کیا معاویہ رضي الله عنه نے متعہ کیا ؟ - Kifayatullah Sanabili Official website

2020-05-01

کیا معاویہ رضي الله عنه نے متعہ کیا ؟



إسحاق بن إبراهيم الدبري نے کہا:
عبد الرزاق،عن ابن جريج، عن عطاء قال: لأول من سمعت منه المتعة صفوان بن يعلى قال: أخبرني، عن يعلى، أن معاوية استمتع بامرأة بالطائف فأنكرت ذلك عليه، فدخلنا على ابن عباس فذكر له بعضنا، فقال له: «نعم» . فلم يقر في نفسي حتى قدم جابر بن عبد الله، فجئناه في منزله فسأله القوم عن أشياء، ثم ذكروا له المتعة، فقال: " نعم، استمتعنا على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم، وأبي بكر، وعمر، حتى إذا كان في آخر خلافة عمر، استمتع عمرو بن حريث بامرأة سماها جابر فنسيتها، فحملت المرأة فبلغ ذلك عمر فدعاها فسألها، فقالت: نعم قال: من أشهد؟ قال: عطاء لا أدري قالت: أمي أم وليها قال: فهلا غيرهما قال: خشي أن يكون دغلا الآخر، قال عطاء، وسمعت ابن عباس يقول: «يرحم الله عمر ما كانت المتعة إلا رخصة من الله عز وجل رحم بها أمة محمد صلى الله عليه وسلم، فلولا نهيه عنها ما احتاج إلى الزنا إلا شقي» قال: كأني والله أسمع قوله: إلا شقي - عطاء القائل - قال عطاء: " فهي التي في سورة النساء: {فما استمتعتم به منهن} [النساء: 24] إلى كذا وكذا من الأجل على كذا وكذا ليس يتشاور " قال: «بدا لهما أن يتراضيا بعد الأجل، وأن يتفرقا فنعم، وليس بنكاح»[مصنف عبد الرزاق: 7/ 496]

مصنف کی اس روایت کو اسحاق بن ابراہم الدبری نے نقل کیا ہے اوراسی روایت کو اسی طریق سے عبدالرزاق کے علاوہ دیگر محدثین نے نقل کیا تو اس میں امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ کے متعہ کرنے کی بات نہیں مثلا:

امام مسلم رحمه الله (المتوفى261)نے کہا:
حَدَّثَنَا الْحَسَنُ الْحُلْوَانِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ، قَالَ: قَالَ عَطَاءٌ: قَدِمَ جَابِرُ بْنُ عَبْدِ اللهِ مُعْتَمِرًا، فَجِئْنَاهُ فِي مَنْزِلِهِ، فَسَأَلَهُ الْقَوْمُ عَنْ أَشْيَاءَ، ثُمَّ ذَكَرُوا الْمُتْعَةَ، فَقَالَ: «نَعَمْ، اسْتَمْتَعْنَا عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَأَبِي بَكْرٍ، وَعُمَرَ»[صحيح مسلم 3/ 1023]

اورعبدالرزاق سے دبری کی روایات ضعیف ہوتی ہیں حتی کہ دبری نے عبدالرزاق سے جو روایات لکھ کرروایت کی ہیں جیسے مصنف عبدالرزاق کے کئی حصے تو اس میں بھی ضعف کا امکان ہے۔

کیونکہ دبری نے جس دور میں اس کتاب کی روایت کی ہے اس دور میں عبدالرزاق ضعف بصارت کے شکار ہوگئے تھے اور لوگ ان کی کتاب انہیں پڑھ کرسناتے تھے اوربعض تلقین بھی کرتے تھے جسے عبدالرزاق قبول کرلیتے ، پھر دیگر لوگ ان روایات کو درج کرلیتے تھے۔جیساکہ امام احمد رحمہ اللہ کے ایک قول سے پتہ چلتا ہے چنانچہ :

امام أحمد بن حنبل رحمه الله (المتوفى241)نے کہا:
حدث عبد الرزاق حديث أبي هريرة: "النار جبار"، إنما هو: "البئر جبار"، وإنما كتبنا كتبه على الوجه، وهؤلاء الذين كتبوا عنه سنة ست ومئين، إنما ذهبوا إليه وهو أعمى، فلُقِّن، فقبله، ومرَّ فيه [مسائل أحمد بن حنبل رواية ابن هانئ ص: 466]

اس قول میں امام احمد فرمارہے ہیں کہ ہم نے عبدالرزاق کی کتابیں صحیح طور پر لکھی ہیں لیکن دیگر لوگ جب ان کی کتاب لکھ رہے تھے تو وہ ضعف بصارت کے شکار تھے جس کے سبب بعض ان کی تلقین کرتے اور وہ تلقین قبول کرلیتے تھے ۔

نیز دوسری جگہ امام احمدرحمہ اللہ نے کہا:
كانوا يلقنونه بعد ما ذهب بصره[مسائل أحمد بن حنبل رواية ابن هانئ ص: 467]

امام نسائی نے بھی امام عبدالرزاق سے سن کی لکھی جانے والی روایات کو بھی محل نظر قراردیا ہے ،چناں چہ کہا:
عبد الرزاق بن همام فيه نظر لمن كتب عنه بأخرة [الضعفاء والمتروكين للنسائي (الحوت) ص: 164]

علاوہ بریں خود دبری بھی مصنف کی روایت میں اوہام وتصحیفات کا شکار ہوئے ہیں ۔بلکہ مصنف کی روایت میں دبری کے اوہام وتصحیفات پر ایک کتاب بھی لکھی گئی ہے۔

یاد رہے کہ دبری کی کتابت کا معاملہ ایسا ہرگز نہیں ہے کہ انہوں نے مصنف عبدالرزاق کے اصل نسخہ سے نقل کیا ہے بلکہ معاملہ یہ ہے کہ امام عبدالرزاق کے سامنے ان کی کتاب دیگر لوگ پڑھ رہے ہوتے اور اس مجلس میں دبری لکھ رہے ہوتے ۔

امام ابن عدي رحمه الله (المتوفى365)نے کہا:
إسحاق بن إبراهيم بن عباد أبو يعقوب الدبري الصنعاني.استصغره عبد الرزاق أحضره أبوه عنده، وهو صغير جدا فكان يقول: قرأنا على عبد الرزاق أي قرأ غيره، وحضر صغيرا[الكامل في ضعفاء الرجال لابن عدي: 1/ 560]

خلاصہ یہ کہ دیگر روایات کے خلاف ہونے کے سبب دبری کی یہ روایت ضعیف ہے۔

دبری نے مصنف ہی میں ایک اور روایت بیان کی ہے چنانچہ کہا:

إسحاق بن إبراهيم الدبري نے کہا:
عبد الرزاق،عن ابن جريج قال: أخبرني أبو الزبير قال: سمعت جابر بن عبد الله يقول: «استمتعنا أصحاب النبي صلى الله عليه وسلم حتى نهي عمرو بن حريث» قال: وقال جابر: «إذا انقضى الأجل، فبدا لهما أن يتعاودا فليمهرها مهرا آخر» قال: وسأله بعضنا كم تعتد؟ قال: «حيضة واحدة كن يعتددنها للمستمتع منهن»وقال أبو الزبير: وسمعت جابر بن عبد الله يقول: " استمتع معاوية بن أبي سفيان مقدمه من الطائف على ثقيف بمولاة ابن الحضرمي يقال لها: معانة " قال جابر: «ثم أدركت معانة خلافة معاوية حية، فكان معاوية يرسل إليها بجائزة في كل عام حتى ماتت»[مصنف عبد الرزاق: 7/ 499]

عرض ہے کہ متعہ کے سلسلے میں جابر رضی اللہ عنہ کے اسی بیان کو عین اسی طریق سے دیگر محدثین نے جن الفاظ میں نقل کیا ہے اس میں امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے قصہ کا اضافہ ہرگز نہیں ہے چناں چہ:
امام مسلم رحمه الله (المتوفى261)نے کہا:
حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ، أَخْبَرَنِي أَبُو الزُّبَيْرِ، قَالَ: سَمِعْتُ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللهِ، يَقُولُ: «كُنَّا نَسْتَمْتِعُ بِالْقَبْضَةِ مِنَ التَّمْرِ وَالدَّقِيقِ، الْأَيَّامَ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَأَبِي بَكْرٍ، حَتَّى نَهَى عَنْهُ عُمَرُ، فِي شَأْنِ عَمْرِو بْنِ حُرَيْثٍ» [صحيح مسلم 3/ 1023]

صحیح مسلم کی یہ روایت امام عبدالرزاق سے عین اسی طریق سے مروی ہے لیکن اس میں امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے متعہ کرنے کی بات نہیں ہے۔لہٰذا دبری کی روایت میں یہ اضافہ قابل قبول نہیں ہے۔کیونکہ اس کی روایت وکتابت کی حقیقت بالاسطور میں واضح کی جاچکی ہے۔

واضح رہے کہ امام عبدالرزاق کی طرف یہ بھی منسوب ہے کہ ان کے اندر تشیع تھا اور بطور خاص امیر معاویہ رضی اللہ عنہ پر وہ بھپتی کستی تھے چنانچہ:

امام ابوداؤ رحمہ اللہ سے منقول ہے کہ انہوں نے کہا:
كان عبد الرزاق يعرض بمعاوية، أخذ التشيع من جعفر[إكمال تهذيب الكمال لمغلطاي 8/ 268،تهذيب التهذيب لابن حجر، ت الهند: 6/ 314]

لہٰذا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ سے متعلق امام عبدالرزاق رحمہ اللہ کی روایات میں حد درجہ احتیاط کی ضرورت ہے۔کیونکہ امام عبدالرزاق کے ضعف بصر اورقبول تلقین کے ساتھ ان کے اس مزاج سے فائدہ اٹھاتے ہوئے کوئی بھی بڑی آسانی نے ان کی روایات میں پیوندکاری کرسکتاہے۔

خلاصہ یہ کہ مصنف عبدالرزاق کی یہ دونوں روایات ضعیف ہیں ۔


واضح رہے کہ اگر بالفرض یہ روایت صحیح بھی ہو تو بھی اس سے امیر معاویہ رضی اللہ عنہ پر کوئی عیب نہیں لگتا کہ کیوں امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کا یہ عمل اس وقت کا ہوگا جب متعہ کی حرمت نہیں ہوئی تھی جیساکہ ماقبل میں مصنف کی دوسری روایت سے واضح اشارہا ملتا ہے۔بلکہ اگر یہ بھی مان لیں کہ یہ عمل حرمت متعہ کے بعد کا ہے تو بھی ممکن ہے کہ اس وقت تک حرمت کی بابت انہیں علم نہ رہا ہے ۔
بہرحال ہماری نظر میں راجح بات یہ ہے کہ یہ روایت صحیح ہی نہیں ہے۔

No comments:

Post a Comment