنفی امام أبو جعفر طحاوي رحمه الله (المتوفى321) نے اس مسئلہ میں اختلاف کا ذکرتے ہوئے کہا:
”فذهب قوم إلى أن الرجل إذا طلق امرأته ثلاثا معا , فقد وقعت عليها واحدة إذا كانت في وقت سنة , وذلك أن تكون طاهرا في غير جماع. واحتجوا في ذلك بهذا الحديث“
”اہل علم کی ایک جماعت کا کہنا یہ ہے کہ جب کوئی شخص اپنی بیوی کو ایک ساتھ تین طلاق دے دے تو وہ ایک ہی طلاق شمار ہوگی ، اگر اس نے سنت کے مطابق دی ہے ، وہ اس طرح کی بیوی کی پاکی کی حالت میں ہمبستری سے پہلے طلاق دیا ، ان لوگوں یہ بات اسی (صحیح مسلم وغیرہ کی ابن عباس رضی اللہ عنہ والی) حدیث سے استدلال کرتے ہوئے کہی ہے“ [شرح معاني الآثار، ت النجار: 3/ 55]
✿ امام ابن زنباع رحمہ اللہ کا فتوی:
امام احمدبن محمد بن مغیث (مولود 406متوفی459) فرماتے ہیں :
”وبه قال ابن زنباع من شيوخ قرطبة شيخ وقتنا هذا“
”اورتین طلاق کے ایک ہونے کا فتوی مشائخ قرطبہ میں سے اس وقت کے شیخ ابن زنباع رحمہ اللہ نے بھی دیا ہے“ [المقنع في علم الشروط: 80]
امام ابن زنباع کی تاریخ وفات کا علم نہیں ہوسکا لیکن ابن مغیث رحمہ اللہ نے انہیں اپنے وقت کا شیخ قرار دیا ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ ان سے کافی بڑے ہوں ہوں گے ، اور ابن مغیث رحمہ اللہ کی پیدائش 406 ہجری ہے ، اس سے واضح ہے کہ ابن زنباع رضی اللہ اس چوتھی صدی ہجری کے عالم ہیں اور پانچویں صدی ہجری تک بھی یہ باحیات رہے ہیں ۔
✿ امام احمدبن بقی بن مخلد(المتوفی344) رحمہ اللہ کافتوی:
آپ کا بھی یہ فتوی امام ابن مغیث رحمہ اللہ نے نقل کیا ہے دیکھئے :[المقنع في علم الشروط: 81]
واضح رہے کہ المقنع میں ”محمد بن بقی“ چھپ گیا ہے ، لیکن ان کا صحیح نام ”احمد بن بقی“ ہے ، اور مذاہب حکام میں ابن مغیث کی کتاب مقنع ہی سے ان کا فتوی بھی نقل کیا گیاہے اور اس میں یہ نام صحیح طور سے ”احمدبن بقی“ ہی نقل کیا گیا ہے۔ دیکھئے : [مذاھب الحکام ص 289]
اسی طرح ”المعيار المعرب“ میں بھی ابن مغیث کی کتاب سے یہی نام منقو ل ہے دیکھئے:[ المعيار المعرب 1/ 499]
”احمدبن بقی بن مخلد“ صاحب تصنیف ہیں ، اور ان کے اقوال سندوں کے نقل ہونا معروف نہیں ہیں ، اس لئے ظاہر ہے کہ یہ ان کی کسی کتاب ہی سے نقل کیا گیا ہے۔
تیسری صدی ہجری اور تین طلاق کے ایک ہونے کا فتوی:
✿ امام داؤد بن علی الظاھری رحمہ اللہ (المتوفی270) کا فتوی
امام داؤد ظاہری ائمہ متبوعین میں سے ہیں ، جس طرح چاروں اماموں کے نام سے چار مذاہب ہیں ایسے ہی امام داؤد ظاہری کے نام سے بھی ایک مذہب ہے جسے مذہب ظاہری کہتے ہیں ، امام داؤد ظاہری اس مذہب کے امام ہیں ۔
خطيب بغدادي رحمه الله (المتوفى463) فرماتے ہیں:
”وهو امام أصحاب الظاهر“ ، ”امام داود بن علی رحمہ اللہ اصحاب ظاہر کے امام ہیں“ [تاريخ بغداد، مطبعة السعادة: 8/ 369]
امام ابن القيم رحمه الله (المتوفى751) فرماتے ہیں:
”فأفتى به داود بن علي وأكثر أصحابه، حكاه عنهم ابن المغلِّس“
”تین طلاق کے ایک ہونے کا فتوی داؤد بن علی اور ان کے اکثر اصحاب نے بھی دیا ہے ، ان سے یہ فتوی ابن المغلس نے نقل کیا ہے“ [إعلام الموقعين ت مشهور: 4/ 388]
ابن المغلس رحمہ اللہ (المتوفی324) یہ امام داؤد ظاہری کے شاگرد ہیں ،دیکھئے:[الإحكام في أصول الأحكام لابن حزم 5/ 103]
اور ابن المغلس رحمہ اللہ صاحب تصنیفات ہیں بلکہ فقہ پر بھی ان کی ایک کتاب ”الموضح“ کے نام سے ہے ، دیکھئے:[سير أعلام النبلاء للذهبي: 15/ 77]
اس لئے ظاہر ہے کہ ابن القیم رحمہ اللہ نے ان کی یہ بات ان کی کتاب سے نقل کی ہے ، لہٰذا یہ فتوی بھی ثابت ہے۔
تنبیہ:
بعض اہل تقلید کا یہ کہنا ہے اما داؤد ظاھری کے اختلاف کا کوئی اعتبار نہیں ہے ، مبنی برتعصب اور انتہائی غلط بات ہے ، اس کی مدلل تردید کے لئے دیکھئے [سير أعلام النبلاء للذهبي: 13/ 104تا 108]
✿ محمدبن مقاتل رازی حنفی رحمہ اللہ (المتوفی248) کا فتوی:
محمدبن مقاتل رازی حنفی ائمہ میں سے ایک مشہور امام ہیں ، ان سے تین طلاق کے ایک ہونے کا فتوی حنفی امام علامہ عینی نے نقل کررکھا ہے ۔[عمدة القاري شرح صحيح البخاري 20/ 233]
نیز امام طحاوی حنفی رحمہ اللہ نے بھی ان سے یہی فتوی نقل کیا ہے چنانچہ:
امام ابن القيم رحمه الله (المتوفى751) فرماتے ہیں:
”أنه أحد القولين في مذهب أبي حنيفة اختاره محمد بن مقاتل الرازي حكاه عنه الطحاوي“
”امام ابوحنیفہ کے مذہب میں بھی دوقول میں سے ایک قول تین طلاق کے ایک ہونے کا ہے ، اسے محمد بن مقاتل الرازي رحمہ اللہ نے اختیار کیاہے ، ان سے یہ قول امام طحاوی نے نقل کیاہے“[الصواعق المرسلة 2/ 623]
امام طحاوی رحمہ اللہ (متوفى321) یہ محمد بن مقاتل الرازي رحمہ اللہ (المتوفی248) کے معاصرہیں ، اور صاحب تصنیفات ہیں۔
اس سےمعلوم ہوا کہ امام طحاوی کا جو اوپر قول گذرا ہے کہ ایک جماعت میں تین طلاق کو ایک قراردیاہے ،اس میں محمد بن مقاتل الرازي رحمہ اللہ بھی شامل ہیںَ۔
دوسری صدی ہجری اور تین طلاق کے ایک ہونے کا فتوی:
امام محمد بن إسحاق المدني (المتوفى 151) کا فتوی:
امام احمد رحمہ اللہ کے شاگرد امام اثرم رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
”سمعت أبا عبد الله يقول: حدثنا سعد بن إبراهيم، عن أبيه، عن ابن إسحاق، عن داود بن الحصين، عن عكرمة، عن ابن عباس: أن ركانه طلق امرأته ثلاثًا، فجعلها النبي صلى الله عليه وسلم واحدة.قال أبو عبد الله: هذا مذهب ابن إسحاق، يقول: خالف السنة. فرده إلى السنة على مذهب الروافض.قلت له: على حديث طاوس ذلك؟ قال: نعم. قال ابن إسحاق: إنما ردها عليه؛ لأن الطلاق كان ثلاثًا في مجلس“
”امام اثرم رحمہ اللہ کہتے ہیں : کہ میں نے سنا ، امام رحمہ اللہ نے سعد بن إبراهيم، عن أبيه، عن ابن إسحاق، عن داود بن الحصين، عن عكرمة، عن ابن عباس کی سند سے بیان کی کہ رکانہ رضی اللہ عنہ نے اپنی بیوی کو تین طلاق دے دی تو اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اسے ایک قراردیا ، امام احمد رحمہ اللہ نے کہا: یہی محمد ابن اسحاق رحمہ اللہ کا مذھب ہے وہ کہتے تھے ، ایسی طلاق دینے والے نے سنت کی مخالفت کی ہے اس لئے اس کی طلاق کو سنت پر پلٹایا جائے گا ، روافض کا بھی یہی مذہب ہے ۔ امام اثرم کہتے ہیں کہ میں نے پوچھا: کیا محمدبن اسحاق ، طاووس والی حدیث کے مطابق موقف رکھتے تھے ؟ امام احمد رحمہ اللہ نے کہا : ہاں ! اور اس حدیث کے بارے میں محمدبن اسحاق کہتے تھے کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی طلاق اس لئے لوٹادی تھی کیونکہ انہوں نے ایک ہی مجلس میں تین طلاق دی تھی“ [التوضيح لشرح الجامع الصحيح 25/ 192]
امام احمد رحمہ اللہ نے اپنے اس کلام میں امام محمدبن اسحاق کی حدیث نقل کرکے انہیں سے اس کی تشریح اوران کا فتوی نقل کیا ہے ، جس کا واضح مطلب یہ ہے کہ امام احمد رحمہ اللہ تک جس سند سے یہ حدیث پہنچی ہے اس سند سے ان تک ان کا فتوی بھی پہنچا ہے ۔
لہٰذا امام محمدبن اسحاق رحمہ اللہ سے یہ فتوی بسند صحیح ثابت ہے ۔
امام طحاوي رحمه الله (المتوفى321) نے کہا:
”وقال محمد بن اسحاق الثلاث يرد إلى الواحدة واحتج بما رواه عن داود بن الحصين عن عكرمة عن ابن عباس قال طلق ركانة بن عبد يزيد امرأته ثلاثا في مجلس واحد فحزن عليها حزنا شديدا فسأله رسول الله صلى الله عليه وسلم كيف طلقتها؟ قال طلقتها ثلاثا ، (قال) في مجلس واحد ؟قال نعم .قال وإنما لك واحدة فارجعها إن شئت قال فراجعها“
”محمدبن اسحاق نے کہا کہ تین طلاق کو ایک کی طرف پلٹایا جائے گا اور اس کے لئے انہوں نے داؤد بن الحصین عن عکرمہ عن ابن عباس رضی اللہ عنہ کی سند سے مروی اس حدیث سے استدال کیا ہے کہ رکانہ رضی اللہ عنہ نے اپنی بیوی کو ایک ہی مجلس میں تین طلاق دے دی ، پھر اس پر انہیں شدید رنج لاحق ہوا ، تو اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے پوچھا: ”تم نے کیسے طلاق دی ؟“ انہوں نے کہا: میں نے تین طلاق دے دی ۔ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ سلم نے پوچھا: ”کیا ایک ہی مجلس میں ؟“ انہوں نے جواب دیا: جی ہاں ! تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”پھر یہ تمہاری ایک ہی طلاق ہوئی تم چاہو تو اپنی بیوی کو واپس لے لو“ ، چنانچہ انہوں نے اپنی بیوی کو واپس لے لیا“ [مختصر اختلاف العلماء 2/ 462]
شروحات حدیث اور کتب فقہ میں تین طلاق کی بحث میں محمدبن اسحاق رحمہ اللہ کا نام بہت ہی مشہور ومعروف ہے۔
پہلی صدی ہجری اور تین طلاق کے ایک ہونے کا فتوی:
پہلی صدی کے بارے میں شروع ہی میں عرض کیا جاچکا ہے کہ عہد فاروقی کے ابتدائی دو سال سے قبل تمام صحابہ وتابعین کا اس بات پر اجماع واتفاق تھا کہ ایک مجلس کی تین طلاق ایک ہی شمار ہوگی جیساکہ صحیح مسلم کی حدیث میں صراحتا مذکور ہے۔
کتاب ”تسمية المفتين“ میں مذکور ائمہ و علماء کی فہرست
دکتور سلیمان بن عبداللہ العمیر نے خاص اس موضوع پر کتاب لکھی ہے کہ کن ائمہ واہل علم نے تین طلاق کے ایک ہونے کا فتوی دیا ہے ، اس کتاب کا نام ہے ”تسمية المفتين بأن الطلاق ثلاث بلفظ واحد طلقة واحدة“ اس کتاب میں تین طلاق کو ایک قراردینے والے جن علماء کے نام درج وہ یہ ہیں:
1۔خلیفہ راشد ابوبکر الصدیق رضی اللہ عنہ
2۔خلیفہ راشد عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ
3۔خلیفہ راشد علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ
4۔ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ
5۔عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ
6۔زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ
7۔ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ
8۔ خلاس بن عمرو البصری (المتوفی قبل 100)
9۔عکرمہ بن عبداللہ (المتوفی قبل 104)
10۔طاووس بن کیسان الیمانی (المتوفی 106)
11۔الحارث بن یزید العکلی (المتوفی قبل 120)
12۔محمد بن علی ابوجعفر الباقر رحمہ اللہ (المتوفی بعد 100)
13۔الحجاج بن ارطاۃ (المتوفی145)
14۔جعفر بن محمدبن علی رحمہ اللہ(المتوفی 148)
15۔محمدبن اسحاق المدنی (150)
16۔ محمدبن مقاتل رازی حنفی (المتوفی248)
17۔ داؤد بن علی الظاھری (المتوفی270)
18۔محمدبن عبدالسلام الخشنی المالکی (المتوفی286)
19۔ ابن زنباع (المتوفی بعد 406)
20۔اصبغ ابن الحباب
21۔احمد بن بقی بن مخلد المالکی(المتوفی344)
22۔احمدبن محمد بن مغیث المالکی( متوفی459)
23۔ محمد بن القاسم بن هبة الله (المتوفی624)
24۔مجد الدین ابن تیمیہ (المتوفی652)
25۔شیخ الاسلام ابن تیمیہ (المتوفی827)
26۔عمر بن سعد اللہ الحنبلی (المتوفی749)
27۔ ابن القیم الجوزیہ(المتوفی751)
28۔ ابن کثیر الشافعی صاحب تفسیر(المتوفی774)
29۔ابن ابی المجد الحنبلی (المتوفی783)
30۔ ابن رجب الحنبلی (المتوفی795)
ابن رجب نے بعد میں رجوع کرلیا تھا ، لیکن یہ علمی رجوع نہیں تھا بلکہ کوئی اور ہی وجہ تھی دیکھیں:[تسمية المفتين : ص71]
31۔جمال الدین الامام (المتوفی798)
32۔محمدبن خلیل الحنبلی (المتوفی803)
33۔محمد المرداوی الحنبلی (المتوفی826)
34۔ علی بن عبدالمحسن الحنبلی(المتوفی762)
35۔الشھاب الشویکی الحنبلی (المتوفی1007)
36۔جمال الدین الطورکرمی الحنبلی (المتوفی1078)
37۔الامام المتوکل علی اللہ (المتوفی80)
38۔ صالح بن مھدی المقبلی(المتوفی81)
39۔شیخ محمدبن عبدالوھاب (المتوفی1206)
40۔علامہ محمدبن علی الشوکانی (1250)
41۔ابن الامین بن الحاج البوحسنی
42۔ علامہ صدیق حسن خان القنوجی (المتوفی1307)
43۔ علامہ محمدنذیر حسین دہلوی (المتوفی1320)
44۔علامہ شمس الحق العظیم آبادی(المتوفی1329)
45۔ شیخ عبدالعزیز بن حمدبن علی (المتوفی1359)
46۔ شیخ عبدالمجید سلیم الحنفی (المتوفی1374)
47۔ شیخ احمد محمد شاکر (المتوفی1377)
48۔ شیخ محمد شلتوت (المتوفی1383)
49۔محمدطاہر بن عاشور (المتوفی1393)
50۔ شیخ عبدالعزیز بن باز (المتوفی 1420)
51۔شیخ محمدبن صالح العثیمن (المتوفی 1421)
52۔ علامہ ناصر الدین البانی (المتوفی1420)
53۔شیخ عبداللہ بن زید آل محمود
تفصیل کے لئے دیکھئے : [تسمية المفتين : ص 53تا 99]
کتاب ”تسمية المفتين“ پر استدراک اور مزید ناموں کا اضافہ
اس کتاب میں قدیم وجدید دور کے کئی اہل علم کے نام چھوٹ گئے ہیں ، ذیل میں ہم قدیم دور کے تین علماء کے ناموں کا اضافہ کرتے ہیں:
أبو حيان الأندلسي رحمہ اللہ (المتوفى 745 )
امام بن رشد الحفيد القرطبي (المتوفى 595)
امام فخر الدين الرازي رحمہ اللہ (المتوفى 606)
ان تینوں اہل علم کے الفاظ اور حوالے ماقبل میں گذرچکے ہیں۔
جدید دور میں ایک اہم نام عبد الرحمن بن محمد عوض الجزيري کا ہے ، آپ لکھتے ہیں:
”فإن الذين قالوا: إن الطلاق الثلاث بلفظ واحد يقع به واحدة لا ثلاث لهم وجه سديد وهو أن ذلك واقع في عهد الرسول، وعهد خليفته الأعظم أبي بكر. وسنتين من خلافة عمر رضي الله عنه“ ”جن لوگوں نے کہا ہے کہ ایک جملے میں دی گئی تین طلاق ایک ہی واقع ہوتی ہے ، اس کے پاس صحیح دلیل موجود ہے وہ یہ کہ عہد رسالت ، عہد صدیقی اور عہد فاروقی کے ابتدائی دوسال تک ایسا ہی ہوتا تھا“[الفقه على المذاهب الأربعة 4/ 304]
ائمہ اربعہ میں سے بعض کا غیرمشہور فتوی:
امام ابن القيم رحمه الله (المتوفى751) فرماتے ہیں:
”أنه إحدى الروايتين عن مالك حكاها عنه جماعة من المالكية منهم التلمساني صاحب شرح الخلاف وعزاها إلى ابن أبي زيد : أنه حكاها رواية عن مالك“
”بیک وقت تین طلاق کو ایک قرار دینے کا ایک فتوی امام مالک کا بھی ہے اسے امام مالک سے مالکیہ کی ایک جماعت نے نقل کیا ہے ، جن میں امام التلمساني صاحب شرح الخلاف بھی ہیں اور انہیں نے اسے ابن أبي زيد المالكي کی طرف منسوب کیا ہے کہ انہوں نے امام مالک سے یہ فتوی نقل کیا ہے“ [إغاثة اللهفان 1/ 326]
مولانا عبدالحئی لکھنوی حنفی لکھتے ہیں:
”القول الثاني أنه إذا طلق ثلاثا تقع واحدة رجعية وهذا هو المنقول عن بعض الصحابة وبه قال داؤد الظاهري وأتباعه وهو أحد القولين لمالك“
”دوسرا قول یہ ہے کہ جب کوئی تین طلاق دے دے تو وہ ایک رجعی طلاق واقع ہوگی ، یہ قول بعض صحابہ سے بھی منقول ہے اور داؤد ظاہری اور ان کے ماننے والوں کا بھی یہی قول ہے ، اور امام مالک کا بھی ایک قول یہ ہے“ [عمدة الرعاية بر حاشيه شرح وقايه : 2/ 63]
مذاہب اربعہ کے بعض پیروکاروں کا فتوی
بعض مالکیہ کا فتوی:محمدبن عبدالسلام الخشنی المالکی (المتوفی286) دیکھئے[تسمية المفتين : ص60]
احمد بن بقی بن مخلد المالکی(المتوفی344) دیکھئے[تسمية المفتين : ص61]
احمدبن محمد بن مغیث المالکی( متوفی459) دیکھئے[تسمية المفتين : ص61]
بعض شوافع کا فتوی:
بعض شوافع کا فتوی:
محمد بن القاسم بن هبة الله (المتوفی624) دیکھئے[تسمية المفتين : ص62]
ابن کثیر الشافعی صاحب تفسیر(المتوفی774) دیکھئے[تسمية المفتين : ص62]
بعض حنابلہ کا فتوی:
عمر بن سعد اللہ الحنبلی (المتوفی749) دیکھئے[تسمية المفتين : ص67]
ابن ابی المجد الحنبلی (المتوفی783) دیکھئے [تسمية المفتين : ص70]
محمدبن خلیل الحنبلی (المتوفی803) دیکھئے [تسمية المفتين : ص74]
محمد المرداوی الحنبلی (المتوفی826) دیکھئے [تسمية المفتين : ص76]
علی بن عبدالمحسن الحنبلی(المتوفی762) دیکھئے [تسمية المفتين : ص77]
الشھاب الشویکی الحنبلی (المتوفی1007) دیکھئے [تسمية المفتين : ص78]
جمال الدین الطورکرمی الحنبلی (المتوفی1078) دیکھئے [تسمية المفتين : ص80]
بعض احناف کا فتوی:
احناف کے ایک بہت بڑے امام محمدبن مقاتل رازی حنفی رحمہ اللہ (المتوفی248) کا فتوی گذرچکا ہے کہ وہ بیک وقت دی گئی تین طلاق کو ایک قرار دیتے تھے ۔[دیکھئے اسی کتاب کا صفحہ]
شیخ عبدالمجید سلیم الحنفی المصری (المتوفی1374) کا بھی یہی فتوی ہے ، دیکھیں[تسمية المفتين : ص89]
احناف کے ایک بہت بڑے امام محمدبن مقاتل رازی حنفی رحمہ اللہ (المتوفی248) کا فتوی گذرچکا ہے کہ وہ بیک وقت دی گئی تین طلاق کو ایک قرار دیتے تھے ۔[دیکھئے اسی کتاب کا صفحہ]
شیخ عبدالمجید سلیم الحنفی المصری (المتوفی1374) کا بھی یہی فتوی ہے ، دیکھیں[تسمية المفتين : ص89]
شیخ محمد ابوزھرہ حنفی رحمہ اللہ قرآن کی آیت ﴿الطَّلَاقُ مَرَّتَانِ فَإِمْسَاكٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِيحٌ بِإِحْسَانٍ﴾ (طلاق دو مرتبہ ہیں، پھر (ہرمرتبہ کے بعد) یا تو اچھائی سے روکنا ہے یا عمدگی کے ساتھ چھوڑ دینا ہے) [2/البقرة: 229] سے استدلال کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
”أن الطلقات الثلاث لاتقع دفعة واحدة بل تقع علي دفعات ، فالطلاق المقترن بالعدد لفظا أو إشارة ينبغي بمتقضي نص الآية أن لايقع إلا واحدة لأنه دفعة واحدة“
”اس آیت اس بات کی بھی دلیل ہے کہ ایک دفعہ میں دی گئی تین طلاق واقع نہیں ہوتی ہے ، بلکہ الگ الگ اوقات میں ہی واقع ہوگی ، لہذا عدد کے ساتھ لفظا یا اشارۃ جڑی ہوئی طلاق کی بابت آیت کی صراحت کا تقاضا یہ ہے کہ یہ ایک ہی واقع ہوگی کیونکہ ایک ہی دفعہ میں دی گئی ہے“ [الأحوال الشخصية ص303، 304]
بعض دیوبندی حضرات کا فتوی:
دیوبندی مکتب فکر سے تعلق رکھنے والے مولانا محفوظ الرحمن قاسمی ، فاضل دیوبند نے ، ایک تحقیقی مقالہ لکھ کر اپنا موقف پیش کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
”ہمارے نزدیک مجلس واحد کی تین طلاقوں کو ایک ہی سمجھا جائے تو زیادہ بہتر ہے ، یہی ہماری رائے ہے ، جس کے دلائل اوپر نقل کردئے گئے ہیں“ [ مجموعہ مقالات ص 37]
مولانا مفتی محمد شفیع صاحب نے ایک موقع پر تین طلاق کے ایک ہونے کا فتوی دیا، چنانچہ ایک انگریز عیسائی جوڑے نے جس کو اسلام قبول کئے ہوئے دس بارہ سال ہی ہوئے تھے ، اپنی بیوی کو تین طلاقیں بیک وقت دے دیں ، تمام علماء نے حلالہ کا فتوی دیا ، کسی نے مشورہ دیا کہ دار العلوم ندوۃ العملماء کے اجلاس میں مفتی محمد شفیع صاحب آئے ہوئے ہیں ان سے رجوع کرو ، وہ مفتی صاحب کے پاس گیا ، انہوں نے مشورہ دیا کہ صبح کو اپنے تمام واقعات لکھ کرلے آؤ ، وہ صبح آئے ، مفتی صاحب نے دوسرے مفتیان صاحبان کو جو تشریف رکھتے تھے ، وہ کاغذ دکھا یا ، سب نے حلالہ کا فتوی دیا ، جناب مفتی شفیع صاحب نے اس پر فتوی تحریر کیا:
”مسلمانوں کے ایک مسلک موسومہ بہ اھل الحدیث کے نزدیک ایک ہی طلاق ہوئی ، رجوع کرلیا جائے“
وہ چلے گئے اور رجوع کرلیا ، جب وہ چلے گئے تو مفتی صاحب نے فرمایا: اگر اس وقت میں یہ فتوی نہ دیتا تو یہ جوڑا پھر عیسائی ہوجاتا کہ جس اسلام میں میری ایک ذرا سی غلطی کی تلافی ممکن نہیں ہے ، وہ مذھب صحیح نہیں ہوسکتا [ماہنامہ الشریعہ جلد 21 شمارہ 7 جولائی 2010 صفحہ 14، بحوالہ تحفہ احناف ص 385]
دیوبندی مکتب فکر سے تعلق رکھنے والے سید سلمان ندی صاحب نے بھی اپنی مختلف ویڈیوز میں تین طلاق کو ایک قراردیا ہے۔نیز اس سلسلے میں ان کی ایک تحریر کے لئے دیکھئے: [ماہنامہ الشریعہ شمارہ 33 مارچ 2005]
بعض بریلوی حضرات کا فتوی:
بریلوی عالم مولانا کرم شاہ ازہری صاحب نے تین طلاق پر ایک خصوصی مقالہ بنام ”دعوت فکرونظر“ لکھ رکھا ہے جس میں موصوف نے اسی بات کی راجح قرار دیا ہے کہ بیک وقت دی گئی تین طلاق ایک ہی شمار ہوگی ۔ دیکھئے : [دعوت فکرونظر: مطبوع در مجموعہ مقالات ص217 تا 247 ]
حافظ صلاح الدین یوسف رحمہ اللہ نے اپنی کتاب میں تین طلاق کو ایک قرار دینے متعلق عالم اسلام کے کئے علماء کے اقوال نقل کئے ہیں بلکہ بر صغیر پاک وھند کے حنفی علماء کے بھی بہت سے مقالات و فتاوی تفصیل کے ساتھ نقل کئے ہیں ، اگر ہم اپنی کتاب میں یہ سب کچھ نقل کریں تو اس کتاب کی ضخامت کافی بڑھ جائے گی اس لئے ہم صرف حافظ موصوف کی کتاب کی طرف احالہ پر اکتفاء کرتے ہیں تفصیل کے لئے ملاحظہ فرمائیں:[ایک مجلس میں تین طلاقیں اور اس کا شرعی حل: تالیف حافظ صلاح الدین یوسف رحمہ اللہ]
بعض اہل علم نے تو خاص ایسی کتاب ہی لکھ رکھی ہے جس میں صرف علمائے احناف کے ایسے فتاوی درج ہیں جو تین طلاق کو ایک مانتے ہیں ، مثلا دیکھئے :[ ایک مجلس کی تین طلاق علمائے احناف کی نظرمیں]
بلکہ خود بعض حنفی علماء نے بھی ”حق وصداقت کی عظیم الشان فتح“ کے نام سےایک کتاب لکھی ہے ، اس میں ان علماءۓ احناف کے فتاوی درج ہیں جو بیک وقت تین طلاق کو ایک قرار دیتے ہیں، اس رسالہ سے بعض فتاوی کو مولانا محمد جوناگڑھی رحمہ اللہ نے نقل کیا ہے دیکھیں:[نکاح محمدی ازمحمدجوناگڑھی ص 126 تا 132]
Is ki pdf copy wattsapp pe mil skti hai kya print niklwany k leiay
ReplyDeleteابھی اس کی پی ڈی ایف عام نہیں کی گئی ہے
ReplyDelete