فتنوں کی سرزمین عراق کا مشرق میں ہونا احادیث‌ صحیحہ سے ثابت ہے - Kifayatullah Sanabili Official website

2020-04-18

فتنوں کی سرزمین عراق کا مشرق میں ہونا احادیث‌ صحیحہ سے ثابت ہے



فتنوں کی سرزمین عراق کا مشرق میں ہونا احادیث‌ صحیحہ سے ثابت ہے
(تحریر : کفایت اللہ سنابلی)
✿ ✿ ✿ 
اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے متعدد احادیث‌ میں عراق کو فتنوں کی سرزمیں قراردیا ہے، اورتاریخ بھی اس بات پرشاہد ہے کہ ہمیشہ بڑے بڑے فتنے عراق ہی سے نمودارہوئے ہیں، اورآج بھی ہم اپنی کھلی آنکھوں‌ سے یہاں کے فتنہ کودیکھ رہے ہیں ، یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت کے دلائل میں سے ایک دلیل ہے۔حدیث میں‌ اس تنبیہ سے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا مقصد یہی ہے کہ اس سرزمین کے فتنوں سے ہوشیا ر رہا جائے۔
لیکن افسوس ہے کہ بعض لوگوں‌ نے فتنوں کے اس مرکز کو شریعت کا ماخذ بنا رکھا ہے اورجب انہیں متنبہ کیا جاتا ہے اورحدیث پیش کی جاتی ہے تو وہ حدیث کی من مانی تاویل اورمعنوی تحریف پر اترآتے ہیں۔
.
ذیل میں ایک حدیث پیش کی جارہی ہے جس میں اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عراق کو فتنوں کی سرزمیں قراردیا ہے۔
”عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُشِيرُ إِلَى المَشْرِقِ فَقَالَ: «هَا إِنَّ الفِتْنَةَ هَا هُنَا، إِنَّ الفِتْنَةَ هَا هُنَا مِنْ حَيْثُ يَطْلُعُ قَرْنُ الشَّيْطَانِ»“ 
 ”صحابی عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت کرتے ہیں کہ میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مشرق کی طرف اشارہ کرتے ہوئے دیکھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ فتنہ یہاں ہے فتنہ یہاں ہے جہاں سے شیطان کا سینگ نکلتا ہے۔“ [صحيح البخاري 4/ 123رقم 3279]
.
اس حدیث میں مشرق سے مراد عراق ہے اس کا سب سے واضح ثبوت درج ذیل روایت ہے:
امام احمد فرماتے ہیں:
 ”حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَيْرٍ، حَدَّثَنَا حَنْظَلَةُ، عَنْ سَالِمِ بْنِ عَبْدِ اللهِ بْنِ عُمَرَ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: رَأَيْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: يُشِيرُ بِيَدِهِ يَؤُمُّ الْعِرَاقَ: هَا، إِنَّ الْفِتْنَةَ هَاهُنَا، هَا، إِنَّ الْفِتْنَةَ هَاهُنَا، - ثَلَاثَ مَرَّاتٍ مِنْ حَيْثُ يَطْلُعُ قَرْنُ الشَّيْطَانِ“ 
 ”صحابی عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت کرتے ہیں کہ میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنے ہاتھ سے عراق کی طرف اشارہ کرتے ہوئے دیکھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ فتنہ یہاں ہے فتنہ یہاں ہے آپ صلی اللہ علیہ وسم نے ایسا تین کہا اورفرمایا یہیں سے شیطان کا سینگ نکلتا ہے۔“ [مسند أحمد ط الرسالة (10/ 391) رقم6302 واسنادہ صحیح علی شرط الشیخین ]
.
یہ حدیث جو بخاری ومسلم کی شرط پرصحیح اورصریح بھی ہے اس سے مذکورہ بالاحدیث کی مکمل تشریح ہوگئی کہ ’’مشرق ‘‘ سے مراد ’’عراق ‘‘ ہے ، اوریہ مسلم بات ہے حدیث حدیث کی تشریح ہوتی ہے۔
اس واضح حدیث کے بعد کسی بھی بحث کی گنجائش باقی نہیں‌ رہ جاتی ہے لیکن کیا کیا جائے کچھ لوگ کج بحثی پر اترآتے ہیں ، اورصحیح اورصریح حدیث کے ہوتے ہوئے بھی لوگوں کو مغالطہ دیتے ہیں ، کہ حدیث‌ میں مشرق سے مراد’’عراق ‘‘ نہیں ہے۔
حالانکہ اگربالفرض تھوڑی دیر کے لئے تسلیم کرلیں کہ حدیث میں‌ مشرق سے مراد عراق نہیں ہے تو یہ بات صرف ان احادیث سے متعلق ہوگی جن میں مشرق کا لفظ ہے۔
لیکن ابھی ہم نے مسند احمد سے جو صحیح اورصریح حدیث پیش کی اس کا کیا جواب ہوگا؟؟؟؟؟
اس میں تو مشرق کا لفظ نہیں بلکہ عراق کا لفظ ہے !
اس کا جواب نہ توآج تک کوئی د ے سکا ہے اورنہ ہی قیامت تک کوئی دے سکے گا۔
.
اب آئیے اس نکتہ پرنظر کرتے ہیں جس کے سبب مذکورہ بالاحدیث میں‌ مشرق سے عراق مراد ہونے کا انکار کیا جارہا ہے۔
داصل آج کچھ لوگوں کو اپنی جغرافیہ دانی پر بڑا فخرہے اوروہ نقشہ دکھا تے پھرتے ہیں کہ یہ نقشہ دیکھو اس میں‌ عراق مشرق میں آتا ہی نہیں ہے۔
حالانکہ نقشہ میں بھی عراق مشرق ہی کی سمت میں ہے لیکن اس سے صرف نظرکرتے ہوئے یہ بات سنیں کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خود اپنی احادیث میں عراق کو مشرق میں بتلایا ہے ، اب جواب دیا جائے کہ آج کے ان نام نہاد نقشہ دانوں کی بات درست ہے یا اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی جنھوں نے کئی احادیث‌ میں عراق کو مشرق میں بتلایا ہے:
ثبوت ملاحظہ ہو:
 ”عَنْ جَابِرٍ، قَالَ: خَطَبَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: «مُهَلُّ أَهْلِ الْمَدِينَةِ، مِنْ ذِي الْحُلَيْفَةِ، وَمُهَلُّ أَهْلِ الشَّامِ، مِنَ الْجُحْفَةِ، وَمُهَلُّ أَهْلِ الْيَمَنِ، مِنْ يَلَمْلَمَ، وَمُهَلُّ أَهْلِ نَجْدٍ، مِنْ قَرْنٍ، وَمُهَلُّ أَهْلِ الْمَشْرِقِ مِنْ ذَاتِ عِرْقٍ»“ 
 ”صحابی جابر فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمیں خطبہ ارشاد فرمایا اس میں فرمایا اہل مدینہ کیلئے احرام باندھنے کی جگہ ذوالحلیفہ ہے اور اہل شام کیلئے جحفہ ہے اور اہل یمن کیلئے یلملم ہے اور اہل نجد کیلئے قرآن ہے اور اہل مشرق کیلئے ذات عرق ہے [سنن ابن ماجه 2/ 972 رقم2915 صحیح بالشواہد، نیزملاحظہ ہو:شرح معاني الآثار (2/ 119)رقم3529]
.
اس حدیث میں اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس علاقہ کو مشرق کہا ہے جہاں‌ کی میقات ’’ذات عرق ‘‘ ہے۔
اور’’ذات عرق‘‘ عراق والوں کی میقات ہے۔
یہ حدیث پڑھیں :
 ”جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللهِ رَضِيَ اللهُ عَنْهُمَا، يُسْأَلُ عَنِ الْمُهَلِّ فَقَالَ: سَمِعْتُ - أَحْسَبُهُ رَفَعَ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - فَقَالَ: «مُهَلُّ أَهْلِ الْمَدِينَةِ مِنْ ذِي الْحُلَيْفَةِ، وَالطَّرِيقُ الْآخَرُ الْجُحْفَةُ، وَمُهَلُّ أَهْلِ الْعِرَاقِ مِنْ ذَاتِ عِرْقٍ، وَمُهَلُّ أَهْلِ نَجْدٍ مِنْ قَرْنٍ، وَمُهَلُّ أَهْلِ الْيَمَنِ مِنْ يَلَمْلَمَ»“ 
 ”صحابی جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے حج یا عمرہ کا احرام باندھنے کی جگہوں یعنی میقات کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے فرمایا کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنا ہے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ مدینہ منورہ والوں کے لئے احرام باندھنے کی جگہ ذی الحلیفہ ہے اور دوسرا راستہ جحفہ ہے عراق والوں کے لئے احرام باندھنے کی جگہ ذات عرق ہے اور نجد والوں کے لئے احرام باندھنے کی جگہ قرن ہے جبکہ یمن کے رہنے والوں کے لئے احرام باندھنے کی جگہ یلملم ہے۔“ [صحيح مسلم 2/ 841 رقم (1183)]
.
موخرالذکردونوں احادیث ایک ہی راوی جابر رضی اللہ عنہ سے منقو ل ہے
ایک میں ہے کہ ”اہل مشرق“ کی میقات ”ذات عرق“ ہے ۔
اوردوسری میں ہے کہ ”عراق“ کی میقات ”ذات عرق“ ہے۔
.
پس اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عراق ہی کو مشرق کہا ہے۔
اب فرمان رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہوگیا کہ عراق مشرق میں ہے لہٰذا نقشہ دانی کا دعوی کرنے والے حضرات اپنی عقل پر ماتم کریں ، اورمتلاشیان حق اچھی طرح سمجھ لیں کہ عراق فرمان رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق مشرق میں ہے اوریہی فتنوں کی سرزمین ہے، لہٰذا وہاں کے فتنوں سے خود کو محفوظ رکھیں۔
(کفایت اللہ سنابلی)

1 comment:

  1. Anonymous28/2/23 00:49

    لیکن کچھ لوگ کہتے ہیں کہ عراق شمال کی طرف ہے اگر گوگل پر جاکر چیک کریں تو

    ReplyDelete