احناف کا قولی حلالہ اور عملی حلالہ
✿ ✿ ✿
جب بھی مروجہ حلالہ کی مذمت کرو تو احناف بڑی سادگی سے یہ وضاحت شروع کردیتے ہیں کہ ہم بھی ایسے حلالہ کو ناجائز مانتے ہیں ، اور یہ ارشاد فرمانے لگ جاتے ہیں کہ جائز حلالہ یوں ہوگا کہ تین طلاق یافتہ عورت کسی دوسرے شخص سے باہمی رضامندی سے شادی کرلے پھر دوسرا شخص اپنی مرضی سے طلاق دے تو ایسی صورت میں تین طلاق یافتہ عورت اپنے سابق شوہر کے لئے حلال ہوگئی، یہی احناف کے یہاں جائز حلالہ ہے ۔
عرض ہے کہ:
زیادہ بھولا بننے کی ضرورت نہیں ہے ، ہم اچھی طرح جانتے ہیں کہ یہ وضاحتی حلالہ صرف بحث و مناظرہ اور بیانات کی حدتک ہے اور عملا احناف کے یہاں جو حلالہ رائج ہے وہ یہ ہے کہ باقاعدہ پلان کے ساتھ تین طلاق یافتہ عورت کی کسی دوسرے شخص کے ساتھ وقتی شادی کرائی جاتی ہے اور طے کیا جاتا ہے کہ دوسرا شخص اس عورت سے جماع اور ہمبستری کرنے کے بعد طلاق دے گا ،اور عملا ایسا ہی ہوتا ہے ۔
اس دوسرے طریقہ کو احناف ناجائز تو کہتے ہیں لیکن ساتھ ہی یہ شرمناک فتوی بھی دیتے ہیں کہ گرچہ اس طرح کا حلالہ ناجائز ہے لیکن اس حلالہ کے بعد بھی تین طلاق یافتہ عورت سابق شوہر کے لئے حلال ہوجاتی ہے ۔احناف کا یہی وہ گھناؤنا فتوی ہے جو خود احناف کے یہاں مذکورہ ناجائز حلالہ کی راہ ہموار کرتا ہے اور اس حلالہ کا سارا کارو بار اسی دوسرے فتوی کے تحت چلتا ہے ۔
الغرض جس طرح احناف کا یہ فتوی ہے کہ بیک وقت تین طلاق دینا بدعت و ناجائز ہے لیکن اگر کسی نے ایسی تین طلاق دے ڈالی تو یہ تینوں طلاق ہوجائے گی ، ٹھیک اسی طرح احناف کا یہ فتوی بھی ہے کہ حلالہ کے لئے وقتی نکاح گرچہ ناجائز وحرام ہے لیکن اس ناجائز نکاح سے بھی عورت اپنے پرانے شوہر کے لئے حلال ہوجائے گی ۔
بلکہ احناف کی کتب فقہ میں تو اس دوسرے حلالہ کے لئے بھی جواز کا فتوی موجودہے ،جسے آج کل کے احناف اپنی تقریروں میں ناجائزکہتے ہوئے نظر آتے ہیں ، بلکہ بعض احناف نے تو اسے کار ثواب بھی بتلایا ہے ،حتی کے عصرحاضرکے ایک حنفی مولوی نیاز محمد نے بھی لکھا ہے کہ:
” حلالہ کی شرط . . . دل میں اگر ہو تو کوئی حرج نہیں بلکہ اصلاح ذات البین کی نیت ہو تو ثواب ملے گا “(النجاۃ الکاملۃ ص 178 بحوالہ ایک مجلس کی تین طلاق ص 90 از مولانا حکیم اسرائیل سلفی)
واضح رہے کہ کتاب و سنت میں ”حلالہ کرنے“کی کوئی بھی جائز صورت موجود نہیں ہے بلکہ ہر طرح کا ”حلالہ کرنا“ حرام و ناجائز ہے ۔اور بینونۃ کبری والی مطلقہ کے بارے میں جو کچھ کہا گیا ہے وہ ایک اتفاقی عمل کے بعد کی صورت بتلائی گئی ہے ، یہ ”عملِ حلالہ“ ہرگز نہیں ہے ، کیونکہ یہ عمل برائے تحلیل جائز ہی نہیں ہے۔
No comments:
Post a Comment