پچھلا
احناف کی مصطلحہ ”طلاق حسن“ کا جائزہ
احناف کے یہاں طلاق سنت کی ایک قسم ”طلاق حسن“ بھی ہے ، اس کا طریقہ یہ ہے کہ شوہر اپنی بیوی کو ایک طہر میں ایک طلاق دے اس کے بعد اگلا حیض گذرنے کے بعد دوسرے طہر میں دوسری طلاق دے اس کے بعد اگلا حیض گذرنے کے بعد تیسرے طہر میں تیسری طلاق دے ۔دیکھئے:[الهداية شرح بداية المبتدى ت نعیم:ج3ص150]
اس طریقہ پر طلاق دینا طلاق حسن نہیں بلکہ طلاق بدعت ہے۔بلکہ طلاق بدعت میں بھی یہ سب سے بدترین طریقہ ہے ۔
کیونکہ جان بوجھ کر اور بلا ضرورت تین طلاق دلوائی جارہی ہے ۔جبکہ سب کا اس بات پر اتفاق ہے کہ عورت کو جدا کرنے کے لئے محض ایک طلاق دینا کافی ہے، اسی کو تو احناف طلاق احسن کہتے ہیں۔تو جب ایک طلاق سے عورت جدا ہوسکتی ہے ، اور عدت گذرنے کے بعد وہ دوسرے شوہر سے شادی کرسکتی ہے ، تو پھر بلاوجہ تین طلاق دے کر اسے جدا کرنا کہاں کی عقلمندی ہے ۔
علامہ رئیس ندوی رحمہ اللہ نے طلاق حسن کی تردید کرتے ہوئے واضح کیا ہے کہ یہ طریق طلاق قرآن کے خلاف ہے ، نیز احادیث اوراثار صحابہ کے ذخیرہ میں اس طریقہ طلاق کے جواز میں کوئی بھی صحیح روایت موجود نہیں ہے [ماحصل از : تنویر الافاق ص49 تا 55]
حافظ صلاح الدین یوسف رحمہ اللہ الطاف احمد اعظمی صاحب سے نقل کرتے ہیں:
”...الگ الگ تین مجلسوں یا طہروں میں طلاق دینا سنت ہے یہ خیال صحیح نہیں ہے ، جس طرح ایک مجلس میں تین طلاقیں دینا خلاف سنت ہے ، اسی طرح تین الگ الگ مجلسوں یا طہروں میں طلاق دینا بھی خلاف سنت ہے ، فرق صرف درجے کا ہے ، اول الذکر طلاق (ایک ہی مجلس میں تین طلاق)بدعت ہے ، اور اس پر سب کا اتفاق ہے ، لیکن ثانی الذکر کو بدعت کے خانے سے اس لئے نکال دیا گیا ہے کہ اس میں شوہر کے لئے غور وفکر اور رجعت کا موقع باقی رہتا ہے ۔لیکن صحیح بات یہ ہے کہ یہ طریق طلاق بھی خلاف سنت ہے“ [ایک مجلس میں تین طلاقیں اور اس کا شرعی حل: ص 141]
اس طریقہ طلاق کو امام مالک رحمہ اللہ نے بدعت کہا ہے:
احناف جسے طلاق حسن کہتے ہیں امام مالک رحمہ اللہ نے اسی کو طلاق بدعت ہے کہا ہے اور امام مالک کا یہ قول خود احناف نے ہی نقل کررکھا ہے چنانچہ فقہ حنفی کی مشہور کتاب ھدایہ میں ہے :
”والحسن هو طلاق السنة وهو أن يطلق المدخول بها ثلاثا في ثلاثة أطهار وقال مالك رحمه الله إنه بدعة ولا يباح إلا واحدة لأن الأصل في الطلاق هو الحظر والإباحة لحاجة الخلاص وقد اندفعت بالواحدة“
”طلاق حسن ، طلاق سنت ہے اس کا طریقہ یہ ہے کہ شوہر اپنی مدخولہ بیوی کو تین طلاق مسلسل تین طہر میں دے ، اور امام مالک رحمہ اللہ نے کہا کہ یہ بدعت ہے اور صرف ایک ہی طلاق دینا جائز ہے ، کیونکہ اصلا طلاق ممنوع ہے اور اس جواز ضرورت کے تحت ہی ہے اور صرف ایک طلاق سے ضرورت پوری ہوجاتی ہے“ [الهداية في شرح بداية المبتدي 1/ 221]
سحنون بن سعيد التنوخي رحمه الله (المتوفى240) کہتے ہیں:
”قلت: فإن أراد أن يطلقها ثلاث تطليقات عند كل طهر أو حيضة تطليقة؟ قال: قال مالك: ما أدركت أحدا من أهل بلدنا يرى ذلك ولا يفتي به ولا أرى أن يطلقها ثلاث تطليقات عند كل طهر طلقة، ولكن تطليقة واحدة ويمهل حتى تنقضي العدة“
”میں نے (امام مالک کے شاگرد ابن القاسم سے) کہا کہ: اگر شوہر تین طلاق اس طرح دینا چاہے کہ مسلسل ہر طہر یا حیض میں ایک طلاق دے تو ؟ اس پر ابن القاسم رحمہ اللہ نے کہا کہ امام مالک رحمہ اللہ نے کہا ہے کہ : میں نے اپنے شہر میں کسی کو بھی نہیں پایا جو یہ رائے رکھتا ہے یا ایسا فتوی دیتا ہو ، اور میں اسے درست نہیں سمجھتا کہ شوہر تین طلاق اس طرح دے کہ مسلسل ہر طہر میں ایک طلاق دے ، بلکہ اسے چاہئے کہ ایک ہی طلاق دے اس کے بعد عورت کو چھوڑ دے یہاں تک کہ اس کی عدت ختم ہوجائے“ [المدونة 2/ 3]
معلوم ہوا کہ طلاق حسن یہ صرف احناف کی اصطلاح ہے ۔
احناف کے دلائل کا جائزہ:
احناف اپنے اس طریقہ طلاق کے حق میں دو روایات پیش کرتے ہیں ، ایک مرفوع اور ایک موقوف ، ذیل ان دونوں روایات کی حقیقت پیش کی جارہی ہے۔
علامہ رئیس ندوی رحمہ اللہ نے طلاق حسن کی تردید کرتے ہوئے واضح کیا ہے کہ یہ طریق طلاق قرآن کے خلاف ہے ، نیز احادیث اوراثار صحابہ کے ذخیرہ میں اس طریقہ طلاق کے جواز میں کوئی بھی صحیح روایت موجود نہیں ہے [ماحصل از : تنویر الافاق ص49 تا 55]
حافظ صلاح الدین یوسف رحمہ اللہ الطاف احمد اعظمی صاحب سے نقل کرتے ہیں:
”...الگ الگ تین مجلسوں یا طہروں میں طلاق دینا سنت ہے یہ خیال صحیح نہیں ہے ، جس طرح ایک مجلس میں تین طلاقیں دینا خلاف سنت ہے ، اسی طرح تین الگ الگ مجلسوں یا طہروں میں طلاق دینا بھی خلاف سنت ہے ، فرق صرف درجے کا ہے ، اول الذکر طلاق (ایک ہی مجلس میں تین طلاق)بدعت ہے ، اور اس پر سب کا اتفاق ہے ، لیکن ثانی الذکر کو بدعت کے خانے سے اس لئے نکال دیا گیا ہے کہ اس میں شوہر کے لئے غور وفکر اور رجعت کا موقع باقی رہتا ہے ۔لیکن صحیح بات یہ ہے کہ یہ طریق طلاق بھی خلاف سنت ہے“ [ایک مجلس میں تین طلاقیں اور اس کا شرعی حل: ص 141]
اس طریقہ طلاق کو امام مالک رحمہ اللہ نے بدعت کہا ہے:
احناف جسے طلاق حسن کہتے ہیں امام مالک رحمہ اللہ نے اسی کو طلاق بدعت ہے کہا ہے اور امام مالک کا یہ قول خود احناف نے ہی نقل کررکھا ہے چنانچہ فقہ حنفی کی مشہور کتاب ھدایہ میں ہے :
”والحسن هو طلاق السنة وهو أن يطلق المدخول بها ثلاثا في ثلاثة أطهار وقال مالك رحمه الله إنه بدعة ولا يباح إلا واحدة لأن الأصل في الطلاق هو الحظر والإباحة لحاجة الخلاص وقد اندفعت بالواحدة“
”طلاق حسن ، طلاق سنت ہے اس کا طریقہ یہ ہے کہ شوہر اپنی مدخولہ بیوی کو تین طلاق مسلسل تین طہر میں دے ، اور امام مالک رحمہ اللہ نے کہا کہ یہ بدعت ہے اور صرف ایک ہی طلاق دینا جائز ہے ، کیونکہ اصلا طلاق ممنوع ہے اور اس جواز ضرورت کے تحت ہی ہے اور صرف ایک طلاق سے ضرورت پوری ہوجاتی ہے“ [الهداية في شرح بداية المبتدي 1/ 221]
سحنون بن سعيد التنوخي رحمه الله (المتوفى240) کہتے ہیں:
”قلت: فإن أراد أن يطلقها ثلاث تطليقات عند كل طهر أو حيضة تطليقة؟ قال: قال مالك: ما أدركت أحدا من أهل بلدنا يرى ذلك ولا يفتي به ولا أرى أن يطلقها ثلاث تطليقات عند كل طهر طلقة، ولكن تطليقة واحدة ويمهل حتى تنقضي العدة“
”میں نے (امام مالک کے شاگرد ابن القاسم سے) کہا کہ: اگر شوہر تین طلاق اس طرح دینا چاہے کہ مسلسل ہر طہر یا حیض میں ایک طلاق دے تو ؟ اس پر ابن القاسم رحمہ اللہ نے کہا کہ امام مالک رحمہ اللہ نے کہا ہے کہ : میں نے اپنے شہر میں کسی کو بھی نہیں پایا جو یہ رائے رکھتا ہے یا ایسا فتوی دیتا ہو ، اور میں اسے درست نہیں سمجھتا کہ شوہر تین طلاق اس طرح دے کہ مسلسل ہر طہر میں ایک طلاق دے ، بلکہ اسے چاہئے کہ ایک ہی طلاق دے اس کے بعد عورت کو چھوڑ دے یہاں تک کہ اس کی عدت ختم ہوجائے“ [المدونة 2/ 3]
معلوم ہوا کہ طلاق حسن یہ صرف احناف کی اصطلاح ہے ۔
احناف کے دلائل کا جائزہ:
احناف اپنے اس طریقہ طلاق کے حق میں دو روایات پیش کرتے ہیں ، ایک مرفوع اور ایک موقوف ، ذیل ان دونوں روایات کی حقیقت پیش کی جارہی ہے۔
✿ عطاء الخراسانی والی مرفوع روایت:
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے اپنی بیوی کو حیض کی حالت میں طلاق دی تھی اس واقعہ سے متعلق متعدد روایات ہیں ، انہیں میں سے ایک روایت عطاء الخراسانی کی سند والی ہے ، اس میں اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے یہ الفاظ نقل ہوئے ہیں:
”قد أخطأت السنة، والسنة أن تستقبل الطهر فتطلق لكل قرء“
”تم نےسنت کے خلاف کیا ہے ، سنت یہ ہے کہ تم طہر کا انتظار کرو اور ہر طہر میں طلاق دو“ [المعجم الكبير للطبراني 13/ 251 ،مسند الشاميين للطبراني 3/ 354 وإسناده ضعيف]
اس سے استدلال کرتے ہوئے کہا جاتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر طہر میں طلاق دینے کاحکم دیاہے ، اور طلاق کی تعداد تین ہے، اس کا مطلب ہوا کہ ہر طہر میں باری باری تین طلاق دینی ہے۔
عرض ہے کہ:
یہ روایت ضعیف ومردود ہے ۔اس کے بارے میں پوری تفصیل گذرچکی ہے ، لہٰذا اس سے استدلال درست نہیں ۔
✿ ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی موقوف روایت:
امام نسائي رحمه الله (المتوفى303) نے کہا:
”أخبرنا محمد بن يحيى بن أيوب قال حدثنا حفص بن غياث قال حدثنا الأعمش عن أبي إسحاق عن أبي الأحوص عن عبد الله أنه قال : طلاق السنة تطليقة وهي طاهر في غير جماع فإذا حاضت وطهرت طلقها أخرى فإذا حاضت وطهرت طلقها أخرى ثم تعتد بعد ذلك بحيضة“
”عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ طلاق سنت یہ ہے کہ طہر کی حالت میں جماع کیے بغیر ایک طلاق دی جائے‘ پھر جب وہ حیض کے بعد پاک ہو تو اسے دوسری طلاق دے دے‘ پھر جب اسے حیض آئے اور وہ حیض سے پاک ہوجائے تو اسے تیسری طلاق دے دے‘ پھر اس کے بعد وہ عورت ایک حیض عدت گزارے گی“ [سنن النسائي 6/ 140رقم 3394 ، السنن الكبرى للنسائي 5/ 249 ، وأخرجه أيضا ابن ماجه في سننه رقم 2021 وابن أبي شيبه في مصنفه 4/ 58 والطبراني في المعجم الكبير 9/ 321 والدارقطني في سننه 5/ 9 رقم 3891 والبيهقي في سننه 7/ 543 ، كلهم من طريق حفص بن غياث به]
یہ روایت ضعیف ہے ، اس میں کئی علتیں ہیں:
● پہلی علت:
”أبي إسحاق السبعی“ نے ”عن“ سے روایت کیا ہے اور یہ تیسرے طبقہ کے مدلس ہیں [طبقات المدلسین لابن حجر ص 42]
علامہ البانی رحمہ اللہ اس سند کو ضعیف قرار دیتے ہوئے فرماتے ہیں:
”وإسناده صحيح لولا أن أبا إسحاق وهو السبيعى عنعنه عن أبى الأحوص وكان مدلسا“
”اس کی سند صحیح ہوتی اگر ابوسحاق جوکہ السبیعی ہے اس نے أبو الأحوص سے ”عن“ سے روایت نہ کیا ہوتا ، کیونکہ یہ مدلس ہے“ [إرواء الغليل 7/ 118 رقم 2051]
علامہ رئیس ندوی رحمہ اللہ بھی اسی علت کے سبب س کی تضعیف کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
”روایت مذکورہ کو ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے بیک واسطہ ابواسحاق السبیعی... نے بھی نقل کیا ہے جو ثقہ ہونے کے باوجود بتصریح امام شعبہ وابن حبان وغیرہ مدلس تھے ...اور یہ معلوم ہے کہ مدلس کی معنعن روایت ساقط الاعتبارہے اور ابواسحاق نے یہ روایت ابوالاحوص سے عنعنہ کے ساتھ نقل کیا ہے“ [تنویرالآفاق ص50]
علامہ البانی رحمہ اللہ اس سند کو ضعیف قرار دیتے ہوئے فرماتے ہیں:
”وإسناده صحيح لولا أن أبا إسحاق وهو السبيعى عنعنه عن أبى الأحوص وكان مدلسا“
”اس کی سند صحیح ہوتی اگر ابوسحاق جوکہ السبیعی ہے اس نے أبو الأحوص سے ”عن“ سے روایت نہ کیا ہوتا ، کیونکہ یہ مدلس ہے“ [إرواء الغليل 7/ 118 رقم 2051]
علامہ رئیس ندوی رحمہ اللہ بھی اسی علت کے سبب س کی تضعیف کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
”روایت مذکورہ کو ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے بیک واسطہ ابواسحاق السبیعی... نے بھی نقل کیا ہے جو ثقہ ہونے کے باوجود بتصریح امام شعبہ وابن حبان وغیرہ مدلس تھے ...اور یہ معلوم ہے کہ مدلس کی معنعن روایت ساقط الاعتبارہے اور ابواسحاق نے یہ روایت ابوالاحوص سے عنعنہ کے ساتھ نقل کیا ہے“ [تنویرالآفاق ص50]
● دوسری علت:
جس روایت میں أبو إسحاق السبعی نے سماع کی صراحت کی ہے اس میں بھی تین طلاق نہیں بلکہ صرف ایک ہی طلاق کی بات چنانچہ:
امام إسماعيل بن إسحاق القاضی الجهضمي (المتوفى 282 ) نے کہا:
”حدثنا حجاج بن المنهال وحفص بن عمر وسليمان بن حرب واللفظ لحجاج قال حدثنا شعبة قال اخبرني ابو اسحاق قال سمعت ابا الاحوص قال:قال عبد الله {يا أيها النبي إذا طلقتم النساء فطلقوهن لعدتهن} قال الطلاق للعدة ان تطلقها وهي طاهر ثم تدعها حتى تنقضي عدتها او تراجعها ان شئت ، وزاد حجاج قال قال شعبة واهل الكوفة يقولون من غير جماع“
”عوف بن مالک ابو الأحوص کہتے ہیں کہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے {يا أيها النبي إذا طلقتم النساء فطلقوهن لعدتهن} کی تفسیر کرتے ہوئے فرمایا کہ عدت میں طلاق دینے کا مطلب یہ ہے کہ تم عورت کو پاکی کی حالت میں طلاق دو یہاں تک کہ اس کی عدت ختم ہوجائے یا تم اس سے رجوع کرلو اگر چاہو ، امام شعبہ کہتے ہیں کہ اہل کوفہ نے ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے یہ بھی نقل کیا ہے کہ طہر میں جماع کے بغیر طلاق دی جائے“ [أحكام القرآن للجهضمي:ص 235 رقم 418 وإسناده صحيح فقد صرح أبواسحاق بالسماع، وأخرجه الطبراني في المعجم الكبير 9/ 322 رقم 9613 فقال :حدثنا علي بن عبد العزيز، ثنا حجاج بن المنهال، ثنا شعبة به مع تصريح السماع من أبي إسحاق وإسناده صحيح أيضا]
ملاحظہ فرمائیں!
یہ سند صحیح ہے اور اس میں نہ صرف یہ کہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ ایک ہی طلاق دینے کی بات کہی ہے بلکہ اس ایک طلاق کے بعد دو ہی اختیار دیا ہے یا تو رجوع کرلیا جائے یا اس کی عدت ختم ہونے دی جائے اور عورت خود بخود جدا ہوجائے۔
● تیسری علت:
ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے شاگرد ابو الأحوص عوف بن مالک علاوہ جب ان کے دوسرے شاگردوں نے ان سے اس مفہوم کی روایت بیان کو تو اس میں ایک ہی طلاق کا ذکر ہے مثلا:
◈ عبد الرحمن بن يزيد کی روایت:
”حدثنا عبد الله بن إدريس ووكيع وحفص وأبو معاوية، عن الأعمش، عن مالك بن الحارث، عن عبد الرحمن بن يزيد، عن عبد الله؛ {فطلقوهن لعدتهن} قال: طاهرا في غير جماع“
”عبدالرحمن بن یزید کہتے ہیں کہ عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے {فطلقوهن لعدتهن} کی تفسیر میں فرمایا کہ بغیر جماع کے طہر کی حالت میں طلاق دو“ [مصنف ابن أبي شيبة، ت الشثري: 10/ 85 وإسناده صحيح ، و عنعنة الأعمش مقبولة إذا روي عنه حفص كما هنا]
◈ ابو وائل شقیق بن سلمہ کی روایت:
”حدثنا محمد بن أحمد بن أبي خيثمة، ثنا إسحاق بن إبراهيم العبدي، ثنا يحيى بن زكريا الكوفي، ثنا الأعمش، عن شقيق، عن عبد الله، {فطلقوهن لعدتهن} ، قال عبد الله: الطلاق في طهر من غير جماع“
”ابو وائل شقیق بن سلمہ کہتے ہیں کہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے {فطلقوهن لعدتهن} کی تفسیر میں فرمایا: طلاق طہر میں بغیر جماع کے دی جائے“ [المعجم الكبير للطبراني 10/ 202 رقم 10465وإسناده صحيح ، عنعة الأعمش عن أبي وائل شقيق مقبولة كما قال الذهبي]
● چوتھی علت:
ابواسحاق سے امام اعمش کے علاوہ ان نے دوسرے سات شاگردوں نے بھی یہ روایت بیان کی ہے لیکن ان ساتوں میں سے کسی نے بھی تین طلاق کا ذکر نہیں کیا ہے۔ملاحظہ ہو ان کی روایات کے حوالے:
① شعبہ عن أبي إسحاق (المعجم الکبیر للطبراني 9/ 322 )
② سفیان عن أبي إسحاق (مصنف عبد الرزاق الصنعاني 6/ 303)
③ شريك عن أبي إسحاق (سنن سعيد بن منصور 1/ 298)
④ زكريا عن أبي إسحاق (المعجم الكبير للطبراني 9/ 322)
⑤ إسرائيل عن أبي إسحاق (مصنف ابن أبي شيبة 5/ 4)
⑥ سلام بن سلیم عن أبي إسحاق (مصنف ابن أبي شيبة 5/ 1)
⑦ زهير بن معاوية عن أبي إسحاق (أحكام القرآن للطحاوي 2/ 321 وانظر:مختصر اختلاف العلماء 2/ 376)
ابو اسحاق کے ان شاگردوں میں سے کسی نے بھی تین طلاق کی بات ذکر نہیں کی جیساکہ اعمش نے ایک روایت میں ذکر کیا ہے ۔
⟐ امام إسماعيل بن إسحاق القاضی الجهضمي (المتوفى 282 ) نے اسی علت کے بناپر اس روایت کو ضعیف قراردیتے فرمایا:
”هذا الحديث لا احسبه محفوظا عن ابي اسحاق لان غير واحد قد روى عن ابي اسحاق هذا الحديث على خلاف ذلك“
”اس حدیث کو میں نہیں سمجھتا کہ ابواسحاق سے محفوظ ( ثابت شدہ )ہے کیونکہ ابو اسحاق سے کئی ایک نے حدیث کو اس کے خلاف روایت کیا ہے“ [أحكام القرآن للجهضمي: ص: 235]
⟐ امام طحاوي رحمه الله (المتوفى321) بھی اسی علت کے سبب اس روایت کو ضعیف قراردیتے ہوئے فرماتے ہیں:
”وقد خالف الأعمش في هذا جماعة منهم شعبة والثوري والزهري وزهير بن معاوية كلهم عن أبي إسحاق عن أبي الأحوص عن عبد الله في قول الله {فطلقوهن} أن يطلقها طاهرا من غير جماع ثم يدعها حتى تنقضي عدتها أويراجعها إن شاء و لم يذكر الطلاق عند كل طهروهؤلاء مقدمون في حفظ حديث ابي إسحاق عن الأعمش“
”اس روایت میں اعمش کی مخالفت ایک جماعت نے کی ہے جن میں شعبہ ، سفیان ثوری ، زھری اور زھیر بن معاویہ ہیں ، ان سب نے أبو إسحاق عن أبي الأحوص کے طریق سے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے یہ نقل کیا کہ انہوں نے {فطلقوهن} کی تفسیر میں فرمایا کہ : عورت کو اس کے طہر میں جماع کے بغیر طلاق دے ، پھر اسے چھوڑ دے یہاں تک کی اس کی عدت ختم ہوجائے یا اس سے رجوع کرلے اگر اس کی مرضی ہو ، یہاں ہر طہر کے وقت طلاق کا ذکر نہیں ہے ، اور یہ رواۃ ابواسحاق کی حدیث کو یاد کرنے میں اعمش پر مقدم ہیں“ [مختصر اختلاف العلماء للطحاوی 2/ 376]
❀ کیا علامہ البانی رحمہ اللہ نے اس روایت کو صحیح کہا ہے؟
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی زیر بحث روایت علامہ البانی رحمہ اللہ کی کتاب صحیح سنن النسائی میں درج ہے اور اس کے بعد لکھا ہے:
”صحیح ”ارواء الغلیل“ (2051)“
[صحیح سنن النسائی للألبانی : ص 467 رقم 3394]
لیکن ارواء الغلیل میں محولہ نمبر (2051 )کے تحت علامہ البانی رحمہ اللہ نے ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے شاگرد عبد الرحمن بن يزيد والی روایت کو صحیح کہا ہے ۔
لیکن أبو الأحوص والی روایت جو ابواسحاق السبیعی کے طریق سے مروی ہے جو کہ سنن نسائی وغیرہ میں ہے اسے صحیح نہیں کہا ہے بلکہ آگے علامہ البانی رحمہ اللہ نے سنن بیہقی سے ”أبو إسحاق السبيعى عن أبى الأحوص“ والی روایت نقل کرنے کے بعدکہا:
”وإسناده صحيح لولا أن أبا إسحاق وهو السبيعى عنعنه عن أبى الأحوص وكان مدلسا“
”اس کی سند صحیح ہوتی اگر ابوسحاق جوکہ السبیعی ہے اس نے أبو الأحوص سے ”عن“ سے روایت نہ کیا ہوتا ، کیونکہ یہ مدلس ہے“ [إرواء الغليل 7/ 118 رقم 2051]
صاف ظاہر ہے کہ علامہ البانی رحمہ اللہ نے اس روایت کو صحیح نہیں کہا ہے بلکہ ضعیف کہا ہے۔
اب ضعیف سنن نسائی میں علامہ البانی رحمہ اللہ کی طرف غلط نسبت کس کی طرف سے ہے ، یہ اللہ ہی بہتر جانتا ہے ، ممکن ہے علامہ البانی رحمہ اللہ کے ساتھ تعاون کرنے والے ان کے کسی شاگرد کی چوک سے ایسا ہوا ہے ، یا خود علامہ البانی رحمہ اللہ ہی کو وھم ہوگیا ہو ، واللہ اعلم۔
لیکن جو بھی معاملہ ہو اس حکم کی بنیاد علامہ البانی رحمہ اللہ کی دوسری کتاب ارواء الغلیل ہے اور اس کتاب میں اس سند کی تصحیح نہیں بلکہ تضعیف ہے۔
❀ حافظ زبیر علی زئی صاحب کی تحسین کی حقیقت :
حافظ زبیر علی زئی صاحب کی تخریج سے سنن النسائی کا جو نسخہ دار السلام سے مطبوع ہے اس میں اس حدیث کی تخریج میں لکھاہے:
”حسن ، أخرجه ابن ماجه ، الطلاق ، باب طلاق السنة ح 2021 من حديث حفص به وهو في الكبري ح 5587 وصححه ابن حزم في المحلي 10/ 172 مسئلة 1949 وللحديث شواهد عن ابن أبي شيبه وغيره أبواسحاق عنعن“
”حسن ہے ، اسے ابن ماجہ نے کتاب الطلاق ، باب طلاق السنہ حدیث نمبر 2021 میں حفص کے طریق سے روایت کیا ہے یہ حدیث امام نسائی کی السنن الکبری میں بھی حدیث نمبر 5587 کے تحت ہے ، اسے امام ابن حزم نے محلی 10/ 172 مسئلة 1949 میں صحیح کہا ہے ، اور ابن ابی شیبہ وغیرہ کے یہاں اس حدیث کے شواہد ہیں ، یہاں سند میں ابواسحاق نے عن سے روایت کیا ہے“ [سنن نسائي مطبوعہ دار السلام ص 284 رقم 3423]
سب سے پہلے تو ہم یہ واضح کردیں کہ امام ابن حزم رحمہ اللہ نے ”المحلی“ میں محولہ مقام پر جس روایت کو صحیح کہا ہے وہ اس طرح ہے:
”ومن طريق أحمد ابن شعيب أنا عمرو بن على نا يحيى بن سعيد القطان عن سفيان الثوري عن أبى اسحاق السبيعى عن أبى الاحوص.عن عبد الله بن مسعود قال: طلاق السنة أن يطلقها طاهرا من غير جماع، وهذا في غاية الصحة عن ابن مسعود“
”عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے کہا: طلاق سنت یہ ہے کہ عورت کو طہر کی حالت میں بغیر ہمبستری کے طلاق دے ، (ابن حزم کہتے ہیں:) ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی یہ روایت حددرجہ صحیح ہے“ [المحلى لابن حزم ط .دار الفكر: 10/ 172، دوسرا نسخہ المحلى لابن حزم، ت بيروت: 9/ 400]
قارئین ملاحظہ فرمائیں!
ابن حزم رحمہ اللہ جس روایت کو صحیح کہہ رہے اس میں تین بار طلاق دینے کی بات نہیں ہے بلکہ صرف ایک ہی بار طلاق دینے کی بات ہے ، اور یہ چیز ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے بالکل ثابت ہے ، جیساکہ ابو اسحاق السبیعی کی مصرح بالسماع والی روایت میں ہے کما مضی۔
اس کے بعد اس کے آگے امام ابن حزم رحمہ اللہ نے اعمش کی تین طلاق والی روایت بھی پیش کی ہے ، مگر اسے صحیح قطعا نہیں کہا ہے ، بلکہ یہ روایت اس صفحہ (172)پر موجود ہی نہیں ہے جس کا حوالہ مرحوم حافظ زبیر علی زئی صاحب نے دیا ہے۔بلکہ یہ اگلے صفحہ (173) پر موجود ہے ۔دیکھئے: [المحلى لابن حزم مطبوعة ادارة الطباعة المنيررية ، بتحقيق محمد منير الدمشقي ج 10ص172- 173]
اس سے صاف ظاہر ہے موصوف سے چوک ہوئی ہے کیونکہ انہوں نے سنن نسائی والی جس روایت سے متعلق امام ابن حزم رحمہ اللہ کی تصحیح کے لئے ”المحلی“ کے جس صفحہ کا حوالہ دیا ہے وہاں پر یہ روایت ہے ہی نہیں بلکہ دوسری روایت موجود ہے ۔
اس وضاحت كے بعد عرض ہے کہ حافظ زبیر علی زئی صاحب ابواسحاق کے عنعنہ کے سبب اس سند کا ضعیف ہونا تسلیم کررہے ہیں جیساکہ آخر میں انہوں نے لکھ دیا ، لیکن موصوف نے بعض شواہد کو ابن ابی شیبہ وغیرہ کی طرف منسوب کرکے اس کی بنیاد پر اس روایت کو حسن کہا ہے۔
عرض ہے کہ ابن ابی شیبہ ہی نہیں بلکہ پوری دنیا میں کتب احادیث واثار کے جتنے بھی مطبوعہ اور غیرمطبوعہ ذخیرے موجود ہیں کسی میں بھی اس روایت کا کوئی شاہد نہیں ہے، نہ صحیح سند سے، نہ ضعیف سند سے ، بلکہ موضوع ومن گھڑت سند سے بھی اس کا کوئی شاہد دنیا کے کسی کونے میں وجود نہیں رکھتا ۔
غالبا حافظ زبیرعلی زئی صاحب نے مصنف ابی شیبہ وغیرہ میں سرسری طور پر دیکھ کر ایسا لکھ دیا ، لیکن بعد انہیں خود پتہ چل گیا کہ یہ بات تو خلاف حقیقت ہے ، اس لئے موصوف نے اپنی کتاب انوار الصحیفہ کے آخری اڈیشن میں اسے ضعیف تسلیم کرلیا اور لکھا:
”[ 3423- 3424] :طلاق السنة تطليقة وهي طاهر ...إسناد ضعيف/جه 2020-2021 أبوإسحاق عنعن“
”سنن نسائی حدیث نمبر 3423 (ترقیم غ 3394) اور حدیث نمبر 3424(ترقیم غ3395) ، جس کے الفاظ ہیں : طلاق سنت یہ ہے کہ طہر کی حالت میں طلاق دی جائے... یہ سند ضعیف ہے ، یہ ابن ماجہ حدیث نمبر 2020 اور حدیث نمبر 2021 میں بھی موجود ہے اس میں ابواسحاق نے عن سے روایت کیا ہے“ [ أنوار الصحيفة ضعيف سنن النسائي :ص374 و انظر ايضا: ضعيف سنن ابن ماجه ص 451]
عرضہ ہے کہ:
موصوف نے یہ بہت اچھا کام کیا اپنی غلطی سے رجوع کرلیا اور جس مردود روایت کو حسن کہا تھا اسے ضعیف تسلیم کرلیا ، لیکن افسوس کہ اس مردود روایت کو ضعیف کہنے کے ساتھ ساتھ انہوں نے سنن نسائی اور ابن ماجہ والی اس روایت کو بھی ضعیف کہہ دیا جس میں ایک ہی طلاق کا ذکر تھا جبکہ یہ بات ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے ثابت ہے کیونکہ ان الفاظ والی روایت میں ابواسحاق السبیعی نے امام إسماعيل القاضی اور امام طبرانی کی سند میں سماع کی صراحت کردی ہے ۔[أحكام القرآن للقاضی اسماعیل:ص 235 المعجم الكبير للطبرانی 9/ 322 ]
بہر حال ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی تین طلاق والی جس روایت کو موصوف نے پہلے حسن کہا تھا بعد میں اس کا ضعیف ہونا تسلیم کرلیا ہے ۔لہٰذا سنن النسائی اور سنن ابن ماجہ مطبوعہ دارالسلام میں ان کی جو تحسین ہے وہ غلط ہے۔
خلاصہ کلام یہ کہ:
احناف کی مصطلحہ طلاق حسن کے تائید میں پیش کی جانے والی مرفوع اورموقوف دونوں روایات ضعیف ہیں ۔
ابن عباس رضی اللہ عنہ کے قول ”الطلاق عند كل طهر“ کی تشریح:
طلاق ثلاثہ سے متعلق ابن عباس رضی اللہ عنہ والی مسند احمد کی حدیث گذرچکی ہے اس کے اخیر میں ہے:
”فكان ابن عباس : يرى أنما الطلاق عند كل طهر“
”ابن عباس رضی اللہ عنہ فتوی دیتے کہ طلاق الگ الگ طہر میں ہی معتبر ہوگی“ [مسند أحمد ط الميمنية: 1/ 265 رقم 2387]
احناف تو اس سند کو ضعیف گردانتے ہیں جس کے ساتھ ابن عباس رضی اللہ عنہ کی یہ حدیث اور ان کا یہ فتوی منقول ہے ، لیکن یہ حدیث بالکل صحیح وثابت ہے جیساکہ تفصیل گذرچکی ہے ۔اور اس کے اخیر میں ان عباس رضی اللہ عنہ کا جو یہ فتوی منقول ہے کہ ان کا خیال تھا کہ طلاق ہر طہر میں ہوگی ۔تو کوئی اس سے یہ نہ سمجھے کہ ابن عباس رضی اللہ عنہ بھی یہ موقف رکھتے ہیں کہ یکے بعد دیگرے مسلسل تین طہر میں طلاق دینا سنت ہے ، جسے احناف طلاق حسن کہتے ہیں۔
کیونکہ ابن عباس رضی اللہ عنہ کے اس فتوی میں یہ صراحت قطعا نہیں ہے کہ وہ تین طہر میں مسلسل طلاق دینے کی بات کرتے ہیں بلکہ ان کا مقصود یہ ہے کہ ایک ہی طہر میں دی گئی تین طلاق معتبر نہ ہوگی البتہ اگر الگ الگ طہر میں سنت کے مطابق طلاق ہوچکی ہے ، یعنی دو طلاق کے بعد رجوع یا تجدید نکاح ہوگیا ہے پھر تیسری طلاق بھی طہر میں ہی دی گئی تو ایسی طلاق ہی معتبر ہوگی۔
اس کی دلیل یہ کہ دوسرے مقامات پر طریقہ طلاق سے متعلق ابن عباس رضی اللہ کا فتوی وبیان نقل ہوا ہے اور وہاں انہوں نے مسلسل تین طہر میں تین طلاق دینے کی بات نہیں کہی ہے مثلا :
ابن عباس رضی اللہ عنہ کا قول بروایت امام مجاہد:
امام دارقطني رحمه الله (المتوفى385) نے کہا:
”نا دعلج , نا الحسن بن سفيان , نا حبان , نا ابن المبارك , أنا سيف , عن مجاهد , قال: جاء رجل من قريش إلى ابن عباس , فقال: يا ابن عباس إني طلقت امرأتي ثلاثا وأنا غضبان , فقال: إن ابن عباس لا يستطيع أن يحل لك ما حرم عليك عصيت ربك وحرمت عليك امرأتك , إنك لم تتق الله فيجعل لك مخرجا , ثم قرأ {إذا طلقتم النساء فطلقوهن لعدتهن} طاهرا من غير جماع“
”مجاہد کہتے ہیں کہ قریش کا ایک شخص ابن عباس رضی اللہ عنہ کے پاس آیا اور کہا: اے ابن عباس ! میں نے اپنی بیوی کو تین طلاق دے دی اور میں غصہ میں تھا ، تو ابن عباس رضی اللہ عنہ نے کہا:ابن عباس کے پاس اس بات کی طاقت نہیں ہے کہ جو چیز تم پر حرام ہوگئی اسے حلال بنادیں ، تم نے اپنے رب کی نافرمانی اورتمہاری بیوی تم پر حرام ہوچکی ہے ، تم نے اللہ کا تقوی اختیار نہیں کیا کہ اللہ تمہارے لئے کوئی راہ نکالتا، پھر ابن عباس رضی اللہ عنہ نے قرآن کی یہ آیت پڑھی {جب تم اپنی بیویوں کو طلاق تو ان کی عدت میں طلاق دی} یعنی ان کی پاکی کی حالت میں ہمبستری سے پہلے“ [سنن الدارقطني، ت الارنؤوط: 5/ 25 وإسناده صحيح]
یہاں ابن عباس رضی اللہ عنہ نے قرآن کی تفسیر کرتے ہوئے طریقہ طلاق بتایا لیکن مسلسل تین طہر میں طلاق دینے کی بات نہیں کی ۔
ابن عباس رضی اللہ عنہ کا قول بروایت امام عکرمہ:
اسی طرح ایک روایت میں عکرمہ ہی نے ابن عباس رضی اللہ عنہ جائز طلاق کی قسمیں نقل کی ہیں ان میں بھی طلاق حسن والی کیفیت نقل نہیں کی چنانچہ:
امام عبد الرزاق رحمه الله (المتوفى211) نے کہا:
”عن وهب بن نافع، أن عكرمة أخبره أنه سمع ابن عباس يقول: الطلاق على أربعة وجوه: وجهان حلال، ووجهان حرام، فأما الحلال، فأن يطلقها طاهرا عن غير جماع، أو حاملا مستبينا حملها، وأما الحرام، فأن يطلقها حائضا، أو حين يجامعها لا يدري أشتمل الرحم على ولد أم لا؟“
”عکرمہ روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے ابن عباس رضی اللہ عنہ کو فرماتے ہوئے سنا: طلاق کی چار قسمیں ہیں ، دو حلال ہیں اور دو حرام ہیں ، جہاں تک حلال طلاق کی بات ہے تو اس کی ایک قسم یہ ہے طہر کی حالت میں بغیر جماع کے طلاق دے ، اور دوسری قسم یہ ہے کہ حمل کی حالت میں حمل ظاہر ہوجائے توطلاق دے ، اور جہاں تک حرام طلاق کی بات ہے تو اس کی ایک قسم یہ ہے یہ حیض کی حالت میں طلاق دے اور دوسری قسم یہ ے کہ جماع کے بعد طلاق سے اور اسے پتہ نہ ہو کہ رحم میں بچہ ہے یا نہیں“ [مصنف عبد الرزاق، ت الأعظمي: 6/ 307 وإسناده حسن ، وهب بن نافع ذكره ابن حبان في الثقات واحتج به ابن حزم في محلاه ولم يغمزه أحد بشيء، ومن طريق عبدالرزاق أخرجه الدارقطني في سننه رقم 3890 و أيضا رقم 3990 والبيهقي في سننه رقم 14916]
اس روایت میں غور کیجئے کہ اسے عکرمہ ہی نقل کررہے ہیں اور اس میں ابن عباس رضی اللہ عنہ طلاق کی جائز قسموں کو بتایا ہے لیکن مسلسل تین طہر میں طلاق دینے کا کوئی طریقہ نہیں بتایا ہے ۔یہ اس بات کی دلیل ہے کہ ابن عباس رضی اللہ عنہ احناف کی مصطلحہ طلاق حسن والی طلاق کو سنت نہیں سمجھتے اور مسند احمد میں منقول ان کے فتوی کا مطلب وہی ہے جس کی وضاحت اوپر ہوچکی ہے۔
ابن عباس رضی اللہ عنہ کا قول بروایت علی بن أبی طلحہ:
امام ابن جرير الطبري رحمه الله (المتوفى310) نے کہا:
”حدثني علي، قال: ثنا أبو صالح، قال: ثني معاوية، عن علي، عن ابن عباس، في قوله: {فطلقوهن لعدتهن} يقول: لا يطلقها وهي حائض، ولا في طهر قد جامعها فيه، ولكن يتركها حتى إذا حاضت وطهرت طلقها تطليقة، فإن كانت تحيض فعدتها ثلاث حيض، وإن كانت لا تحيض فعدتها ثلاثة أشهر، وإن كانت حاملا، فعدتها أن تضع حملها“
”علی بن ابی طلحہ کہتے ہیں کہ ابن عباس رضی اللہ عنہ {فطلقوهن لعدتهن} کی تفسیر میں فرماتے تھے کہ : عورت کو حیض کی حالت میں طلاق نہیں دے گا اور نہ ایسے طہر میں جس میں جماع کیا ہے ، بلکہ عورت کو چھوڑ دے یہاں تک جب اسے حیض آئے اور پھر وہ پاک ہو تو ایک طلاق دے ، پھر اگر اسے حیض آئے تو اس کی عدت تین حیض ہے ، اور اگر اس کا حیض بند ہوجائے تو اس کی عدت تین ماہ ہے ، اور اگر وہ حمل سے ہو تو اس کی عدت وضع حمل ہے“ [تفسير الطبري، ط هجر: 23/ 29]
اس روایت سے بھی معلوم ہوا کہ ابن عباس رضی اللہ عنہ ایک طہر کے بعد دوسرے طہر میں طلاق دینے کے قائل نہیں ہیں کیونکہ وہ اس کے بعد تین حیض عدت بتارہے ہیں ۔
دکتور حكمت بن بشير بن ياسين الموصلي نے اس کی سند کو حسن کہا ہے ۔دیکھئے :[الصحيح المسبور من التفسير بالمأثور 4/ 498]
علی ابن ابی طلحہ تک سند حسن ہے کیونکہ یہ نسخہ کی روایت ہے مگر علی اور ابن عباس رضی اللہ عنہ کے بیچ کا واسطہ معلوم نہیں ہے ہمارے نزدیک یہی راجح ہے۔
لیکن بعض اہل علم کا خیال ہے علی اور ابن عباس رضی اللہ عنہ کے بیچ کا واسطہ معلوم ہے اور وہ مجاہد یا عکرمہ یا سعید بن جبیر ہیں اور یہ سب ثقہ ہیں ۔
حافظ ابن حجر رحمه الله (المتوفى852) رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
”بعد أن عرفت الواسطة وهي معروفة بالثقة حصل الوثوق به“ ، ”جب علی بن ابی طلحہ اور ابن عباس رضی اللہ عنہ کے بیچ کا واسطہ معلوم ہوگیا کہ یہ ثقہ تو اس کا قابل اعتماد ہوتا ثابت ہوگیا“ [الأمالي المطلقة لابن حجر: ص 62]
دکتور حكمت بن بشير بن ياسين الموصلي کی تحقیق یہ ہے کہ یہ واسطہ مجاہد کا ہے جو کہ ثقہ ہیں، دیکھئے:[الصحيح المسبور من التفسير بالمأثور 1/ 47]
اسی لئے انہوں نے اس سند کو حسن کہا ہے ۔
عطیہ بن نوری بن محمد کی تحقیق یہ ہے کہ یہ واسطہ مجاہد کا ہے جو کہ ثقہ ہیں، دیکھئے:[ أسانيد نسخ التفسير : ص 415]
ان اہل علم کی تحقیق جن حضرات کی نظر میں راجح ہے ان کے نزدیک یہ روایت بھی اسی بات کی دلیل ہے جس ہم نے اوپر واضح کیا ہے۔
ابن عباس رضی اللہ عنہ کے شاگردامام طاووس رحمہ اللہ کا فتوی:
نیز ابن عباس رضی اللہ عنہ کے شاگردامام طاووس رحمہ اللہ کا فتوی بھی صحیح سند سے ملاحظہ ہو:
امام عبد الرزاق رحمه الله (المتوفى211) نے کہا:
”عن معمر , عن ابن طاوس , عن أبيه , في قوله تعالى: {فطلقوهن}قال: «إذا أردت الطلاق فطلقها حين تطهر , قبل أن تمسها تطليقة واحدة , ولا ينبغي لك أن تزيد عليها حتى تخلو ثلاثة قروء , فإن واحدة تبينها , هذا طلاق السنة»“
”امام طاووس رحمہ اللہ {فطلقوهن} کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ اگر تم طلاق کا ارادہ کرو تو عورت کو طہر کی حالت میں جماع سے پہلے ایک طلاق دو ، اور یہ درست نہیں ہے اس کے بعد مزید طلاق دو یہاں تک کی تین حیض کی عدت گذر جائے اس کے بعد اس ایک طلاق سے وہ عورت جدا ہوجائے گی ، یہی سنی طلاق ہے“ [تفسير عبد الرزاق 3/ 316 وإسناده صحيح]
امام طاووس رحمہ اللہ نے بہت صریح لفظوں میں کہا ہے کہ طہر میں ایک طلاق دینے کے بعد رک جائے اور مزید طلاق نہ دے اور تین حیض کی عدت گذرنے دے کیونکہ یہ ایک طلاق اسے جدا کردے گی یہی طلاق سنت ہے ۔
بہت ممکن ہے کہ امام طاووس رحمہ اللہ کا ماخذ ابن عباس رضی اللہ عنہ ہی کی تفسیر ہو کیونکہ وہ ابن عباس رضي الله عنه كے خصوصي شاگرد ہیں۔
علاوہ بریں امام طاووس رحمہ اللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ کے اقوال پر بہت اعتماد کرتے تھے اور انہیں کے اقوال پرفتوی بھی دیا کرتے تھے ، حتی کہ جس مسئلہ میں ابن عباس رضی اللہ عنہ دیگر علماء سے منفرد رائے رکھتے اس میں بھی امام طاووس رحمہ اللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ ہی کے قول پر فتوی دیتے تھے ۔
محمد بن إسحاق المكي الفاكهي (المتوفى 272) نے کہا:
”حدثنا محمد بن منصور، قال: ثنا سفيان، عن ابن أبي نجيح، قال: تكلم طاوس، فقال: الخلع ليس بطلاق، إنما هو فراق ، فأنكر ذلك عليه أهل مكة، فقالوا: إنما هو طلاق، فاعتذر إليهم، وقال: لم أقل هذا، إنما قاله ابن عباس رضي الله عنهما“
”ابن ابی نجیح کہتے ہیں کہ طاووس نے فتوی دیا اور کہا: خلع طلاق نہیں ہے بلکہ افتراق ہے ، تو اہل مکہ نے اس بات کو غلط قرار دیتے ہوئے ان پر نکیر کی اور کہا بلکہ یہ طلاق ہے ، تو طاووس رحمہ اللہ نے اپنی تائید میں کہا کہ : یہ بات میں ہی نہیں کہتا بلکہ ابن عباس رضی اللہ عنہ نے بھی یہ فتوی دیا ہے“ [أخبار مكة للفاكهي 3/ 70 وإسناده حسن ، وقال الحافظ في الفتح 9/ 403 : أخرج إسماعيل القاضي بسند صحيح عن بن أبي نجيح...فذكره ]
اس لئے بہت ممکن ہے کہ امام طاووس رحمہ اللہ کی مذکورہ تفسیر کا ماخذ بھی ابن عباس رضی اللہ عنہ قول ہے ، ایسی صورت میں ان کی یہ تفسیر بھی ابن عباس رضی اللہ عنہ کے موقف کی نمائندگی کرتی ہے۔
امام مالک کے قول کی روشنی میں ابن عباس رضی اللہ عنہ کے قول کی تشریح:
موطا امام مالک میں ہے:
”حدثني عن مالك، عن عبد الله بن دينار، أنه قال: سمعت عبد الله بن عمر: قرأ {يا أيها النبي إذا طلقتم النساء فطلقوهن لقبل عدتهن }قال مالك: يعني بذلك أن يطلق في كل طهر مرة“
”عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے پڑھا {يا أيها النبي إذا طلقتم النساء فطلقوهن لقبل عدتهن } امام مالک رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ : اس سے ان کی مراد یہ ہے کہ شوہر ہر طہر میں ایک بار طلاق دے“ [موطأ مالك ت عبد الباقي: 2/ 587]
یہاں غور کیجئے کہ ابن عباس رضی اللہ عنہ ہی کی طرح امام مالک رحمہ اللہ بھی یہ تشریح کررہے ہیں کہ ہر طہر میں ایک بار طلاق دے ۔
ظاہر ہے کہ امام مالک رحمہ اللہ کی مراد یہ ہے کہ شوہر صرف طہر میں ہی طلاق دے سکتا ہے ، اور ایک طہر میں ایک ہی طلاق دے سکتا ہے۔
اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ امام مالک رحمہ اللہ نے مسلسل ہر طہر میں طلاق دینے کی بات کی ہے ، کیونکہ امام مالک رحمہ اللہ تواس کے سخت خلاف تھے بلکہ اسے بدعت کہتے تھے ، نیز یہ بھی فرماتے تھے کہ میں نے اپنے شہر میں کسی کو بھی نہیں پا یا جو ایسی رائے رکھتا ہو یا ایسا فتوی دیتا ہو۔
اس بحث کے شروع میں امام مالک رحمہ اللہ کے یہ اقوال گذرچکے ہیں ، دیکھئے ص:
طلاق حسن کے مزعومہ فوائد کا جائزہ:
ہم نے شروع میں کہا ہے کہ طلاق کا یہ طریقہ بے فائدہ ہے ، بلکہ اس میں خسارہ بھی ہے کیونکہ اس سے بیوی ہمیشہ کے لے جدا کردی جاتی ہے ، اسی وجہ سے بعض احناف نے بھی حنفی مذہب کے اس طریقہ طلاق کی تردید کی ہے۔
لیکن بعض احناف نے کافی غور وخوض کے بعد اس طریقہ طلاق میں کچھ فوائد بھی دکھانے کی کوشش کی ہے ، مناسب معلوم ہوتا ہےکہ اس بحث کے اخیر میں ان مزعومہ فوائد پر بھی نظر ڈال لی جائے ،چنانچہ:
أبو بكر الجصاص الحنفي (المتوفى 370) طلاق حسن کے فوائد بتاتے ہوئے فرماتے ہیں:
”في إيقاع الثانية والثالثة فوائد بتعجلها لو لم يوقع الثانية والثالثة لم تحصل له، وهو أن تبين منه بإيقاع الثالثة قبل انقضاء عدتها، فيسقط ميراثها منه لو مات ويتزوج أختها وأربعا سواها على قول من يجيز ذلك في العدة“
”ایک طلاق کے ساتھ مزید دوسری اور تیسری طلاق دینے کے ایسے فوائد ہیں کہ اگر ایسا نہ کیا جائے تو یہ فوائد حاصل نہ ہوں گے ، اور یہ فوائد یہ ہیں کہ تیسری طلاق کے بعد عورت عدت ختم ہونے سے پہلے ہی بائنہ ہوجائے گی اور شوہر مرگیا تو شوہر سے اس کی وراثت ساقط ہوجائے گی ، اسی طرح مطلقہ کی بہن سے یا چوتھی عورت سے دوران عدت ہی شادی کرسکتا ہے جن کے نزدیک عدت میں اس کا جواز ہے“ [أحكام القرآن للجصاص ط العلمية 1/ 466]
یعنی خلاصہ کے طور پر کہا جائے تو دو فائدہ ہے ، پہلا وراثت سے مطلقہ کا محروم ہونا ، اور دوسرا شوہر کے اگلی شادی میں عجلت کا موقع ملنا۔
عرض ہے کہ:
جہاں تک پہلے فائدہ کی بات ہے تو کوئی ہمیں یہ بتائے کہ طلاق کے بعد عدت کے اندر ہی شوہر مرنے والا ہے اس بات کااندیشہ کہاں سے آگیا ؟ طلاق کے ہزاروں واقعات پیش آتے ہیں ان میں کتنے واقعات ایسے ہیں جن میں شوہر طلاق دینے کے بعد عدت کے اندر ہی اندر مرجاتا ہے ؟
نیز اس بات کی بھی کیا ضمانت ہے کہ طلاق کے بعد پہلے شوہر ہی مرے گا ؟ یہ بھی تو ہوسکتا ہے کہ طلاق کے بعد پہلے عورت ہی مرجائے ؟ پھر اگر عورت پہلے مرگئی تو اس میں شوہر ہی کا نقصان ہے وہ بھی عورت کی بنسبت زیادہ نقصان ہے ، کیونکہ شوہر کے ترکہ میں بیوی کا جتنا حصہ ہے اس کے دوگنا حصہ بیوی کے ترکہ میں شوہر کا ہے ۔
رہی بات دوسرے فائدہ کی تو یہ محض خواب وخیال ہے ، حقیقت میں اس سے کوئی بھی مستفید نہیں ہوسکتا، کیونکہ طلاق حسن یعنی مسلسل تین طہر میں طلاق دینا یہ صرف احناف کے یہاں جائز ہے اور احناف ہی کا فتوی ہے مطلقہ خواہ بائنہ ہی کیوں نہ ہو وہ جب تک عدت میں ہے تب تک شوہر اس کی بہن سے شادی نہیں کرسکتا ، نیز چوتھی شادی بھی نہیں کرسکتا۔حنابلہ کابھی یہی موقف ہے۔اب ظاہر ہے کہ احناف اور حنابلہ تو اس فائدہ سے محروم ہی رہے۔
رہی بات مالکیہ کہ تو وہ طلاق حسن کو طلاق بدعت اور حرام مانتے ہیں ، پھر بھلا انہیں اس کے فائدہ سے کیا لینا دینا ؟
بچے شوافع تو ان کے یہاں تو بیک وقت تین طلاق دینا ہی جائز ہے ، پھر احناف تین طہر کے بعد جن فوائد کی لالچ دے رہے ہیں ، شوافع ان کو ایک ہی طہر میں حاصل کرسکتے ہیں ، ایسی صورت میں وہ من وسلوی چھوڑ پیاج اور لہسن کی طرف کیوں دوڑیں گے ؟
علاوہ بریں اس بات پربھی غور کریں کہ کتنے طلاق دینے والے ایسے ہیں جو مطلقہ کی بہن سے ہی شادی کرنا چاہتے ہیں ؟ یا کتنے طلاق دینے والے ایسے ہیں جو چار بیویوں والے ہیں اور چوتھی کو طلاق دے کر فورا ہی چار کا کوٹا پر کرنا چاہتے ہیں ؟ نیزبعض لوگ ایسے ہوں بھی تو وہ اگر کچھ دن رک کر اگلی شادی کرلیں تو کون سی قیامت ان پر ٹوٹ پڑے گی ؟
اس کے ساتھ احناف کی جسار ت اور عورت پر ان کے مظالم کی حد تو دیکھئے کہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے طریقہ طلاق کو ایسا بنایا ہے جس میں میاں بیوی دونوں کے لئے فوائد ہوں ، بالخصوص بیوی کے لئے ، لیکن احناف ایسا طریقہ طلاق ایجاد کررہے ہیں جس میں بیوی کو ہرطرح سے خسارہ میں رکھ کر ، سارے فوائد صرف اور صرف شوہر ہی کو دلانا چاہتے ہیں ، یہ کیسی سوچ اور کیسی کج اندیشی ہے ؟
No comments:
Post a Comment