زیادتی ثقہ کے قبول و رد سے متعلق محدثین کا موقف
(کفایت اللہ سنابلی)
محدثین کا موقف
زیادتی ثقہ سے متعلق محدثین کے یہاں کوئی مخصوص ضابطہ یا قاعدہ کلیہ نہیں ہے بلکہ محدثین اس کے قبول و رد کا فیصلہ قرائن کی بنیاد پر کرتے ہیں ، ہمیں معلوم ہے کہ اہل فن نے اس بابت مختلف اقوال نقل کئے ہیں جن میں ایک قول یہ بھی ہے کہ زیادتی ثقہ کو علی الاطلاق قبول کیا جائے گا ، لیکن یہ قول شاذ ومتروک ہے نیز مجہول لوگوں کی طرف منسوب ہے اہل فن نے یہ قول ذکر تو کیا ہے لیکن اس کے قائلین کون ہیں؟ اس بارے میں کسی ایک بھی محدث کا نام یا اس کا طرزعمل محفوظ نہیں ہے جو اس موقف کا حامل ہو اور اس پر عمل کیا ہو بلکہ بعض اہل علم نے تو اسے سرے سے محدثین کا موقف مانا ہی نہیں ہے بلکہ اسے فقہاء کی طرف منسوب کیا ہے ۔
اوربعض نے محدثین میں سے امام ابن حبان ، خطیب بغدادی وغیرہ کے نام گنائے ہیں لیکن یہ غلط انتساب ہے کیونکہ یہ لوگ بھی اس متروک وشاذ موقف کے حامی نہ تھے جیساکہ ان کی دیگرتصریحات سے معلوم ہوتا ہے ۔
الغرض یہ کہ زیادتی ثقہ سے متعلق محدثین وائمہ نقد کا موقف یہی ہے کہ اس کے قبول و رد میں قرائن کا اعتبار کیا جائے جیساکہ آگے ہم محدثین کی تصریحات پیش کریں گے۔
ایک اہم نکتہ:
یہاں پر ایک اہم نکتہ کی وضاحت بھی فائدہ سے خالی نہیں ہے اور وہ یہ کہ ائمہ ناقدین جب کسی سچے ودیندار راوی کو ضعیف یا سیء الحفظ کہتے ہیں تو اس کی بیناد یہی ہوتی ہے کہ وہ دیگر ثقہ یاثقات کے خلاف رویات کرتے ہوئے پایا جاتا ہے مثلا منقطع کو متصل بناکر یا موقوف کو مرفوع بناکر یا مرسل کو موصول بناکر ۔ چنانچہ امام ذہبی رحمہ اللہ اس کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
امام ذهبي رحمه الله (المتوفى748)نے کہا:
فإن كان الثَّبْتُ أرسَلَه مثلاً والواهي وصَلَه، فلا عبرة بوصلِه لأمرين: لضعفِ راويه، ولأنه معلولٌ بإرسال الثَّبْت له.ثم اعلمْ أنَّ أكثَرَ المتكلَّمِ فيهم ما ضعَّفهم الحُفَّاظُ إلا لمخالفتهم للأثبات. وإن كان الحديثُ قد رَوَاه الثَّبْتُ بإسنادٍ، أو وَقَفَه، أو أَرسَلَه، ورفقاؤه الأثباتُ يُخالفونه: فالعِبرةُ بما اجتَمَع عليه الثقاتُ، فإنَّ الواحد قد يَغلَط. وهنا قد ترجَّح ظهورُ غَلَطِه، فلا تعليل، والعِبرةُ بالجماع
اگرثقہ وثبت کسی حدیث کومرسل بیان کرے اور ضعیف راوی اسے موصول بیان کرے تو دو اسباب کی بناپر موصول کا اعتبار نہیں ہوگا ایک یہ کہ موصول بیان کرنے والا راوی ضعیف ہے اور دوسرے یہ کہ یہ معلول ہے کیونکہ ایک ثقہ وثبت نے مرسل بیان کیا ہے ۔ اور یہ بات جان لیں کہ اکثر وہ رواۃ جن پر کلام کیا گیا ہے تو حفاظ نے انہیں اسی لئے ضعیف کہا کیونکہ انہوں نے ثقات واثبات کی مخالفت کی ۔اوراگرکسی حدیث کو ثقہ وثبت نے مسند یا موقوف یا مرسل بیان کیا لیکن اس کے دیگرثقہ وثبت ساتھی اس کی مخالفت کریں تو اعتبار اس سند کا ہوگا جس پر ایک جماعت متفق ہے کیونکہ ایک شخص سے غلطی بھی ہوسکتی ہے اوریہاں غلطی کاظاہر ہونا ہی راجح ہے لہٰذا یہاں تعلیل کی صورت نہیں بلکہ یہاں جماعت( کے بیان) کا اعتبار ہوگا[الموقظة في علم مصطلح الحديث ص: 52]
یعنی رواۃ کے حفظ سے متعلق اکثر محدثین نے جو جرح کی ہے تو اس کی وجہ راوی کی زیادتی ہی ہے ۔
بلکہ بعض محدثین نے تو جرح کرتے ہوئے راوی کے اس عیب کی صراحت کرتے ہوئے جرح کی ہے چنانچہ:
امام دارقطني رحمه الله (المتوفى385) نے ایک راوی پرجرح کرتے ہوئے کہا:
وليس بالقوي يحدث بأحاديث يسندها ويوقفها غيره
یہ راوی قوی نہیں ہے یہ ایسی احادیث کو مرفوع بیان کردیتاہے جسے دوسرے لوگ موقوف بیان کرتے ہیں [سؤالات الحاكم للدارقطني: ص: 215]۔
اس قول میں غور کریں کہ امام دارقطنی نے راوی کو صرف ’’لیس بالقوی ‘‘ نہیں کہا بلکہ اس کی وجہ بھی بیان کردی اوروہ یہ کہ یہ زیاتی بیان کرتاہے۔
یہ حقیقت سامنے آنے کے بعد جو لوگ زیادتی ثقہ کو مطلق طور پر قبول کرتے ہیں ان کی نظر میں محدثین کے اقوال جرح و تعدیل بھی مشتبہ ہوجانے چاہئیں کیونکہ اکثر ان کی بنیاد راوی کی زیادتی ہی ہوتی ہے۔
اصول حدیث میں ظاہریت:
ماضی میں کچھ لوگ ایسے تھے کہ فقہ واستنباط میں بس ظاہر ہی کو دیکھتے تھے اور اسی کے مطابق فیصلے صادر فرمادیتے تھے امت نے ان کے اس طرزعمل کو پسندنہیں کیا بلکہ انہیں اہل ظاہر کہا ، کچھ اسی طرح کی ظاہریت کا مظاہرہ کچھ لوگ اصول حدیث میں بھی کرتے ہیں اور محض ظاہری سند اور بظاہر اس کی صحت دیکھ کر یہ فیصلہ کربیٹھتے ہیں کہ حدیث صحیح ہے ۔ جو لوگ زیادتی ثقہ کو مطلق طور پر قبول کرتے ہیں وہ بھی اسی قبیل سے ہیں ، اور بعض محدثین نے اس کی صراحت بھی کی ہے چنانچہ:
امام ابن دقيق العيد رحمه الله (المتوفى702)نے کہا:
إن من حكى عن أهل الحديث أو أكثرهم أنه إذا تعارض رواية مرسل ومسند ، أو واقف و رافع ، أو ناقص وزائد: أن الحكم للزائد ، فلم يصب في هذا الإطلاق، فإن ذلك ليس قانونا مطردا ،وبمراجعة أحكامهم الجزئية تعرف صواب ما نقول، وأقرب الناس إلي اطراد هذه القواعد بعض أهل الظاهر
یقینا جس نے محدثین سے یا ان کی اکثریت سے یہ نقل کیا کہ جب مرسل اور مسند یا مرفوع اور موقوف یا کمی وبیشی کا تعارض ہو تو زیادتی کرنے والی کی بات پر فیصلہ ہوگا تو اس نے اس طرح کی مطلق بات کہہ کر صحیح نہیں کیا کیونکہ یہ کوئی قاعدہ کلیہ نہیں ہے، اورمحدثین کے جزئی احکامات کا مراجعہ کریں تو آپ کو میری بات کی درستگی معلوم ہوجائے گی۔ اورسب سے زیادہ جو لوگ اس طرح کے قواعد کو قاعدہ کلیہ سمجھ بیٹھتے ہیں وہ بعض اہل ظاہر ہیں[شرح الإلمام بأحاديث الأحكام لابن دقیق العید: 60 - 61]۔
عرض ہے کہ شیخ الاسلام ابن دقیق العید رحمہ اللہ نے بہت ہی خوبصورت بات کہی ہے کہ ہرجگہ زیادتی ثقہ کو قبول کرلینا یا اسے عام قاعدہ سمجھنا اہل ظاہر کا کام ہے چنانچہ آگے ہم ایک مثال میں کریں گے جس میں زیادتی ثقہ کو محدثین نے رد کردیا لیکن ابن حزم ظاہری رحمہ اللہ نے اصول حدیث میں بھی ظاہریت کا ثبوت دیتے ہوئے اسے قبول کرلیا ہے قارئین منتظر رہیں۔
.
قرائن کی روشنی میں زیادتی ثقہ کے مردود ہونے پر اہل فن کی تصریحات
اوپر ہم واضح کرچکے ہیں کہ زیادتی ثقہ سے متعلق محدثین کے یہاں کوئی قاعدہ کلیہ نہیں ہے بلکہ محدثین قرائن کی روشنی میں ہرحدیث کے ساتھ فیصلہ کرتے ہیں ، ذیل میں اس بابت ہم چوٹی کے محدثین کے اقوال پیش کرتے ہیں:
(1)
امام شافعي رحمه الله (المتوفى 204)نے کہا:
ويكون إذا شَرِك أحداً من الحفاظ في حديث لم يخالفه، فإن خالفه وُجد حديثه أنقصَ: كانت في هذه دلائل على صحة مخرج حديثه. ومتى ما خالف ما وصفت أضرَّ بحديثه، حتى لا يسع أحداً منهم قبول مرسله۔قال: وإذا وجدت الدلائل بصحة حديثه بما وصفت أحببنا أن نقبل مرسله.
اورارسال کرنے والا اگرکسی حدیث کی روایت میں حفاظ کے ساتھ ہو تو اس حدیث کی روایت میں وہ مخالفت نہ کرے ۔ اوراگرمخالفت کرے تو اس کی حدیث میں نقص(کمی) ہی ہو (زیادتی نہ ہو)۔ تو ان صورتوں میں اس بات کی دلیل ہوگی کہ اس کی حدیث کا ماخذ صحیح ہے اور جب مرسل بیان کرنے والا اس طرح کی مخالفت کردے جسے میں نے بیان کیا ہے (یعنی حفاظ کے ساتھ کسی حدیث کی روایت کرے اور کچھ اضافہ کرکے مخالفت کرے) تو یہ چیز اس کی حدیث کے لئے نقصان دہ ہے[الرسالة للشافعي 1/ 463]۔
امام ابن عبد الهادي رحمه الله (المتوفى744) امام شافعی رحمہ اللہ کی اس عبارت کی تشریح کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
وهذا دليل من الشافعي رضي الله عنه على أن زيادة الثقة عنده لا يلزم أن تكون مقبولة مطلقاً، كما يقوله كثير من الفقهاء من أصحابه وغيرهم، فإنه اعتبر أن يكون حديث هذا المخالف أنقص من حديث من خالفه ولم يعتبر المخالف بالزيادة وجعل نقصان هذا الرواي من الحديث دليلاً على صحة مخرج حديثه، وأخبر أنه متى خالف ما وصف أضر ذلك بحديثه، ولو كانت الزيادة عنده مقبولة مطلقاً لم يكن مخالفته بالزيادة مضراً بحديثه.
امام شافعی رحمہ اللہ کی طرف سے یہ اس بات کی دلیل ہے کہ ان کے نزدیک زیادثی ثقہ کی صورت میں یہ ضروری نہیں ہے کہ علی الاطلاق قابل قبول ہو جیساکہ ان کے ماننے والے بہت سے فقہاء وغیرہ کہتے ہیں۔ کیونکہ امام شافعی رحمہ اللہ نے اس بات کا اعتبار کیا ہے کہ یہ راوی جب روایت کرتے ہوئے مخالفت کرے تو اس کی حدیث اس روای کی حدیث سے کم وناقص ہو جس کی یہ مخالفت کررہا ہے ۔اور اگر یہ زیادتی واضافہ کرکے مخالفت کرے تو امام شافعی رحمہ اللہ نے اس کا اعتبار نہیں کیا ہے۔ اورامام شافعی رحمہ اللہ نے راوی کی طرف سے (مخالفت میں) ناقص بیان کردہ حدیث کو اس بات کی دلیل بنایا ہے کہ اس کا ماخذ صحیح ہے اور کہا کہ اگر زیادتی واضافہ کرکے مخالفت کرے گا تویہ چیز اس کی حدیث کے لئے نقصان دہ ہے ۔ معلوم ہوا کہ اگر امام شافعی رحمہ اللہ کے نزدیک ثقہ کی زیادتی مطلقا مقبول ہوتی تو آپ زیادتی واضافہ کے ساتھ راوی کی مخالفت کو اس کی حدیث کے لئے مضر نہیں سمجھتے [الصارم المنكي في الرد على السبكي لابن عبدالھادی: ص: 109]
یادہے کہ امام شافعی رحمہ اللہ نے یہ سب کچھ ’’مرسل ‘‘ کی قبولیت کے ضمن میں کہا جو اس بات کی دلیل ہے کہ ارسال کرنے والا بذات خود ثقہ ہوگا ورنہ اگرارسال کرنے والا ہی ضعیف ہو تو اس کی مرسل حدیث صرف مرسل ہی نہیں بلکہ ضعیف ہوجائے گی ، اور مرسل کی قبولیت کی بحث سے خارج ہوجائے گی۔
مزید یہ کہ امام شافعی رحمہ اللہ مرسل کے بارے میں یہ بھی کہا ہے کہ :
إذا سمى من روى عنه لم يسمِّي مجهولاً ولا مرغوباً عن الرواية عنه
یعنی جب ارسال کرنے والا اپنے شیخ کانام لے تو وہ مجہول یا متروک الحدیث نہ ہو[الرسالة للشافعي 1/ 463]۔
حالانکہ ارسال کرنے والے کے بارے میں امام شافعی رحمہ اللہ نے یہ قید نہیں لگائی جو اس بات کی دلیل ہے کہ امام شافعی رحمہ اللہ اسی ’’مرسل حدیث‘‘ کی بات کررہے جو بحیثیت مرسل ثابت شدہ ہو یعنی اسے بیان کرنے والا ثقہ ہو۔
امام شافعي رحمه الله (المتوفى204)نے دوسرے مقام پرکہا:
إِنَّمَا يُغَلَّطُ الرَّجُلُ بِخِلَافِ مَنْ هُوَ أَحْفَظُ مِنْهُ، أَوْ يَأْتِي بِشَيْءٍ فِي الْحَدِيثِ يُشْرِكُهُ فِيهِ مَنْ لَمْ يَحْفَظْ مِنْهُ مَا حَفِظَ، وَهُمْ عَدَدٌ، وَهُوَ مُنْفَرِدٌ
جب راوی اپنے سےاحفظ کے خلاف روایت کرے تو اس کی تغلیط کی جائے گی یا اس وقت اس کی تغلیط کی جائے گی جب وہ اپنی روایت کردہ حدیث میں کوئی ایسی بات بیان کرے کہ اسی حدیث کو روایت کرنے والے دوسرے رواۃ اسے بیان نہ کریں اور یہ دوسرے رواۃ کئی تعداد میں ہوں، جبکہ وہ منفرد ہو[اختلاف الحديث (مطبوع ملحقا بالأم للشافعي): 8/ 674]۔
(2)
امام ابن معين رحمه الله (المتوفى233)نے کہا:
عيسى بن يونس يسند حديثا عن هشام عن أبيه عن عائشة أن النبي صلى الله عليه و سلم كان يقبل الهدية ولا يأكل الصدقة والناس يحدثون به مرسلا
عیسی بن یونس ایک حدیث کو ہشام عن ابیہ عن عائشہ کے طریق سے مرفوع بیان کرتاہے کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہدیہ قبول کرتے تھے اورصدقہ نہیں کھاتے تھے ۔ لیکن دیگر رواۃ اسے مرسلا بیان کرتے ہیں[تاريخ ابن معين، رواية الدوري: 4/ 28]۔
(3)
امام بخاري رحمه الله (المتوفى256)نے کہا:
وَرَوَى أَبُو خَالِدٍ الْأَحْمَرُ، عَنِ ابْنِ عَجْلَانَ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ، أَوْ غَيْرِهِ عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِنَّمَا جُعِلَ الْإِمَامُ لِيُؤْتَمَّ بِهِ» ، زَادَ فِيهِ: «وَإِذَا قَرَأَ فَأَنْصِتُوا» ۔۔۔
اورابوخالدنے ابن عجلان عن زیدبن اسلم او غیرہ عن ابی صالح عن ابی ہریرہ کے طریق سے نقل کیا کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’امام اس لئے بنایا گیا ہے تاکہ اس کی اقتداء کی جائے ۔ اور اس نے اس میں یہ اضافہ کردیا ’’اورجب امام قرات کرے توتم خاموش رہو‘‘۔۔۔[القراءة خلف الإمام للبخاري ص: 63]
امام بخاری رحمہ اللہ نے آگے مزید بحث کرکے ثقہ کی اس زیادتی کو مردود قرار دیا ہے ۔
(4)
امام مسلم رحمه الله (المتوفى261)نے کا:
أَن يروي نفر من حفاظ النَّاس حَدثنَا عَن مثل الزُّهْرِيّ أَو غَيره من الائمة بِإِسْنَاد وَاحِد وَمتْن وَاحِد مجتمعون على رِوَايَته فِي الاسناد والمتن لَا يَخْتَلِفُونَ فِيهِ فِي معنى فيرويه آخر سواهُم عَمَّن حدث عَنهُ النَّفر الَّذين وصفناهم بِعَيْنِه فيخالفهم فِي الاسناد أَو يقلب الْمَتْن فَيَجْعَلهُ بِخِلَاف مَا حكى من وَصفنَا من الْحفاظ فَيعلم حِينَئِذٍ أَن الصَّحِيح من الرِّوَايَتَيْنِ مَا حدث الْجَمَاعَة من الْحفاظ دون الْوَاحِد الْمُنْفَرد وان كَانَ حَافِظًا على هَذَا الْمَذْهَب رَأينَا أهل الْعلم بِالْحَدِيثِ يحكمون فِي الحَدِيث مثل شُعْبَة وسُفْيَان بن عيينه وَيحيى بن سعيد وَعبد الرَّحْمَن بن مهْدي وَغَيرهم من أَئِمَّة أهل الْعلم
اگر حفاظ محدثین کی ایک جماعت امام زہری یا ان جیسے ائمہ سے ایک ہی سند اور ایک ہی متن سے کوئی روایت نقل کرے یہ سب کے سب اس روایت کو نقل کرنے میں سند اور متن کے لحاظ سے متفق ہوں اور اورکسی معنی میں مین کوئی اختلاف نہ کریں ، ایسے میں ان کے علاوہ کوئی دوسرا اسی روایت کو اسی استاذ سے بیان کرے جس سے بعینہ مذکورہ جماعت نے بیان کیا ہو اور سند میں مخالفت کرے یا متن کو پلٹ دے اور اسے مذکورہ حفاظ کی جماعت کے خلاف بنادے ، تو ایسی صورت میں جان لیا جائے گا کہ دونوں طرح کی روایات میں صحیح وہ روایت ہے جسے حفاظ کی جماعت نے ایک اکیلے شخص کے مخالف بیان کیا ہے گرچہ یہ اکیلا شخص حافظ ہی کیوں نہ ہو۔ ہم نے اسی موقف پر محدثین کو گامزن پایا ہے جیسے امام شعبہ ، امام سفیان بن عیینہ ، امام یحیی بن سعید اور امام عبدالرحمن بن مہدی وغیرہم [التمييز لمسلم: ص: 172]۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ امام بخاری اور امام مسلم رحمہما اللہ کا موقف بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
وَالتَّحْقِيقُ أَنَّهُمَا لَيْسَ لَهُمَا فِي تَقْدِيمِ الْوَصْلِ عَمَلٌ مُطَّرِدٌ بَلْ هُوَ دَائِرٌ مَعَ الْقَرِينَةِ فَمَهْمَا تَرَجَّحَ بِهَا اعْتَمَدَاهُ وَإِلَّا فَكَمْ حَدِيثٍ أَعْرَضَا عَنْ تَصْحِيحِهِ لِلِاخْتِلَافِ فِي وَصْلِهِ وَإِرْسَالِهِ
صحیح بات یہ ہے کہ امام بخاری اور امام مسلم کے یہاں موصول کو مقدم کرنے کے لئے کوئی قاعدہ کلیہ نہیں ہے بلکہ اس کا دار مدار قرائن پر ہے ، پس جب ان کے نزدیک روایت کا موصول ہونا (قرائن کی روشنی میں) راجح قرار پاتا ہے تبھی وہ اس پر اعتماد کرتے ہیں ، ورنہ کتنی ایسی احادیث ہیں جنہیں امام بخاری اور امام مسلم رحمہ اللہ نے صحیح نہیں قرار دیا کیونکہ اسے موصول اور مرسل بیان کرنے میں رواۃ نے اختلاف کیا۔[فتح الباري لابن حجر: 10/ 203]
(5)
امام دارقطني رحمه الله (المتوفى385)نے کہا:
امام دارقطنی رحمہ اللہ نے بہت سارے مقامات پر ثقہ کی زیادتی رد کردی ہے اس کی بہت ساری مثالیں ان کی کتب بالخصوص علل میں دیکھی جاسکتی ہیں۔
(6)
امام ابن دقيق العيد رحمه الله (المتوفى702)نے کہا:
إن من حكى عن أهل الحديث أو أكثرهم أنه إذا تعارض رواية مرسل ومسند ، أو واقف و رافع ، أو ناقص وزائد: أن الحكم للزائد ، فلم يصب في هذا الإطلاق، فإن ذلك ليس قانونا مطردا ،وبمراجعة أحكامهم الجزئية تعرف صواب ما نقول، وأقرب الناس إلي اطراد هذه القواعد بعض أهل الظاهر
یقینا جس نے محدثین سے یا ان کی اکثریت سے یہ نقل کیا کہ جب مرسل اور مسند یا مرفوع اور موقوف یا کمی وبیشی کا تعارض ہو تو زیادتی کرنے والی کی بات پر فیصلہ ہوگا تو اس نے اس طرح کی مطلق بات کہہ کر صحیح نہیں کیا کیونکہ یہ کوئی قاعدہ کلیہ نہیں ہے، اورمحدثین کے جزئی احکامات کا مراجعہ کریں تو آپ کو میری بات کی درستگی معلوم ہوجائے گی۔ اورسب سے زیادہ جو لوگ اس طرح کے قواعد کو قاعدہ کلیہ سمجھ بیٹھتے ہیں وہ بعض اہل ظاہر ہیں[شرح الإلمام بأحاديث الأحكام لابن دقیق العید: 60 - 61]۔
(7)
امام ابن عبد الهادي رحمه الله (المتوفى744)نے کہا:
فإن قيل : قد رواها نعيم المجمر وهو ثقة والزيادة من الثقة مقبولة قلنا : ليس ذلك مجمعا عليه بل فيه خلاف مشهور فمن الناس من يقبل زيادة الثقة مطلقا ومنهم من لا يقبلها والصحيح التفصيل وهو أنها تقبل في موضع دون موضع فتقبل إذا كان الراوي الذي رواها ثقة حافظا ثبتا والذي لم يذكرها مثله أو دونه في الثقة كما قبل الناس زيادة مالك بن أنس قوله : من المسلمين في صدقة الفطر واحتج بها أكثر العلماء وتقبل في موضع آخر لقرائن تخصها ومن حكم في ذلك حكما عاما فقد غلط بل كل زيادة لها حكم يخصها
اگرکہاجائے کہ اسے معمرنے روایت کیا ہے اور وہ ثقہ ہے اور ثقہ کی زیادتی مقبول ہوتی ہے تو ہم کہیں گے کہ: یہ کوئی متفق علیہ بات نہیں ہے بلکہ اس میں مشہور اختلاف ہے چنانچہ کچھ لوگ مطلقا زیاتی ثقہ قبول کرتے ہیں اور کچھ قبول نہیں کرتے ، اور صحیح بات یہ ہے کہ اس بار ے میں تفصیل کی جائے اور وہ یہ کہ کبھی اسے قبول کیا جائے اور کبھی قبول نہ کیا جائے ۔ چنانچہ جب زیادتی کو روایت کرنے والا حافظ اورثبت ہو اور جس نے زیادتی بیان نہیں کی ہے وہ بھی ایسا ہی ہویا ثقاہت میں اس سے کمترہو تو ایسی صورت میں زیادتی قبول کی جائے گی جیساکہ لوگوں نے امام مالک سے صدقہ الفطر والی رویات میں ’’والمسلمین ‘‘ کی زیادتی قبول کی ہے اور اکثر علماء نے اس سے حجت پکڑی ہے ۔ اور دیگر ایسے مواقع پر بھی زیادتی ثقہ مقبول ہوگی جہان مخصوص قرائن اس کی قبولیت کے حق میں ہوں ۔ اور جس نے اس سلسلے میں عام فیصلہ دے دیا تو اس نے غلط کیا اور صحیح بات یہی ہے کہ ہرزیاتی کا مخصوص حکم ہے[نصب الراية 1/ 261 نقلہ من كتابه في الجهر بالبسملة ]
(8)
امام ذهبي رحمه الله (المتوفى748)نے کہا:
فإن كان الثَّبْتُ أرسَلَه مثلاً والواهي وصَلَه، فلا عبرة بوصلِه لأمرين: لضعفِ راويه، ولأنه معلولٌ بإرسال الثَّبْت له.ثم اعلمْ أنَّ أكثَرَ المتكلَّمِ فيهم ما ضعَّفهم الحُفَّاظُ إلا لمخالفتهم للأثبات. وإن كان الحديثُ قد رَوَاه الثَّبْتُ بإسنادٍ، أو وَقَفَه، أو أَرسَلَه، ورفقاؤه الأثباتُ يُخالفونه: فالعِبرةُ بما اجتَمَع عليه الثقاتُ، فإنَّ الواحد قد يَغلَط. وهنا قد ترجَّح (1) ظهورُ غَلَطِه، فلا تعليل، والعِبرةُ بالجماع
اگرثقہ وثبت کسی حدیث کومرسل بیان کرے اور ضعیف راوی اسے موصول بیان کرے تو دو اسباب کی بناپر موصول کا اعتبار نہیں ہوگا ایک یہ کہ موصول بیان کرنے والا راوی ضعیف ہے اور دوسرے یہ کہ یہ معلول ہے کیونکہ ایک ثقہ وثبت نے مرسل بیان کیا ہے ۔ اور یہ بات جان لیں کہ اکثر وہ رواۃ جن پر کلام کیا گیا ہے تو حفاظ نے انہیں اسی لئے ضعیف کہا کیونکہ انہوں نے ثقات واثبات کی مخالفت کی ۔اوراگرکسی حدیث کو ثقہ وثبت نے مسند یا موقوف یا مرسل بیان کیا لیکن اس کے دیگرثقہ وثبت ساتھی اس کی مخالفت کریں تو اعتبار اس سند کا ہوگا جس پر ایک جماعت متفق ہے کیونکہ ایک شخص سے غلطی بھی ہوسکتی ہے اوریہاں غلطی کاظاہر ہونا ہی راجح ہے لہٰذا یہاں تعلیل کی صورت نہیں بلکہ یہاں جماعت( کے بیان) کا اعتبار ہوگا[الموقظة في علم مصطلح الحديث ص: 52]
(9)
امام ابن قيم رحمه الله (المتوفى751) نے کہا:
إن هذه طريقة لا تقبل مطلقا ولا ترد مطلقا يجب قولها في موطن ويجب ردها في موضع ويتوقف فيها في موضع فإذا كان الأئمة الثقات الأثبات قد رفعوا الحديث أو أسندوه وخالفهم من ليس مثلهم أو شذ عنهم واحد فوقفه أو أرسله فهذا ليس بعلة في الحديث ولا يقدح فيه والحكم لمن رفعه وأسنده وإذا كان الأمر بالعكس كحال حديث سفيان بن حسين هذا وأمثاله لم يلتفت إليه ولا إلى من خالفهم في وقفه وإرساله ولم يعبأ به شيء ولا يصير الحديث به مرفوعا ولا مسندا ألبته وأئمة أهل الحديث كلهم على هذا فإنه إذا كان الثقات الأثبات الأئمة من أصحاب الزهري دائما يروونه عنه موقوفا على سعيد ولم يرفعه أحد منهم مرة واحدة مع حفظهم حديث الزهري وضبطهم له وشدة اعتنائهم به وتمييزهم بين مرفوعه وموقوفه ومرسله ومسنده ثم يجيء من لم يجر معهم في ميدانهم ولا يدانيهم في حفظه ولا إتقانه وصحبته للزهري واعتنائه بحديثه وحفظه له وسؤاله عنه وعرضه عليه فيخالف هؤلاء ويزيد فيه وصلا أو رفعا أو زيادة فإنه لا يرتاب نقاد الآثار وأطباء علل الأخبار في غلطه وسهوه ولا سبيل إلى الحكم له بالصحة والحالة هذه
زیادتی ثقہ کو نہ تو مطلق قبول کیا جائے گا اور نہ ہی مطلق رد کیا جائے گا بلکہ بعض مقامات پر اس کا قبول کرنا ضروری ہوگا اور بعض مقامات پر اسے رد کرنا ضروری ہوگا اور بعض مقامات پر توقف کیا جائے گا ۔ چنانچہ جب ثقہ وثبت ائمہ کسی حدیث کو مرفوع اور موصول بیان کردیں اور ان کی مخالفت وہ لوگ کریں جو ان جیسے نہیں ہیں یا ایک شخص ان کے خلاف اسے موقوف یا مرسل بیان کرے تو یہ حدیث میں کوئی علت نہیں یا موجب قدح نہیں ہے بلکہ دریں صورت اعتبار اس کا ہوگا جس نے مرفوع یا موصول بیان کیا ہے ۔ لیکن اگر بات اس کے برعکس ہو مثلا سفیان بن حسین یا ان جیسے لوگوں یا معاملہ ہو تو اس کی طرف کوئی توجہ نہیں کی جائے گی اور نہ ہی ان کی طرف جنہوں نے موقوف یا مرسل بیان کرنے میں مخالفت کی ہے،اس کا کوئی اعتبار نہ ہوگا، اس سے حدیث مرفوع یا موصول قطعا نہ ہوگی، یہی موقف تمام محدثین کا ہے۔چنانچہ جب امام زہری کے ثقہ ثبت شاگرد ایک حدیث کو سعید پر موقوف بیان کریں اور ان میں سے کوئی ایک بار بھی اسے مرفوع بیان نہ کرے باوجود اس کے کہ انہوں نے امام زہری کی احادیث یاد کررکھی ہیں اور اسے ازبر کررکھا ہے اور وہ ان کے بہت قریبی ہیں نیز ان کی مرفوع وموقوف اور مرسل و موصول احادیث کی پہچان پر قادر ہیں ، پھر ایک دوسرا شخص ایسا آتا ہے جو ان کے میدان کا نہیں ہے اور حفظ و اتقان میں بھی ان کے ہم پلہ نہیں ہے اورامام زہری کی شاگردی و ان کی احادیث کی طلب وحفظ میں بھی وہ نہیں رہا اور نہ امام زہری سے سوال وجواب کئے ۔ پھر ایسا شخص امام زہری کی حدیث میں اضافہ کرے موصول بیان کرکے یا مرفوع بیان کرکے یا کوئی اورزیادتی کرکے تو اس کے خطاء وسہو سے متعلق ناقدین اور علل کے ماہرین کوئی شک نہیں کریں گے اورایسی حالت میں اس کی حدیث کو صحیح قرار دینے کا کوئی راستہ نہیں ہوگا[الفروسية ص: 282]
(10)
امام ابن الوزير رحمه الله (المتوفى840)نے کہا:
الحكم في هذا لا يستمر بل يختلف باختلاف قرائن الأحوال وهو موضع اجتهاده
زیادتی ثقہ سے متعلق ہمیشہ کوئی ایک ہی حکم نہیں لگتا بلکہ مختلف قرائن کی روشنی میں اس میں تبدیلی ہوتی رہتی ہے اور یہ اجتہادی مسئلہ ہے[توضيح الأفكار لمعاني تنقيح الأنظار 1/ 312]
حافظ ابن حجر رحمه الله (المتوفى852)نے کہا:
والذي يجري على قواعد المحدثين أنهم لا يحكمون عليه بحكم مستقل من القبول والرد، بل يرجحون بالقرائن كما قدمناه في مسألة تعارض الوصل والإرسال.
زیادتی ثقہ سے متعلق محدثین کے قواعد پر جو بات جاری ہے وہ یہ کہ محدثین زیادتی ثقہ پر قبول ورد کے اعتبارسے کوئی مستقل حکم نہیں لگاتے بلکہ قرائن کی روشنی میں ترجیح دیتے ہیں جیساکہ موصول اورمرسل کے تعارض کے مسئلہ میں ہم بیان کرچکے ہیں[النكت على كتاب ابن الصلاح لابن حجر 2/ 687]۔
اس کے بعد آگے حافظ ابن حجررحمہ اللہ نے ان لوگوں کا رد کیا ہے جو علی الاطلاق زیادتی ثقہ کے مقبول ہونے کی بات کرتے ہیں۔
واضح رہے کہ معاصرین میں بھی جن کبار اہل علم نے فن حدیث پر کام کیا ہے مثلا علامہ البانی رحمہ اللہ وہ سب کے سب یہی موقف رکھتے ہیں ہمیں معاصرین میں فن حدیث سے جڑی ہوئی ایک بھی معتبر علمی شخصیت ایسی نہیں ملی نے زیادتی ثقہ کو علی الاطلاق قبول کرنے والا موقف اختیار کیا ہو۔
.
قرائن کی روشنی میں زیادتی ثقہ کے مردود ہونے کی مثالیں
پہلی مثال:
امام ابن حبان رحمه الله (المتوفى354)نے کہا:
أَخْبَرَنَا ابْنُ قُتَيْبَةَ، حَدَّثَنَا حَرْمَلَةُ، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، أَمْلَاهُ عَلَيْنَا، حَدَّثَنِي جَرِيرُ بْنُ حَازِمٍ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ عَمْرَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: أَصْبَحْتُ أَنَا وَحَفْصَةُ، صَائِمَتَيْنِ مُتَطَوِّعَتَيْنِ، فَأُهْدِيَ لَنَا طَعَامٌ، فَأَفْطَرْنَا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «صُومَا مَكَانَهُ يَوْمًا آخَرَ»
اماں عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں اور حفصہ رضی اللہ عنہا نفل روزے سے تھیں تو ہمیں ہدیہ میں کھانا ملا تو ہم نے یہ روزے توڑ دیے ۔ تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم دونوں اس کی جگہ دوسرے دن روزہ رکھ لینا[صحيح ابن حبان : 8/ 284 واخرجہ ایضا النسائی فی الکبری رقم 3299 والطحاوی فی شرح معاني الآثار 2/109 و ابن حزم فی المحلى 6/270 من طریق جریر بہ]۔
اس حدیث کی سند کے سارے رجال ثقہ ہیں اور سند میں کوئی انقطاع بھی نہیں ہے اس کے باوجود بھی اہل فن سے اس روایت کو مردود قرار دیا ہے کیونکہ یہ روایت حقیقت میں منقطع ہے اور اورجریر بن حازم نے تنہا اسے موصول بیان کیا ہے یہ گرچہ ثقہ ہیں لیکن یہاں پر ثقہ کی زیادتی اس قرینہ کی روشنی میں مردود ہے کہ دیگر اوثق راوی نے اس حدیث کو مرسلا بیان کیا ہے ۔تفصیل کے لئے دیکھئے [بحوث في المصطلح للدكتور ماهر الفحل ص: 173 نیز دیکھیں: سلسلة الأحاديث الضعيفة والموضوعة وأثرها السيئ في الأمة: 11/ 338]۔
دوسری مثال:
علي بن الجَعْد بن عبيد البغدادي (المتوفى230ھ) نے کہا:
أنَا ابْنُ أَبِي ذِئْبٍ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ خُصَيْفَةَ، عَنِ السَّائِبِ بْنِ يَزِيدَ قَالَ: «كَانُوا يَقُومُونَ عَلَى عَهْدِ عُمَرَ فِي شَهْرِ رَمَضَانَ بِعِشْرِينَ رَكْعَةً، وَإِنْ كَانُوا لَيَقْرَءُونَ بِالْمِئِينَ مِنَ الْقُرْآنِ»
سائب بن یزید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ لوگ عمرفاروق رضی اللہ عنہ کے دور میں ماہ رمضان میں بیس رکعات تراویح پڑھتے تھے اور سو سو آیات والی سورتیں پڑھتے تھے[مسند ابن الجعد:ص: 413]۔
اس حدیث کے بھی سارے راوی ثقہ ہیں لیکن آٹھ سے زائد رکعات بیان کرنے میں یزید بن خصیفہ منفرد ہیں یہ گرچہ بخاری ومسلم کے راوی ہیں لیکن انہوں نے اپنے سے اوثق محمدبن یوسف کی مخالفت کی ہے لہٰذا اس قرینہ اور اس کے علاوہ اور بھی قرائن کی بنیاد پر ثقہ کی یہ زیادتی مردود ہے۔
تیسری مثال:
أَخْبَرَنَا أَبُو الْفَضْلِ مُحَمَّدُ بْنُ طَاهِرِ بْنِ عَلِيٍّ الْحَافِظُ، أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ أَحْمَدَ، قَالَ: حَدَّثَنَا عِيسَى بْنُ عَلِيِّ بْنِ عَلِيِّ بْنِ عِيسَى، إِمْلَاءً، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو الْقَاسِمِ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الْعَزِيزِ الْبَغَوِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَفَّانُ، عَنْ سَلِيمِ بْنِ حَيَّانَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ مِينَا، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ الْأَنْصَارِيِّ وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبَّاسٍ، أَنَّهُمَا قَالَا: «وُلِدَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ الْفِيلِ، يَوْمَ الِاثْنَيْنِ، الثَّانِي عَشَرَ مِنْ شَهْرِ رَبِيعٍ الْأَوَّلِ، وَفِيهِ بُعِثَ، وَفِيهِ عَرَجَ إِلَى السَّمَاءِ، وَفِيهِ هَاجَرَ، وَفِيهِ مَاتَ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ»
اس روایت میں ہے کہ 12 ربیع الاول ہی کو اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش ہوئی اور 12 ربیع الاول ہی کو اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوئی اور 12 ربیع الاول ہی کو آپ کی بعثت ہوئی اور 12 ربیع الاول ہی کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو معراج کرائی گئی اور 12 ربیع الاول ہی کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہجرت کی [الأباطيل والمناكير للجورقاني: 1/ 267]۔
محترم زبیرعلی زئی حفظہ اللہ نے اس سند کے ظاہری رواۃ پر بھی جرح کی ہے حتی ایک راوی کا تعین بھی نہ کرسکے اور نہ اس کی توثیق پاسکے
ان ان شاء اللہ آگے مفصل طور پر اس روایت کے ظاہری سند کے رواۃ کا دفاع پیش کریں گے قارئین منتظر رہیں ۔
چوتھی مثال:
امام بزار رحمه الله (المتوفى292)نے کہا:
حَدَّثنا نصر بن علي قال أَخْبَرَنَا عَبد الله بن داود، قَال: حَدَّثنا سَعِيد بن عُبَيد الله، قَال: حَدَّثنا عَبد اللَّهِ بْنِ بُرَيدة، عَن أَبيهِ، رَضِي اللَّهُ عَنْهُ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيه وَسَلَّم قَالَ: ثَلاثٌ مِنَ الْجَفَاءِ: أَنْ يَبُولَ الرَّجُلُ قَائِمًا، أَوْ يَمْسَحَ جَبْهَتَهُ قَبْلَ أَنْ يَفْرَغَ مِنْ صَلاتِهِ، أَوْ يَنْفُخَ فِي سُجُودِهِ
ابن بریدہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا : تین چیزیں جفاء میں سےہیں ، ایک کھڑے ہوکر پیشاب کرنا ، دوسرے نماز سے فارغ ہونے سے پہلے اپنی پیشانی پر ہاتھ پھیرنا اور تیسرے سجدہ میں پھونکنا[مسند البزار = البحر الزخار 10/ 305] ۔
اس حدیث کی سند کے سارے رجال ثقہ ہیں اور سند میں کوئی انقطاع بھی نہیں ہے اس کے باوجود بھی اہل فن سے اس روایت کو مردود قرار دیا ہے کیونکہ یہ روایت حقیقت میں موقوف ہے اوریہاں پر گرچہ ثقہ راوی نے اسے موصول بیان کیا ہے اورثقہ کیا زیادتی مقبول ہوتی لیکن قرائن سے معلوم ہوتا ہے کہ یہاں پرثقہ کی زیاتی قابل قبول نہیں ہے۔ تفصیل کے لئے دیکھے فتاوی حدیثیہ لابی اسحاق الحوینی ص 151 تا 152۔
امام ترمذي رحمه الله (المتوفى279)نے کہا:
حديث بريدة في هذا غير محفوظ
اس سلسلے میں بریدہ کی حدیث غیرمحفوظ ہے[سنن الترمذي ت شاكر 1/ 18]۔
عرض ہے کہ بریدہ کی حدیث کی سند کے سارے رجال ثقہ ہیں اور سند میں انقطاع بھی نہیں اس کے باوجود بھی امام ترمذی رحمہ اللہ نے اسے غیرمحفوظ قرر دیا یہ اس بات کی دلیل ہے کہ امام ترمذی رحمہ اللہ کے نزدیک ثقہ کی زیادتی مطلقا قابل قبول نہیں اور یہی موقف درست ہے۔مزید تفصیل کے لئے دیکھئے [إرواء الغليل للألباني: 1/ 98]
اس حدیث کی ظاہری سند سے دھوکہ کھا کر علامہ عینی رحمہ اللہ نے کہا:
رَوَاهُ الْبَزَّار بِسَنَد صَحِيح
یعنی اسے امام بزار نے صحیح سند سے روایت کیا ہے [عمدة القاري شرح صحيح البخاري 3/ 135]۔
اور محترم حافظ زبیرعلی زئی حفظہ نے اپنے اصول سے مجبور ہو کر اس روایت کو حسن قردیا ہے دیکھئے موطا مترجم۔
عرض ہے کہ اس حدیث کی سند گرچہ ظاہری طور پر صحیح معلوم ہوتی ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ روایت مردود ہے کیونکہ یہی روایت دیگراصح طریق سے مروی ہے اور اس میں موصول کی زیاتی نہیں ہے لہٰذا یہاں پر وصل کی زیادتی مردود ہے گرچہ یہ زیادتی ایک ثقہ ہی کی طرف سے ہے۔
.
پانچویں مثال:
حدثنا موسى بن إسحاق، قال: حدثنا منجاب بن الحارث، قال: حدثنا حاتم بن إسماعيل عن أسامة بن زيد، عن أبان بن صالح، عن مجاهدعن ابن عباس، رضي الله عنهما، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: إن لله ملائكة في الأرض سوى الحفظة يكتبون ما سقط من ورق الشجر فإذا أصاب أحدكم عرجة بأرض فلاة فليناد: أعينوا عباد الله.
ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: زمین اللہ کے فرشتے ہوتے ہیں نامہ اعمال لکھنے والوں کے علاوہ ، زمین سے اگر ایک پتہ بھی گرتاہے تو یہ اسے لکھ لیتے ہیں اورجب تم کسی چٹیل میدان میں کسی مصیبت میں پھنس جاؤ تو اس طرح پکارو : اے اللہ کے بندو ! مدد کرو[مسند البزار = البحر الزخار 11/ 181]۔
بدعتی لوگ اس حدیث سے غیر اللہ کو پکارنے کی دلیل پکڑتے ہیں اور اس کی سند بظاہر صحیح ہے سند کے سارے رجال ثقہ ہیں لیکن اس کے باوجود بھی یہ روایت ضعیف ہی ہے کیونکہ اس موصول بیان کرنا راوی کی ایسی زیادتی ہے جو قرائن کی روشنی میں مردود ہے ۔ تفصیل کے لئے دیکھئے [سلسلة الأحاديث الضعيفة والموضوعة وأثرها السيئ في الأمة 2/ 108 رقم 655]۔
چھٹی مثال:
امام طبراني رحمه الله (المتوفى360)نے کہا:
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ يَحْيَى بْنِ خَالِدِ بْنِ حَيَّانَ قَالَ: نا يَحْيَى بْنُ سُلَيْمَانَ الْجُعْفِيُّ قَالَ: نا أَحْمَدُ بْنُ بَشِيرٍ الْهَمْدَانِيُّ قَالَ: نا مِسْعَرُ بْنُ كِدَامٍ، عَنْ عَلْقَمَةَ بْنِ مَرْثَدٍ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ بُرَيْدَةَ، عَنْ أَبِيهِ، يَرْفَعُهُ. قَالَ: «لَوْ أن بُكَاءُ دَاوُدَ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَبُكَاءُ جَمِيعِ أَهْلِ الْأَرْضِ، جَمِيعًا، يَعْدِلُ بِبُكَاءِ آدَمَ، مَا عَدَلَهُ»
ابن بریدہ اپنے والد سے مرفوعابیان کرتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر داؤد علیہ السلام کے رونے اور تمام زمین والوں کے رونے کا موازنہ آدم علیہ السلام کے رونے سے کیا جائے تو بھی برابری نہیں ہوسکتی [المعجم الأوسط للطبراني: 1/ 51]۔
امام ہیثمی رحمہ اللہ اس روایت کو نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں:
رواه الطبراني في لأوسط، ورجاله ثقات.
امام طبرانی نے اسے اوسط میں روایت کیا ہے اور اس کے سارے رجال ثقہ ہیں[مجمع الزوائد للهيثمي: 8/ 128]۔
امام ہیثمی رحمہ اللہ کی اس توثیق سے معلوم ہوا کہ اس کے سارے رجال ثقہ ہیں لہٰذا أحمد بن بشير الهمداني کو مجہول کہنا بھی درست نہیں ۔
یعنی ظاہری سند بالکل صحیح معلوم ہوتی ہے لیکن یہ روایت مردود ہے کیونکہ دیگر طرق میں یہ موقوفا مروی ہے اور قرائن کی روشنی میں یہی راجح ہے لہٰذا یہاں پر جو ثقہ نے موصول بیان کرکے زیادتی کی ہے یہ زیادتی مرودو ہے اور یہ روایت مرفوع نہیں بلکہ موقوف ہے ۔
امام ابن عدی رحمہ اللہ نے یہ روایت موقوفا ذکر کرکے فرمایا:
ولم يذكر فيه بريدة، ولا النبي صلى الله عليه وسلم، وهذه الرواية أصح
اس میں بریدہ کا ذکر نہیں ہے اور نہ ہی اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر ہے اوریہی روایت زیادہ صحیح ہے [الكامل في ضعفاء الرجال لابن عدي: 1/ 271]۔
علامہ البانی رحمہ اللہ نے مرفوع روایت کو تین علتوں کی بناکر پر ردکرتے ہوئے کہا:
وفيه ما علمت من الجهالة والوقف والنكارة
اس سند میں(1) ایک راوی مجہول ہے (2)اور دوسروں نے اسے موقوف بیان کیا ہے (3)اور اس میں نکارت بھی ہے۔[سلسلة الأحاديث الضعيفة والموضوعة وأثرها السيئ في الأمة 2/ 203]۔
عرض ہے کہ مجہول کی جرح درست نہیں ہے کیونکہ امام ہیثمی رحمہ اللہ نے توثیق کی ہے۔
البتہ بقیہ دونوں علتیں درست ہیں ۔
ساتویں مثال:
امام طبراني رحمه الله (المتوفى360)نے کہا:
حدثنا عبيد بن غنام، ثنا أبو بكر بن أبي شيبة، ح وحدثنا معاذ بن المثنى، ثنا مسدد قالا: ثنا إسماعيل بن إبراهيم ابن علية، ثنا يزيد الرشك، عن مطرف، عن عمران بن حصين قال: قال رجل: يا رسول الله، أعلم أهل الجنة من أهل النار؟ قال: «نعم» قال: ففيم العمل؟ قال: «اعملوا فكل ميسر لما خلق له من القول»
عمران بن حصیں رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک شخص نے سوال کیا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! کیا جنتی کون ہیں اورجہنمی کون ہیں کیا یہ پہلے سے معلوم شدہ ہے ؟ اللہ کے نبی صلی اللہ علی و سلم نے فرمایا: ہاں ۔ تو اس شخص نے کہا: پر عمل کس لئے ؟ تو اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عمل کرو کیونکہ ہرشخص کے لئے وہ قول آسان کردیا گیا ہے جس کے لئے وہ پیداکیا گیاہے[المعجم الكبير للطبراني 18/ 130]
اس حدیث کے سارے رجال ثقہ بلکہ بخاری ومسلم کے رجال ہیں لیکن اس میں ثقہ نے ’’من القول‘‘ کی جو زیادتی کی ہے وہ قرائن کی روشنی میں مردود ہے مفصل تحقیق کے لئے دیکھئے [سلسلة الأحاديث الضعيفة والموضوعة وأثرها السيئ في الأمة 14/ 1127 رقم 7027]
آٹھویں مثال:
امام ترمذي رحمه الله (المتوفى279)نے کہا:
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ قَالَ: حَدَّثَنَا سُرَيْجُ بْنُ النُّعْمَانِ قَالَ: حَدَّثَنَا حَشْرَجُ بْنُ نُبَاتَةَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُمْهَانَ، قَالَ: حَدَّثَنِي سَفِينَةُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «الخِلَافَةُ فِي أُمَّتِي ثَلَاثُونَ سَنَةً، ثُمَّ مُلْكٌ بَعْدَ ذَلِكَ» ثُمَّ قَالَ لِي سَفِينَةُ: أَمْسِكْ خِلَافَةَ أَبِي بَكْرٍ، وَخِلَافَةَ عُمَرَ، وَخِلَافَةَ عُثْمَانَ، ثُمَّ قَالَ لِي: أَمْسِكْ خِلَافَةَ عَلِيٍّ قَالَ: فَوَجَدْنَاهَا ثَلَاثِينَ سَنَةً، قَالَ سَعِيدٌ: فَقُلْتُ لَهُ: إِنَّ بَنِي أُمَيَّةَ يَزْعُمُونَ أَنَّ الخِلَافَةَ فِيهِمْ؟ قَالَ: كَذَبُوا بَنُو الزَّرْقَاءِ بَلْ هُمْ مُلُوكٌ مِنْ شَرِّ المُلُوكِ،
سفینہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میری امت میں تیس سال تک خلافت رہے گی پھر بادشاہت آ جائے گی سفینہ فرماتے ہیں کہ ابوبکر، عمر، عثمان اور علی رضی اللہ عنہم کی خلافت گن لو یہ پورے تیس سال ہیں سعید نے عرض کیا بنوامیہ سمجھتے ہیں کہ خلافت انہی میں ہے حضرت سفینہ نے فرمایا کہ بنوزرقا جھوٹ بولتے ہیں بلکہ یہ لوگ تو بدترین بادشاہوں میں سے ہیں [سنن الترمذي ت شاكر 4/ 503 رقم 2226]۔
اس حدیث کے سارے رجال ثقہ ہیں لیکن یہاں پرثقہ نے جو یہ زیادتی کی ہے کہ ’’قال سعيد: فقلت له: إن بنى أمية يزعمون أن الخلافة فيهم، قال: كذبوا بنو الزرقاء، بل هم ملوك من شر الملوك‘‘( سعید نے عرض کیا بنوامیہ سمجھتے ہیں کہ خلافت انہی میں ہے حضرت سفینہ نے فرمایا کہ بنوزرقا جھوٹ بولتے ہیں بلکہ یہ لوگ تو بدترین بادشاہوں میں سے ہیں ) یہ مردود ہے کیونکہ دیگراوثق رواۃ نے اسی حدیث کو بیان کرتے ہوئے اسے ذکر نہیں کیا ہے۔
علامہ البانی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
زاد الترمذي: " قال سعيد: فقلت له: إن بنى أمية يزعمون أن الخلافة فيهم، قال: كذبوا بنو الزرقاء، بل هم ملوك من شر الملوك ". قلت: وهذه الزيادة تفرد بها حشرج بن نباتة عن سعيد بن جمهان، فهي ضعيفة لأن حشرجا هذا فيه ضعف، أورده الذهبي في " الضعفاء " وقال:" قال النسائي: ليس بالقوي ". وقال الحافظ في " التقريب ": " صدوق يهم ". قلت: وأما أصل الحديث فثابت.
امام ترمذی کی روایت میں یہ اضافہ ہے کہ ( سعید نے عرض کیا بنوامیہ سمجھتے ہیں کہ خلافت انہی میں ہے حضرت سفینہ نے فرمایا کہ بنوزرقا جھوٹ بولتے ہیں بلکہ یہ لوگ تو بدترین بادشاہوں میں سے ہیں ) ۔ میں (علامہ البانی) کہتاہوں کہ اس زیادتی کو سعيد بن جمهان سےنقل کرنے میں ’’حشرج بن نباتة‘‘ اکیلاہے اس لئے اس کی یہ زیاتی ضعیف ہے کیونکہ حشرج میں ضعف ہے امام ذہبی رحمہ اللہ نے اسے ضعفاء میں نقل کرکے فرمایا کہ امام نسائی نے کہا: یہ قوی نہیں ہے ۔ اورحافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے کہا: یہ صدوق ہے اور وہم کاشکار ہوتاہے۔ میں کہتاہوں کہ : اصل حدیث (مذکورہ زیادتی کے بغیرثابت ہے)۔[سلسلة الأحاديث الصحيحة وشيء من فقهها وفوائدها 1/ 821]۔
اس حدیث کے دیگرطرق کے لئے الصحیحہ کا مذکورہ حوالہ دیکھیں۔
نوویں مثال:
إسحاق بن منصور المروزي نے کہا:
حدثنا محمد بن رافع قال: حدثنا حسين بن علي عن زائدة، قال: حدثنا عبد العزيز بن رفيع عن ابن مغفل المزني قال: قال النبي صلى الله عليه وسلم إذا وجدتم الإمام ساجدا فاسجدوا أو راكعا فاركعوا أو قائما فقوموا ولا تعدوا بالسجود إذا لم تدركوا الركعة
ابن مغفل مزنی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا : جب تم امام کو سجدہ کی حالت میں پاؤ تو سجد کی حالت میں شامل ہوجاؤ اور رکوع میں پاؤ تو رکوع کی حالت میں شامل ہوجاؤ اور قیام کی حالت میں پاؤ توقیام میں شامل ہوجاؤ اور جب رکوع نہ ملے تو رکعت شمار نہ کرو[مسائل اسحاق بن منصور بحوالہ :الصحيحة للالبانی 3/ 185 رقم 1188 ]۔
اس حدیث کے سارے رجال ثقہ ہیں اوریہاں سند میں کوئی انقطاع بھی نہیں ہے اس کے باوجود بھی یہ حدیث ضعیف و مردود ہی ہے کیونکہ زائدہ بن قدامہ کے علاوہ ایک پوری جماعت سفيان الثوري، شعبة بن الحجاج، جرير بن عبد الحميد، أبو بكر بن عياش، وزهير، اورشريك نے اس روایت کو عبدالعزیز کے شیخ کے ابہام کے ساتھ بیان کیا ہے [علل الدارقطني : 6/ 58 ، المصنف لابن ابی شیبہ1/ 284 ،مصنف عبدالرزاق2/ 281/رقم 3373 ، سنن الکبری للبیهقي:2/ 89 ]۔ لہٰذا ابہام والی سند ہی راجح ہے ۔
ایک اور طریق میں اس مبہم شخص کو دوسرا نام ذکر تھا تو امام دارقطنی رحمہ اللہ نے اسے رد کردیا اور اس کے برخلاف ایک جماعت کی اس روایت کو ترجیح دی جس میں عبدالعزیز کے شیخ کا نام مبہم تھا چنانچہ:
امام دارقطني رحمه الله (المتوفى385)نے کہا:
يَرْوِيهِ عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ رَفِيعٍ، وَاخْتُلِفَ عَنْهُ؛فَرَوَاهُ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَمْرِو بْنِ جَبَلَةَ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ زُرَيْعٍ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ عَبْدِ الْعَزِيزِ بْنِ رَفِيعٍ، عَنِ ابْنِ أَبِي لَيْلَى، عَنْ مُعَاذٍ.وَخَالَفَهُ الثَّوْرِيُّ، وَزُهَيْرٌ، وَجَرِيرٌ، وَشَرِيكٌ، فَرَوَوْهُ عَنْ عَبْدِ الْعَزِيزِ بْنِ رَفِيعٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي شَيْخٌ مِنَ الْأَنْصَارِ مُرْسَلًا، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَهُوَ الصَّحِيحُ. [علل الدارقطني : 6/ 58]۔
تنبیہ:
محترم حافظ زبیرعلی زئی نے بھی اس روایت کو ضعیف قرار دیا لیکن وجہ ضعف کے طور پربڑی عجیب غریب بات ذکر کی ہے۔
زیربحث حدیث سے مشابہ ایک مثال
دسویں اور زبردست مثال:
محترم حافظ زبیرعلیزئی نے ابن عساکر کی تاریخ سے یزید کی مذمت میں ایک روایت نقل کی ہے عرض ہے کہ اسی ابن عساکر میں ’’عبداللہ‘‘ کی مذمت میں بھی ایک روایت منقول ہے ملاحظہ ہو:
امام أبو إسحاق إبراهيم بن محمد بن أحمد بن أبي ثابت رحمه الله (المتوفى338)نے کہا:
حدثنا أَحْمَدُ بْنُ بَكْرٍ، قَالَ: ثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ أَبَانَ، قَالَ: ثَنَا يَعْقُوبُ، عَنْ جَعْفَرِ بْنِ أَبِي الْمُغِيرَةِ، عَنِ ابْنِ أَبْزَى، قَالَ: قَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الزُّبَيْرِ، حَيْثُ حُوصِرَ عُثْمَانُ بْنُ عَفَّانَ، رَحِمَهُ اللَّهُ: إِنَّ عِنْدِي نَجَائِبَ قَدْ أَعْدَدْتُهَا، فَهَلْ لَكَ أَنْ تَحَوَّلَ إِلَى مَكَّةَ فَيَأْتِيَكَ مَنْ أَرَادَ أَنْ يَأْتِيَكَ؟ قَالَ: لَا، إِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ يَقُولُ: يُلْحَدُ بِمَكَّةَ كَبْشٌ مِنْ قُرَيْشٍ اسْمُهُ عَبْدُ اللَّهِ عَلَيْهِ مِثْلُ أَوْزَارِ النَّاسِ ".وَلَا أَرَاكَ إِلَّا إِيَّاهُ، أَوْ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ
خلیفہ سوم عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کا جب محاصرہ کیا گیا تو ان سے عبداللہ بن زبیررضی اللہ عنہ نے کہا میرے پاس عمدہ اونٹ ہیں جنہیں میں نے آپ کے لئے تیارکیا ہے تو کیا آپ ان پرسوار ہوکر مکہ جانا پسند کریں گے تاکہ جو آپ کے پاس آنا چاہے وہیں آجائے ؟ تو عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ نے جواب دیا : نہیں ! میں نے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ مکہ میں قریش کا عبداللہ نامی ایک شخص مکہ میں الحاد پھیلائے گا اس پرلوگوں کے گناہوں کا آدھا بوجھ ہوگا، اورمیرے خیال سے اس ’’عبداللہ ‘‘ سے مراد اے عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ تم ہی ہو یا پھر عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ ہیں[الجزء الأول والثاني من حديث ابن أبي ثابت: رقم 46 ترقیم جوامع الکلم ، رجالہ ثقات کلھم واسنادہ ظاهره الصحة ، ابن ابزی ھنا یروی عن عبداللہ بن زبیر ومن طریقہ اخرجہ ابن عساکر28/ 219 بہ ، ولہ شاہد عند البزار 6/ 348 رجالہ ثقات ماعدا محمد بن کثیر وھو صدوق کثیر الغلط واخرجہ ابن عساکر فی تاريخ دمشق 28/ 220 وحسنہ الالبانی فی الصحیحہ تحت الرقم 2462 ، تم تراجع عنہ فی الصحیحہ 7/ 297]۔
یہ حدیث محترم حافظ زبیرعلی زئی کے لئے بہت بڑی آزمائش ہے کیونکہ اس میں ’’عبداللہ‘‘ نامی شخص کے لئے اس سے بھی زیادہ خطرناک بات ہے جو یزید سے متعلق حافظ موصوف کی پیش کردہ حدیث میں ہے ۔ اورصرف یہی نہیں بلکہ اس حدیث میں ’’عبداللہ‘‘ نامی شخص کے لئے بہت بڑے گناہ کی بھی بات ہے ۔ اور عبداللہ سے کون مراد ہیں اس سلسلے میں خلیفہ سوم عثمان رضی اللہ عنہ کی تفسیر بھی اسی حدیث میں موجود ہے کہ اس سے مراد یا تو عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہ ہیں یا عبداللہ بن زبیررضی اللہ عنہ ہیں ۔
اوربعد کے واقعات بتلاتے ہیں کہ عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہ سے ایساکوئی کام سرے سے سرزد ہوا ہی نہیں البتہ عبداللہ بن زبیررضی اللہ عنہ کی بعض سرگرمیوں کی بناپر مکہ کی حرمت پامال ہوئی اس لئے یہ طے ہوجاتاہے کہ اس حدیث سے مراد ’’عبداللہ بن زبیررضی اللہ عنہ‘‘ ہی ہیں جیساکہ خلیفہ عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ نے کہا۔
اب دیکھنا ہے کہ محترم حافظ زبیرعلی زئی کی تحقیق کیا رنگ لاتی ہے ؟ کیا جس طرح موصوف نے زیادتی ثقہ کے علی الاطلاق قبول کرنے والے مرجوح ومتروک اصول کو اپناکر یزید کو مطعون کرنے والی حدیث کو بڑی فراخدلی سے قبول کرلیا ہے کیا موصوف ’’عبداللہ بن زبیررضی اللہ عنہ سے متعلق وارد ہونے والی اس حدیث پر ایمان لائیں گے ؟؟
واضح رہے کہ صحابی رسول یزید بن ابی سفیان رضی اللہ عنہ کو مطعون کرنے والی یعنی ان پر حسن پرستی اور اسی کی خاطر کسی اور کی خوبصورت لونڈی کو غصب کرنے اور چھیننے کا الزام لگانی والی روایت کو پوری فراخدلی سے قبول کرلیا ہے ، واللہ المستعان۔
ہمارے نزدیک یہ بات تو ثابت ہے کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے قریش کے کسی شخص سے متعلق یہ پیشین گوئی کی ہے کہ وہ مکہ کوحلال کرکے گا اور اس کے سبب مکہ کو حلال کیا جائے گیا لیکن یہ کون شخص ہوگا اس کی صراحت کسی بھی حدیث میں منقول نہیں ہے ، اور یہاں پر ہم نے جو روایت پیش کی ہے اس میں گرچہ ’’عبداللہ‘‘ نام کی صراحت اور عثمان رضی اللہ عنہ نے اس ’’عبداللہ‘‘ کی بھی تفسیر کردی ہے ۔اور اس کے سارے رجال ثقہ بھی ہیں اور سند میں بھی انقطاع نہیں لیکن اس کے باوجود بھی ہماری نظر میں یہ روایت مردود ہے کیونکہ یہ رویات اصلا مرسل ہے اور یہاں پر گرچہ اسے ثقہ نے موصول بیان کیا ہے یعنی ثقہ نے وصل کی زیادتی کی ہے لیکن یہ ثقہ کی یہ زیادتی قرائن کی رو سے مردود ہے اورقرائین یہی ہے کہ دیگر مضبوط طرق میں یہ روایت مرسلا آئی ہے۔[اخرجہ احمد فی مسند ہ : 1/ 64 من طریق اسماعیل بروایۃ ابن ابزی عن عثمان ، قلت: رجالہ ثقات لکن قال ابوزرعہ : ابن بزی عن عثمان مرسل، ومن طریق احمد اخرجہ ابن عساکر فی تاريخ دمشق :28/ 218]۔
.
زیادتی ثقہ سے متعلق محترم زبیرعلی زئی حفظہ اللہ کی پیش کردہ دس مثالیں
آں جناب نے دس مثالیں پیش کرکے یہ باور کرانے کے کوشش کے ہی کہ زیادتی ثقہ علی الاطلاق قبول کی جائے گی حالانکہ ان دس مثالوں سے زیادہ سے زیادہ جو ثابت ہوسکتا وہ یہ کہ زیادتی ثقہ مقبول بھی ہوتی ہے اور ہم نے کب اس کا انکار کیا؟؟
یہ مثالیں آپ تب پیش کرتے جب ہم نے یہ کہا ہوتا کہ زیادتی ثقہ علی الاطاق مردود ہوتی ہے لیکن ہم نے یہ دعوی کیا ہی نہیں ، بلکہ ہم ابھی اسی بات کے قائل ہیں کی قرائین کی روشنی میں زیادتی ثقہ مقبول ہوتی ہے ایسے میں یہ دس مثالیں ہمارے خلاف نہیں بلکہ ہمارے موافق ہیں ۔
ان مثالوں میں ایک ایک سے متعلق ہم اپنی وضاحت پیش کرسکتے ہیں اورضرورت محسوس کی گئی تو وضاحت کریں گے بھی لیکن الحمدللہ ہم سے پہلے ہی شیخ خبیب حفظہ اللہ نے ان دس مثالوں پر بہت عمدہ تبصرہ کرچکے ہیں اس لئے ہم ذیل میں ان کی تحریر کی لنک پیش کرتے ہیں قارئین درج ذیل روابط سے یہ تحریر ڈاؤنلوڈ کرلیں ۔اوردس مثالوں بہت ہی عمدہ تبصرہ ملاحظہ فرمائیں ۔
No comments:
Post a Comment