پہلی حدیث : صحیح مسلم کی حدیث ابن عباس - Kifayatullah Sanabili Official website

2020-02-12

پہلی حدیث : صحیح مسلم کی حدیث ابن عباس


پچھلا

دوسری دلیل 
تین طلاق کے عدم وقوع پر احادیث نبویہ
پہلی حدیث : صحیح مسلم کی حدیث ابن عباس
امام مسلم رحمه الله (المتوفى261)نے کہا:
”حدثنا إسحاق بن إبراهيم، ومحمد بن رافع، واللفظ لابن رافع، قال إسحاق: أخبرنا، وقال ابن رافع: حدثنا عبد الرزاق، أخبرنا معمر، عن ابن طاوس، عن أبيه، عن ابن عباس، قال: كان الطلاق على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم، وأبي بكر، وسنتين من خلافة عمر، طلاق الثلاث واحدة، فقال عمر بن الخطاب: إن الناس قد استعجلوا في أمر قد كانت لهم فيه أناة، فلو أمضيناه عليهم، فأمضاه عليهم“ 
”حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا: کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے، حضرت ابوبکر کے دور خلافت اور حضرت عمر کی خلافت کے ابتدائی دوسالوں میں ، جو شخص بیک وقت تین طلاقین دے دیتا اس کو ایک شمار کیا جاتا تھا ، پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: لوگوں نے اس کام میں عجلت شروع کردی ہے جس میں ان کے لئے مہلت تھی تو اگر ہم بیک وقت دی گئی تین طلاقوں کو نافذ کردیں تو بہتر ہوگا ، پھر انہوں نے تین طلاقوں کو نافذ کرنے کا حکم دیا“ (ترجمہ غلام رسول سعیدی ، شرح صحیح مسلم 3/ 1019)[صحيح مسلم 3/ 1099 رقم 1472]

یہ حدیث اس بات کی واضح دلیل ہے کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں بیک وقت دی گئی تین طلاق ایک شمار ہوتی تھی ۔
علامہ البانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
”وهو نص لا يقبل الجدل على أن هذا الطلاق حكم محكم ثابت غير منسوخ لجريان العمل عليه بعد وفاته صلى الله عليه وسلم في خلافة أبي بكر، وأول خلافة عمر، ولأن عمر رضي الله لم يخالفه بنص آخر عنده بل باجتهاد منه ولذلك تردد قليلا أول الأمر في مخالفته كما يشعر بذلك قوله: ”إن الناس قد استعجلوا .. فلو أمضيناه عليهم..“ ، فهل يجوز للحاكم مثل هذا التساؤل والتردد لوكان عنده نص بذلك؟ 
وأيضا، فإن قوله: ”قد استعجلوا“ يدل على أن الاستعجال حدث بعد أن لم يكن، فرأى الخليفة الراشد، أن يمضيه عليهم ثلاثا من باب التعزيز لهم والتأديب، فهل يجوز مع هذا كله أن يترك الحكم المحكم الذي أجمع عليه المسلمون في خلافة أبي بكر وأول خلافة عمر، من أجل رأي بدا لعمر واجتهد فيه، فيؤخذ باجتهاده، ويترك حكمه الذي حكم هو به أول خلافته تبعا لرسول الله صلى الله عليه وسلم وأبي بكر؟ ! اللهم إن هذا لمن عجائب ما وقع في الفقه الإسلامي“ 
 ”یہ حدیث ایسی نص ہے جس کے سامنے اس بات سے اختلاف کی کوئی گنجائش نہیں ہے کہ تین طلاق کو ایک قرار دینے کاحکم ثابت اور غیر منسوخ ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد ابوبکر رضی اللہ عنہ کی خلافت میں نیز عمرفاروق رضی اللہ عنہ کی خلافت کے ابتدائی دور میں اس پر عمل جاری رہا ہے ۔ اور عمر رضی اللہ عنہ نے اس کی مخالفت کسی نص کی بنیاد پر نہیں کی بلکہ اجتہاد کی بناپر کی ہے ، اسی لئے شروع میں وہ اس کی مخالفت کے سلسلے میں متردد تھے جیساکہ ان کے الفاظ ”إن الناس قد استعجلوا ...فلو أمضيناه عليهم“ ، (لوگوں نے اس بارے میں جلد بازی کی ...تو ہم اس کو اگر جاری کر دیں تو ) سے پتہ چلتا ہے ، تو اگر کسی حاکم کے پاس نص موجود ہے تو کیا اس طرح کا تردد وپس وپیش جائز ہوسکتا ہے؟ 
نیز عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا یہ کہنا کہ ”قد استعجلوا“ ، لوگوں نے جلدی کرنا شروع کردی یہ اس بات کی دلیل ہے کہ پہلے لوگوں کی طرف سے یہ جلدبازی نہیں ہوتی تھی بلکہ بعد میں ہی انہوں نے ایسا کرنا شروع کردیا تھا ، تو خلیفہ راشد عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے ان کی سزاء و تادیب کے لئے اسے ان پر نافذ کردیا ۔ کیا ان سب کے باوجود بھی یہ جائز ہوگا کہ اس محکم(واضح وغیرمنسوخ) حکم کو چھوڑ دیا جائے جس پر مسلمانوں کا ابوبکر الصدیق اور عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے ابتدائی دور میں اجماع تھا ، صرف اس وجہ سے کہ بعد میں عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے اجتہاد کرتے ہوئے ایک دوسری رائے دی ، لہٰذا ان کے اسی اجتہاد کو لے لیاجائے اورخود عمر فاروق رضی اللہ عنہ ہی کے اس موقف کو چھوڑ دیا جائے جس کے مطابق وہ اپنے ابتدائی دور خلافت میں اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کرتے ہوئے نیز ابوبکر رضی اللہ عنہ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے (تین طلاق کے ایک ہونے کا) فتوی دیتے تھے ؟ اللہ کی قسم ! یہ اسلام کی فقہی تاریخ کا عجوبہ ہے“ [سلسلة الأحاديث الضعيفة 3/ 272]

 یہ حدیث صحیح مسلم کی ہے جس کی صحت پر پوری امت کا اتفاق ہے یعنی اس کی احادیث باجماع امت صحیح وثابت ہیں ۔
خود امام مسلم رحمہ اللہ نے وضاحت کردی ہے کہ انہوں نے اپنی اس کتاب صحیح مسلم میں وہی احادیث درج کی ہیں جن کی صحت پر محدثین کا اجماع تھا چنانچہ امام مسلم رحمہ اللہ نے کہا:
 ”ليس كل شيء عندي صحيح وضعته ها هنا إنما وضعت ها هنا ما أجمعوا عليه“ 
 ”میں نے اس کتاب میں ہرصحیح حدیث درج نہیں کی ہے بلکہ صرف ان صحیح احادیث کو درج کیا ہے جن کی صحت پر محدثین کا اجماع ہے“ [صحيح مسلم 2/ 304 تحت رقم 404]
 صحیحین کی صحت پر اجماع سے متعلق مزید حوالوں اور تفصیل کے لئے دیکھئے ہماری کتاب :[ أنوار التوضیح لرکعات التراویح : ص 28 تا 37]

 امام أبو إسْحاق الإسفراييني رحمہ اللہ(المتوفی418) اپنی کتاب ”أصول الفقه“ میں فرماتے ہیں:
”أهل الصنعة مجمعون على أن الأخبار التي اشتمل عليها الصحيحان - مقطوع بصحة أصولها ومتونها، ولا يحصل الخلاف فيها بحال، وإن حصل فذاك اختلاف في طرقها ورواتها“
”اہل فن کا اس بات پر اتفاق ہے کہ صحیحین میں جو احادیث موجود ہیں وہ مع اصول ومتون قطعیت کے ساتھ اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) سے ثابت ہیں'اگر ان میں موجود بعض روایات میں اختلاف ہے تو یہ ان احادیث کے طرق اور راویوں کے بارے میں اختلاف ہے“ [ أصول الفقه للإسفراييني بحوالہ النكت على مقدمة ابن الصلاح للزركشي 1/ 280، فتح المغيث بشرح ألفية الحديث 1/ 72]

 امام ابن الصلاح رحمه الله (المتوفى643) لکھتے ہیں:
 ”جميع ما حكم مسلم بصحته من هذا الكتاب فهو مقطوع بصحته والعلم النظري حاصل بصحته في نفس الأمر وهكذا ما حكم البخاري بصحته في كتابه وذلك لأن الأمة تلقت ذلك بالقبول سوى من لا يعتد بخلافه ووفاقه في الإجماع“
 ”وہ تمام احادیث کہ جن کو امام مسلم نے اپنی کتاب میں صحیح کہاہے ان کی صحت قطعی ہے اور ان سے حقیقت میں علم نظری حاصل ہوتا ہے 'اسی طرح کامعاملہ ان احادیث کا بھی ہے کہ جن کو امام بخاری نے اپنی کتاب میں صحیح کہا ہے ۔اور اس کی وجہ یہ ہے کہ تمام امت کے نزدیک ان کتابوں کو 'تلقی بالقبول'حاصل ہے سوائے ان افراد کے کہ جن کے اختلاف یا اتفاق سے اس اجماع کی صحت پر کوئی اثر نہیں پڑتا“ [صيانة صحيح مسلم ص: 85]

 امام نووي رحمه الله (المتوفى676) فرماتے ہیں:
 ”اتفق العلماء رحمهم الله على أن أصح الكتب بعد القرآن العزيز الصحيحان البخاري ومسلم وتلقتهما الامة بالقبول“
 ”علماء رحمہم اللہ کا اتفاق ہے کہ قرآن عزیز کے بعدسب سے صحیح کتاب صحیح بخاری اور صحیح مسلم ہے ، امت کی طرف سے اسے تلقی بالقبول حاصل ہے“ [شرح النووي على مسلم 1/ 14]

 امام ابن كثير رحمه الله (المتوفى774) فرماتے ہیں:
 ”أجمع العلماء على قبوله وصحة ما فيه، وكذلك سائر أهل الإسلام“
 ”صحیح بخاری کی مقبولیت اور اس احادیث کی صحت پر علماء اور تمام مسلمانوں کا اجماع ہے“ [البداية والنهاية ط إحياء التراث 11/ 30]

 ملا علي القاري رحمہ اللہ(المتوفى1014)فرماتے ہیں:
 ”ثم اتفقت العلماء على تلقي الصحيحين بالقبول، وأنهما أصح الكتب المؤلفة“
 ”پھر علماء کا صحیحین کو قبول کرنے پر اتفاق ہے اور اس بات پر کہ تمام کتابوں میں یہ صحیح تریں کتابیں ہیں“ [مرقاة المفاتيح للملا القاري: 1/ 18]

 شاہ ولی اللہ دہلوی رحمہ اللہ(المتوفی1176 ) فرماتے ہیں:
 ”أما الصحيحان فقد اتّفق المحدثون على أَن جَمِيع مَا فيهمَا من الْمُتَّصِل الْمَرْفُوع صَحِيح بِالْقطعِ، وأنهما متواتران إِلَى مصنفيهما، وَأَنه كل من يهون أَمرهمَا فَهُوَ مُبْتَدع مُتبع غير سَبِيل الْمُؤمنِينَ“
 ”صحیح بخاری اور صحیح مسلم کے بارے میں تمام محدثین متفق ہیں کہ ان میں تمام کی تمام متصل اور مرفوع احادیث یقینا صحیح ہیں ، یہ دونوں کتابیں اپنے مصنفین تک بالتواتر پہنچتی ہیں جو ان کی عظمت نہ کرے وہ بدعتی ہے جو مسلمانوں کی راوہ کے خلاف چلتا ہے“ [حجة الله البالغة 1/ 232 ، حجۃ اللہ البالغہ مترجم اردو ص 250 ، ترجمہ اردو نسخہ سے نقل کیا گیا ہے]

 عصر حاضر کے احناف نے بھی اس بات کا اعتراف کیا ہے چنانچہ :
سرفراز صفدر دیوبندی صاحب لکھتے ہیں:
 ”اور امت کا اس پر اجماع اور اتفاق ہے کہ بخاری اور مسلم دونوں کی تمام روایتیں صحیح ہیں“[ احسن الکلام ج1 ص187]

اور خاص زیر بحث حدیث سے متعلق امام أبو الوليد سليمان بن خلف الباجي رحمه الله(المتوفى474) فرماتے ہیں:
”وعندي أن الرواية عن ابن ‌طاوس ‌بذلك ‌صحيحة فقد رواه عنه الأئمة معمر وابن جريج وغيرهما وابن طاوس إمام“ 
 ”میرے نزدیک ابن طاوس کے طریق سے مروی ابن عباس رضی اللہ عنہ کی یہ روایت صحیح ہے ،کیونکہ ابن طاووس سے اس روایت کو ائمہ مثلا معمر ،ابن جریج وغیرہما نے روایت کیا ہے اورابن طاوس امام ہیں“ [ المنتقى شرح الموطإ لأبي الوليد الباجي 4/ 4]

القاضي أبو بكر بن العربي المالكي (المتوفى 543) فرماتے ہیں:
”وعندي: أن الرواية صحيحة؛ لأن طاوس قوي الحفظ إمام“ 
 ”میرے نزدیک روایت صحیح ہے کیونکہ طاوس قوی حافظے والے اور امام ہیں“ [المسالك في شرح موطأ مالك لابن العربی 5/ 546]

اس صحیح حدیث کے سامنے آنے کے بعد ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ فورا اس پر ایمان لایا جاتا اور سارا اختلاف ختم کرلیا جاتا لیکن افسوس ہے کچھ لوگوں نے اس حدیث کو تسلیم کرنے کے بجائے اس پر بے بنیاد اعتراضات وارد کرکے اسے رد کرنے کوشش کی ، ہم اگلی سطور میں تفصیل کے ساتھ ان اعتراضات کا جائزہ پیش کرتے ہیں ۔
اس حدیث پر جتنے اعتراضات کئے گئے ہیں انہیں ہم سند اور متن کے لحاظ سے دو قسموں میں بانٹ سکتے ہیں:
اعتراض کی پہلی قسم : سند پر اعتراض
ہم سب سے پہلے سند پر کئے گئے اعتراضات کو دیکھتے ہیں سند پر وارد کردہ اعتراضات تین طرح کے ہیں:
اول : رواۃ پر اعتراض
دوم: طریق پر اعتراض
سوم : غيرمتعلق اعتراض
اب تینوں اعتراضات کے جوابات ملاحظہ ہوں:
سند پر پہلا اعتراض : رواۃ پر 
(الف): ابن عباس رضی اللہ عنہ کے تفرد پر اعتراض
سند پر صحابی کو لیکر اعتراض کرنا  محدثین بلکہ پوری امت  کے متفقہ اور اجماعی منہج کے خلاف ہے ، کیونکہ صحابی تک سند ثابت ہونے کے بعد سند کی حیثیت سے کوئی اعتراض کی گنجائش بچتی ہی نہیں ہے۔لیکن افسوس ہے بعض لوگوں نے اس حدیث سے جان چھڑانے کے لئے صحابی پر بھی اعتراض کردیا ہے ، ذیل میں اس اعتراض کے جوابات ملاحظہ ہوں:
ابو العباس أحمد بن عمر القرطبي رحمه الله (المتوفى656) کہتے ہیں:
”إن ظاهر ذلك الحديث خبر عن جميعهم أو عن معظمهم، والعادة تقتضي - فيما كان هذا سبيله - أن يفشو، وينتشر، ويتواتر نقله، وتحيل أن ينفرد به الواحد. ولم ينقله عنهم إلا ابن عباس، ولا عنه إلا أبو الصهباء“ 
”اس حدیث میں بظاہر تمام صحابہ یا اکثر صحابہ سے متعلق خبر ہے اور عادتا ہوتا یہ ہے کہ اس طرح کی خبر عام اور منتشر ہوجاتی ہے اور تواتر کے ساتھ نقل ہوتی ہے ، اور یہ محال ہوتا ہے کہ ایسی خبر کو نقل کرنے میں کوئی منفرد ہو ، اور اس حدیث کو صرف ابن عباس رضی اللہ عنہ نے نقل کیا ہے اور ان سے بھی صرف ابوالصھباء نے نقل کیا ہے“ [المفهم للقرطبي: 4/ 242]
عرض ہے کہ:
 ❀ اولا:
ابوالعباس قرطبی کو بہت بڑی غلط فہمی ہوئی ہے انہوں نے یہ سمجھ لیا ہے کہ اس حدیث میں یہ ذکر ہے کہ عہد رسالت اور عہد صدیقی میں بھی لوگ بکثرت طلاق دیتے تھے ، جبکہ اس حدیث میں ایسا قطعا نہیں ہے اس میں تو صرف عہد فاروقی میں بکثرت طلاق دینے کا ذکر ہے ۔
بلکہ اسی حدیث میں یہ بیان ہے کہ لوگ اس سے پہلے ایسا نہیں کرتے تھے یعنی اس سے قبل عہد صدیقی اور اس سے بھی قبل عہد رسالت میں بکثرت طلاق دینے کے واقعات نہیں ہوتے تھے بلکہ شاذو نادر ہی لوگ طلاق دیتے تھے ۔
ظاہر ہے کہ جب عہد رسالت اور عہد صدیقی میں طلاق کے واقعات شاذو نادر ہی ہوتے تھے تو وہ تواتر کے ساتھ کیسے نقل کئے جاسکتے جیساکہ ابوالعباس القرطبی سوچ رہے ہیں !
ابوالعباس قرطبی نے اسی غلط فہمی کی بنیاد پر یہ بھی سوال اٹھا یا ہے کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ عہد رسالت اور عہد صدیقی جیسے مبارک دور میں لوگ ایک ساتھ تین طلاق کثرت کے ساتھ دیں جو کہ حرام ہے؟َ
عرض ہے کہ حدیث میں یہ بیان ہے ہی نہیں بلکہ اس کے برعکس یہ بیان ہے کہ عہد فاروقی میں لوگوں نے کثرت سے طلاق دینا شروع کردیا اور اس سے پہلے یہ معاملہ نہیں تھا۔
 ❀ ثانیا:
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے نیچے طبقے میں کہیں تفرد نہیں ہے ، جیساکہ آگے وضاحت آرہی ہے ، اور عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ ایک صحابی ہیں اور جب صحابہ تک کوئی بات ثابت ہوجائے تو ان پر تفرد کی بنیاد پرکوئی کلام قطعا نہیں کیا جاسکتا ۔

امام ابن القيم رحمه الله (المتوفى751) نے کہا:
”وهذا أفسد من جميع ما تقدم ولا ترد أحاديث الصحابة وأحاديث الأئمة الثقات بمثل هذا فكم من حديث تفرد به واحد من الصحابة لم يروه غيره وقبلته الأمة كلهم فلم يرده أحد منهم وكم من حديث تفرد به من هو دون طاوس بكثير ولم يرده أحد من الأئمة ولا نعلم أحدا من أهل العلم قديما ولا حديثا قال : إن الحديث إذا لم يروه إلا صحابي واحد لم يقبل وإنما يحكي عن أهل البدع ومن تبعهم في ذلك“ 
”یہ اعتراض گذشتہ تمام اعتراضات میں سب سے زیادہ فاسد ہے ، اس طرح کے اعتراضات سے صحابہ اور ثقہ ائمہ کی احادیث رد نہیں کی جاتیں ، چنانچہ کتنی ہی ایسی احادیث ہیں جن کی روایت میں کوئی ایک صحابی منفرد ہے ، اس کے علاوہ اس حدیث کو کسی بھی دوسرے صحابی نے روایت نہیں کیا ، اور پوری امت نے اس حدیث کو قبول کیا ہے ، امت میں کسی نے بھی ایسی حدیث کو رد نہیں کیا ہے ، بلکہ کتنی ایسی حدیث ہے جسے راویت کرنے میں طاوس سے کم تر درجہ کا راوی منفرد ہے اور ائمہ میں سے کسی نے بھی اسے رد نہیں کیا ہے ،اور ہم قدیم وجدید کسی بھی دور کے کسی بھی صاحب علم کو نہیں جانتے جس نے یہ کہا ہو کہ: اگر کسی حدیث کو صرف ایک ہی صحابی روایت کرے تو وہ مقبول نہیں ہوگی ، اس طرح کی بات تو اہل بدعت اور ان کی پیروی کرنے والے سے نقل کی جاتی ہیں“ [إغاثة اللهفان 1/ 295]

جمال الدين القاسمي (المتوفى 1332 ) فرماتے ہیں:
”لا يضر صحة الحديث تفرد صحابي به“ 
”صحابی کا کسی حدیث کی روایت میں منفرد ہونا اس کی صحت کے لئے مضر نہیں ہے“ [قواعد التحديث من فنون مصطلح الحديث ص 99]

بلکہ صحابی تو جانیں دیں بعد کے محدثین میں بھی کوئی اعلی درجے کا محدث وامام ہو تو اس کا تفرد بھی بلاچوں چرا مقبول ہے ۔ بلکہ یہ تفرد اس امام کے کمال حفظ اور وسعت معلومات کی دلیل ہے جیساکہ امام ذہبی نے یہ وضاحت کی ہے تفصیل کے لئے دیکھئے ہماری کتاب [انوار التوضیح لرکعات التراویح ص 119تا 120 ]

امير صنعاني رحمه الله (المتوفي1182) اس اعتراض پر رد کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
”وهذا مجرد استبعاد، فإنه كم من سنة وحادثة انفرد بها راو، ولا يضر سيما مثل ابن عباس حبر الأمة“ 
 ”یہ محض خود سے بعید سمجھ لیا گیا ہے ، ورنہ کتنی سنت اور کتنے حادثے ایسے ہیں جنہیں روایت کرنے میں کوئ ایک ہی راوی منفرد ہے ، اور اس کا انفراد مضر نہیں ہوتا ہے بالخصوص جب حبر الامہ ابن عباس رضی اللہ عنہ جیسی شخصیت ہو“ [سبل السلام 2/ 252]

یادرہے کہ تفرد کسی مستقل واقعہ یا حدیث کو تنہا نقل کرنے کو کہتے جو کہ فی نفسہ کوئی عیب کی بات نہیں ہے ، البتہ اگر کسی واقعہ یا حدیث کو کئی لوگ نقل کرنے والے ہوں پھر ان میں کوئی ایک ناقل دوسروں کے خلاف یا ان سے علیحدہ بات نقل کرے تو اسے قرائن کی روشنی میں پرکھ کراس پر زیادت ثقہ یا شاذ کا حکم لگاتے ہیں ۔
بہر حال جب کبار ائمہ کا تفرد قابل قبول ہوتا ہے تو کسی صحابی کے تفرد پر سوال اٹھانے کی کوئی گنجائش ہی نہیں ہے ۔
 ❀ ثالثا:
ابوسعید الخدری رضی اللہ عنہ نے یہ بیان کیا ہے کہ ہم اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں فطرہ میں کھجور ، جو ، پنیر اور کشمش نکالتے تھے جیساکہ آگے یہ حدیث آرہی ہے۔ان میں کجھور اور جو کا ذکر ابن عمر رضی اللہ عنہ نے بھی کیا ہے کما سیاتی ، لیکن پنیر اور کشمش نکالنے والی بات تمام صحابہ کے سلسلے میں صرف اور صرف ابوسعید الخدری رضی اللہ عنہ نے بیان کی ہے۔
ابوالعباس القرطبی رحمہ اللہ کو تو طلاق کے سلسلے میں تعجب ہورہا ہے جو کہ بہت کم لوگوں کے ساتھ پیش آتا ہے اور جن کے ساتھ پیش آتا ہے وہ بھی زندگی میں کبھی کبھار کا واقعہ ہوتا ہے، لیکن فطرہ نکالنے کا عمل تو ہر ہر گھر بلکہ گھر کے ہر ہر فرد کی طرف سے ہوتا تھا اور یہ عمل ہرسال پابندی کے ساتھ اور لازمی طور پر ہوتا تھا ، عہد رسالت میں تمام صحابہ وصحابیات اور تمام گھرانوں کا اسی پر عمل تھا ۔
لیکن اس عمل میں ان تمام صحابہ وصحابیات اور تمام گھرانوں کی طرف نسبت کرتے ہوئے صرف اور صرف ابوسعید الخدری رضی للہ عنہ نے بیان کیا کہ ہم سب فطرہ میں پنیر اور کشمش نکالتے تھے ۔اب ذرا سوچئے کہ ابوالعباس القرطبی رحمہ اللہ کے اصول کو اس حدیث پراپلائی کردیا جاے تو اس حدیث کا کیا حشر ہوگا۔
 بہر حال جب صحابی تک کوئی بات ثابت ہوجائے تو صحابی کے تفرد کو بنیاد بنا کر اس کی بات کو رد کرنے کی قطعا کوئی گنجائش نہیں ہے ۔

(ب): امام طاؤوس رحمہ اللہ پر اعتراض
 ✿ امام طاؤوس رحمہ اللہ کے حفظ پر اعتراض:
امام طاووس رحمہ اللہ بالاتفاق ثقہ وحجت راوی ہيں ، امام بخاری رحمہ اللہ اور امام مسلم رحمہ اللہ سمیت کتب ستہ کے تمام مصنفین نے ان سے روایت کی ہے ۔ بلکہ حدیث کی مشہور حدیث کی تمام بڑی کتابوں میں ان کی روایات موجود ہیں۔نیز تمام ائمہ جرح و تعدیل نے بالاتفاق انہیں ثقہ قرار دیا ہے چنانچہ:

امام ابن معين رحمه الله (المتوفى233)نے کہا:
”ثقة“ ، ”آپ ثقہ ہیں“ [الجرح والتعديل لابن أبي حاتم: 4/ 500 واسنادہ صحیح ]

امام أبو زرعة الرازي رحمه الله (المتوفى264)نے کہا:
 ”ثقة“ ، ”آپ ثقہ ہیں“ [الجرح والتعديل لابن أبي حاتم: 4/ 500]

امام نووي رحمه الله (المتوفى676)نے کہا:
 ”اتفقوا على جلالته وفضيلته، ووفور علمه، وصلاحه، وحفظه، وتثبته“ 
 ”آپ کی جلالت وفضیلت ، وافر علم ، دینداری اور حفظ و ضبط پر سب کا اتفاق ہے“ [تهذيب الأسماء واللغات للنووى: 1/ 251]

امام ذهبي رحمه الله (المتوفى748)نے کہا:
 ”وحديثه في دواوين الإسلام، وهو حجة باتفاق“ 
 ”طاووس کی حدیث اسلام کی بڑی کتب میں ہیں اور وہ بالاتفاق حجت ہیں“ [سير أعلام النبلاء للذهبي: 5/ 39]

حافظ ابن حجر رحمه الله (المتوفى852)نے کہا:
 ”ثقة فقيه فاضل“ ، ”آپ ثقہ ، فقیہ اور فاضل ہیں“ [تقريب التهذيب لابن حجر: رقم3009]

ہمارے علم کی حدتک کسی بھی ناقد امام نے ان پر کوئی جرح نہیں کی ہے اسی لئے امام ذہبی رحمہ اللہ نے بالاتفاق حجت قرار دیا ہے۔اسی طرح امام نووی رحمہ اللہ نے بھی ان کی عدالت وجلالت اور ان کے حفظ و ضبط پر اتفاق نقل کیا ہے۔

لیکن افسوس ہے کہ بعض مقلدین نے محض اپنے مسلکی تعصب میں ان کے حفظ کو نشانہ بنا لیا چنانچہ:
چودہویں صدی کے ایک حنفی مفسر أبو بكر الجصاص الحنفي (المتوفى 370 ) نے امام طاووس کا ایک فتوی اور انہیں کے واسطے ابن عباس رضی اللہ عنہ سے بھی وہی فتوی نقل کرکے کہا:
 ”ويقال هذا مما أخطأ فيه طاوس“ 
 ”کہا جاتا ہے کہ طاووس نےاس میں غلطی کی ہے“ [أحكام القرآن للجصاص ط العلمية 1/ 479]
عرض ہے کہ:
یہاں ابوبکر الجصاص حنفی نے تاثر یہ دیا ہے کہ لوگوں نے ان کو روایت بیان کرنے میں غلط کہا ہے یعنی ان کے حفظ پر جرح کی ہے ، جبکہ یہ قطعا غلط ہے کیونکہ ان کے حافظ وضابط ہونے پر تو تمام ائمہ نقد کا اتفاق ہے جیساکہ اوپر نقل کیا گیا ۔
دراصل معاملہ یہ ہے کہ امام طاووس رحمہ اللہ نے یہ فتوی دیا کہ خلع طلاق نہیں ہے بلکہ فسخ نکاح اور افتراق ہے ، تو ان کے بعض معاصرین نے ان کے اسی فتوی کو غلط کہا جس پر امام طاووس رحمہ اللہ نے اپنی تائید میں ابن عباس رضی اللہ عنہ کا بھی یہی فتوی نقل کیا ، چنانچہ:
 محمد بن إسحاق المكي الفاكهي (المتوفى 272) نے کہا:
 ”حدثنا محمد بن منصور، قال: ثنا سفيان، عن ابن أبي نجيح، قال: تكلم طاوس، فقال: الخلع ليس بطلاق، إنما هو فراق ، فأنكر ذلك عليه أهل مكة، فقالوا: إنما هو طلاق، فاعتذر إليهم، وقال: لم أقل هذا، إنما قاله ابن عباس رضي الله عنهما“ 
 ”ابن ابی نجیح کہتے ہیں کہ طاووس نے فتوی دیا اور کہا: خلع طلاق نہیں ہے بلکہ افتراق ہے ، تو اہل مکہ نے اس بات کو غلط قرار دیتے ہوئے ان پر نکیر کی اور کہا بلکہ یہ طلاق ہے ، تو طاووس رحمہ اللہ نے اپنی تائید میں کہا کہ : یہ بات میں ہی نہیں کہتا بلکہ ابن عباس رضی اللہ عنہ نے بھی یہ فتوی دیا ہے“ [أخبار مكة للفاكهي 3/ 70 وإسناده حسن ، وقال الحافظ في الفتح 9/ 403 : أخرج إسماعيل القاضي بسند صحيح عن بن أبي نجيح...فذكره ]
معلوم ہوا کہ :
لوگوں نے امام طاووس کے فتوی کو غلط کہا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ دلائل کے اعتبار سے امام طاووس اور ابن عباس رضی اللہ عنہ ہی کا فتوی ہی درست ہے اور ان کو غلط کہنے والے خود غلطی پرہیں ۔
لیکن بالفرض مان لیں کہ اس فتوی میں امام طاووس نے غلطی کی ہے تو یہ روایت کوبیان کرنے میں حافطہ کی غلطی نہیں ہے ، بلکہ فتوی دینے میں علمی غلطی ہے ، اور فتوی میں غلطی سے کوئی بھی پاک نہیں ہے ، اسی لئے علمی دنیا میں یہ اصول ہے کہ ”الْمُجْتَهد قد يُصِيب وَقد يُخطئ“ یعنی ”مجتہد کبھی صحیح فتوی دیتا ہےاور کبھی اس سے غلطی ہوجاتی ہے“ ۔
نیز ابوبکر الجصاص حنفی نے آگے جو یہ نقل کیا کہ:
 ”قالوا: وكان أيوب يتعجب من كثرة خطإ طاوس“ 
 ”لوگوں نے کہا: ایوب تعجب کرتے تھے کہ طاووس کتنی کثرت سے غلطی کرتے ہیں“ [أحكام القرآن للجصاص ط العلمية 1/ 479]
عرض ہے کہ اول تو یہ بات بے سند و بے حوالہ ہے،کتب رجال کے مصنفین نے طاووس کے ترجمہ میں ایوب کے ایسے کسی قول کا تذکرہ نہیں کیا ہے ، لہٰذا یہ مردود و غیرمقبول ہے ، دوسرے یہ کہ ممکن ہے ایوب کی مراد بھی فتوی دینے میں غلطی ہو جیساکہ اوپر کی روایت میں ہے کہ اہل مکہ نے ان کے فتوی کو غلط کہا ، تو یہ حافظہ پرکلام نہیں ہے اسی لئے کتاب رجال میں طاووس کے ترجمہ میں یہ قول ذکر نہیں ہے ، بہرحال یہ قول ثابت نہیں لہٰذا اس کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔

اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ امام طاووس کے ہم عصر وں نے ان کے فتوی کو غلط کہا تھا نا کہ ان کی روایت کو ، اس لئے أبو بكر الجصاص الحنفي کا یہ تاثر دینا بالکل غلط ہے کہ طاووس کے ہم عصروں نے یا متقدمین نے طاووس کے حفظ پر کوئی جرح کی ہے۔

البتہ خود أبو بكر الجصاص الحنفي نے طاووس کے حفظ پر اپنی طرف سے جرح کی ہے چنانچہ آگے کہا:
 ”وكان كثير الخطإ مع جلالته وفضله وصلاحه يروي أشياء منكرة“ 
 ”طاوس اپنی جلالت شان اور فضل و دینداری کے باوجود منکر چیزیں روایت کرتے تھے“ [أحكام القرآن للجصاص ط العلمية 1/ 479]
اس کا جواب یہ ہے کہ:
 ● اولا:
 أبو بكر الجصاص الحنفي ائمہ ناقدین میں سے نہیں ہیں اس لئے ان کا نقد مردود ہے۔
 ● ثانیا:
 أبو بكر الجصاص الحنفي نے مذکورہ جرح کے لئے اس بات کو بنیاد بنایا ہے کہ طاووس نے ابن عباس رضی اللہ عنہ سے یہ فتوی نقل کردیاکہ خلع طلاق نہیں ہے ، جبکہ ابن عباس سے ایسا کوئی دوسرا روایت نہیں کرتا ۔
 أبو بكر الجصاص الحنفي نے اس سلسلے میں طاووس کی روایت اس طرح نقل کی ہے:
 ”حدثنا عبد الباقي بن قانع قال: حدثنا علي بن محمد قال: حدثنا أبو الوليد قال: حدثنا شعبة قال: أخبرني عبد الملك بن ميسرة قال: سأل رجل طاوسا عن الخلع، فقال: ليس بشيء; فقلت: لا تزال تحدثنا بشيء لا نعرفه فقال: والله لقد جمع ابن عباس بين امرأة وزوجها بعد تطليقتين وخلع“ 
 ”عبد الملك بن ميسرة کہتے ہیں کہ ایک شخص نے طاوس سے خلع کے بارے میں سوال کیا تو انہوں نے کہا: ”ليس بشيء“ یعنی خلع سے کوئی طلاق واقع نہیں ہوگی، تو میں نے کہا: آپ ہمیں ایسی بات بتاتے ہیں جو ہمیں کہیں اور معلوم نہیں ہوتی تو طاووس نے کہا: اللہ کی قسم( یہ صرف میں نہیں کہتا بلکہ ) ابن عباس رضی اللہ عنہ نے ایک عورت اور اس کے شوہر کو جمع کردیا جن کے بیچ دو طلاق ہوچکی تھی اورپھر خلع ہوا تھا(یعنی ابن عباس نے خلع کو طلاق نہیں مانا ورنہ کل تین طلاق ہوجاتی پھر دونوں کو جمع نہیں کیا جاسکتا تھا)“ [أحكام القرآن للجصاص ط العلمية 1/ 479]
عرض ہے کہ:
 یہ بنیاد ہی سرتاسر غلط ہے کہ اس فتوی کو ابن عباس رضی اللہ عنہ سے صرف طاووس ہی نے نقل نہیں کیا ہے بلکہ امام عطاء رحمہ اللہ نے بھی نقل کررکھا ہے چنانچہ:
 امام أبو بكر النيسابوري (المتوفى 324) نے کہا:
”حماد بن الحسن، نا حماد بن مسعدة، عن ابن جريج، عن عطاء، عن ابن عباس، وابن الزبير، قالا: المختلعة يطلقها زوجها: قالا: إن طلق امرأته إنما يطلق ما لا يملك ما لا يملك“ 
”ابن عباس اور ابن زبیر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے مختلعہ کو اس کا شوہر طلاق دے تو اس بارے میں انہوں نے فرمایا: یہ ایسی طلاق دے رہا ہے جس کا وہ مالک نہیں ہے“ [الزيادات على كتاب المزني ص: 550 وإسناده صحيح]

 امام ابن أبي شيبة رحمه الله (المتوفى235) نے کہا:
 ”من قال لا يلحقها الطلاق : حدثنا ابن المبارك، عن ابن جريج، عن عطاء، عن ابن عباس وابن الزبير؛ أنهما قالا: ليس بشيء“ 
 ”ان کا بیان جنہوں نے یہ فتوی دیا کہ خلع طلاق نہیں ہے ، عطاء رحمہ اللہ ابن عباس اور ابن زبیر رضی اللہ عنہما سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا : ”ليس بشيء“ یعنی خلع سے کوئی طلاق واقع نہیں ہوگی“ [مصنف ابن أبي شيبة، ط الفاروق 6/ 444 وإسناده صحيح]
ثابت ہوا کہ ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مذکورہ فتوی نقل کرنے میں امام طاووس منفرد نہیں بلکہ امام عطا نے بھی ان کی متابعت کی ہے ۔

 أبو بكر الجصاص الحنفي نے طاووس پر کلام کے لئے دوسری بنیاد یہ ذکر کی ہے کہ طاووس نے ابن عباس سے تین طلاق کے ایک ہونے کا فتوی ذکر کیا جب کہ دوسروں نے ابن عباس سے تین طلاق کے تین ہونے کا فتوی ذکرکیا چنانچہ أبو بكر الجصاص الحنفي نے کہا:
 ”منها أنه روى عن ابن عباس أنه قال: من طلق ثلاثا كانت واحدة وقد روي من غير وجه عن ابن عباس: أن من طلق امرأته عدد النجوم بانت منه بثلاث“ 
 ”طاووس کی منکر روایت میں سے یہ بھی ہے کہ انہوں نے ابن عباس رضی اللہ عنہ کا یہ قول نقل کیا کہ جو تین طلاق سے دے اس کی ایک طلاق مانی جائے گی ، جبکہ ابن عباس رضی اللہ عنہ سے دیگر کئی طرق سے مروی ہے کہ انہوں نے کہا: جس نے اپنی بیوی کو ستاروں کی تعداد کے برابر طلاق دی تو تین طلاق سے اس کی بیوی جدا ہواجاے گی“ [أحكام القرآن للجصاص ط العلمية 1/ 479]
عرض ہے کہ:
ابن عباس رضی اللہ عنہ کا یہ فتوی بھی صرف طاووس نے ہی نقل نہیں کیا ہے بلکہ عکرمہ وغیرہ نے بھی ابن عباس رضی اللہ عنہ سے یہی فتوی نقل کیا جیسا کہ آگے تفصیل آرہی ہے۔لہٰذا یہ دوسری بنیاد بھی غلط ہے۔

تنبیہ :
”السیر الحاث: ص 29“ میں أبو بكر الجصاص الحنفي کی احکام القران میں موجود مذکورہ باتوں کو قاضی اسماعیل کی احکام القرآن کے حوالے سے نقل کیا گیا ہے ، اور اسی پر اعتماد کرتے ہوئے زاہد کوثری نے بھی ایسے ہی نقل کیا ہے [اشفاق في أحكام الطلاق ص 49 ]
 لیکن قاضی اسماعیل کی احکام القران میں طلاق کا جو بھی حصہ ہیں اس میں ان باتوں میں سے ایک بات بھی موجود نہیں ہے ، واضح رہے کہ ابوبکر الجصاص حنفی ہیں جبکہ قاضی اسماعیل مالکی ہیں۔

بہر حال  امام طاووس رحمہ اللہ کے عادل وضابط اور حجت پر تمام ائمہ نقد کا اتفاق ہے ان کے برخلاف أبو بكر الجصاص الحنفي کا ان کے حافطہ بے بنیاد باتوں کا سہارا لیکر کلام کرنا مردود ہے۔

 فائدہ :
حنفی حضرات بہت سارے مقامات پر امام طاووس کی روایت کردہ حدیث سے دلیل لیتے ہیں مثلا دیکھیں : حدیث اور اہل حدیث( ص 254 حدیث نمبر 6 )اس کی سند میں امام طاووس موجود ہیں۔

✿ امام طاؤوس رحمہ اللہ پرشذوذ کا اعتراض:
بعض لوگوں کا یہ اعتراض ہے کہ ابن عباس رضی اللہ عنہ سے اس روایت کو اس طرح صرف طاؤوس نے بیان کیاہے ، جبکہ ابن عباس رضی اللہ عنہ کے دیگر کئی شاگردوں نے ابن عباس رضی اللہ عنہ سے یہ روایت کیا ہے کہ انہوں نے تین طلاق کے ایک ہونے کا فتوی دیا ہے لہٰذا طاؤوس کی روایت شاذ ہے ۔حافظ ابن حجررحمہ اللہ نے یہ اعتراض امام بیہقی رحمہ اللہ کی طرف منسوب کیا ہے[فتح الباري لابن حجر، ط المعرفة: 9/ 363]

امام بيهقي رحمه الله (المتوفى458) فرماتے ہیں:
”وهذا الحديث أحد ما اختلف فيه البخارى ومسلم فأخرجه مسلم وتركه البخارى وأظنه إنما تركه لمخالفته سائر الروايات عن ابن عباس“ 
 ”یہ ان احادیث میں سے ہے جس کو روایت کرنے میں بخاری ومسلم نے اختلاف کیا ہے ، مسلم نے اسے روایت کیا اور بخاری نے اس کی روایت ترک کردی ہے اور میراگمان ہے کہ بخاری نے اس کی روایت اس لئے ترک کی کہ یہ ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی دیگرروایات کے خلاف ہے“ [السنن الكبرى للبيهقي، ط الهند: 7/ 336]
عرض ہے کہ:
امام بخاری نے روایت نہیں کیا ہے لیکن امام مسلم وغیرہ نے تو روایت کیا ہے ، اور جہاں تک امام بخاری کا اسے روایت نہ کرنا ہے تو اس بات کی کوئی دلیل نہیں ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اسے شاذ سمجھ کر روایت نہیں کیا ہے اور امام بیہقی رحمہ اللہ نے محض اپناگمان ذکرکیا اس پر کوئی دلیل ذکر نہیں ہے ۔
یادرہے کہ احادیث کا ایک بہت بڑا ذخیرہ ہے جسے امام بخاری رحمہ اللہ نے روایت نہیں کیا ہے لیکن اس کا یہ مطلب قطعا نہیں ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ کی نظر میں یہ احادیث شاذ یا ضعیف ہیں ۔
امام ابن عدي رحمه الله (المتوفى365) نے کہا:
 ”سمعت الحسن بن الحسين البخاري يقول: سمعت إبراهيم بن معقل يقول: سمعت محمد بن إسماعيل البخاري يقول: ما أدخلت في «كتاب الجامع» إلا ما صح وتركت من الصحاح لحال الطول“ 
 ”امام ابراہیم بن معقل رحمہ اللہ کہتے ہیں میں نے امام بخاری رحمہ اللہ کو فرماتے ہوئے سنا: میں نے اپنی کتاب جامع (صحیح بخاری) صرف صحیح احادیث ہی درج کی ہیں ، اور بہت سی صحیح احادیث کو طوالت کے خوف سے ترک کردیا ہے“ [الكامل لابن عدي طبعة الرشد: 1/ 317 وإسناده صحيح ومن طريق ابن عدي أخرجه الخطيب في تاريخ بغداد 2/ 327 وأبو يعلى الفراء في طبقات الحنابلة 1/ 275 والخليلي في الإرشاد 3/ 3962 وغيرهم]

امام بخاری رحمہ اللہ کا یہ اعلان واضح دلیل ہے کہ جن احادیث کی روایت کو امام بخاری نے ترک کردیا ہے ان میں بہت سی احادیث نہ صرف صحیح ہیں بلکہ خود امام بخاری رحمہ اللہ کی نظر میں بھی صحیح ہیں ۔
امام أبو بكر الإسماعيلي(المتوفی371 ) رحمہ اللہ نے بھی امام بخاری کا یہ قول روایت کیا ہے اور اس کے بعدکہا:
 ”فإخراجه ما أخرج صحيح محكوم بصحته وليس ترك ما ترك حكما منه بإبطاله“ 
 ”امام بخاری رحمہ اللہ نے جس حدیث کو (صحیح بخاری میں) روایت کردیا تو اس کی صحت کا فیصلہ کردیا ، اور جن احادیث کی روایت کو ترک کردیا تو ان احادیث کے باطل ہونے کا انہوں نے فیصلہ نہیں کیا ہے“ [تغليق التعليق لابن حجر: 5/ 426 نقلا عن المدخل إلى المستخرج للإسماعيلي]

معلوم ہوا کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے جن احادیث کی روایت ترک کی ہے ان کے بارے میں بغیرکسی دلیل کے امام بخاری رحمہ اللہ کی طرف یہ منسوب کرنا کہ انہوں نے ان احادیث کو ضعیف مانا ہے ، بالکل غلط بات ہے ۔
رہا امام بیہقی رحمہ اللہ کا یہ کہنا کہ صحیح مسلم کی یہ حدیث ، ابن عباس سے مروی دیگر احادیث کے خلاف ہے تو اسی طرح کا اعتراض امام ابن عبد البر (المتوفى463) امام ابن رشد(المتوفى 595 ) وغیرہم رحمہم اللہ نے پیش بھی  کیاہے۔

عرض ہے کہ:
امام بیہقی رحمہ اللہ ہی نے قرات خلف الامام کے مسئلہ میں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مرفوعا مروی ایک حدیث پر یہ اعتراض کیا کہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ہی سے موقوفا مروی حدیث اس کے خلاف ہے تو یہ اعتراض نقل کرکے اس کا جواب دیتے ہوئے مولانا سرفرازصفدر صاحب لکھتے ہیں:
 ”اعتراض : بیہقی رحمہ اللہ اس پر یہ اعتراض کرتے ہیں کہ اصل روایت میں لاصلاۃ خلف الامام کا جملہ نہیں ہے جیساکہ علاء بن عبدالرحمن رحمہ اللہ نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کا موقوف اثر نقل کیا ہے اور اس میں یہ جملہ مذکور نہیں ہے..الخ 
جواب: یہ اعتراض چنداں وقعت نہیں رکھتا اولا: اس لئے کہ مرفوع حدیث کو موقوف اثر کے تابع بناکر مطلب لینا خلاف اصول ہے ۔ وثانیا : اس کی بحث اپنے مقام پر آئے گی کہ اعتبار راوی کی مرفوع حدیث کا ہوتا ہے اس کی اپنی ذاتی رائے کااعتبار نہیں ہوتا“ [احسن الکلام 1/ 298]
مولانا سرفرازصفدر نے ایک دوسرے مقام پر لکھا:
 ”روایت کے مقابلے میں راوی کی رائے کا کوئی اعتبار نہیں ہوتا“ [احسن الکلام 2/ 118]

اس کے بعد آئیے یہ مخالف روایات بھی دیکھ لیتے ہیں پھر اس کے مزید جوابات پیش کرتے ہیں ، ہماری نظر میں اس بابت ابن عباس رضی اللہ عنہ کے صرف چھ شاگردوں کی روایات ثابت ہیں ، ملاحظہ ہوں:

① روایت مجاهد
”حدثنا حميد بن مسعدة، حدثنا إسماعيل، أخبرنا أيوب، عن عبد الله بن كثير، عن مجاهد قال: كنت عند ابن عباس فجاءه رجل، فقال: إنه طلق امرأته ثلاثا، قال: فسكت حتى ظننت أنه رادها إليه، ثم قال: ينطلق أحدكم، فيركب الحموقة ثم يقول يا ابن عباس، يا ابن عباس، وإن الله قال: {ومن يتق الله يجعل له مخرجا} ، وإنك لم تتق الله فلم أجد لك مخرجا، عصيت ربك، وبانت منك امرأتك“ 
 ”مجاہد کہتے ہیں کہ میں ابن عباس رضی اللہ عنہ کے پاس بیٹھا ہوا تھا تو ان کے پاس ایک شخص آیا اور کہا کہ اس نے اپنی بیوی کو تین طلاق دے دی ہے ، اس پر ابن عباس رضی اللہ عنہ خاموش رہے یہاں تک مجھے ایسا لگا کہ ابن عباس رضی اللہ عنہ اس کی بیوی کو اس کی طرف لوٹا دیں گے ۔ پھر ابن عباس رضی اللہ عنہ نے کہا: تم لوگوں میں کوئی حماقت کرتا ہے پھر اے ابن عباس ! اے ابن عباس ! کہتا ہے ، اللہ تعالی کا فرمان ہے : جو اللہ سے ڈرتا ہے اللہ اس کے لئے مشکل سے نکلنے کوئی راستہ پیدا کردیتا ہے ، اور تم اللہ سے نہیں ڈرے اس لئے میں تمہارے لئے مشکل سے نکلنے کوئی راہ نہیں پاتا ، تم نے اپنے رب کی نافرمانی کی تمہاری بیوی تم سے جدا ہوگئی ہے“ [سنن أبي داود 2/ 260 رقم 2197 وإسناده صحيح ]

 ② روایت عمر بن دینار:
 ”حدثنا إسماعيل بن إبراهيم، عن أيوب، عن عمرو؛ سئل ابن عباس عن رجل طلق امرأته عدد النجوم؟ فقال: يكفيه من ذلك رأس الجوزاء“ 
 ”عمربن دینار کہتے ہیں کہ ابن عباس رضی اللہ عنہ سے ایک شخص کے بارے میں پوچھا گیا جس نے اپنی بیوی کو ستاروں کی تعداد کے برابر طلاق دے دی ، تو ابن عباس رضی اللہ عنہ نے کہا: ان میں رأس الجوزاء نامی تین ستاروں کی تعداد کافی ہوجائے گی (یعنی اس سے بیوی پر تین طلاق پڑ جائے گی)“ [مصنف ابن أبي شيبة، ط الفاروق 6/ 334 وإسناده صحيح]

 ③ روایت محمد بن إياس بن البكير
 ”عن ابن شهاب، عن محمد بن عبد الرحمن بن ثوبان، عن محمد بن إياس بن البكير، أنه قال: طلق رجل امرأته ثلاثا قبل أن يدخل بها، ثم بدا له أن ينكحها، فجاء يستفتي، فذهبت معه أسأل له، فسأل عبد الله بن عباس وأبا هريرة عن ذلك فقالا: لا نرى أن تنكحها حتى تنكح زوجا غيرك، قال: فإنما طلاقي إياها واحدة، قال ابن عباس: إنك أرسلت من يدك ما كان لك من فضل“ 
 ”محمدبن ایاس بن بکیر کہتے ہیں کہ ایک شخص نے اپنی بیوی کو دخول سے پہلے تین طلاق دے دیا ، پھر وہ اسی سے دوبارہ نکاح کرنا چاہا تو فتوی پوچھنے کے لئے آیا ، میں بھی اس کے ساتھ اس کے لئے فتوی پوچھنے چلاگیا ، تو اس نے ابن عباس اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہما سے اس بارے میں سوال کیا : تو دونوں نے جواب دیا : ہم یہ نہیں سمجھتے کہ تم اس سے شادی کرسکتے ہو جب تک کہ وہ دوسرے شوہر سے شادی نہ کرلے ، تو اس نے کہا: میں نے ایک ہی جملے میں طلاق دی تھی ، تو ابن عباس رضی اللہ عنہ نے کہا: تمہارے ہاتھ میں جو بھی اضافی طلاقیں تھیں تم نے سب ایک ساتھ دے ڈالیں“ [موطأ مالك ت عبد الباقي: 2/ 570 رقم 37 وإسناده صحيح ]

 ④ روایت عمران بن الحارث السلمي
 ”نا هشيم، قال: أنا الأعمش، عن عمران بن الحارث السلمي، قال: جاء رجل إلى ابن عباس، فقال: ”إن عمه طلق ثلاثا، فندم. فقال: عمك عصى الله فأندمه، وأطاع الشيطان فلم يجعل له مخرجا. قال: أرأيت إن أنا تزوجتها عن غير علم منه، أترجع إليه؟ فقال: من يخادع الله عز وجل يخدعه الله“ 
 ”عمران بن الحارث السلمی بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص ابن عباس رضی اللہ عنہ کے پاس آیا اور کہا کہ ان کے چچا نے تین طلاق دے دی اب وہ نادم ہیں ، تو ابن عباس رضی اللہ عنہ نے کہا : تمہارے چچا نے اللہ کی نافرمانی کی تو اللہ نے انہیں شرمندہ کیا اور شیطان کی اطاعت کی اس لئے ان کی خاطرکوئی راستہ پیدا نہیں کیا ۔ تو اس شخص نے کہا: آپ کا كيا خیال ہے اگر میں ان کے علم کے بغیر اس عورت سے شادی کرلوں (پھر طلاق دے دوں ) تو اس کے بعد وہ میرے چچا کے پاس لوٹ (کردوبارہ شادی کر) سکتی ہے؟ ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ”جو اللہ کو دھوکہ دے گا اللہ اسے دھوکہ میں ڈال دے گا“ [سنن سعيد بن منصور، ت الأعظمي: (1/ 300) رقم (1065) وإسناده صحيح ، ومن طريق سعيد بن منصور أخرجه ابن بطة في ”إبطال الحيل“ (ص: 48) وقد صرح الأعمش عنده بالسماع ]

 ⑤ روایت سعيد بن جبير:
 ”عن الثوري، عن عمرو بن مرة، عن سعيد بن جبير قال: جاء ابن عباس رجل فقال: طلقت امرأتي ألفا، فقال ابن عباس: «ثلاث تحرمها عليك، وبقيتها عليك وزرا. اتخذت آيات الله هزوا»“ 
 ”سعید بن جبیر کہتے ہیں کہ ایک شخص ابن عباس رضی اللہ عنہ کے پاس آیا اور کہا: میں نے اپنی بیوی کو ہزار طلاق دے دی ، تو ابن عباس رضی اللہ عنہ کہا: تین طلاق نے تیری بیوی کو تجھ پر حرام کردیا اور بقیہ کا تجھ پر گناہ ہے تو نے اللہ کی آیات کو مزاق بنایا“ [مصنف عبد الرزاق، ت الأعظمي: 6/ 397 وإسناده صحيح ]

⑥ روایت عنترة بن عبد الرحمن:
 ”حدثنا عباد بن العوام، عن هارون بن عنترة، عن أبيه، قال: كنت جالسا عند ابن عباس فأتاه رجل فقال: يا ابن عباس، إنه طلق امرأته مئة مرة، وإنما قلتها مرة واحدة فتبين مني بثلاث، هي واحدة؟ فقال: بانت منك بثلاث، وعليك وزر سبعة وتسعين“ 
 ”عنترة بن عبد الرحمن کہتے ہیں کہ میں ابن عباس رضی اللہ عنہ کے پاس بیٹھا ہوا تھا کہ ان کے پاس ایک شخص آیا اور کہا: اے ابن عباس ! بندے نے اپنی بیوی کو سو طلاق دے دی ہے اور میں نے ایک ہی مرتبہ میں کہا ہے تو کیا ان تین طلاق سے بیوی جدا ہوجائے گی جب کہ میں نے ایک ہی بار کہا ہے؟ تو ابن عباس رضی اللہ عنہ نے کہا: تین طلاق سے تمہاری بیوی جدا ہوجائے گی اور باقی ستانوے کا تم پر گناہ ہوگا“ [مصنف ابن أبي شيبة، ط الفاروق 6/ 332 وإسناده صحيح]

اب اس پر ہمارے جوابات ملاحظہ فرمائیں:

پہلا جواب:(مرفوع اور موقوف کا فرق)
صحیح مسلم کی زیر بحث حدیث مرفوع روایت ہے جس میں عہد رسالت میں تین طلاق کو ایک قرار دینے کی بات منقول ہے ، جبکہ ابن عباس رضی اللہ عنہ کے دیگر شاگردوں کی روایات میں ابن عباس رضی اللہ عنہ کا فتوی ذکر ہے نہ کی مرفوع روایت ۔
ابو الفيض الغُمَارِي (المتوفى 1380) لکھتے ہیں:
”هؤلاء الذين ذكرهم ابن رشد لم يرووا عن ابن عباس حديثًا مرفوعًا يخالف ما رواه عنه طاوس، إنما رووا فتواه بذلك، ولا مُعارضة بين رواية الراوي ورأيه كما هو معلوم“ 
”ابن رشد نے جن شاگردوں کا تذکرہ کیا ہے ان لوگوں نے ابن عباس رضی اللہ عنہ سے کوئی مرفوع حدیث روایت نہیں کی ہے ، جو طاؤوس کی روایت کے خلاف ہو ، بلکہ ان لوگوں نے ابن عباس رضی اللہ عنہ کا فتوی نقل کیا ہے اور روای کی روایت اور اس کے فتوی میں کوئی تعارض نہیں ہوتا ہے جیساکہ معلوم ہے“ [الهداية في تخريج أحاديث البداية 7/ 14]

بطور مثال عرض ہے کہ ابن عمر رضی اللہ عنہ کے شاگرد سالم کی یہ ایک روایت دیکھئے ، امام عبد الرزاق رحمه الله (المتوفى211) نے کہا:
 ”عن معمر عن الزهري عن سالم عن بن عمر قال من طلق امرأته ثلاثا طلقت وعصى ربه“ 
 ”ابن عمررضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے کہا: جس نے اپنی بیوی کو تین طلاق دیا اس کی طلاق ہوجائے گی اوراس نے اپنے رب کی نافرمانی کی“ [مصنف عبد الرزاق، ت الأعظمي: 6/ 395 وإسناده صحيح] 

اس روایت میں ابن عمر رضی اللہ عنہ سے موقوفا ان کے شاگرد سالم نے یہ فتوی نقل کیا کہ جس نے اپنی بیوی کو تین طلاق دی تو تینوں طلاق واقع ہوجائیں گی ۔ 
لیکن دوسری طرف ابن عمر رضی اللہ عنہ کے دسیوں شاگردوں نے ان سے مرفوعا یہ روایت بیان کی ہے کہ انہوں نے حالت حیض میں اپنی بیوی کو طلاق دے دیا تھا تو اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں بیوی واپس لینے کاحکم دیا پھر انہیں طلاق دینے کا صحیح طریقہ بتایا ۔بلکہ خود سالم نے بھی ان سے یہ مرفوع روایت بیان کررکھی ہے ، یہ مرفوع روایت بشمول سالم ابن عمر رضی اللہ عنہ کے درج ذیل شاگردوں نے بیان کی ہے:
 ➊ نافع مولی ابن عمر( صحيح البخاري 7/ 41 رقم 5251 )
 ➋ سالم بن عبد الله(صحيح البخاري 6/ 155رقم 4908)
 ➌ یونس بن جبیر (صحيح البخاري 7/ 59 رقم 5333 )
 ➍ أنس بن سيرين (صحيح مسلم 2/ 1097رقم1471)
 ➎ عبداللہ بن دینار(صحيح مسلم 2/ 1095رقم 1471)
 ➏ طاوس بن کیسان (صحيح مسلم 2/ 1097رقم 1471)
➐ مغيرة بن يونس(شرح معاني الآثار 3/ 53 رقم 4464 واسنادہ حسن)
➑ میمن بن مھران (السنن الكبرى للبيهقي، ط الهند: 7/ 326 واسنادہ صحیح)
➒ شقيق بن سلمةأبو وائل (مصنف ابن أبي شيبة. سلفية: 5/ 3 واسنادہ صحیح )
➓ محمد بن مسلم ابو الزبیر (مصنف عبد الرزاق 6/ 309 رقم 10960 واسنادہ صحیح)
⓫ سعيد بن جبير (صحيح ابن حبان 10/ 81 رقم 4264 وإسناده صحيح علي شرط مسلم)

اب فریق مخالف کے اصول سے یہاں سالم کی اس روایت کو شاذ کہنا چاہئے جس میں انہوں نے ابن عمررضی اللہ عنہ سے تین طلاق کو ایک قرار دینے کا فتوی نقل کیا ہے کیونکہ ابن عمررضی اللہ عنہ کے دیگر دسیوں شاگردوں نے ان سے واقعہ طلاق حیض والی مرفوعا روایت بیان کی ہے ، بلکہ خود سالم نے بھی یہ مرفوع روایت بیان کرکھی ہے اس لئے اس معاملہ میں تو بدرجہ اولی سالم کی اس روایت کو شاذ کہنا چاہئے جس میں انہوں نے ابن عمر رضی اللہ عنہ سے موقوفا تین طلاق کے تین ہونے کا فتوی نقل کیا ہے۔
لیکن فریق مخالف یہاں ایسا نہیں کرتے بلکہ سالم کی نقل کردہ موقوف روایت کو الگ مانتے ہیں اور دیگر شاگردوں کی نقل کردہ مرفوع روایت کو الگ مانتے ہیں ۔
ہم بھی یہاں پر یہی بات کہتے ہی کہ ابن عباس رضی اللہ عنہ سے طاؤوس کی نقل کردہ مرفوع روایت الگ ہے ، اور دیگر شاگردوں کی نقل کردہ موقوف روایت الگ ہے۔اس لئے ایک کو لیکر دوسرے پر شذوذ کا اعتراض نہیں کیا جاسکتا ۔

دوسرا جواب: (الگ الگ دور کا فرق)
صحیح مسلم کی زیر بحث روایت میں عہد فاروقی کے ابتدائی دوسال سے پہلے کا معاملہ ذکر ہے ، جبکہ اس کے برخلاف ابن عباس رضی اللہ عنہ کے جو دیگر فتاوی پیش کئے جاتے ہیں اس میں یہ ذکر نہیں ہے کہ یہ فتاوی اس دور سے پہلے کے ہیں بلکہ یہ سارے فتاوی عہد فاروقی کے ابتدائی دو سال کے بعد کے ہیں جب عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے ایسا قانون بنادیا تھا ، جیسا کہ اس کی وضاحت خود ابن عباس رضی اللہ عنہ نے کردی ہے ۔
لہٰذا دوسری روایات دوسرے سے متعلق ہیں لہٰذا ان کا معارضہ پہلے دور سے متعلق روایت کے ساتھ نہیں ہوسکتا۔

تیسرا جواب: ( الگ الگ واقعات کا فرق)
ابن عباس رضی اللہ عنہ کے دیگر شاگردوں کی روایات میں سے ہر روایت میں الگ الگ واقعہ سے متعلق ابن عباس رضی اللہ عنہ کا فتوی منقول ہے ، پھر انصاف سے بتلائے کہ ان دیگر شاگردوں کے نقل کردہ الگ الگ واقعہ  کا صحیح مسلم کی مذکورہ روایت سے کیا تعلق ہے کہ اس پر شذوذ کا اعتراض کیا جائے ؟
 اگر ابن عباس رضی اللہ عنہ سے طاؤوس کی روایت ، اور دیگر شاگردوں کی روایت میں ایک ہی واقعہ کا ذکر ہوتا، اور دونوں کا مجموعی متن ایک ہی بات سے تعلق رکھتا ، تو پھر تمام شاگردوں کی روایات کا موازنہ کرکے شذوذ کی بات کہنے کی گنجایش تھی۔
 لیکن یہاں ایسا قطعا نہیں ہے بلکہ امام طاؤوس کی روایت میں عہد فاروقی کے ابتدائی دو سال سے پہلے اور عہد صدیقی میں اور اس سے پہلے عہد رسالت میں یعنی مرفوعا تین طلاق کو ایک ماننے کا ذکر ہے ، جبکہ ابن عباس رضی اللہ عنہ کے دیگر شاگردوں نے ان سے جو روایت بیان کی ہے اس میں اس دور کے بعد یعنی عہدفاروقی کے ابتدائی دو سال کے بعد ابن عباس رضی اللہ عنہ کی طرف سے موقوفا تین طلاق کو ایک قراردینے کا فتوی منقول ہے وہ بھی ان کے سامنے پیش کئے گئے الگ الگ واقعات سے متعلق ۔یہ دونوں چزیں الگ الگ ہیں ، اور الگ الگ زمانے سے متعلق ہیں لہٰذا جب یہ دو الگ مستقل روایات ہیں تو ایک کو لیکر دوسرے پر شذوذ کا اعتراض نہیں کیا جاسکتا ۔

چوتھا جواب: (امام طاؤس کی متابعات)
علاوہ بریں اس روایت کو ابن عباس رضی اللہ عنہ سے نقل کرنے میں امام طاؤوس منفرد بھی نہیں ہیں بلکہ ان کی ابن عباس رضی للہ عنہ کے دیگر شاگردوں سے ان کی متابعت بھی ہوتی ہے مثلا:

  ❀   پہلی متابعت: از عکرمہ 
امام أحمد بن حنبل رحمه الله (المتوفى241)نے کہا:
 ”حدثنا سعد بن إبراهيم ، حدثنا أبي ، عن محمد بن إسحاق ، حدثني داود بن الحصين ، عن عكرمة ، مولى ابن عباس ، عن ابن عباس ، قال : طلق ركانة بن عبد يزيد أخو بني المطلب امرأته ثلاثا في مجلس واحد ، فحزن عليها حزنا شديدا ، قال : فسأله رسول الله صلى الله عليه وسلم : «كيف طلقتها ؟» قال : طلقتها ثلاثا ، قال : فقال : «في مجلس واحد ؟ » قال : نعم قال : «فإنما تلك واحدة فأرجعها إن شئت» قال : فرجعها فكان ابن عباس : يرى أنما الطلاق عند كل طهر“ 
 ”عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رکانہ بن عبدیزید نے اپنی بیوی کو ایک ہی مجلس میں تین طلاق دے دی، پھر اس پر انہیں شدید رنج لاحق ہوا ، تو اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے پوچھا: ”تم نے کیسے طلاق دی ؟“ انہوں نے کہا: میں نے تین طلاق دے دی ۔ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ سلم نے پوچھا: ”کیا ایک ہی مجلس میں ؟“ انہوں نے جواب دیا: جی ہاں ! تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”پھر یہ ایک ہی طلاق ہے تم چاہو تو اپنی بیوی کو واپس لے لو“ ، چنانچہ انہوں نے اپنی بیوی کو واپس لے لیا ۔ اس حدیث کی بنا پر ابن عباس رضی اللہ عنہ فتوی دیتے کہ طلاق الگ الگ طہر میں ہی معتبر ہوگی“ [مسند أحمد ط الميمنية: 1/ 265 رقم 2387 وإسناده صحيح] 
اس حدیث کی استنادی حالت پر تفصیلی بحث آگے آرہی ہے ۔

  ❀  دوسری متابعت : از ابن ابی ملیکہ  :
امام دارقطني رحمه الله (المتوفى385) نے کہا:
 ”نا أبو بكر النيسابوري , نا يزيد بن سنان , نا أبو عاصم , عن عبد الله بن المؤمل , عن ابن أبي مليكة، قال أبو الجوزاء لابن عباس: أتعلم أن الثلاث على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم كن يرددن إلى الواحدة , وصدرا من إمارة عمر؟ , قال: «نعم»“ 
 ”ابن ابی ملیکہ کہتے ہیں کہ ابوالجوزاء ابن عباس رضی للہ عنہ کے پاس آئے اور کہا: کیا آپ کو علم ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں تین طلاق ایک ہی طلاق کی طرف پلٹا دی جاتی تھی ؟ تو ابن عباس رضی اللہ عنہ نے کہا: ہاں !“ [سنن الدارقطني، ت الارنؤوط: 5/ 104، وأخرجه أيضا الحاكم في المستدرك 2/ 196 من طريق أبي عاصم به وقال: هذا حديث صحيح الإسناد]

امام حاکم نے اسے روايت كرنے كے بعد كہا: هذا حديث صحيح الإسناد یہ حدیث صحیح الاسناد ہے [المستدرك للحاكم، ط الهند: 2/ 196]
عبد الله بن المؤمل مختلف فیہ راوی ہے ۔ کئی ائمہ نے اس پر جرح کی ہے لیکن بعض نے اس کی توثیق بھی کی ہے مثلا:
امام ابن سعد رحمه الله (المتوفى230) نے کہا:
”كان ثقة قليل الحديث“ ، ”یہ ثقہ اور قلیل الحدیث تھے“ [الطبقات الكبرى ط دار صادر 5/ 494]

امام ابن معين رحمه الله (المتوفى233) نے کہا:
 ”صالح الحديث“ ، ”یہ صالح الحدیث ہے“ [تاريخ ابن معين، رواية الدوري: 3/ 73]

 امام محمد بن عبد الله بن نمير(المتوفى234) سے منقول ہے :
 ”عبد الله بن المؤمل ثقة“ ، ”عبداللہ بن مؤمل ثقہ ہے“ [تهذيب التهذيب لابن حجر، ط الهند: 6/ 46]

امام بخاري رحمه الله (المتوفى256) نے کہا:
 ”مقارب الحديث“ ، ”یہ مقارب الحدیث ہے“ [العلل الكبير للترمذي: ص: 391]

امام ابن شاهين رحمه الله (المتوفى385) نے کہا:
 ”عبد الله بن المؤمل المخزومي صالح“ ، ”عبد الله بن المؤمل المخزومي صالح ہے“ [الثقات لابن شاهين ص: 131]

امام ابن عبد البر رحمه الله (المتوفى463) نے کہا:
 ”وما علمنا له خربة تسقط عدالته“ ، ”ہمیں اس کی ایسی کوئی بات نہیں ملی جو اس کی عدالت کو ساقط کردے“ [التمهيد لابن عبد البر: 2/ 102]

ان ائمہ کے اقوال سے پتہ چلا کہ یہ راوی عادل اور سچا ہے صرف حافظہ کے لحاظ سے اس پر جرح ہے ، یہی خلاصہ امام ابن عبد البر رحمہ اللہ نے بھی کیاہے چنانچہ کہا:
 ”وعبد الله بن المؤمل لم يطعن عليه أحد إلا من سوء حفظه“ 
 ”عبداللہ بن مؤمل پر سوئے حفظ کے علاوہ کسی نے بھی کوئی اور جرح نہیں کی ہے“ [الاستذكار لابن عبدالبر 4/ 223]

لہٰذا یہ راوی جب عادل و سچا ہے اور اس کی روایت ساقط نہیں ہے تو اس کی اپنے استاذ ”ابن ملیکہ“ کے واسطہ سے ابن عباس رضی اللہ عنہ کی یہ حدیث صحیح ہے کیونکہ امام طاووس نے بھی یہ روایت ایسے ہی ابن عباس رضی اللہ عنہ سے بیان کی ہے البتہ امام طاووس نے ابن عباس رضی اللہ عنہ سے سوال کرنے والے کا نام ”ابوالصھباء“ ذکر کیا ہے جبکہ عبداللہ بن مؤمل نے ان کی مخالفت کرتے ہوئے سائل کا نام ”ابوالجوزاء“ بتایا ہے تو عبداللہ بن مؤمل کی غلطی ہے جو ان کے سوء حفظ کا نتیجہ ہے اس کے علاوہ باقی ان کی پوری روایت صحیح ہے ۔

ابو الفيض الغُمَارِي (المتوفى 1380) لکھتے ہیں:
”فغايته أن يكون وهم في قوله: أبو الجوزاء هو السائل لابن عباس، وإِنما هو الصهباء كما سبق في حديث طاوس، ويبقى أصل الحديث ثابتًا من رواية ابن أبي مليكة عن ابن عباس أيضًا“ 
 ”توزیادہ سے زیادہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ عبداللہ بن المؤمل کو یہ بیان کرنے میں وہم ہوا کہ أبو الجوزاء نے یہ سوال کیا تھا ، جبکہ سائل ابوالصھباء تھے جیساکہ طاووس کی روایت میں ہے ، اس بات کو چھوڑ کر باقی اصل حدیث ، ابن عباس رضی اللہ عنہ سے ابن ابی ملیکہ کے واسطے سے بھی ثابت ہے“ [الهداية في تخريج أحاديث البداية 7/ 13]

نوٹ: -
آگے ہم ایسی متابعات پیش کررہے ہیں جن میں ابن عباس رضی اللہ عنہ کا اپنا فتوی ہے مرفوع روایت نہیں ہے ، لیکن انہیں ہم الزاما پیش کررہے ہیں کیونکہ فریق مخالف نے طاووس پر تفرد کا اعتراض اسی بنیاد پر کیا ہے کہ ابن عباس رضی اللہ عنہ کے دیگر شاگردوں نے ان سے تین طلاق کے وقوع کا فتوی نقل کیا ہے، لہٰذا اس کے جواب میں یہ کہنا بجاء ہے کہ ابن عباس کے ان شاگردوں کے تین طلاق کے ایک ہونے کا فتوی نقل کیا ہے۔ ملاحظہ ہو:

  ❀  تیسری متابعت : از مجاھد
اوپر ابن عباس کے شاگر مجاہد کی جو روایت ہے ، اس میں معنوی طور پر یہ بھی موجود ہے کہ ابن عباس رضی اللہ عنہ تین طلاق کے ایک ہونے کا فتوی بھی دیتے  تھے کیونکہ  اس میں  امام مجاہد نے جو یہ کہا کہ:
 ”فسكت حتى ظننت أنه رادها إليه“ 
”ابن عباس رضی اللہ عنہ خاموش رہے یہاں تک مجھے ایسا لگا کہ ابن عباس رضی اللہ عنہ اس کی بیوی کو اس کی طرف لوٹا دیں گے“ [سنن أبي داود 2/ 260 رقم 2197 وإسناده صحيح ]

یہ اس بات کی دلیل ہے کہ ابن عباس رضی اللہ عنہ کا تین طلاق کے بارے میں یہ  فتوی بھی تھا کہ وہ اسے ایک شمار کرتے تھے اور ایسی طلاق دینے والے پر اس کی بیوی واپس کرتے تھے ۔ کیونکہ اگر ایسا نہیں ہوتا امام مجاہد رحمہ اللہ ان کی خاموشی پر ایسا گمان نہیں کرسکتے تھے۔
علامہ معلی رحمہ اللہ کی کتاب ”الحكم المشروع“ کے محقق لکھتے ہیں:
”إنما ظن مجاهد أن يرد ابن عباس الثلاث إلي واحدة لما يعلمه من مذهب ابن عباس“
”مجاہد رحمہ اللہ نے جو یہ گمان کیا کہ ابن عباس رضی اللہ عنہ تین طلاق کو ایک طلاق قرار دیں گے ، وہ اس لئے کیونکہ وہ جانتے تھے کہ ابن عباس رضی اللہ عنہ کا یہ فتوی بھی ہے“ [الحكم المشروع في الطلاق المجموع: ص 43 حاشیہ 3]

  ❀  چوتھی متابعت : از عمروبن دینار
امام اسحاق بن راھویہ رحمہ اللہ (المتوفی 238) نے بھی روایت کرتے ہوئے کہا:
”أخبرنا عبد الرزاق، حدثنا ابن جريج أخبرني الحسن بن مسلم، عن ابن شهاب، عن ابن عباس أنه قال: التي لم يدخل بها إذا جمع الثلاث عليها وقعن عليها.قال الحسن: فذكرت ذلك لطاووس فقال: أشهد أني سمعت ابن عباس يجعلها واحدة قال: وقال عمرو : ‌واحدة ‌وإن ‌جمعهن“ 
 ”حسن بن مسلم کہتے ہیں ابن شہاب زہری نے ابن عباس رضی اللہ عنہ سے بیان کیا کہ انہوں نے کہا : غیر مدخولہ کو جب ایک ہی جملے میں (اس کا شوہر) تین طلاق دے دے تو یہ تینوں طلاقیں اس پر واقع ہوجائیں گی ، حسن بن مسلم کہتے ہیں کہ : پھر میں نے اس بات کا تذکرہ طاوس سے کیا تو انہوں نے کہا: میں گواہ ہوں کہ ابن عباس رضی اللہ عنہ ایسی تین طلاق کو صرف ایک ہی مانتے تھے ، اور عمر و نے (ابن عباس رضی اللہ عنہ سے نقل کرتے ہوئے) کہا : کہ گرچہ ایک جملے میں تین طلاق دے ، یہ ایک ہی شمار ہوگی“ [ مسند إسحاق بن راهويه ، ط دار التاصیل : ص474 رقم 2478 وإسناده صحيح ، وعندہ ”قال عمر“ ، والصواب ”قال عمرو“ کما فی المطالب العالية 8/ 423 ]

اس روایت کے اخیر  بعد امام اسحاق نے کہا ہے:
 ”وقال عمرو : ‌واحدة ‌وإن ‌جمعهن“ 
 ”اور عمر و نے کہا : یہ ایک ہی شمار ہوگی، گرچہ ایک جملے میں تین طلاق دے“ 
یہاں عمرو سے مراد ”عمرو بن دینار“ ہیں جو ابن عباس رضی اللہ عنہ کے شاگرد ہیں ، اور یہاں اس بات کو انہوں نے ابن عباس رضی اللہ عنہ ہی سے نقل کیا ہے ، اسی لئے امام اسحاق بن راویہ نے اسے مسند ابن عباس میں ذکر کیا ہے ، ورنہ یہ عمرو بن دینار کا محض خود کا قول ہوتا تو یہاں مسند ابن عباس رضی اللہ عنہ میں اس کے ذکر کی کوئی وجہ نہیں ہے۔
چونکہ امام اسحاق بن راھویہ نے اس سے پہلے ”ابن عباس رضی اللہ عنہ“ سے ”طاؤوس“ کے الفاظ نقل کئے ہیں ، تو اس کے بعد امام اسحاق بن راھویہ نے بطور فائدہ یہ بھی بتادیا کہ ”ابن عباس رضی اللہ عنہ“ کے دوسرے شاگرد ”عمرو بن دینار“ نے بھی ابن عباس سے یہ بات اور واضح انداز میں نقل کررکھی ہے۔
اب رہا سوال یہ کہ پھر امام اسحاق بن راھویہ کی عمرو بن دینار تک اپنی سند کہاں ہے ؟ تو عرض ہے کہ امام اسحاق بن راھویہ نے عمرو بن دینار کا یہ قول ماقبل کی سند (أخبرنا عبد الرزاق، حدثنا ابن جريج أخبرني ) سے ہی نقل کیا ہے ۔کیونکہ ابن جریج یہ عمرو بن دینار کے شاگردہیں ۔
اس کی مزید تفصیل آگے آرہی ہے جہاں تین طلاق کو ایک کہنے سے متعلق ابن عباس رضی اللہ عنہ کی ساری روایات کا ذکر ہے۔

ابو الفيض الغُمَارِي (المتوفى 1380) لکھتے ہیں:
 ”وقد نقل هذا أيضًا عن ابن عباس من رواية عمرو بن دينار“ 
 ”اور تین طلاق کے ایک ہونے کا فتوی ابن عباس رضی اللہ عنہ سے عمرو بن دینار نے بھی نقل کیا ہے“ [الهداية في تخريج أحاديث البداية 7/ 15]

  ❀  پانچویں متابعت : از عکرمہ 
امام بيهقي رحمه الله (المتوفى458) نے کہا:
 ”قد روى يوسف بن يعقوب القاضي، عن سليمان بن حرب، عن حماد بن زيد، عن أيوب، عن عكرمة، أنه قال: شهدت ابن عباس جمع بين رجل وامرأته طلقها ثلاثا، أتي برجل قال لامرأته: أنت طالق، أنت طالق، أنت طالق فجعلها واحدة، وأتي برجل قال: لامرأته أنت طالق، أنت طالق، أنت طالق، ففرق بينهما“ 
 ”عکرمہ کہتے ہیں کہ میں ابن عباس رضی اللہ عنہ کے پاس موجود تھا ، انہوں نے ایک آدمی اور اس کی بیوی کو ملا دیا اس آدمی نے اپنی بیوی کو تین طلاق دی تھی ، چنانچہ ایک ایسا شخص ابن عباس رضی اللہ عنہ کے پاس لایا گیا جس نے اپنی بیوی کو کہاتھا : تجھ کو طلاق ہے ، تجھ کو طلاق ہے ، تجھ کو طلاق ہے ، تو ابن عباس رضی اللہ عنہ نے اس طلاق کو ایک قراردیا ۔ اور ایک دوسرا شخص ابن عباس رضی اللہ عنہ کے پاس لایا گیا جس نے اپنی بیوی کو کہاتھا : تجھ کو طلاق ہے ، تجھ کو طلاق ہے ، تجھ کو طلاق ہے ، تو ابن عباس رضی اللہ عنہ نے ان دونوں کے درمیان جدائی کروادی“ [معرفة السنن والآثار 11/ 40 وإسناده صحيح يوسف بن يعقوب صاحب كتاب]

  ❀  چھٹی متابعت: از ابوعیاض 
امام عبد الرزاق رحمه الله (المتوفى211) نے کہا:
 ”عن ابن جريج قال: أخبرني داود بن أبي هند، عن يزيد بن أبي مريم، عن أبي عياض، أن ابن عباس قال: الثلاث والواحدة في التي لم يدخل بها سواء“ 
 ”ابوعیاض العنسى کہتے ہیں کہ ابن عباس رضی اللہ عنہ نے کہا: غیر مدخولہ کو تین طلاق اور ایک طلاق دینا ، دونوں برابر ہے“ [مصنف عبد الرزاق، ت الأعظمي: 6/ 335 ، وإسناده صحيح ومن طريق عبدالرزاق أخرجه إسحاق بن راهويه في مسنده رقم 2479 ، وانظر : المطالب العالية 2/ 105]

  ⟐  ایک اور متابعت : 
امام عبد الرزاق رحمه الله (المتوفى211) نے کہا:
 ”عن ابن جريج، عن عطاء قال: إذا طلقت امرأة ثلاثا، ولم تجمع فإنما هي واحدة، بلغني ذلك عن ابن عباس“ 
 ”امام عطاء کہتے ہیں کہ اگر کسی نے بیوی کو تین طلاق دیا اور الگ الگ جملوں میں دیا تو وہ ایک ہی طلاق شمار ہوگی ، ابن عباس رضی اللہ عنہ کا بھی یہی فتوی مجھ تک پہنچا ہے“ [مصنف عبد الرزاق، ت الأعظمي: 6/ 335]
یہ روایت بلاغا ہے یعنی امام عطاء نے یہ صراحت نہیں کیا ہے کہ ابن عباس رضی للہ عنہ کے کس شاگرد نے ان سے یہ روایت بیان کی ہے۔

معلوم ہوا کہ طاؤوس کے علاوہ ابن عباس رضی اللہ عنہ کے دیگر شاگردوں نے بھی ابن عباس رضی اللہ عنہ تین طلاق کے ایک ہونے کی بات نقل کی ہے ، لہٰذا امام طاؤوس پر تفرد کا الزام غلط و بے بنیاد ہے۔

پانچواں جواب: (صحیح مسلم کی احادیث کا محفوظ ہونا)
امام مسلم رحمہ اللہ کا اس حدیث کو صحیح مسلم میں اصولی طور پر درج کرنا ہی اس بات کی ضمانت ہے کہ یہ حدیث شذوذ سے پاک ہے ، کیونکہ امام مسلم کی یہ شرط ہے کہ وہ اپنی اس کتاب میں اصولی طور پرانہیں احادیث کو درج کریں گے جو صحیح ہوں اور ان میں شذوذ اور علت نہ ہو ۔
امام ابن الصلاح (المتوفى 643) رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
”شرط مسلم في صحيحه أن يكون الحديث متصل الإسناد بنقل الثقة عن الثقة من أوله إلى منتهاه سالما من الشذوذ ومن العلة“ 
 ”امام مسلم کی اپنی کتاب صحیح میں یہ شرط ہے کہ اس کی سند متصل ہو اور تمام راوی از اول تا اخیر ثقہ ہوں اور حدیث شذوذ اور علت سے پاک ہو“ [صيانة صحيح مسلم ص: 72]
لہٰذا اس شرط کے مطابق صحیح مسلم کی زیربحث حدیث شذوذ اور علت سے پاک ہے۔

✿ امام طاؤوس رحمہ اللہ کے تفرد پر اعتراض:
امام طاووس پر شذوذ کا اعتراض جو اس معنی میں کیا گیا تھا کہ ابن عباس رضی اللہ عنہ کے دوسرے شاگردوں نے ان کی مخالفت کی ہے اس کا جواب بالتفصیل گزرچکا ہے ، بعض لوگ امام طاووس پر تفرد کا اعتراض کرتے ہیں یعنی یہ کہتے ہیں کہ یہ زیر بحث حدیث کی روایت میں منفرد ہے ۔

جوابا عرض ہے کہ:
اولا:
جب ثقہ اور حافظ راوی کسی حدیث کو روایت کرنے میں منفرد ہو تو اس کی حدیث صحیح ہوتی ہے۔
حافظ ابن حجر رحمه الله (المتوفى852) نے کہا:
”وكم من ثقة تفرد بما لم يشاركه فيه ثقة آخر وإذا كان الثقة حافظا لم يضره الانفراد“ 
 ”کتنے ہی ثقہ ایسے ہیں جنہوں نے منفرد حدیث روایت کی ہے اور ان کے ساتھ کسی دوسرے ثقہ نے وہ حدیث روایت نہیں کی ، اور جب منفرد حدیث بیان کرنے والا راوی ثقہ اور حافظ ہو تو اس کا تفرد مضر نہیں ہے“ [فتح الباري لابن حجر، ط المعرفة: 5/ 11]

ثانیا:
امام طاووس حفاظ تابعین میں سے ہیں اور حفاظ تابعین کی منفرد حدیث صحیح ہوتی ہے ۔
امام ذهبي رحمه الله (المتوفى748) نے چند حفاظ تابعین کا ذکر کرتے ہوئے کہا:
”فهؤلاء الحفاظ الثقات إذا انفرد الرجل منهم من التابعين، فحديثه صحيح“ 
 ”ان حفاظ ثقہ تابعین میں جب کوئی کسی حدیث کی روایت میں مفرد ہو تو اس کی حدیث صحیح ہے“ [الموقظة في علم مصطلح الحديث للذھبی ص: 77]

امام ابن القيم رحمه الله (المتوفى751) نے کہا:
 ”وكم من حديث تفرد به من هو دون طاوس بكثير ولم يرده أحد من الأئمة“ 
 ”بلکہ کتنی ایسی حدیث ہے جسے راویت کرنے میں طاوس سے کم تر درجہ کا راوی منفرد ہے اور ائمہ میں سے کسی نے بھی اسے رد نہیں کیا ہے“ [إغاثة اللهفان 1/ 295]

یہ وجہ ہے کہ قاضي أبو بكر بن العربي المالكي (المتوفى 543) زیر بحث حدیث کو صحیح قرار دیتے ہوئے فرماتے ہیں:
 ”وعندي: أن الرواية صحيحة؛ لأن طاوس قوي الحفظ إمام“ 
 ”میرے نزدیک روایت صحیح ہے کیونکہ طاوس قوی حافظے والے اور امام ہیں“ [المسالك في شرح موطأ مالك لابن العربی 5/ 546]

ابن عباس رضی اللہ عنہ سے طاووس کی روایت کردہ ایک دوسری حدیث پر بعض نے تفرد کا اعتراض کیا تو حافظ ابن حجر رحمه الله (المتوفى852) نے اس کی تردید کرتے ہوئے کہا:
 ”وفيه نظر لأن طاوسا ثقة حافظ فقيه فلا يضره تفرده“ 
 ”یہ بات محل نظر ہے کیونکہ طاوس ثقہ حافظ اور فقیہ ہیں اس لئے ان کا تفرد مضر نہیں ہے“ [فتح الباري لابن حجر، ط المعرفة: 9/ 403]

ثالثا:
امام طاووس رحمہ اللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ کے خصوصی شاگرد ہیں ۔چنانچہ:
امام سفيان بن عيينة (المتوفی107) فرماتےہیں:
 ”قلت لعبيد الله بن أبي يزيد: مع من كنت تدخل على ابن عباس؟ قال: مع عطاء والعامة، وكان طاووس يدخل مع الخاصة“ 
 ”میں نے عبیداللہ بن ابی یزید سے کہا کہ: آپ ابن عباس رضی اللہ عنہ کے پاس کن لوگوں کے ساتھ جاتے تھے ؟ تو انہوں نے جواب دیا: میں عطاء اورعام لوگوں کے ساتھ جاتا تھ ، اور امام طاووس خاص لوگوں کے ساتھ جاتے تھے“ [العلل ومعرفة الرجال لأحمد، ت الأزهري: 2/ 358وإسناده صحيح]

امام ذهبي رحمه الله (المتوفى748) نے کہا:
 ”ولازم ابن عباس مدة، وهو معدود في كبراء أصحابه“ 
 ”امام طاووس نے ایک مدت تک ابن عباس رضی اللہ عنہ کی صحبت اختیار کی ہے اور یہ ابن عباس رضی اللہ عنہ کے بڑے شاگردوں میں سے ہیں“ [سير أعلام النبلاء للذهبي: 5/ 39]

اور جب کسی راوی سے اس کاخاص شاگرد کسی حدیث کو روایت کرنے میں منفرد ہو تو اس کی منفرد حدیث صحیح ہوتی ہے ۔
امام ذهبي رحمه الله (المتوفى748) رحمہ اللہ سفیان ثوری سے ان کے ایک شاگرد کی منفرد روایت کے بارے میں کہتے ہیں:
”لانه لازمه مدة، فلا ينكر له أن ينفرد عن ذاك البحر“ 
 ”انہوں نے امام ثوری کی ایک مدت تک صحبت اختیار کی ہے اس لئے سفیان ثوری سے ان کی روایت کو منکر نہیں کہاجاسکتا“ [ميزان الاعتدال للذهبي ت البجاوي: 4/ 71]
اور امام ذہبی ہی نے طاوس کے بارے میں بھی کہا ہے کہ انہوں نے ایک مدت تک ابن عباس رضی اللہ عنہ کی صحبت اختیار کی ہے جیساکہ اوپر نقل کیا گیا ، لہذا ابن عباس رضی اللہ عنہ سے ان کے خصوصی شاگرد امام طاوس کی روایت بھی منکر نہیں ہوسکتی بلکہ صحیح ہوگی ۔
مزید تفصیل کے لئے دیکھئے:[ التفرد في رواية الحديث ومنهج المحدثين في قبوله أو رده : ص 579 تا 581]

رابعا:
امام طاوس ابن عباس رضی اللہ عنہ سے یہ روایت نقل کرنے میں منفرد بھی نہیں ہیں بلکہ کوئی اور رواۃ نے ان کی متابعت بھی کی ہے جیساکہ ماقبل میں تفصیل گذرچکی ہے ۔

 ✿ امام طاؤوس رحمہ اللہ کی ایک دوسری روایت لیکر اعتراض:
بعض لوگ کہتے ہیں کہ امام طاؤوس نے خود اس روایت سے برات ظاہر کردی ہے چنانچہ زاہد کوثری صاحب لکھتے ہیں:
 ”قال الحسين بن علي الكرابيسي في أدب القضاء : أخبرنا علي بن عبد الله (وهو ابن المديني) عن عبد الرزاق عن معمر عن ابن طاوس عن طاوس أنه قال: من حدثك عن طاوس أنه كان يروي طلاق الثلاث واحدة كذبه“ 
 ”حسین بن علی اکرابیسی نے اپنی کتاب أدب القضاء میں کہا ہے کہ : ہم نے علی بن عبداللہ (وھو ابن المدینی) نے عبدالرزاق سے انہوں نے معمر سے انہوں نے ابن طاوس سےانہوں نے طاؤس سے نقل کیا کہ طاوس نے کہا: جو تم سے طاؤس کے حوالے یہ بیان کرہے کہ وہ تین طلاق کو ایک ماننے والی بات روایت کرتےتھے تو اس نے جھوٹ بولا ہے“ [اشفاق في أحكام الطلاق ص 33 ، الفقه وأصول الفقه من أعمال الإمام محمد زاهد الكوثري :ص ص 240]

عرض یہ ہے کہ :
 ● اولا:
ہمارے علم کی حد تک حسین بن علی الکرابیسی (المتوفی248) کی کتاب ادب القضاۃ کے حوالے سےیہ روایت سب سےپہلے صرف زاہد کوثری(المتوفی 1371ھ ) نے چودھویں صدی میں نقل کی ہے پھر احناف نے زاہد کوثری ہی کی کتاب سے اسے نقل کرنا شروع کیا ہے ۔
لیکن تیسری صدی ہجری لے لیکر چودھویں صدی ہجری تک یعنی ہزاروں سال تک کوئی بھی اس کتاب سے یہ روایت نقل نہیں کرتا ،جبکہ طلاق پر ہردور کے علماء نے گفتگو کی ہے ، لہٰذا صرف چودھویں صدی کے متعصب حنفی زاہد کوثری کی نقل پر اعتماد قطعا نہیں کیا جاسکتا ہے۔
جو لوگ بھی یہ روایت پیش کرتے ہیں ان پر لازم ہے کہ وہ کرابیسی کی یہ کتاب لاکر اس میں یہ روایت دکھلائیں یا کم از کم ماضی کے کسی معتبر عالم سے بھی یہ ثابت کریں کہ انہوں نے بھی کرابیسی کی کتاب سے یہ روایت نقل کی ہے ۔

 ● ثانیا:
اگر کرابیسی کی کتاب میں یہ روایت مل بھی جائے تو بھی یہ جھوٹی اور من گھڑت قرار پائے گی کیونکہ اس کتاب کے مصنف کرابیسی پر ائمہ نے شدید جرح کررکھی ہے ۔

امام ابن معين رحمه الله (المتوفى233)نے کہا:
 ”لعنه الله“ ، ”اللہ کی اس پر لعنت ہو“ [تاريخ بغداد، مطبعة السعادة: 8/ 65 واسنادہ صحیح]

امام أحمد بن حنبل رحمه الله (المتوفى241) نے کہا:
 ”أخزى الله الكرابيسي لا يجالس، ولا يكلم، ولا تكتب كتبه“ 
 ”اللہ کرابیسی کو رسوا کرے ، اس کے ساتھ نہ بیٹھا جائے ، نہ اس سے بات کی جائے نہ اس کی کتابیں لکھی جائیں“ [مسائل أحمد بن حنبل رواية ابن هانئ ص: 419]

حتی کہ ایک موقع پر امام احمد رحمہ اللہ نے اسے صراحتا کافر کہتے ہوا کہا:
 ”بل هو الكافر“ ، ”بلکہ یہ خود کافر ہے“ [الإبانة الكبرى لابن بطة 5/ 344 واسنادہ صحیح وانظرطبقات الحنابلة 1/ 62] 

بلکہ زاہد کو ثری نے خود کرابیسی کے بارے میں کہا:
 ”متكلم فيه“ ، ”اس پر کلام کیا گیا ہے“ [تأنيب الخطيب : ص356 ، دوسرا نسخہ ص 184] 

 ● ثالثا:
کرابیسی کی کتاب میں یہ روایت امام عبدالرزاق کے طریق سے منقول ہے اور امام عبد الرزاق کی کتاب مصنف میں یہ روایت صحیح مسلم والی روایت کے مطابق ہی ہے چنانچہ:
امام عبد الرزاق رحمه الله (المتوفى211) نے کہا:
 ”عن معمر قال: أخبرني ابن طاوس، عن أبيه، عن ابن عباس قال: كان الطلاق على عهد رسول الله صلي الله عليه وسلم ، وأبي بكر، وسنين من خلافة عمر، طلاق الثلاث واحدة، فقال عمر: «إن الناس استعجلوا أمرا كانت لهم فيه أناة، فلو أمضيناه عليهم» . فأمضاه عليهم“ 
 ”سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنمہا نے کہا کہ طلاق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں اور سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کے زمانہ خلافت میں اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے زمانہ خلافت میں بھی دو برس تک ایسا امر تھا کہ جب کوئی ایک بارگی تین طلاق دیتا تھا تو وہ ایک ہی شمار کی جاتی تھی، پھر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ لوگوں نے جلدی کرنا شروع کی اس میں جس میں ان کو مہلت ملی تھی تو ہم اس کو اگر جاری کر دیں تو مناسب ہے، پھر انہوں نے جاری کر دیا (یعنی حکم دے دیا کہ جو ایک بارگی تین طلاق دے تو تینوں واقع ہو گئیں)“ [مصنف عبد الرزاق، ت أیمن الأزھری: 6/ 305 رقم 11380]

 ● رابعا:
امام عبدالرزاق کے تمام شاگردوں نے بھی ان کی کتاب مصنف عبدالرزاق کے موافق ہی روایت کیا ہے مثلا:
 ➊ محمد بن رافع (صحيح مسلم 3/ 1099 )
 ➋ إسحاق بن راهويه (صحيح مسلم 3/ 1099 )
 ➌ احمد بن حنبل (مسند أحمد ط الميمنية: 1/ 314وإسناده صحيح )
 ➍ أحمد بن يوسف الأزدي (مستخرج أبي عوانة 3/ 152وإسناده صحيح )
 ➎ إسحاق بن إبراهيم الدبري (مستخرج أبي عوانة 3/ 152وإسناده صحيح )
 ➏ إسحاق بن منصور (السنن الكبرى للبيهقي 7/ 550وإسناده صحيح )
 ➐ أحمد بن منصور الرمادي (سنن الدارقطني 5/ 84 وإسناده صحيح)
ملاحظہ فرمائیں کہ یہ ساتوں شاگرد کوئی معمولی رواۃ نہیں ہیں بلکہ ان میں سے اکثر اپنے وقت کے کبار ائمہ ہیں اور ان سب کی روایات کا مضمون بھی بالکل یکساں ہیں ، جبکہ کرابیسی کی روایت میں عین اسی مضمون کا انکار بلکہ اس کی تکذیب ہے اس لئے اس میں کوئی شک نہیں رہ جاتا ہے کہ خود کرابیسی کی روایت ہی جھوٹی اور گھڑنت ہے۔

✿ امام طاؤوس رحمہ اللہ پر شیعیت کا اعتراض:
بعض دیوبندی حضرات نے صحیح مسلم کی اس حدیث کی تضعیف کرتے ہوئے لکھا ہے کہ اس کی سند میں موجود طاؤوس کو امام سفیان ثوری ،امام ابن قطیبہ اور امام ذہبی نے شیعہ کہا ہے۔
اگلی سطور میں ہم ان میں سے ہر ایک کے تعلق سے وضاحت پیش کرتے ہیں:

❀ ابن قتیبہ کے حوالے پرتبصرہ:
● اولا:
امام طاؤوس کی وفات 106 ہجری ہے (التاريخ الكبير للبخاري 4/ 365) اور ابن قتیبہ کی پیدائش 213 ہجری ہے (تاريخ الإسلام ت بشار 6/ 565)۔
یعنی ابن قتیبہ کی پیدائش امام طاؤوس کی وفات کے ایک سو سات سال بعد ہے لہٰذا یہ بے سند بات ہے جو مردود ہے۔
● ثانیا:
امام حاكم رحمه الله (المتوفى405) نے کہا:
”أجمعت الُأمة على أنّ القُتَيْبِيّ كذّاب“ 
 ”امت کا اس بات پر اجماع ہے کہ قتیبی (ابن قتیبہ ) بہت بڑا جھوٹا ہے“ [سؤالات السجزي للحاكم: ق 11/أ ]
نوٹ:- ہم نے مخطوطہ سے حوالہ دیا ہے کیونکہ محقق نے مطبوعہ نسخہ میں ”القتیبی“ کو ”التيمي“ بنادیاہے ، حالانکہ مخطوطہ میں ”القتیبی“ صاف پڑھا جارہاہے ، اسی لئے دکتور احمدبن فارس السلوم نے محقق کی تردید کی ہے دیکھئے: [مقدمہ كتاب المدخل للحاکم : ص 23]
نیز امام ذہبی رحمہ اللہ نے ابن قتیبہ کے ترجمہ میں اسی کتاب سے نقل کرتے ہوئے القتيبي ہی درج کیا ہے ۔[تاريخ الإسلام للذهبي ت تدمري 20/ 383]
اب اگر امام حاکم رحمہ اللہ کی بات مان لی جائے تو ابن قتیبہ سخت مجروح وناقابل اعتماد ٹہرے اور اگر امام حاکم کی بات رد کردی جائے اور یہی مناسب ہے تو پھر امام طاؤوس کے سلسلے میں ابن قتیبہ کی بے نیاد بات بھی مردود ہونی چاہئے ۔
 ● ثالثا:
ابوطاہر السلفی نے ابن قتیبہ پر بدمذہب ہونے کی جرح کی تو حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اس کی تشریح کرتے ہوئے کہا:
 ”مراد السلفي بالمذهب النصب فإن في ابن قتيبة انحرافا عن أهل البيت والحاكم على الضد من ذلك“ 
 ”ابوطاہر السلفی کی مذہب کی جرح سے مراد ناصبیت کی جرح ہے کیونکہ ابن قتیبہ کے یہاں اہل بیت سے متعلق انحراف پایا جاتا ہے اور حاکم کا معاملہ اس کے برعکس ہے“ [لسان الميزان ت أبي غدة 5/ 11]
اب غور کریں کہ جس پر ناصبیت کا الزام اس کا کسی شیعہ کہنے کا کیا اعتبار ہوسکتا ہے !
 ● رابعا:
ابن قتیبہ نے صرف طاؤوس ہی کو شیعہ نہیں کہا ہے بلکہ انہوں نے امام طاؤوس کے ساتھ بڑے بڑے ائمہ حدیث کو بھی شیعہ کہہ دیا ان کے مکمل الفاظ یہ ہیں:
 ”الشيعة : الحارث الأعور، وصعصعة بن صوحان، والأصبغ بن نباتة، وعطية العوفيّ، وطاووس، وسليمان الأعمش، وأبو إسحاق السّبيعىّ، وأبو صادق، وسلمة بن كهبل، والحكم بن عتيبة ، وسالم بن أبى الجعد، وإبراهيم النّخعىّ، وحبّة بن جوين، وحبيب بن أبى ثابت، ومنصور بن المعتمر، وسفيان الثوريّ، وشعبة ابن الحجاج، وفطر بن خليفة، والحسن بن صالح بن حىّ، وشريك، وأبو إسرائيل الملائى، ومحمد بن فضيل ، ووكيع بن الجراح، وحميد الرّؤاسيّ، وزيد بن الحباب، والفضل بن دكين، والمسعودي الأصغر، وعبيد الله بن موسى، وجرير بن عبد الحميد، وعبد الله بن داود، وهشيم، وسليمان التيمي، وعوف الأعرابيّ، وجعفر الضّبعىّ ، ويحيى بن سعيد القطان، وابن لهيعة، وهشام بن عمار، والمغيرة، صاحب إبراهيم، ومعروف بن خرّبوذ، وعبد الرزاق، ومعمر، وعلى ابن الجعد“ [المعارف لابن قتيبه :1/ 624]
ملاحظہ فرمائیں ان میں شعبہ ، وکیع اور یحیی بن سعید القطان وغیرہم حتی کہ سفیان ثوری کا بھی تذکرہ ہے۔اب کیا ان سب کو شیعہ مان کی ان کی روایات رد کردی جائیں َ؟

 ❀ سفیان ثوری کے حوالے پر تبصرہ:
یہ بات سب سے پہلے امام ابن ابی خیثمہ نے الفاظ میں ذکر کی ہے:
 ”وزعم علي بن المديني، قال: قال يحيى بن سعيد: قال سفيان بن سعيد: كان طاووس يتشيع“
 ”علی بن المدینی نے گمان کرتے ہوئے کہا کہ : یحیی بن سعید نے کہا کہ سفیان بن سعید (ثوری) نے کہا کہ: طاؤس تشیع ظاہر کرتے تھے“ [ تاريخ ابن أبي خيثمة 1/ 310]
 ● اولا:
سفیان ثوری رحمہ اللہ کے کلام میں کوئی تفصیل نہیں ہے کہ تشیع سے ان کی مراد کیا ہے ۔نیزامام طاؤوس رحمہ اللہ سے سفیان ثوری رحمہ اللہ کی ملاقات کا کوئی ثبوت نہیں ہے ، اس لئے ظاہر ہے کہ انہوں نے کسی روایت کی بنیاد پر امام طاووس کے بارے میں ایسا کہا ہے ، لیکن کسی بھی صحیح روایت سے امام طاووس رحمہ اللہ کا کسی بھی طرح کا تشیع ثابت نہیں ہے ، اسی لئے امام ذہبی رحمہ اللہ نے سفیان ثوری رحمہ اللہ کے کلام کو تسلیم نہیں کیاہے ، بلکہ خود اہل تشیع نے سفیان ثوری کی بات کو رد کردیا ہے کماسیاتی۔
البتہ سفیان ثور ی رحمہ اللہ نے طاووس کا یہ قول نقل کیا ہے وہ حجاج کو مؤمن کہنے والوں پر تعجب کرتے تھے چنانچہ:
امام ابن أبي شيبة رحمه الله (المتوفى235) نے کہا:
 ”حدثنا سفيان، عن معمر، عن ابن طاوس، عن أبيه، قال: عجبت لإخوتنا من أهل العراق يسمون الحجاج مؤمنا“ 
 ”سفیان ثوری نے معمر عن ابن طاووس کے طریق سے روایت کیا کہ طاووس رحمہ اللہ نے کہا: مجھے اہل عراق پر تعجب ہے کہ وہ حجاج کو مؤمن کہتے ہیں“ [الطبقات الكبرى ط دار صادر 5/ 540 وإسناده صحيح و أخرجه أيضا ابن أبي شيبة فی الإيمان ص: 39 ]
امام ذہبی رحمہ اللہ نے امام طاووس کے اس قول کی یہ تشریح کی ہے کہ یہاں امام طاووس نے حجاج کے ایمان کامل کی نفی ہے اور ان مرجئہ پررد کیا جو حجاج کو اس کی سفاکی کے باوجود مؤمن کامل سمجھتے ہیں ۔[سير أعلام النبلاء للذهبي: 5/ 44]
ممکن ہے سفیان ثوری رحمہ اللہ نے امام طاووس کے اس قول کو مطلق ایمان کی نفی پر محمول کرلیا ہواور اسی سب انہیں تشیع سے متصف کردیا ہو ،اہل تشیع جو امام طاووس کو شیعہ نہیں مانتے انہوں نے بھی سفیان ثوری کی طرف سے تشیع کی بات کو اسی پر محمول کیا ہے چنانچہ شیعی مصنف ”محمد مہدی سید حسن موسوی“ نے سفیان ثوری کی طرف سے طاووس سے متعلق تشیع کی بات کی توجیہ کرتے ہوئے کہاہے کہ اس کی یا تو ایک وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ طاووس نے معاویہ (رضی اللہ عنہ )کی مذمت میں ایک روایت نقل کی ہے ،( لیکن یہ روایت امام طاووس سے ثابت نہیں ہے ) ۔شیعی مصنف آگے لکھتاہے کہ :
 ”أو أن قول طاووس : عجبت لإخوتنا من أهل العراق يسمون الحجاج مؤمنا“
 ”یا اس کی وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ طاووس نے یہ کہہ دیا کہ: مجھے اہل عراق پر تعجب ہے کہ وہ حجاج کو مؤمن کہتے ہیں“ [موسوعة عبدالله بن عباس : ص 313]
عرض ہے کہ یہ دوسری بات ثابت ہے جسے سفیان ثوری نے ہی روایت کیاہے ، لیکن یہ بھی ان کے تشیع ہونے کی دلیل نہیں ہے کیونکہ طاووس کی مراد ایمان کامل کی نفی ہے جیساکہ امام ذہبی رحمہ اللہ نے تشریح کی ہے ۔
معلوم ہوا کہ سفیان کی ثابت روایت میں بھی طاووس کے تشیع کی دلیل نہیں ہے لہٰذا امام طاووس اس الزام سے بری ہیں۔
 اور خود اہل تشیع بھی اس کے منکر ہیں چنانچہ اہل تشیع کے یہاں محدث جلیل شمار ہونے والا حسین النوری الطبرسی نے اپنی کتاب ”خاتمة مستدرك الوسائل“ میں بڑی لمبی چوڑی بحث کرکے یہ ثابت کیا ہے کہ طاووس شیعہ نہیں تھے ، بلکہ کٹر سنی تھے اور ابوجعفر الطوسی نے اپنی کتاب میں امام طاووس رحمہ اللہ کو علی رضی اللہ عنہ کے اصحاب میں گنایا تو اس پر شدید رد کرتے ہوئے حسین النوری الطبرسی لکھتا ہے:
 ”ولم يذكر قرينة ولو ضعيفة تدل علي ميله إلي التشيع“ 
 ”اور اس کے شیعہ ہونے پر کوئی ضعیف سے ضعیف قرینہ بھی مذکور نہیں ہے“ [خاتمة مستدرك الوسائل ص151]
اور آگے امام طاؤوس رحمہ اللہ کی شان میں شدید گستاخی کرتے ہوئے لکھتا ہے:
 ”مع أن ماذكره في ترجمته كاف في الدلالة علي تسننه فإن من كان شيخه أبا هريرة وراوية مجاهد وعمروبن دينار لحري بأن يعد من كلاب أصحاب النار“ 
 ”انہوں نے طاؤوس کے ترجمہ میں جو ذکر کیا ہے وہی طاؤوس کی سنیت پر دلالت کرنے کے لئے کافی ہے کیونکہ جس کا استاذ ابوہریرہ ہو اور جس کا شاگرد مجاہد اور عمروبن دینار ہو وہ یقینا اس بات کا مستحق ہے کہ اسے جہنم کے کتوں میں شمارکیا جائے“ [خاتمة مستدرك الوسائل ص152]
معاذ اللہ !
ملاحظہ فرمائیں اہل تشیع کے یہاں محدث جلیل کا درجہ رکھنے والا امام طاؤوس رحمہ اللہ سے تشیع کی نفی کررہاہے اور ان کو سنی بتاکر ان کی شان میں شدید گستاخی کررہاہے اور احناف کو شرم نہیں آتی کہ امام طاؤوس کو نہ صرف شیعہ کہتے ہیں بلکہ اسی کو بنیاد بناکر صحیح مسلم میں موجود ان کی روایت کو رد کررہے ہیں ۔
 ● ثانیا:
بالفرض مان لیں طاووس کے اندر تشیع تھا تو طاووس متقدمین ائمہ میں سے ہیں اور متقدمین کے یہاں تشیع کا وہ معنی نہیں ہے جو متاخرین کے یہاں ہے ۔
امام ذهبي رحمه الله (المتوفى748) نے :
 ”فبدعة صغرى كغلو التشيع، أو كالتشيع بلا غلو ولا تحرف، فهذا كثير في التابعين وتابعيهم مع الدين والورع والصدق.فلو رد حديث هؤلاء لذهب جملة من الآثار النبوية، وهذه مفسدة بينة“ 
 ”چھوٹی بدعت مثلا تشیع میں غلو کرنا یا بغیر غلو اور تحریف کے تشیع اختیار کرنا تو یہ بات تابعین اور اتباع تابعین میں بہت ہے ان کی دینداری ، پرہیزگاری اور سچائی کے تھا ، تو اگر ان کی روایت رد کردی جائے تو احادیث نبویہ کا ایک بہت بڑا ذخیرہ بے کار ہوجائے گا اور یہ واضح فساد ہے“ [ميزان الاعتدال للذهبي ت البجاوي: 1/ 5]

حافظ ابن حجر رحمه الله (المتوفى852) نے کہا:
 ”فالتشيع في عرف المتقدمين هو اعتقاد تفضيل علي على عثمان, وأن عليا كان مصيبا في حروبه وأن مخالفه مخطئ مع تقديم الشيخين وتفضيلهما, وربما اعتقد بعضهم أن عليا أفضل الخلق بعد رسول الله صلى الله عليهآله وسلم , وإذا كان معتقد ذلك ورعا دينا صادقا مجتهدا فلا ترد روايته بهذا, لا سيما إن كان غير داعية, وأما التشيع في عرف المتأخرين فهو الرفض المحض فلا تقبل رواية الرافضي الغالي“ 
 ”متقدمین کے عرف میں تشیع کا مطلب اس بات کا اعتقاد رکھنا ہے کہ علی رضی اللہ عنہ، عثمان رضی اللہ عنہ سے افضل ہیں اور علی رضی اللہ عنہ اپنی جنگوں میں حق پر تھے اور ان کا مخالف غلطی پرتھا ، اور شیخین ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہ کے بعد علی رضی اللہ عنہ ہی افضل ہیں ، اور کبھی کبھار ان میں سے بعد کا اعتقاد یہ بھی ہوتا تھا کہ علی رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد سب سے افضل ہیں ، اور جب ایسا اعتقاد رکھنے والا پرہیزگار ، دیندار ، سچا او مجتہد ہو تو اس اعتقاد کے سبب اس کی روایت رد نہیں کی جائے گی بالخصوص جب وہ اس اعتقاد کی دعوت بھی نہ دیتا ہو ۔ اور جہاں تک متاخرین کے عرف میں تشیع کی بات ہے تو اس سے مراد خالص رافضیت ہے لہٰذا غالی رافضی کی روایت قبول نہیں کی جائے گی“ [تهذيب التهذيب لابن حجر، ط الهند: 1/ 94]

 حافظ ابن حجر رحمہ الله کی اس وضاحت سے معلوم ہو اکہ متقدمین سنی رواۃ میں تشیع کا مطلب علی رضی اللہ عنہ کو عثمان رضی اللہ عنہ یا شیخین رضی اللہ عنہما سے افضل بتانا اور سیاسی لڑائیوں میں علی رضی اللہ عنہ کے مخالفین کو غلط بتانا ہے، یعنی ان رواۃ کے تشیع کا شیعہ فرقہ  کے دوسرے عقائد ومسائل سے قطعا کوئی تعلق نہیں ہے ۔
لہٰذا یہ رواۃ اگر علی رضی اللہ عنہ کی فضیلت یا ان کے مخالفین کی مذمت سے ہٹ کر دیگر روایات بیان کریں تو ایسی روایات میں ان کے تشیع  کے اثر کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ۔

مولانا سرفراز صفدردیوبندی صاحب حافظ ابن حجررحمہ اللہ کے اسی قول کی روشنی میں لکھتے ہیں:
”حضرات متقدمین کے نزدیک لفظ شیعہ کا اور مفہوم ہے اور حضرات متاخرین کے نزدیک اور ہے ، عوام تو کیا بعض خواص بھی اس فرق سے ناواقف ہیں اور بات کو گڈمڈ کردیتے ہیں ، اور متاخرین کی اصطلاح کو متقدمین کی اصطلاح پر فٹ کردیتے ہیں ، اور اس سے پیچ در پیچ غلطیاں پیدا ہوتی ہیں ...الخ“ [ارشاد الشیعہ ص 19 ، 20]

 مولانا صفدر صاحب دوسری جگہ لکھتے ہیں:
’’اصول حدیث کی رو سے ثقہ راوی کاخارجی یا جہمی ، معتزلی یا مرجئی وغیرہ ہونا اس کی ثقاہت پر قطعا اثر انداز نہیں ہوتا اورصحیحین میں ایسے راوی بکثرت موجود ہیں‘‘ [احسن الکلام ج 1ص31]

مزید تفصیل کے لئے دیکھئے: [المشترك اللفظي في مصطلحات علماء الحديث ص293 تا 302]

معلوم ہوا کہ امام طاووس اور ان جیسے متقدمین پر تشیع کا الزام ثابت بھی ہوجائے تو بھی ان کی روایت رد نہیں کی جائے گی ۔

 ❀ امام ذہبی کے حوالے پر تبصرہ:
دیوبندی مضمون نگار نے جو یہ کہا کہ امام ذہبی رحمہ اللہ نے بھی امام طاووس کو شیعہ کہا ہے تو یہ بات سراسر غلط ہے ، امام ذہبی نے رحمہ اللہ نے اپنی کسی بھی کتاب میں ایسا نہیں کہا ہے بلکہ امام ذہبی رحمہ اللہ نے یہ بات سفیان ثوری سے نقل ہے اور ایک جگہ اسے نقل کرنے کے بعد اس کا جواب دیتے ہوئے کہا ہے :
 ”قلت: إن كان فيه تشيع، فهو يسير لا يضر“ 
 ”میں(امام ذہبی ) کہتاہوں: اگران میں تشیع کی بات تھی تو یہ معمولی تشیع ہے جو مضر نہیں ہے“ [سير أعلام النبلاء للذهبي: 5/ 45]
ملاحظہ فرمائیں امام ذہبی رحمہ اللہ تو طاووس پر تشیع کے الزام کو ثابت بھی نہیں مان رہے اور ثابت فرض کرکے جواب دے رہے ہیں ۔اگر ان کے اندر تشیع کی بات تھی تو بھی یہ مضر نہیں ہے کیونکہ متقدمین میں کا تشیع الگ قسم کا ہوتا تھا جس کی وضاحت اوپر ہوچکی ہے۔
نیز امام ذہبی رحمہ اللہ نے امام طاووس کو بالاتفاق حجت قرار دیتے ہوئے کہا ہے:
 ”وحديثه في دواوين الإسلام، وهو حجة باتفاق“ 
 ”طاووس کی حدیث اسلام کی بڑی کتب میں ہیں اور وہ بالاتفاق حجت ہیں“ [سير أعلام النبلاء للذهبي: 5/ 39]

اس تفصیل یہ بات اچھی طرح واضح ہوگئی کہ امام طاووس کا تشیع ثابت ہی نہیں ہے اور بالفرض ثابت بھی مان لیں تو اس سے ان کی روایت پر کوئی فرق قطعا نہیں پڑ سکتا لہٰذا دیوبندی حضرات کا امام طاووس پر یہ الزام لگانا اور پھر اس کی بنا پر صحیح مسلم میں موجود ان کی حدیث کو ضعیف کہنا بہت بڑا ظلم ہے ۔

(ج) : عبدالملک بن جریج رحمہ اللہ پر اعتراض
بعض لوگوں نے زیربحث حدیث کی ایک سندمیں موجود عبدالملک بن جریج پر لایعنی اعتراض کیا ہے مثلا یہ کہ وہ مدلس ہیں حالانکہ اس سند میں انہوں نے سماع کی صراحت کردی ہے اور أيوب السختياني نے ان کی متابعت بھی کی ہے ، اسی طرح ایک اور اعتراض کہ انہوں نے کئی بار متعہ کیا ، حالانکہ یہ بات جھوٹ اور بکواس ہیں اور سچائی یہ ہے کہ ابن جریج رحمہ اللہ کتب ستہ کے مشہور ثقہ راوی ہیں ۔
لیکن یہاں زیادہ تفصیل میں نہ جاتے ہوئے صرف اتنا ہی کہہ دینا کافی ہے ابن جریج اس حدیث کی صرف ایک سند میں ہیں لیکن یہ حدیث دوسری صحیح اسانید سے بھی مروی ہے جس میں ابن جریج نہیں ہیں ، مثلا ملاحظہ ہو اس کی دو مزید سندیں:
➊   امام مسلم رحمه الله (المتوفى261) نے کہا:
 ”حدثنا إسحاق بن إبراهيم، أخبرنا سليمان بن حرب، عن حماد بن زيد، عن أيوب السختياني، عن إبراهيم بن ميسرة، عن طاوس، أن أبا الصهباء، قال لابن عباس: هات من هناتك، «ألم يكن الطلاق الثلاث على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم، وأبي بكر واحدة»؟ فقال: «قد كان ذلك، فلما كان في عهد عمر تتايع الناس في الطلاق، فأجازه عليهم»“[صحيح مسلم 3/ 1099 رقم 1472]
 ➋  امام مسلم رحمه الله (المتوفى261) نے کہا:
”حدثنا إسحاق بن إبراهيم، ومحمد بن رافع، واللفظ لابن رافع، قال إسحاق: أخبرنا، وقال ابن رافع: حدثنا عبد الرزاق، أخبرنا معمر، عن ابن طاوس، عن أبيه، عن ابن عباس، قال: " كان الطلاق على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم، وأبي بكر، وسنتين من خلافة عمر، طلاق الثلاث واحدة، فقال عمر بن الخطاب: إن الناس قد استعجلوا في أمر قد كانت لهم فيه أناة، فلو أمضيناه عليهم، فأمضاه عليهم “[صحيح مسلم 3/ 1099 رقم 1472وأخرجه عبدالرزاق في مصنفه  ت أیمن الأزھری: 6/ 305 رقم 11380، و من طريق عبدالرزاق أخرجه أحمد بن حنبل في مسنده 1/ 314 ، وأخرجه أيضا البيهقي في سننه 7/ 550 من طريق إسحاق بن منصور ، وأخرجه أيضا  الدارقطني في سننه 5/ 84 من طريق أحمد بن منصور الرمادي ، وأخرجه أيضا أبوعوانه في مستخرجه 3/ 152 من طريق أحمد بن يوسف الأزدي وأيضا من طريق إسحاق بن إبراهيم الدبري ،كلهم (إسحاق بن راهويه و محمد بن رافع و أحمد بن حنبل  وإسحاق بن منصور وأحمد بن منصور الرمادي وأحمد بن يوسف الأزدي وإسحاق بن إبراهيم الدبري عن عبدالرزاق به]

(د): أبو الصهباء صهيب البصري پر اعتراض
اس روایت کو جس سند ومتن کے ساتھ ہم نے پیش کیا ہے اس میں ابوالصھباء کا تذکر ہ نہیں ، لیکن بعض طرق میں ابوالصھباء کا ذکر بطور سائل ہے، اس کی بنیاد پر بعض لوگ ابوالصھباء پر جرح کرکے اس روایت کو ضعیف قر ار دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ امام ذہبی نے نقل کیا ہے کہ:
”قال النسائي: بصري ضعيف“ ”امام نسائی نے کہا یہ بصری اور ضعیف ہے“ [ميزان الاعتدال للذهبي ت البجاوي: 2/ 321]
عرض ہے کہ :
اولا:
 ”ابوالصھباء“ کا تذکر ہ ہر روایت میں نہیں ہے اس لئے جس روایت میں ابوالصھباء کا ذکر نہیں ہے اسے بھی ابوالصھباء پر جرح کرکے ضعیف قرار دینا بہت بڑی نادانی ہے۔
ثانیا:
جن روایات میں ابوالصھباء کا ذکر ہے ان میں سے کسی میں بھی بحیثیت راوی ان کا ذکر نہیں ہے ، یعنی سلسلہ سند کے رواۃ میں سے ابوالصھباء نہیں ہیں ، بلکہ بات یہ کہ ابوالصھباء نے ابن عباس رضی اللہ عنہ سے سوال کیا اور ابن عباس رضی للہ عنہ نے ان کو جواب دیتے ہوئے یہ حدیث بیان کی، یہ سوال وجواب امام طاووس کے سامنے ہوا اس لئے امام طاووس نے براہ راست ابن عباس رضی اللہ عنہ روایت کیا ہے۔
ایسی صورت میں ابوالصھباء ثقہ ہوں یا ضعیف ہوں اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کیونکہ وہ اس روایت کے رواۃ میں سے نہیں ہیں ۔
بطور مثال عرض ہے کہ فریق مخالف تین طلاق سے متعلق اپنی تائید میں مغیربن شعبہ رضی اللہ عنہ کے فتوی والی روایت پیش کرتے ہیں جو اس طرح ہے:
 ”أخبرنا أبو عبد الله الحافظ، أخبرني محمد بن أحمد بن بالويه، نا محمد بن غالب، نا عبيد الله بن معاذ، نا أبي، نا شعبة، عن طارق بن عبد الرحمن قال: سمعت قيس بن أبي حازم قال: سأل رجل المغيرة بن شعبة وأنا شاهد، عن رجل طلق امرأته مائة قال: ثلاث تحرم وسبع وتسعون فضل“ 
 ”قیس بن حازم کہتے ہیں کہ مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ سے ایک شخص نے سوال کیا اور میں موجود تھا کہ ایک آدمی نے اپنی بیوی کو سو طلاق دے دی ، تو مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ نے کہا: تین طلاق اس کی بیوی کو حرام کردے گی ، اور ننانوے طلاق زیادتی ہے“ [السنن الكبرى للبيهقي 7/ 549]
اس روایت میں سوال پوچھنے والے ایک ”رجل“ شخص کا ذکر ہے جس نے مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ سےسوال کیا تھا اوراسی کے جواب میں مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ نے فتوی دیا۔
لیکن اس ”رجل“ کی توثیق تو درکنار اس کا نام تک مذکور نہیں ہے تو کیا اس وجہ یہ اثر ضعیف ہوجائے گا؟
ثالثا:
امام نسائی کا یہ قول ان کی کسی کتاب میں ہمیں نہیں ملا اور جنہوں نے بھی نقل کیاہے کسی نے اس کی صحیح سند ذکر نہیں کی ہے ۔
رابعا :
امام ذہبی نے نسائی سے تضعیف نقل کرنے کے ساتھ ساتھ امام ابوزرعہ سےاس کی توثیق بھی نقل کی ہے۔اور ان کی توثیق ثابت ہے چنانچہ:
 ”مديني ثقة“ ، ”یہ مدینی اور ثقہ ہیں“ [الجرح والتعديل لابن أبي حاتم، ت المعلمي: 4/ 444 ]

امام عجلى رحمه الله (المتوفى261) نے بھی کہا:
 ”تابعي، ثقة“ ، ”یہ تابعی اور ثقہ ہیں“ [تاريخ الثقات للعجلي: ص: 230]

امام ابن حبان رحمه الله (المتوفى354) نے بھی انہیں ثقات میں ذکر کیاہے :[الثقات لابن حبان ط االعثمانية: 4/ 381]
 امام إبن خلفون رحمه الله (المتوفى 636) نے بھی ثقات میں ذکر کیاہے:[إكمال تهذيب الكمال لمغلطاي 7/ 8]

لہٰذا ان محدثین کے خلاف امام نسائی کی تضعیف ثابت بھی ہوجائے تو غیر مقبول ہے کیونکہ وہ جرح میں متشدد ہیں جیساکہ امام ذہبی اور ابن حجر رحمہ اللہ نے کہاہے ۔ میزان الاعتدال : 1/ 437 ، مقدمۃ فتح الباری ص 387
خلاصہ یہ کہ ابوالصھباء ثقہ ہیں ، نیز وہ اس حدیث کے رواۃ میں سے بھی نہیں ہیں ۔

سند پر دوسرا اعتراض : طریق پر 
(الف): ”طریق طاووس عن ابن عباس“ پر نکارت کا اعتراض 
بعض لوگ یہ اعتراض پیش کرتے ہیں کہ طاووس جب ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت کریں تو ان کی روایت منکر ہوتی ہے ، جیساکہ اہل علم نے کہا ہے۔
عرض ہے کہ دنیا کے کسی بھی محدث نے ”طاووس عن ابن عباس“ کے طریق پر منکر کی جرح نہیں کی ہے ، اس سلسلے میں جتنے بھی اقوال پیش کئے جاتے ہیں وہ ناقدین محدثین کے اقوال نہیں ہیں بلکہ عام اہل علم کی باتیں ہیں اور یہ باتیں بھی محض اس بنیاد پر کہی گئی ہیں کہ ابن عباس سے تین طلاق کے ایک ہونے کی بات صرف طاووس نے نقل کی ہے باقی لوگوں نے ان سے طلاق کے تین ہونے کا فتوی نقل کیا ہے۔
اور ماقبل میں ”امام طاؤوس رحمہ اللہ پرشذوذ کا اعتراض“ کے تحت تفصیل سے اس کا جوب دیا جاچکا ہے ۔
اب آئیے اس سلسلے میں پیش کئے جانے والے بعض کلام کو دیکھ لیتے ہیں ۔

✿ زاہد کوثری صاحب حسین بن علی الکرابیسی (المتوفی248) سے نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
”وقال الكرابيسي في أدب القضاء ، إن طاوسا يروي عن ابن عباس أخبارا منكرة ونراه والله أعلم أنه أخذها عن عكرمة ،توقاه سعيد ابن المسيب وعطا وجماعة وكان قدم علي طاووس و أخذ طاووس عن عكرمة عامة مايرويه عن ابن عباس“ 
 ”کرابیسی نے ادب القضاء میں کہا ہے کہ طاوس یہ ابن عباس سے منکر روایات بیان کرتے ہیں اور ہم سمجھتے ہیں کہ ان روایات کو انہوں نے عکرمہ سے سنا ہے، اس سے ابن المسیب ، عطاء اور ایک جماعت نے دوری اختیار کی ، اوریہ طاووس کے پاس آئے تھے اور طاووس نے عکرمہ ہی سے وہ روایات لی ہیں جنہوں وہ عام طور سےابن عباس رضی للہ عنہ سے بیان کرتے ہیں“ [اشفاق في أحكام الطلاق ص 49 ]

عرض ہے کہ :
 ● اولا:
کرابیسی کی کتاب ادب القضاء دستیاب نہیں ہے اور زاہد کوثری غالی حنفی کے نقل پر قطعا اعتماد نہیں کیا جاسکتا ۔
 ● ثانیا: 
خود کرابیسی پر شدید جرح ہے حتی کہ امام احمد رحمہ اللہ نے اسے کافر کہا ہے جیساکہ پہلے گذرچکا ہے ، بلکہ زاہد کو ثری نے خود کرابیسی کے بارے میں کہا:
 ”متكلم فيه“ ، ”اس پر کلام کیا گیا ہے“ [تأنيب الخطيب : ص356 ، دوسرا نسخہ ص 184]
 ● ثالثا:
کرابیسی ناقد ائمہ میں سے نہیں ہیں ، اور ناقدین ائمہ میں سے کسی نے بھی یہ بات نہیں کہی ہے جو کرابیسی سے نقل کی گئی ہے ، اس لئے کرابیسی کی بات غیرمقبول ہے۔
 ● رابعا:
کرابیسی کا اعتراض طاووس کی ان روایات پر ہے جنہیں طاووس رحمہ اللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ سے خود نہیں سنے ہوتے ہیں بلکہ عکرمہ سے سن کر اسے ابن عباس رضی اللہ عنہ کے حوالے سے نقل کرتے ہی ۔ لیکن صحیح مسلم کی زیر بحث حدیث کو طاووس نے ابن عباس رضی اللہ عنہ خود سنا ہے ناکہ عکرمہ سے سن کر ابن عباس سے روایت کیا ہے ، چنانچہ:
امام دارقطني رحمه الله (المتوفى385) نے کہا:
 ”نا محمد بن مخلد , والعباس بن العباس بن المغيرة , قالا: نا أحمد بن منصور بن سيار , عن عبد الرزاق , أنا معمر , عن ابن طاوس , عن أبيه , قال: سمعت ابن عباس , يقول: كان الطلاق على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم وأبي بكر وسنتين من خلافة عمر: الثلاثة واحدة , فقال عمر: إن الناس قد استعجلوا في أمر كانت لهم فيه أناة فلو أمضيناه عليهم فأمضاه عليهم“ 
 ”طاوس کہتے ہیں کہ میں نے ابن عباس رضی اللہ عنہ کو کہتے ہوئے سنا کہ : عہدرسالت اور ابو بکر رضی اللہ عنہ کے دور خلافت اور عمر رضی اللہ عنہ کے دور خلافت کے ابتدائی دو سال تک تین طلاق ایک شمار ہوتی تھی ، تو عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: لوگوں نے ایسے معاملے میں جلدبازی شروع کردی ہے جس میں انہیں کے لئے مہلت تھی ، اس لئے اگر ہم لوگوں پر اسے نافذ کردیں تو ؟ پھر انہیں لوگوں پر اسے نافذ کردیا“ [سنن الدارقطني، ت الارنؤوط: 5/ 84 وإسناده صحيح ]
اس روایت میں طاووس نے ابن عباس رضی اللہ سے سماع کی صراحت کردی ہے لہٰذا کرابیسی کا کلام ثابت بھی ہو تو بھی یکسر مردود ہے۔

 ✿ أبو جعفر النحاس النحوي (المتوفى 338) نے کہا:
 ”وطاوس وإن كان رجلا صالحا فعنده عن ابن عباس مناكير يخالف عليها ولا يقبلها أهل العلم منها أنه: روي عن ابن عباس، أنه قال في رجل قال لامرأته أنت طالق ثلاثا إنما يلزمه واحدة“ 
 ”طاوس گرچہ نیک آدمی تھے لیکن ان کے پاس ابن عباس کی منکر روایات تھیں ، جن میں ان کی مخالفت کی جاتی ہے اوراہل علم اسے قبول نہیں کرتے ، انہیں میں سے وہ روایت بھی ہے جسے انہوں نے ابن عباس رضی اللہ عنہ سے بیان کیا کہ انہوں نے ایک شخص کے بارے میں کہا جس نے اپنی بیوی کو تین طلاق دے دی کہ یہ ایک ہی طلاق ہوگی“ [الناسخ والمنسوخ للنحاس ص 230]
عرض ہے کہ:
 أبو جعفر النحاس نے یہاں جو کچھ کہا ہے اس کے لئے طاؤوس کے نقل کردہ ابن عباس رضی اللہ عنہ کے اس فتوی کو بنیاد بنایا ہے جس میں تین طلاق کو ایک ماننے کا ذکر ہے ۔اور ماقبل میں ہم واضح کرچکے ہیں کہ ابن عباس رضی اللہ عنہ کا فتوی بھی صرف طاووس نے نہیں بلکہ ابن عباس رضی اللہ عنہ دیگر شاگردوں مثلا عکرمہ وغیرہ نے بھی نقل کررکھا ہے۔لہٰذا جن لوگوں نے طاووس کو منفرد سمجھ کر ان کی بات رد کی ہے ان کا فیصلہ غلط ہے ۔
واضح رہے کہ ابن عباس رضی اللہ عنہ روایت اسی طرح ان کے فتوی کو اہل علم کی ایک جماعت کی طرف سے ہرصدی میں قبول کیا گیا ہے جیساکہ تفصیل آرہی ہے بلکہ عہد فاروقی کے ابتدائی دو سال سے قبل تو اس روایت کی قبولیت اور اس پرعمل کرنے پر پوری امت کا اجماع تھا ۔
نیز حافظ ابن حجر رحمه الله نے ”طاووس عن عباس“ کے طریق سے مروی ایک روایت کے بارے میں فرمایا:
”وقد تلقى العلماء ذلك بالقبول“ 
 ”اس روایت کو علماء کے یہاں تلقی بالقبول حاصل ہے“ [فتح الباري لابن حجر، ط المعرفة: 9/ 403]
 لہٰذا ابو جعفر النحاس کا یہ کہنا کہ اس طریق سے مروی روایت کو اہل علم قبول نہیں کرتے غلط ہے ۔

(ب) :”طریق طاووس عن ابن عباس“ میں اضطراب کا اعتراض
✿ اضطراب کا پہلا اعتراض:
بعض لوگ کہتے ہیں کہ کسی سند میں طاووس نے ابن عباس سے بغیر واسطہ کے روایت کیا ہے اور کسی سند میں انہوں نے ابو الصھباء کا واسطہ ذکر کیا ہے، لہٰذا یہ سند میں اضطراب ہے۔
ابو العباس أحمد بن عمر القرطبي رحمه الله (المتوفى656) نے کہا:
”وقد اضطرب فيه طاووس . فمرة رواه عن أبي الصهباء ، ومرة عن ابن عباس نفسه“ 
 ”اس میں طاووس کے اضطراب ہوا ہے انہوں نے کبھی ابوالصھباء سے روایت کیا اور کبھی ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے“ [المفهم للقرطبي: 4/ 241]
عرض ہے کہ یہ محض غلط فہمی اور ناسمجھی ہے کیونکہ امام طاووس نے کسی بھی سند میں ابوالصہبا کے واسطے سے یہ روایت نقل نہیں کی ہے بلکہ ہر سند میں انہوں نے خود ابن عباس رضی اللہ عنہ سے ڈائریکٹ یہ روایت نقل کی ہے۔
اور جس روایت میں ابوالصہباء کا ذکر ہے اس میں یہ بیان ہے کہ ابن عباس رضی اللہ عنہ نے ابو الصہباء کے سوال پر یہ حدیث بیان کی ہے ، لیکن جب ابن عباس رضی اللہ عنہ ابوالصہباء کے سوال کے جواب میں یہ حدیث بیان کررہے تھے تو اس وقت امام طاووس بھی وہاں موجود تھے اور ابن عباس کی بیان کردہ حدیث سن رہے تھے ۔
بالفاظ دیگر یہ سمجھ لیں کہ ابوالصہباء اس حدیث کے راوی نہیں ہیں بلکہ وہ ابن عباس رضی اللہ عنہ سے سوال کررہے تھے اور ابن عباس رضی اللہ عنہ ان کو جواب دے رہے تھے اوراس سوال وجواب کے وقت وہاں امام طاووس بھی موجود تھے ، اس لئے ابن عباس رضی اللہ عنہ نے جب یہ حدیث بیان کی تو امام طاووس نے ان کے سامنے اپنے کانوں سے یہ حدیث سنی ، چنانچہ امام دارقطنی کی سند اوپر پیش کی جاچکی ہے اس میں طاوس نے صراحت کے ساتھ کہا ہے :
”سمعت ابن عباس , يقول: ...الخ“ 
 ” ”طاوس کہتے ہیں کہ میں نے ابن عباس رضی اللہ عنہ کو کہتے ہوئے سنا...الخ“ [سنن الدارقطني، ت الارنؤوط: 5/ 84 وإسناده صحيح ]
اور مصنف عبدالرزاق میں طاوس کے الفاظ ہیں :
”قال : دخلت على ابن عباس ومعه مولاه أبو الصهباء، فسأله أبو الصهباء ...“ 
 ”طاوس کہتے ہیں کہ: میں ابن عباس رضی اللہ عنہ کے پاس آیا ان کے ساتھ  ان کے مولی ابوالصھباء تھے تو ابوالصھباء نے ان سے سوال...“  [مصنف عبد الرزاق، ت الأعظمي: 6/ 392 وإسناده صحيح]
معلوم ہوا کہ طاووس اور ابن عباس کے بیچ کسی کا واسطہ نہیں بلکہ طاووس نے اس حدیث کو ڈائریکٹ ابن عباس رضی اللہ عنہ سے سنی ہے اور ابوالصہباء کا ذکر سند کے اندر نہیں ہے بلکہ یہ بتانے کے لئے ہیں کہ ابن عباس رضی اللہ عنہ نے یہ حدیث ابو الصہباء کے پوچھنے پر بیان کی تھی ۔

نیز بطور الزام عرض ہے کہ فریق مخالف تین طلاق کے تین ہونے سے متعلق صحابہ کے فتاوی سے متعلق جو روایات پیش کرتے ہیں ان میں بھی بعض روایات کی سندوں میں یہ صورت پائی جاتی ہے ملاحظہ ہو:

 ● پہلی مثال:
تین طلاق کو تین بتانے سے متعلق ابن عباس رضی اللہ عنہ کے فتوی والی یہ روایت دیکھئے:
 ”نا أبو بكر , نا أبو حميد المصيصي , نا حجاج , نا شعبة , أخبرني عمرو بن مرة , قال: سمعت ماهان يسأل سعيد بن جبير عن رجل طلق امرأته ثلاثا , فقال سعيد: سئل ابن عباس عن رجل طلق امرأته مائة , فقال: «ثلاث تحرم عليك امرأتك وسائرهن وزر , اتخذت آيات الله هزوا“ 
 ”عمرو بن مرة کہتے ہیں کہ میں نے ماھان کو سنا انہوں نے سعید بن جبیر سے ایک شخص کے بارے میں پوچھا جس نے اپنی بیوی کو تین طلاق دے دی تو سعید نے کہا: ابن عباس رضی اللہ عنہ سے ایک شخص کے بارے میں پوچھا گیا جس نے اپنی بیوی کو سو طلاق دے دی تو ابن عباس رضی اللہ عنہ نے جواب دیا: تین طلاق نے تیری بیوی کو تجھ پر حرام کردیا اور بقیہ کا تجھ پر گناہ ہے تو نے اللہ کی آیات کو مزاق بنایا“ [سنن الدارقطني 5/ 24]
اس روایت میں ”ماھان“ نامی ایک شخص کا ذکر ہے جس نے سعید بن جبیر سےسوال کیا تھا اوراسی کے جواب میں سعید بن جبیر نے ابن عباس کا فتوی بتایا ۔

 لیکن اسی روایت کودوسری سند اس طرح ہے:
 ”عن الثوري، عن عمرو بن مرة، عن سعيد بن جبير قال: جاء ابن عباس رجل فقال: طلقت امرأتي ألفا، فقال ابن عباس: ثلاث تحرمها عليك، وبقيتها عليك وزرا. اتخذت آيات الله هزوا“ 
 ”عمرو بن مرة سعید بن جبیر سے روایت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ایک شخص ابن عباس رضی اللہ عنہ کے پاس آیا اور کہا: میں نے اپنی بیوی کو ہزار طلاق دے دی ، تو ابن عباس رضی اللہ عنہ کہا: تین طلاق نے تیری بیوی کو تجھ پر حرام کردیا اور بقیہ کا تجھ پر گناہ ہے تو نے اللہ کی آیات کو مزاق بنایا“ [مصنف عبد الرزاق، ت الأعظمي: 6/ 397 ]
اس سند میں سعید بن جبیر سے سوال کرنے والے ”ماھان“ کا ذکر نہیں ہے ۔
تو کیا اب یہ کہہ دیا جائے کہ یہ روایت بھی مضطرب ہے کیونکہ کسی سند میں ”ماھان“ کا واسطہ ہے اور کسی سند میں یہ واسطہ نہیں ہے ؟

 ●  دوسری مثال:
تین طلاق کو تین بتانے سے متعلق مغیربن شعبہ رضی اللہ عنہ کے فتوی والی یہ روایت دیکھئے:
”أخبرنا أبو عبد الله الحافظ، أخبرني محمد بن أحمد بن بالويه، نا محمد بن غالب، نا عبيد الله بن معاذ، نا أبي، نا شعبة، عن طارق بن عبد الرحمن قال: سمعت قيس بن أبي حازم قال: سأل رجل المغيرة بن شعبة وأنا شاهد، عن رجل طلق امرأته مائة قال: ثلاث تحرم وسبع وتسعون فضل“ 
 ”قیس بن حازم کہتے ہیں کہ مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ سے ایک شخص نے سوال کیا اور میں موجود تھا کہ ایک آدمی نے اپنی بیوی کو سو طلاق دے دی ، تو مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ نے کہا: تین طلاق اس کی بیوی کو حرام کردے گی ، اور ننانوے طلاق زیادتی ہے“ [السنن الكبرى للبيهقي 7/ 549]
اس روایت میں سوال پوچھنے والے ایک ”رجل“ شخص کا ذکر ہے جس نے مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ سےسوال کیا تھا اوراسی کے جواب میں مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ نے فتوی دیا۔
 لیکن اسی روایت کی دوسری سند اس طرح ہے:
 ”حدثنا غندر ، عن شعبة ، عن طارق ، عن قيس بن أبي حازم ؛ أنه سمعه يحدث عن المغيرة بن شعبة ؛ أنه سئل عن رجل طلق امرأته مئة ؟ فقال : ثلاث يحرمنها عليه ، وسبعة وتسعون فضل“ 
 ”قیس بن حازم کہتے ہیں کہ انہوں نے مغیربن شعبہ رضی اللہ عنہ سے سنا ، ان سے ایک شخص کے بارے میں سوال کیا گیا جس نے اپنی بیوی کو سو طلاق دے دی ، تو مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ نے کہا: تین طلاق اس کی بیوی کو اس پر حرام کردے گی ، اور ننانوے طلاق زیادتی ہے“ [مصنف ابن أبي شيبة. سلفية: 5/ 13 ]
اس سند میں مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ سے سوال پوچھنے والے ”رجل“ شخص کا ذکر نہیں ہے ۔
تو کیا اب یہ کہہ دیا جائے کہ یہ روایت بھی مضطرب ہے کیونکہ کسی سند میں سوال پوچھنے والے ”رجل“ کا واسطہ ہے اور کسی سند میں یہ واسطہ نہیں ہے ؟
یاد رہے کہ ان دونوں مثالوں میں پیش کردہ روایات کو فریق مخالف صحیح سمجھتے ہیں اور بطوردلیل پیش کرتے ہیں۔

معلوم ہوا کہ ابو العباس القرطبي رحمه الله کی طرف سے اضطراب کا دعوی غلط ہے ۔
امام شوكاني رحمه الله (المتوفى1250) فرماتے ہیں:
”ومن الأجوبة دعوى الاضطراب كما زعمه القرطبي في المفهم، وهو زعم فاسد لا وجه له“ 
 ”اس حدیث کا ایک جواب دیتے ہوئے اس میں اضطراب کا دعوی کیا گیا ہے ، جیساکہ قرطبی نے ”المفهم“ میں گمان کیا ہے اور یہ گمان فاسد ہے اس کی کوئی بنیاد نہیں ہے“ [نيل الأوطار 6/ 277]


✿اضطراب کا دوسرا اعتراض:
بعض لوگ کہتے ہیں کہ کسی روایت میں سائل کا نام ابوالصہباء ہے جبکہ کسی روایت میں سائل کا نام ابوالجوزاء ہے ، لہٰذا یہ بھی اضطراب ہے۔
عرض ہے کہ:
اولا:
یہ نام سند کے رواۃ میں سے نہیں ہے ، اس لئے اگر اضطراب مان بھی لیا جائے تو سائل کا نام ثابت نہیں ہوپائے گا باقی اس کی سند اپنی جگہ صحیح ہوگی اور باقی حدیث کا پورا متن بھی صحیح ہوگا، کیونکہ سند اور بقیہ متن میں کوئی اختلاف نہیں ہے ۔
ثانیا:
اضطراب کے لئے ضروری ہے کہ دونوں روایت ایک ہی درجے کی ہوں
امام ابن الصلاح رحمه الله (المتوفى643)نے کہا:
”المضطرب من الحديث: هو الذي تختلف الرواية فيه فيرويه بعضهم على وجه وبعضهم على وجه آخر مخالف له، وإنما نسميه مضطربا إذا تساوت الروايتان. أما إذا ترجحت إحداهما بحيث لا تقاومها الأخرى بأن يكون راويها أحفظ، أو أكثر صحبة للمروي عنه، أو غير ذلك من وجوه الترجيحات المعتمدة، فالحكم للراجحة، ولا يطلق عليه حينئذ وصف المضطرب“ 
”مضطرب وہ حدیث ہے جس کی روایت میں اس طرح اختلاف ہو کہ بعض ایک طرح روایت کریں اور بعض اس کے مخالف دوسری طرح روایت کریں ، اور ہم ایسی حدیث کو اس وقت مضطرب کہیں گے جب طرفین کی روایت مساوی اورایک درجے کی ہو ۔ لیکن اگر دونوں میں سے کوئی روایت راجح قرار پائے اس طرح کہ دوسری روایت اس کے ہم پلہ نہ ہو ، بایں طور کہ اس کے روای احفظ ہوں یا مروی عنہ کے ساتھ اس نے زیادہ مدت کذاری ہو ، یا اس کے علاوہ معتمد وجوہ ترجیحات میں سے کوئی ہو تو حکم راجح روایت کے اعتبار سے لگے گا اورایسی صورت میں یہ روایت مضطرب نہیں ہوگی“ [مقدمة ابن الصلاح: ص: 94]

امام نووي رحمه الله (المتوفى 676)نے کہا:
”المضطرب هو الذي يروى على أوجه مختلفة متقاربة، فإن رجحت إحدى الروايتين بحفظ راويها أو كثرة صحبته المروي عنه، أو غير ذلك: فالحكم للراجحة، ولا يكون مضطرباً“ 
 ”مضطرب وہ حدیث ہے جو مختلف ایسے طرق سے مروی ہو جو آپس میں ہم پلہ ہوں اور اگر دو روایات میں ایک روایت راجح قرار پائے اس کے روای کے احفظ ہونے کے سبب یا مروی عنہ کے ساتھ کسی راوی کی کثرت صحبت کے سبب یا کسی اور وجہ سے تو حکم راجح روایت کے اعتبار سے لگے گا اورایسی صورت میں یہ روایت مضطرب نہیں ہوگی“[التقريب والتيسير لمعرفة سنن البشير النذير في أصول الحديث ص 6]
مزید تفصیل کے لئے دیکھیں ہماری کتاب : [انوار البدر فی وضع الیدین علی الصدر: 237 ،238]

اور یہاں دونوں روایات ایک درجہ کی نہیں ہیں بلکہ جس روایت میں ابوالصھباء کا نام ہے وہ اعلی درجہ کی صحیح روایت ہے بلکہ صحیح مسلم میں موجود ہے۔
اور جس روایت میں ابوالجوزاء کا نام ہے اس کی سند صحیح مسلم کے درجہ کی نہیں ہے بلکہ اس میں عبداللہ بن مؤمل کمزورحافظہ والا ہے جیساکہ ماقبل میں وضاحت ہوچکی ہے ، لہٰذا اس کا بیان مرجوع ہوگا اور صحیح مسلم والی حدیث راجح قرار پائے گی اور درست نام ابو الصہباء تسلیم کیا جائے گا۔اور کوئی اضطراب باقی نہیں رہے گا۔

سند پر تیسرا اعتراض : غیرمتعلق اقوال 
صحیح مسلم کی زیربحث حدیث کی سند پر اعتراضات کے لئے جن جن چیزوں کا سہارا لیا گیا سب کا جواب دیا جاچکا ہے ۔اب آخر میں یہ بھی واضح کردیں کچھ لوگ اس حدیث کو ضعیف ثابت کرنے کے لئے بعض اہل علم کے ایسے اقوال پیش کرنے لگتے ہیں جن کا تعلق اس حدیث کی تضعیف نہیں ہے ، مثلا یہ کہ بعض اس حدیث کو منسوخ کہتے ہیں اور بعض اسے غیرمعمول بہ کہتے ہیں وغیر وغیرہ ۔
عرض کہ ان باتوں کا اس حدیث کی تضعیف سے کوئی تعلق نہیں ہے اوران کے جوابات بھی آگے ہم پیش کررہے ہیں۔

اور بعض لوگوں نے تو حد کردی اور اس حدیث پر اعتراضات کرنے کے لئے بعض اہل علم کے ایسے اقوال بھی پیش کردئے جو کسی دوسری حدیث سے متعلق تھے مثلا:
ابن رجب رحمہ اللہ کے حوالے سے بعض لوگ نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا:
”كان علماء مكة ينكرون علي طاوس ماينفرد به من شواذ الأقوال“ 
 ”مکہ کے علماء طاوس کے شاذ اور منفرد اقوال پر نکیر کرتے تھے“ [السيرالحاث ص 29 ، اشفاق في أحكام الطلاق ص 49 ]
عرض ہے کہ:
مکہ کے ان علماء کی اس نکیر کا تعلق طاووس کی روایت کردہ زیربحث صحیح مسلم کی حدیث سے نہیں ہے بلکہ خود امام طاووس کے اقوال وفتاوی سے جن میں مکہ والے ان کو منفرد جانتے تھے، اس کی وضاحت اس روایت سے ہوجاتی ہے ۔
 محمد بن إسحاق المكي الفاكهي (المتوفى 272) نے کہا:
 ”حدثنا محمد بن منصور، قال: ثنا سفيان، عن ابن أبي نجيح، قال: تكلم طاوس، فقال: الخلع ليس بطلاق، إنما هو فراق ، فأنكر ذلك عليه أهل مكة، فقالوا: إنما هو طلاق، فاعتذر إليهم، وقال: لم أقل هذا، إنما قاله ابن عباس رضي الله عنهما“
 ”ابن ابی نجیح کہتے ہیں کہ طاووس نے فتوی دیا اور کہا: خلع طلاق نہیں ہے بلکہ افتراق ہے ، تو اہل مکہ نے اس بات کو غلط قرار دیتے ہوئے ان پر نکیر کی اور کہا بلکہ یہ طلاق ہے ، تو طاووس رحمہ اللہ نے اپنی تائید میں کہا کہ : یہ بات میں ہی نہیں کہتا بلکہ ابن عباس رضی اللہ عنہ نے بھی یہ فتوی دیا ہے“ [أخبار مكة للفاكهي 3/ 70 وإسناده حسن ، وقال الحافظ في الفتح 9/ 403 : أخرج إسماعيل القاضي بسند صحيح عن بن أبي نجيح...فذكره ]
یہ روایت واضح کرتی ہے مکہ کے علماء طاووس کی روایت پر نہیں بلکہ ان کے اس فتوی پر نکیر کرتے تھے کہ خلع طلاق نہیں ہے ۔
اور ہم ماقبل میں واضح کرچکے ہیں کہ اس سلسلے میں امام طاووس کی فتوی ہی صحیح ہے ۔

No comments:

Post a Comment