پچھلا
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا موقف
امام ابن مغیث المتوفی (459) لکھتے ہیں:
”فقال علي ابن أبي طالب وا بن مسعود رضي الله عنهما: تلزمه طلقة واحدة وقاله ابن عباس رضي الله عنه...وقال مثله الزبير بن العوام وعبدالرحمن بن عوف رضي الله عنهما روينا ذلك كله عن ابن وضاح“
”علی بن ابی طالب اور ابن مسعود رضی اللہ عنہما نے کہا کہ (بیک وقت تین طلاق دینےسے) ایک ہی طلاق واقع ہوگی اور یہی ابن عباس رضی اللہ عنہ کا بھی قول ہے...نیز یہی قول زبیر بن العوام اور عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہما کا بھی ہے ... ان سے یہ اقوال ہم نے ابن وضاح سے روایت کیا ہے“ [المقنع لابن مغیث : ص 80]
حافظ ابن حجر رحمه الله (المتوفى852) فرماتے ہیں:
”نقل عن علي وبن مسعود وعبد الرحمن بن عوف والزبير مثله نقل ذلك بن مغيث في كتاب الوثائق له وعزاه لمحمد بن وضاح“
”تین طلاق کے ایک ہونے کا فتوی علی ، ابن مسعود ، عبدالرحمن بن عوف اور زبیر رضی اللہ عنہم سے مروی ہے ، اسے ابن مغیث نے کتاب الوثائق میں نقل کیا ہے اور محمدبن وضاح کی روایت کی طرف منسوب کیا ہے“ [فتح الباري لابن حجر، ط المعرفة: 9/ 363]
نیز دیکھئے : [مذاهب الحكام في نوازل الأحكام : ص289 ، تفسير القرطبي، ت أحمد: 3/ 132]
عرض ہے کہ:
ابن وضاح والی روایات ہمیں نہیں مل سکی لیکن ابن عباس اور ابن مسعود رضی اللہ عنہ کا موقف دیگر روایات سے بھی ثابت ہے ، ابن عباس رضی اللہ عنہ کی روایات ماقبل میں پیش کی جاچکی ہیں اور ابن مسعود رضی اللہ عنہ روایت ملاحظہ ہو:
امام ابن حزم رحمه الله (المتوفى456) نے کہا:
”حدثنا ابن نبات نا أحمد بن عون الله نا قاسم بن أصبغ نا محمد بن عبد السلام الخشني نا محمد بن بشار نا محمد بن جعفر حدثنا شعبة عن عبد الملك بن ميسرة عن النزال بن سبرة أن رجلا وامرأته أتيا ابن مسعود في تحريم فقال إن الله تعالى بين فمن أتى الأمر من قبل وجهه فقد بين له ومن خالف فوالله ما نطيق خلافه“
”نزال بن سمرہ کہتے ہیں کہ ایک مرد اور عورت ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے پاس طلاق میں حرمت کا مسئلہ لیکر آئے ، تو ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اللہ تعالی نے یہ مسئلہ بیان کردیا ہے ، تو جس نے اسی کے مطابق عمل کیا اس کا مسئلہ واضح ہے اور جس نے مخالفت کی تو اللہ کی قسم ہم اس مخالفت کی طاقت نہیں رکھتے“ [الإحكام في أصول الأحكام لابن حزم 8/ 29 وإسناده صحيح ، وأخرجه ايضا ابن الجعد رقم 460 و الدارمي في سننه رقم 104 من طريق الطيالسي كلاهما (ابن الجعد والطيالسي) عن شعبه به ، وأخرجه ايضا الدارمي رقم 103 ، والطبراني في معجمه رقم 8982 من طريق علي بن عبد العزيز ، كلاهما (الدارمي و علي بن عبدالعزيز ) عن المسعودي عن عبدالملك به ”ولفظه وسئل عن رجل يطلق امرأته ثمانية وأشباه ذلك“ ]
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے اس جواب سے بالکل واضح ہے کہ وہ خلاف شریعت دی گئی طلاق کے وقوع کا فتوی نہیں دیتے تھے ۔یعنی طلاق بدعت کو شریعت کی روشنی میں واقع نہیں مانتے تھے۔
امام ابن القيم رحمه الله (المتوفى751) فرماتے ہیں:
”ولو وقع طلاق المخالف لم يكن الإفتاء به غير مطاق لهم، ولم يكن للتفريق معنى إذ كان النوعان واقعين نافذين“
”اگرخلاف شریعت طلاق واقع ہوجاتی تو اس کا فتوی دینا صحابہ کرام کی استطاعت سے باہر نہیں ہوتا ، اور دونوں طرح کی طلاقوں کے نافذ ہونے میں کوئی تفریق نہیں ہوتی“ [زاد المعاد، ن مؤسسة الرسالة: 5/ 206]
اور بعض روایت میں جو یہ منقول ہے کہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے تین طلاق کو تین بتایا تو دراصل یہ شرعی فتوی نہیں تھا بلکہ ایک طرح کی سزا تھی جوبکثرت طلاق دینے والوں کی تادیب وتعزیر کے لئےطے کی گئی تھی ، اس کے مکمل تفصل آگے آرہی ہے۔
علي ابن أبي طالب رضی اللہ عنہ، زبیر بن العوام اور عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہم کے موقف سے متعلق ابن وضاح کی روایت کی جگہ دوسری روایات ہمیں نہیں مل سکی لیکن ابوبکرالصدیق رضی اللہ عنہ کے موقف کے تحت صحیح مسلم کی جو روایت پیش کی گئی ہے ۔اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ عہد صدیقی میں اور عہد فاروقی کے ابتدائی دوسال تک تمام صحابہ کا یہ موقف تھا کہ تین طلاق ایک ہوتی ہے۔
اور عہد فاروقی کے بعد ان صحابہ کا اپنے سابق موقف کے خلاف فتوی دینا کسی بھی صحیح سند سے مروی نہیں ہے ، لہٰذا ان اصل فتوی اپنی جگہ ثابت ہے ۔
السلام علیکم ورحمت اللہ وبرکاتہ شیخ محترم عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے مصنف ابن ابی شیبہ میں ہزار طلاق دینے والے کے متعلق پوچھا گیا تو عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا تین واقع ہو گئیں باقی اس نے گناہ شمار کیے ہیں
ReplyDeleteاس روایت کے متعلق راہنمائی فرما دیں