حدیث ركانة بن عبد يزيد (طلاق البتہ) - Kifayatullah Sanabili Official website

2020-02-20

حدیث ركانة بن عبد يزيد (طلاق البتہ)


پچھلا
پانچویں حدیث : حدیث ركانة بن عبد يزيد (طلاق البتہ)
ایک روایت میں یہ ذکر ہے کہ رکانہ رضی اللہ عنہ نے عہد رسالت میں اپنی بیوی کو طلاق البتہ دی اور قسم کھاکر کہا کہ میری مراد ایک ہی طلاق تھی تو اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ نے اسے ایک ہی طلاق قرار دیا ۔اس واقعہ سے طلاق ثلاثہ کے وقوع پر استدلال کرتے ہوئے کہا جاتا ہے کہ اگر طلاق ثلاثہ واقع نہ ہوتی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم قسم نہ لیتے ۔ملاحظہ یہ روایت:

امام أبوداؤد رحمه الله (المتوفى275) نے کہا:
”حدثنا ابن السرح، وإبراهيم بن خالد الكلبي أبو ثور، في آخرين قالوا: حدثنا محمد بن إدريس الشافعي، حدثني عمي محمد بن علي بن شافع، عن عبد الله بن علي بن السائب، عن نافع بن عجير بن عبد يزيد بن ركانة، أن ركانة بن عبد يزيد طلق امرأته سهيمة البتة، فأخبر النبي صلى الله عليه وسلم بذلك، وقال: والله ما أردت إلا واحدة، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «والله ما أردت إلا واحدة؟»، فقال ركانة: والله ما أردت إلا واحدة، فردها إليه رسول الله صلى الله عليه وسلم، فطلقها الثانية في زمان عمر، والثالثة في زمان عثمان“ 
 ”نافع بن عجیر بن عبد یزید بن رکانہ سے مروی ہے کہ رکانہ بن عبد یزید نے اپنی بیوی سہیمہ کو بتہ طلاق دے دی ۔ پھر نبی کریم ﷺ کو اس کی خبر دی اور کہا : قسم اللہ کی ! میں نے اس سے ایک ہی کا ارادہ کیا تھا ۔ تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ”قسم سے ! تو نے صرف ایک ہی کا ارادہ کیا تھا ؟“ رکانہ نے کہا : اللہ کی قسم ! میں نے صرف ایک ہی کا ارادہ کیا تھا ۔ تو رسول اللہ ﷺ نے اس کی بیوی کو اس پر لوٹا دیا ۔ چنانچہ اس نے اس کو دوسری طلاق سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے دور میں اور تیسری طلاق سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے دور میں دی“ [سنن أبي داود 2/ 263 رقم 2206]

سب سے پہلے ہم یہ عرض کردیں کہ یہ روایت حنفی مذہب کے خلاف ہے ، اور خود احناف اسے تسلیم نہیں کرتے ، کیونکہ اس روایت میں طلاق البتہ کے بعد رجوع کرنے کا ثبوت ملتا ہے ، جبکہ حنفی مذہب میں طلاق البتہ کے بعد رجوع کی گنجائش نہیں ہیں ہے ، چنانچہ:
ملا علي القاري رحمہ اللہ (المتوفى1014) فرماتے ہیں:
”طلاق البتة عند الشافعي واحدة رجعية وإن نوى بها اثنتين أو ثلاثا فهو ما نرى، وعند أبي حنيفة واحدة بائنة وإن نوى ثلاثا فثلاث“ 
 ”طلاق البتہ سے امام شافعی رحمہ اللہ کے نزدیک ایک طلاق رجعی واقع ہوتی ہے ، اگر اس نے دو یا تین کی نیت کی ہو تو بھی ہماری نظر میں ایک ہی طلاق واقع ہوگی ، جبکہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک ایک طلاقِ بائنہ واقع ہوگی اور اگروہ تین کی نیت کرے تو تین واقع ہوگی“ [مرقاة المفاتيح للملا القاري: 5/ 2139]
معلوم ہوا کہ امام ابوحنیفہ کے نزدیگ اگر کوئی ایک کی نیت سے طلاق البتہ دے تو وہ ایک بائنہ طلاق مانی جائے گی ، جبکہ مذکورہ حدیث میں ایک کی نیت سے دی گئی طلاق البتہ ، ایک رجعی طلاق ثابت ہوتی ہے ۔اب سوال یہ ہے کہ اگر یہ حدیث احناف کی نظر میں صحیح ہے تو اس صریح حدیث کے خلاف امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے قول کو ترک کیوں نہیں کرتے ؟
اس  کے بعد عرض ہے کہ:
یہ روایت اضطراب اور رواۃ میں عیب کے سبب ضعیف ہے۔

  اضطراب کا بیان 
اس روایت کی سندوں کا مدار دو راوی پر ہے ایک ”زبير بن سعيد“ اور دوسرے ”عبد الله بن علي بن السائب“ ، اوردونوں سے مروی روایات میں اضطراب و اختلاف ہے۔

 ❀ زبير بن سعيد پراختلاف:
 ● جریر بن حازم عن زبیر بن سعید کی روایت: .......( عبد الله بن علي بن يزيد بن ركانة عن أبيه، عن جده)
 ”حدثنا سليمان بن داود العتكي، حدثنا جرير بن حازم، عن الزبير بن سعيد، عن عبد الله بن علي بن يزيد بن ركانة، عن أبيه، عن جده: أنه طلق امرأته البتة، فأتى رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: ما أردت، قال: واحدة، قال: «آلله؟»، قال: آلله، قال: هو على ما أردت“ [سنن أبي داود 2/ 263 رقم 2208 ، سنن الترمذي ت شاكر رقم 1177]

 ● حبان عن ابن المبارک عن زبیر بن سعید کی روایت: .......( عبداللہ کا ارسال یعنی اگلے دونوں واسطے غائب) 
 ”نا دعلج بن أحمد , نا الحسن بن سفيان , نا حبان , أنا ابن المبارك , أنا الزبير بن سعيد , أخبرني عبد الله بن علي بن يزيد بن ركانة , قال: (.؟.؟.) كان جدي ركانة بن عبد يزيد طلق امرأته البتة , فأتى رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: إني طلقت امرأتي البتة , فقال: «ما أردت؟» , فقال: أردت واحدة , قال: «آلله؟» قال: الله , قال: «فهي واحدة»“ [سنن الدارقطني، ت الارنؤوط: 5/ 62 رقم 3982]
یہاں سند کے تیسرے طبقہ کے راوی ”عبد الله بن علي بن يزيد بن ركانة“ نے براہ راست رکانہ کا واقعہ بیان کیا ہے ،یعنی نہ تو اپنے استاذ (والد) کا واسطہ ذکر کیا اور نہ اپنے دادا رکانہ کا واسطہ ذکرکیا۔

 ● اسحاق عن ابن مبارک عن زبیر بن سعید کی روایت: ....... ( دوسرا عبداللہ یعنی ”عبد الله بن علي بن السائب“ اور اگلا واسطہ غائب)
 ”نا محمد بن هارون أبو حامد , نا إسحاق بن أبي إسرائيل , نا عبد الله بن المبارك , أخبرني الزبير بن سعيد , عن عبد الله بن علي بن السائب (؟)عن جده ركانة بن عبد يزيد أنه طلق امرأته البتة , فأتى النبي صلى الله عليه وسلم فذكر ذلك له فقال: «ما أردت بذلك؟» , قال: واحدة , قال: «آلله ما أردت إلا واحدة؟» , قال: آلله ما أردت إلا واحدة , قال: «فهي واحدة»“ [سنن الدارقطني، ت الارنؤوط: 5/ 63 رقم 3983]
یہاں سند کے تیسرے طبقہ کا راوی بدل گیا ہے ”عبد الله بن علي بن يزيد بن ركانة“ کی جگہ ”عبد الله بن علي بن السائب“ ہے اور اس نے اپنے استاذ کا واسطہ ذکر نہیں کیا ہے۔

 ❀ عبد الله بن علي بن السائب پر اختلاف: 
 ● محمد بن علي بن شافع عن عبد الله کی روایت : .......( عبد الله بن علي بن السائب کے بعد واسطہ کا ذکر )
 ”حدثنا ابن السرح، وإبراهيم بن خالد الكلبي أبو ثور، في آخرين قالوا: حدثنا محمد بن إدريس الشافعي، حدثني عمي محمد بن علي بن شافع، عن عبد الله بن علي بن السائب، عن نافع بن عجير بن عبد يزيد بن ركانة، أن ركانة بن عبد يزيد طلق امرأته سهيمة البتة، فأخبر النبي صلى الله عليه وسلم بذلك، وقال: والله ما أردت إلا واحدة، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «والله ما أردت إلا واحدة؟»، فقال ركانة: والله ما أردت إلا واحدة، فردها إليه رسول الله صلى الله عليه وسلم، فطلقها الثانية في زمان عمر، والثالثة في زمان عثمان“ [سنن أبي داود 2/ 263 رقم 2206 و قال الطيالسي في مسنده رقم 2206 وسمعت شيخا بمكة فقال: حدثنا عبد الله بن علي فذكره ، و لم يسم هذا الشيخ ولعله هو نفس عم الشافعي محمد بن علي بن شافع فإنه مكي أيضا ]
 یہاں سند کے تیسرے طبقہ کے تبدیل شدہ راوی ”عبد الله بن علي بن السائب“ نے اپنے بعد ”نافع بن عجير بن عبد يزيد بن ركانة“ کا واسطہ ذکرکیاہے۔

 ● زبير بن سعيد , عن عبد الله کی روایت: ....... ( عبداللہ کے بعد واسطہ غائب)
 ”نا محمد بن هارون أبو حامد , نا إسحاق بن أبي إسرائيل , نا عبد الله بن المبارك , أخبرني الزبير بن سعيد , عن عبد الله بن علي بن السائب (؟) عن جده ركانة بن عبد يزيد أنه طلق امرأته البتة , فأتى النبي صلى الله عليه وسلم فذكر ذلك له فقال: «ما أردت بذلك؟» , قال: واحدة , قال: «آلله ما أردت إلا واحدة؟» , قال: آلله ما أردت إلا واحدة , قال: «فهي واحدة»“ [سنن الدارقطني، ت الارنؤوط: 5/ 63 رقم 3983]
یہاں سند کے تیسرے طبقہ کے تبدیل شدہ راوی ”عبد الله بن علي بن السائب“ نے اپنے بعد ”نافع بن عجير بن عبد يزيد بن ركانة“ کا واسطہ غائب کردیا ہے۔

قارئین کرام!
ملاحظہ فرمائیں رکانہ کی طلاق البتہ سے متعلق یہ کل روایات ہیں اور ان کا اختلاف آپ کے سامنے ہیں ۔اور کسی بھی روایت کو ترجیح دینے کے لئے کوئی مضبوط قرینہ موجود نہیں ہے ، لہٰذا یہ روایات مضطرب ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اسے مضطرب کہاہے۔

امام ترمذي رحمه الله (المتوفى279) نے کہا:
 ”وسألت محمدا عن هذا الحديث، فقال: فيه اضطراب“ 
 ”میں نے محمد یعنی امام بخاری رحمہ اللہ سے اس حدیث کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا: اس میں اضطراب ہے“ [سنن الترمذي ت شاكر 3/ 472]

امام عقيلي رحمه الله (المتوفى322) نے ”عبد الله بن علي بن يزيد بن ركانة“ کی روایت پیش کرتے کہا: 
”لا يتابع على حديثه، مضطرب الإسناد“ ، ”اس کی حدیث کی متابعت نہیں کی جاتی یہ مضطرب الاسناد ہے“ [الضعفاء للعقيلي، ت د مازن: 3/ 285]

   رواۃ میں عیب کا بیان 
اس روایت کی تمام سندوں کو دیکھنے کے بعد اس کے دو بنیادی طریق سامنے آتے ہیں:
(الف)عبد الله بن علي بن يزيد بن ركانة کا طریق 
(ب) عبد الله بن علي بن السائب کا طریق 

 ⟐ پہلے طریق کی دو شکل ہے:
عبد الله بن علي بن يزيد بن ركانة عن أبيه، عن جده والی سند:
عبد الله بن علي بن يزيد بن ركانة بغیر واسطہ والی سند

پہلی شکل کے دونوں راوی ”علي بن يزيد بن ركانة“ اور ”عبد الله بن علي بن يزيد بن ركانة“ غیر ثقہ ہیں ۔
 ”علي بن يزيد بن ركانة“ کے بارے میں حافظ ابن حجر رحمه الله (المتوفى852) نے کہا:
 ”مستور“ ، ”یہ مستور ہے“ [تقريب التهذيب لابن حجر: رقم 4815]
امام عقیلی نے اس کی یہی حدیث پیش کرنے کے بعد امام بخاری رحمہ اللہ سے نقل کیا ہے:
 ”لم يصح حديثه“ 
 ”اس کی حدیث صحیح نہیں ہے“ [الضعفاء للعقيلي، ت د مازن: 4/ 282 وإسناده صحيح]
امام ابن عدي رحمه الله (المتوفى365) نے بھی اس کی اس حدیث کو منکر احادیث میں شمار کیا ہے[الكامل لابن عدي طبعة الرشد: 8/ 139]

 ”عبد الله بن علي بن يزيد بن ركانة“ ضعیف ہے۔
امام عقيلي رحمه الله (المتوفى322) اس کی یہی حدیث پیش کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
 ”لا يتابع على حديثه، مضطرب الإسناد“ ، ”اس کی حدیث کی متابعت نہیں کی جاتی یہ مضطرب الاسناد ہے“ [الضعفاء للعقيلي، ت د مازن: 3/ 285]
 حافظ ابن حجر رحمه الله (المتوفى852) نے کہا:
 ”لين الحديث“ ، ”یہ کمزور حدیث والا ہے“ [تقريب التهذيب لابن حجر: رقم 3486 ]
دوسری شکل میں ”عبد الله بن علي بن يزيد بن ركانة“ ہی ہے اور اس کے بعد انقطاع ہے۔
دوسری شکل میں ”عبد الله بن علي بن يزيد بن ركانة“ ہی ہے اور اس کے بعد انقطاع ہے۔
ان دونوں شکلوں کا راوی ”زبير بن سعيد بن سليمان القرشی“ ہے ، امام ابن حبان کے علاوہ تمام محدثین کا اس کی تضعیف پر اتفاق ہے اس کے بارے میں تحریر التقریب کے مؤلفین لکھتے ہیں:
”ضعيفٌ مُتَّفَق على تضعيفه، ضعَّفه يحيى بن معين، وأبو داود، والنسائي، والساجي، وعلي بن المديني، والدارقطني“ 
 ”یہ ضعیف ہے اس کی تضعیف پر اتفاق ہے ، ابن معین ، ابوداؤد ، نسائی ، ساجی ، ابن المدینی اور دارقطنی نے اس کی تضعیف کی ہے“ [تحرير تقريب التهذيب ، رقم 1995]
امام ابن معین رحمہ اللہ سے اس کی توثیق منقول ہے مگر ثابت نہیں ہے ، دیکھئے :[تهذيب الكمال للمزي: 9/ 306 حواشیہ 2]
امام عجلى رحمه الله (المتوفى261) نے اس کی روایت کردہ طلاق والی اس حدیث کو منکر قرادیا ہے فرماتے ہیں:
”روى حديثا منكرا في الطلاق“ ، ”اس نے طلاق کے سلسلے میں ایک منکر حدیث روایت کی ہے“ [معرفة الثقات للعجلي: 1/ 367]


 ⟐ دوسرے طریق کی بھی دو شکل ہے:
 عبد الله بن علي بن السائب کی ”نافع بن عجير بن عبد يزيد بن ركانة“ کے واسطہ والی سند:
 عبد الله بن علي بن السائب کی بغیر واسطہ والی سند:

پہلی شکل کے دونوں راوی ”نافع بن عجير بن عبد يزيد بن ركانة“ اور ”عبد الله بن علي بن السائب“ غیر ثقہ ہیں ۔
 ”نافع بن عجير بن عبد يزيد بن ركانة“ کے بارے میں امام ابن القيم رحمه الله (المتوفى751) نے کہا:
 ”المجهول الذي لا يعرف حاله البتة“ 
 ”یہ مجہول ہے اس کی حالت کا کچھ پتہ نہیں“ [زاد المعاد، ن مؤسسة الرسالة: 5/ 241]
 ”عبد الله بن علي بن السائب“ بھی نا معلوم التوثیق ہے ۔
ابن حبان نے ثقات میں ذکر کیاہے لیکن صریح توثیق نہیں کی ہے۔
حافظ ابن حجر رحمه الله (المتوفى852) نے کہا:
 ”مستور“ ، ”یہ مستور ہے“ [تقريب التهذيب لابن حجر: رقم3485]
دوسری شکل میں ”عبد الله بن علي بن السائب“ ہی ہے اور اس کے بعد انقطاع ہے۔
نیز اسے بیان کرنے والا ”زبير بن سعيد بن سليمان القرشی“ یہ بھی ضعیف ہے کما مضی
اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ یہ روایت مضطرب وضعیف ہے ۔ یہی فیصلہ متعدد ائمہ فن کا ہے ۔
امام بخاری ، امام عجلی اور امام عقیلی وغیرہ کا قول اوپر گذرچکا ہے ۔

امام ابن القيم رحمه الله (المتوفى751) نے کہا:
”وهذا هو الحديث الذي ضعفه الإمام أحمد والناس فإنه من رواية عبد الله بن علي بن السائب عن نافع بن عجير عن ركانة ومن رواية الزبير بن سعيد عن عبد الله بن علي بن يزيد بن ركانة عن أبيه عن جده وكلهم ضعفاء والزبير أضعفهم“ 
 ”یہ وہ حدیث ہے جسے امام احمد اور دیگر لوگوں نے ضعیف قراردیا ہے ، کیونکہ یہ رواية عبد الله بن علي بن السائب عن نافع بن عجير عن ركانة کے طریق سے مروی ہے اسی طرح الزبير بن سعيد عن عبد الله بن علي بن يزيد بن ركانة عن أبيه عن جده کے طریق سے مروی ہے اور یہ سب کے سب ضعیف ہیں ، اور زبیر ان میں سے زیادہ ضعیف ہیں“ [عون المعبود مع حاشية ابن القيم: 6/ 191]

دوسرے جگہ لکھتے ہیں:
”وقال الخلال فى كتاب العلل عن الأثرم: قلت لأبى عبد الله: ‌حديث ‌ركانة ‌فى ‌البتة فضعفه“ 
”اور کتاب العلل للخلال میں ہے کہ امام اثرم کہتے ہیں کہ میں نے ابوعبداللہ یعنی امام احمد سے طلاق البتہ والی حدیث رکانہ کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے اسےضعیف قرار دیا“ [ إغاثة اللهفان :1/ 315 ]

ایک اورجگہ لکھتے ہیں:
”وقال في رواية أحمد بن أصرم أن أبا عبد الله سئل عن ‌حديث ‌ركانة ‌في ‌البتة فقال: ليس بشيء“ 
”احمد بن اصرم نے روایت کیا کہ ابوعبداللہ یعنی امام احمد رحمہ اللہ سے طلاق البتہ والی حدیث رکانہ کے بارے میں پوچھا گیا تو امام احمد رحمہ اللہ نے جواب دیا: اس کی کوئی حیثیت نہیں ہے“ [بدائع الفوائد:4/ 120 ، وانظر: تنقيح التحقيق لابن عبد الهادي:4/ 407]


کیا امام ابوداؤد نے اس حدیث کو صحیح کہا ہے؟
امام دارقطني رحمه الله (المتوفى385) نے ”عبد الله بن علي بن السائب , عن نافع بن عجير“ والی روایت پیش کرنے کے بعد امام ابوداؤد (المتوفى275) سے نقل کرتے ہوئے کہا:
 ”قال أبو داود: وهذا حديث صحيح“ ، ”امام ابوداؤد نے کہا کہ : یہ حدیث صحیح ہے“ [سنن الدارقطني، ت الارنؤوط: 5/ 60]
عرض ہے کہ:
امام ابوداؤد نے ”عبد الله بن علي بن السائب , عن نافع بن عجير“ والی روایت اور اس کے بعد ”عبد الله بن علي بن يزيد بن ركانة عن أبيه“ والی روایت پیش کرنے کے بعد کہاہے:
 ”وهذا أصح من حديث ابن جريج أن ركانة طلق امرأته ثلاثا لأنهم أهل بيته وهم أعلم به، وحديث ابن جريج رواه عن بعض بني أبي رافع عن عكرمة عن ابن عباس“ 
 ”یہ ابن جریج کی حدیث سے زیادہ صحیح ہے جس میں ہے کہ رکانہ نے اپنی بیوی کو تین طلاق دیا ، کیونکہ اس حدیث کو روایت کرنے والے رکانہ کے گھر والے ہیں اور وہ ان کے واقعہ سے متعلق زیادہ جاننے والے ہیں ، اور ابن جریج کی حدیث کو بعض بنی ابی رافع نے ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے“ [سنن أبي داود: 1/ 671]
ملاحظہ فرمائیں !
یہاں امام ابوداؤد رحمہ اللہ نے طلاق البتہ والی حدیث کو صحیح نہیں کہا ہے بلکہ ابن جریج کی روایت یعنی طلاق ثلاثہ والی روایت کے مقابلے میں اسے اصح کہا ہے ۔اس سے تصحیح لازم نہیں آتی ہے:
امام نووي رحمه الله (المتوفى676) فرماتے ہیں:
 ”لا يلزم من هذه العبارة صحة الحديث، فإنهم يقولون: هذا أصح ما جاء في الباب وإن كان ضعيفا، ومرادهم أرجحه، أو أقله ضعفا“ 
 ”اس عبارت سے حدیث کی تصحیح لازم نہیں آتی ہے کیونکہ محدثین باب سے متعلق دیگر احادیث کی بنست کسی حدیث کو ایسا کہتے ہیں گرچہ یہ حدیث ضعیف ہی ہو ، اور ان کی مراد ان میں بہتر یا کم سے کم ضعف والی حدیث ہوتی ہے“ [ تدريب الراوي 1/ 92 ، الأذكار للنووي ت الأرنؤوط ص: 186] 
مولانا ظفر احمد تھانوی حنفی دیوبندی صاحب نے بھی یہی بات کہی ہے ، دیکھئے:[إعلاء السنن : ج 19 ص91]

امام ابوداؤد قول”اصح“ پرتبصرہ:
اب رہی یہ بات کہ امام ابوداؤد رحمہ اللہ نے البتہ والی حدیث کو اصح قرار دیا ہے اور یہ کہا ہے کہ اسے روایت کرنے والے رکانہ کےگھر والے ہیں ، اس لئے ان کی بات زیادہ معتبر ہے۔
توعرض ہے کہ:
اولا:
اس کا ایک جواب مولانا کرم شاہ ازہری بریلوی کی زبانی سنئے فرماتےہیں:
”صرف گھروالوں کے روایت کرنے سے اصح ہونا محل نظر ہے ، کیونکہ یہ کوئی گھریلو اور نجی معاملہ تو ہے نہیں کہ اس سے صرف گھروالوں ہی کو دلچسپی ہو ، یہ تو احکام شرعیہ سے متہم بالشان حکم ہے۔اورمسائل فقہیہ اور امور شرعیہ کے سمجھنے میں جو مقام حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ بحر الامہ کو حاصل ہے اس پر حضرات ابن عجیر اور علی (بن يزيد) کی رسائی کہاں ہے ، آپ خود فیصلہ کرسکتے ہیں کہ حضرات ابن عباس رضی اللہ عنہ کی تعبیر میں جو دقت اور صحت ہوگی کیا اس کا مقابلہ وہ صاحبان کرسکتے ہیں ، اس لئے بجائے اس کے کہ اول الذکر روایت میں تاویل کرکے اسے آخر الذکر کے مطابق کیا جائے ،اصول حدیث کا تقاضا یہی ہے کہ غیر فقیہ کی روایت میں تاویل کرکے اسے فقیہ کی روایت کے مطابق بنایا جائے ۔چنانچہ علامہ جلال الدین السیوطی تدریب الراوی(ص198مطبع خیریہ مصر) میں ان مرجحات کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
 ”فقه الراوي سواء كان الحديث مرويا بالمعنى أو اللفظ لأن الفقيه إذا سمع ما يمتنع حمله على ظاهره بحث عنه حتى يطلع على ما يزول به الإشكال بخلاف العامي“ 
 ”راوی کی فقہی صلاحیت کو دیکھاجائے گا خواہ حدیث کی روایت بالمعنی ہو ہا باللفظ ہو ، کیونکہ فقیہ جب کوئی ایسی بات سنتا ہے جسے اس کے ظاہرپرمحمول کرنا ممکن نہ ہو تو وہ بحث و جستجو کرتا ہے حتی کہ ایسے مفہوم پر آگاہ ہوجاتا ہے جس سے اشکال کو رفع ہوجائے ،لیکن اگر راوی عامی شخص ہو تو وہ یہ سب نہیں کرسکتا“ [ دعوت فکرونظر: مطبوع در مجموعہ مقالات ص234 ]

ثانیا:
امام ابوداؤد رحمہ اللہ نے ابن جریج کی سند سے مروی طلاق ثلاثہ والی حدیث ابن عباس کے مقابلے میں طلاق البتہ والی مذکورہ حدیث کو جو اصح کہا ہے تو اپنی کتاب سنن میں نقل کردہ اپنی سند کے اعتبار سے کہا ہے کیونکہ اس میں بعض بنی ابی رافع کا نام مبہم ہے ، لیکن دوسری سند سے ابن عباس رضی للہ عنہ کی یہ حدیث بالکل صحیح وثابت ہے ۔
اوراس کا صحیح ہونا بھی اس بات کی دلیل ہے طلاق البتہ والی حدیث رکانہ غیر ثابت ومردود ہے ،اور رکانہ رضی اللہ عنہ کے طلاق کا صحیح واقعہ وہی ہے جو ابن عباس رضی اللہ عنہ کی صحیح حدیث سے ثابت ہے ، یہی وجہ ہے کہ امام احمد رحمہ اللہ نے طلاق البتہ والی حدیث رکانہ کو ضعیف قرار دیتے ہوئے اس کے مقابلے میں طلاق ثلاثہ والی حدیث ابن عباس رضی اللہ عنہ کو بطور دلیل پیش کیا ہے چنانچہ:
امام أبوداؤد رحمه الله (المتوفى275) کہتے ہیں:
”سمعت أحمدسئل عن حديث ركانة لا تثبته أنه طلق امرأته البتة؟ قال: لا، لأن ابن إسحاق يرويه عن داود بن الحصين، عن عكرمة، عن ابن عباس: أن ركانة طلق امرأته ثلاثا“ 
 ”میں نے امام احمد کو سنا ان سے سوال کیا گیا کہ کیا آپ حدیث رکانہ کو ثابت نہیں مانتے جس میں ہے کہ انہوں نے طلاق البتہ دیا ؟ تو امام احمد رحمہ اللہ نے کہا: نہیں ! کیونکہ ابن اسحاق نے داود بن الحصين، عن عكرمة، عن ابن عباس کے طریق سے روایت کیا کہ رکانہ نے اپنی بیوی کو تین طلاق دی تھی“ [مسائل أحمد رواية أبي داود السجستاني: ص: 236]

شيخ الاسلام ابن تيمية رحمه الله (المتوفى728) امام احمد رحمہ اللہ کایہ قول نقل کرتے فرماتے ہیں:
 ”وقال أحمد بن حنبل: حديث ركانة في ألبتة ليس بشيء. وقال أيضا: حديث ركانة لا يثبت أنه طلق امرأته ألبتة لأن ابن إسحاق يرويه عن داود بن الحصين عن عكرمة عن ابن عباس {أن ركانة طلق امرأته ثلاثا} وأهل المدينة يسمون ثلاثا ألبتة. فقد استدل أحمد على بطلان حديث ألبتة بهذا الحديث الآخر الذي فيه أنه طلقها ثلاثا وبين أن أهل المدينة يسمون من طلق ثلاثا طلق ألبتة وهذا يدل على ثبوت الحديث عند“ 
 ”امام احمد رحمہ اللہ نے طلاق البتہ سے متعلق حدیث رکانہ کے بارے میں کہا: اس کی کوئی حیثیت نہیں ہے ، نیز فرمایا : رکانہ کی یہ حدیث ثابت نہیں ہے کہ انہوں نے اپنی بیوی کو طلاق البتہ دی تھی ، کیونکہ ابن اسحاق نے داود بن الحصين، عن عكرمة، عن ابن عباس کے طریق سے روایت کیا کہ رکانہ نے اپنی بیوی کو تین طلاق دی تھی ، اور اہل مدینہ تین طلاق کو البتہ سے تعبیر کیا کرتے تھے ۔ تو امام احمد رحمہ اللہ نے طلاق البتہ والی حدیث رکانہ کے بطلان پر اس دوسری حدیث رکانہ سےاستدلال کیا ہے جس میں تین طلاق کا ذکر ہے اور یہ بھی واضح کیا کہ اہل مدینہ تین طلاق کو البتہ سے تعبیر کردیتے ہیں“ [مجموع الفتاوى، ت ابن قاسم: 33/ 86]

خلاصہ کلام یہ کہ :
رکانہ رضی اللہ عنہ کے واقعہ طلاق سے متعلق البتہ والی جتنی بھی روایات ہیں سب کی سب مضطرب وضعیف ہیں ۔ اور ان کے طلاق کا درست واقعہ ابن عباس رضی اللہ عنہ کی صحیح حدیث میں بیان ہوا ہے جس پر تفصیل گذرچکی ہے دیکھئے:


طلاق البتہ سے متعلق حدیث علی رضی اللہ عنہ
امام دارقطني رحمه الله (المتوفى385) نے کہا:
”نا أحمد بن محمد بن سعيد , نا أحمد بن يحيى الصوفي , نا إسماعيل بن أمية القرشي , نا عثمان بن مطر , عن عبد الغفور , عن أبي هاشم , عن زاذان , عن علي , قال: سمع النبي صلى الله عليه وسلم رجلا طلق البتة فغضب , وقال: «تتخذون آيات الله هزوا , أو دين الله هزوا ولعبا , من طلق البتة ألزمناه ثلاثا لا تحل له حتى تنكح زوجا غيره»“
”علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک شخص نے طلاق البتہ دے دیا تو اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم غضبناک ہوگئے اور کہا: کیا تم لوگ اللہ کی آیات یا اللہ کے دین کو مذاق اور کھیل کود بناتے ہوئے ، جس کسی نے بھی طلاق البتہ دیا تو ہم اس پر تین طلاق نافذ کردیں گے پھر اس کی بیوی اس کے لئے حلال نہیں ہوسکتی جب تک کہ اس کے علاوہ دوسرے شوہر سے شادی نہ کرلے“ [سنن الدارقطني، ت الارنؤوط: 5/ 37 ، وأخرجه أيضا أبو نعيم في تاريخ أصبهان 2/ 134من طريق عبد الغفور به ]

یہ روایت جھوٹی اور من گھڑت ہے ، امام دارقطنی نے اس روایت کو بیان کرنے کے بعد خود ہی فرمادیا:
”إسماعيل بن أبي أمية هذا كوفي ضعيف الحديث“ ، ”إسماعيل بن أبي أمية یہ کوفی اور ضعیف الحدیث ہے“ [سنن الدارقطني، ت الارنؤوط: 5/ 37]
اور دوسری جگہ کہا:
”إسماعيل هذا يضع الحديث“ ، ”اسماعیل یہ حدیث گھڑتا ہے“ [سنن الدارقطني، ت الارنؤوط: 3/ 442]

اس کے علاوہ سند میں موجود ”عبدالغفور“ یہ ”عبد الغفور بن عبد العزيز الواسطي“ ہے۔ یہ وضاع حدیث ہے ۔

امام ابن حبان رحمه الله (المتوفى354) نے کہا:
”كان ممن يضع الحديث على الثقات“ ، ”یہ ان لوگوں میں سے تھا جو ثقہ راویوں کے نام سے حدیث گھڑتے تھے“ [المجروحين لابن حبان، تزايد: 2/ 148]

امام بخاري رحمه الله (المتوفى256) نے کہا:
”تركوه، منكر الحديث“ ، ”لوگوں نے اسے ترک کردیا ہے ، یہ منکر الحدیث ہے“ [التاريخ الكبير للبخاري، ط العثمانية: 6/ 137]

امام نسائي رحمه الله (المتوفى303) نے کہا:
”متروك الحديث“ ، ”یہ متروک الحدیث ہے“ [الضعفاء والمتروكون للنسائي: ص: 70]
امام دارقطني رحمه الله (المتوفى385) نے بھی اسے ضعفاء و متروکین میں گنایا ہے۔[الضعفاء والمتروكون للدارقطني: 2/ 163]

No comments:

Post a Comment