”دنیادار فاسق“ اور ”دنیاپرست عالم“ میں فرق
(کفایت اللہ)
- ⟐ ✿ ✿ ✿ ⟐ -
برائی کو ”برائی“ کے نام پر کرنا اتنا خطرناک نہیں ہے جتنا برائی کو ”خیر واصلاح“ کے نام پر انجام دینا، پہلی صورت میں برائی صرف بروں تک ہی محدود رہتی ہے، لیکن دوسری صورت میں برائی بدکرداروں کے ساتھ سادہ لوح اور صاف دل لوگوں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے۔اگرآپ اس بات پر حیران ہوں کہ اسلامی تاریخ میں بہت سارے فتنوں میں بعض اچھے اور نیک لوگوں کے نام کیسے شامل ہیں؟ تو جان لیجئے کہ یہ سب ”شروفساد“ پر چڑھائے گئے ”اصلاح واحتساب“ کے غلاف کا نتیجہ ہے۔
یہ ہنر سب سے زیادہ دنیا پرست علماء کوآتا ہے، ان کی کمال مکاری یہ ہوتی ہے کہ وہ اپنی ہرخباثت پر ”اصلاح واحتساب“ کا نقاب چڑھادیتے ہیں ، سستی شہرت کاحصول ہو ، جاہ ومنصب کی ہوس ہو ، بغض وحسد کا مرض ہو ، احساس کمتری کی گھٹن ہو، کبر وبرتری کا اظہار ہو ، یا دشمن ومخالف سے انتقام ہو ، غرض ہرمعاملے میں یہ ”اصلاح واحتساب“ کی تلوار استعمال کرتے ہیں۔
یادرہے کہ ایسے معاملے میں ”اصلاح واحتساب“ کی عمارت مخالف کے جس کردار وگفتار پر کھڑی کی جاتی ہے وہ ا گر جھوٹ نہ ہو تو ”ادھوری سچائی“ ، ”من مانی کاٹ چھانٹ“ اور ”خودساختہ مفہوم و مراد“ پر ضرورمشتمل ہوتی ہے۔
یہ مکر و حیلہ ہردور میں اور علماء کے ہر طبقے میں مستعمل رہا ہے، بالخصوص ”المعاصرۃ اصل المنافرہ“ کے مظاہر دیکھ ڈالئے آپ کو اس کا بڑاحصہ اسی پر مشتمل ملے گا۔ علمی اصالت اور صحتِ منہج کی ضرورت واہمیت سے کسی کو انکار نہیں، لیکن آج کے دور میں بعض حلقوں میں ”علمی اصالت“ اور ”اصلاحِ منہج“ کے نام پر جو جنگ برپا ہے اور تعریض وتعلیق ، جدل ومناظرہ اوربحث ومباحثہ کا جو ایک تسلسل ہے ، وہ دراصل اسی باب کاحصہ ہے، جنہیں بھولے بھالے اور صاف طبیعت کے لوگ علمی اختلاف باور کرتے ہیں۔
اسی سلسلے میں ایک شخصیت پرتبصرہ کرتے ہوئے مولانا ابوالکلام آزاد رحمہ اللہ نے کیا خوب فرمایا:
”عوام وخواص میں ان کے مجاہدات کی دھوم تھی، بایں ہمہ نفس پرستی کا حال یہ تھا کہ فقیری کے سجادے پر فرعونیت کا تاج پہن کر بیٹھے تھے، اور جس عالم وصوفی کی طرف لوگوں کو ذرا بھی مائل پاتے تھے ، فورا اپنے مریدوں کی فوج لیکر چڑھ دوڑتے تھے، کبھی ”بحث ومناظرے“ کے زور سے، کبھی ”سوء اعتقاد“ کے الزام سے کبھی اور کوئی ”حیلہ وبہانہ“ پیدا کرکے، (اور اس گروہ کے پاس مکر وحیل کی کیا کمی ہے!)، اس طرح ذلیل ورسوا کردیتے کہ غریب شہر چھوڑنے پر مجبور ہوجاتا ، ایک ”دنیا دار فاسق“ اور ایک ”دنیا پرست عالم“ میں یہی فرق ہے کہ پہلا اپنی ہوی پرستیوں کو اعترافِ فسق کے ساتھ انجام دیتا ہے ، اور دوسرا دین داری اور احتسابِ شرعی کی ظاہر فریبی کے ساتھ۔۔۔ نفس وشیطان کے خدع ومکر وفریب کے کاروبار بہت وسیع ہیں، لوگوں نے ہمیشہ اس کو میکدوں میں ہی ڈھونڈا، مدرسوں اور خانقاہوں میں ڈھونڈتے تو شاید جلد پتا لگ جاتا“ [ تذکرہ آزاد:ص63 ، 64 بریکٹ اور اس کے الفاظ مولانا آزاد ہی کے ہیں]
ضرورت اس بات کی ہے کہ تمام لوگ بالخصوص عوام مذکورہ مکر وحیل سے باخبر رہیں اور اصلاح، احتساب اورعلمی اختلاف جیسے کسی بھی نعرہ پر لٹو ہونے اور واہ واہی لٹانے سے پہلے اس کی اصل حقیقت کو پرکھ لیں
◈ ◈ ◈
(اداریہ مجلہ ”اہل السنہ“ شمارہ(96) از کفایت اللہ سنابلی)
No comments:
Post a Comment