بزرگانِ احناف اور گیارہ رکعات تراویح کے مسنون ہونے کا اعتراف - Kifayatullah Sanabili Official website

2020-09-25

بزرگانِ احناف اور گیارہ رکعات تراویح کے مسنون ہونے کا اعتراف



بزرگانِ احناف اور گیارہ رکعات تراویح کے مسنون ہونے کا اعتراف
 ✿  ✿  ✿ 
① امام محمد بن الحسن الشيباني(المتوفی189) نے باب قائم کیا:
باب: قيام شهر رمضان وما فيه من الفضل(یعنی ماہ رمضان میں قیام کا بیان اور اس کے بارے فضائل۔
اس پر تعلیق میں علامہ لکنوی رحمہ اللہ نے لکھا :
ويسمى التراويح ، اور اسے یعنی قیام رمضان کو تراویح کے نام سے جانا جاتا ہے[التعليق المُمَجَّد للكنوي: 1/ 351]
اس باب کے تحت امام محمدبن حسن نے، تراویح سے متعلق احادیث مثلا گیارہ رکعت سے متعلق حدیث عائشہ پیش کی ہے ، اور آخر میں لکھا:
وبهذا كله نأخذ، لا بأس بالصلاة في شهر رمضان، أن يصلي الناس تطوعا بإمام، لأن المسلمين قد أجمعوا على ذلك ورأوه حسنا
ہم ان تمام باتوں کو قبول کرتے ہیں ، ماہ رمضان کی نماز (تراویح) میں کوئی حرج نہیں ہے کہ لوگ ایک امام کے ساتھ ادا کریں ، کیونکہ مسلمانوں نے اس پر اجماع کیا ہےاور اسے بہترجاناہے[موطأ محمد بن الحسن الشيباني: ص: 91]
.
② ابن ہمام حنفی (متوفی 861؁ھ) لکھتے ہیں :
فتحصل من هذا كله أن قيام رمضان سنة احديٰ عشرة ركعة بالوتر فى جماعة
”اس سب کا حاصل (نتیجہ) یہ ہے کہ قیام رمضان (تراویح) گیارہ رکعات مع وتر، جماعت کے ساتھ سنت ہے . [فتح القدير شرح الهدايه ج 1 ص 407 باب النوافل]
.
③   ابن نجیم مصری (متوفی 970؁ھ) نے ابن ہمام حنفی کو بطور اقرار نقل کیا کہ
فإذن يكون المسنون على أصول مشايخنا ثمانية منها والمستحب اثنا عشر
”پس اس طرح ہمارے مشائخ کے اصول پر ان میں سے آٹھ (رکعتیں) مسنون اور بارہ (رکعتیں) مستحب ہوجاتی ہیں۔“ [البحرالرائق ج 2 ص 67]
.
④  ملا علی قاری حنفی (متوفی 1014؁ھ) نے کہا :
فتحصل من هذا كله أن قيام رمضان سنة إحديٰ عشرة بالوترفي جماعة فعله عليه الصلوة و السلام
”اس سب کا حاصل (نتیجہ) یہ ہے کہ قیام رمضان (تراویح) گیارہ رکعات مع وتر، جماعت کے ساتھ سنت ہے، یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل ہے۔“ [مرقاة المفاتيح 382/3 ح 1303]
.
⑤ شیخ عبدالحق محدث دہلوی (المتوفی 1052) فرماتے ہیں:
اب رہا رمضان المبارک میں قیام شب جسے تراویح کہتے ہیں ، تواس کا بیان ان شاء اللہ روزے کے باب میں آئے گا ،اور تحقیق یہ ہے کہ رمضان المبارک میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز آپ کی عادت شریفہ ہی کے مطابق تھی ، اور وہ گیارہ رکعتیں تھیں ، جسے تہجد میں پڑھا کرتے تھے جیسا کہ معلوم ہوا (مدارج النبوت ،ترجمہ، غلام معین الدین ج1 ص480)
.
⑥  نماز تراویح کے بارے میں حسن بن عمار بن علی الشرنبلالی حنفی (متوفی 1069؁ھ) فرماتے ہیں :
(وصلوتها بالجماعة سنة كفاية) لما يثبت أنه صلى الله عليه وسلم صلى، بالجماعة احديٰ عشرة ركعة بالوتر..
”(اور اس کی باجماعت نماز سنت کفایہ ہے) کیونکہ یہ ثابت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جماعت کے ساتھ گیارہ رکعتیں مع وتر پڑھی ہیں۔“ [مراقي الفلاح شرح نور الايضاح ص 98]
.
⑦ محدث شاہ ولی اللہ دہلوی (المتوفی 1176) لکھتے ہیں:
از فعل آنحضرت صلعم یازدہ رکعت ثابت شدہ و در قیام رمضان
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے فعل سے قیام رمضان(یعنی تراویح ) میں گیارہ رکعات ثابت ہیں ۔(مصفیٰ ومسوی شرح مؤطا ص 175)
.
⑧  سید احمد طحطاوی حنفی (متوفی 1233؁ھ) نے کہا :
لأن النبى عليه الصلوة و السلام لم يصلها عشرين، بل ثماني
کیونکہ بے شک نبی علیہ الصلوٰۃ و السلام نے بیس نہیں پڑھیں بلکہ آٹھ پڑھیں۔ [حاشيه الطحطاوي على الدر المختارج 1 ص 295]
.
⑨ محمدقطب الدین خان دہلوی رحمہ اللہ (المتوفی1289) لکھتے ہیں:
آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے چونکہ گیارہ رکعتیں پڑھنی ثابت ہوئی ہیں ، اس لئے آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل مبارک سے مشابہت کے قصد سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بعض راتوں میں گیارہ رکعت پڑھنا حکم دیا (مظاہرحق ج1 ص821)
نوٹ: بعض راتوں میں نہیں بلکہ تمام راتوں کے عمرفاروق رضی اللہ عنہ کا یہی حکم تھا اس کے برخلاف عمرفاروق رضی اللہ عنہ سے کچھ ثابت نہیں ہے ۔
.
 ⑩  احمد علی سہارنپوری حنفی(المتوفي 1297هـ) لکھتے ہیں:
”فتحصل من هذا كله ان قيام رمضان سنة احدي عشة ركعة بالوتر فى جماعة“ 
 ”ان سب کا حاصل یہ ہے کہ قیام رمضان 11 رکعت سنٗت ہے وتر کے ساتھ باجماعت۔“ 
(حاشیہ بخاری شریف ج1ص 154)
.
⑪   دیوبندیوں کے دل پسند عبدالحئی لکھنوی (متوفی 1304؁ھ) لکھتے ہیں :
”آپ نے تراویح دو طرح ادا کی ہے۔
 ➊  بیس رکعتیں بے جماعت…… لیکن اس روایت کی سند ضعیف ہے ….
 ➋  آٹھ رکعتیں اور تین رکعت وتر باجماعت….“ [مجموعه فتاويٰ عبدالحئي ج 1 ص 331، 332]
.
⑫   دیوبندیوں کے منظور نظر محمد احسن نانوتوی (متوفی 1312؁ھ) فرماتے ہیں :
لأن النبى صلى الله عليه وسلم لم يصلها عشرين بل ثمانيا
”کیونکہ بے شک نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بیس [20] نہیں پڑھیں بلکہ آٹھ [8] پڑھیں۔“ [حاشيه كنز الدقائق ص 36 حاشيه : 4]
◈ نیز دیکھئے [شرح کنز الدقائق لابی السعود الحنفی ص 265]
.
⑬ مولانا رشید احمد گنگوہی رحمہ اللہ (المتوفی1323) لکھتے ہیں:
ازاں جملہ ایک دفعہ گیارہ رکعات پڑھنا ہے ،چنانچہ جابر رضی اللہ عنہ نے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شب میں گیارہ رکعت تراویح بجماعت پڑھی (تالیفات رشیدیہ ص315 ، الرای النجیح ص13)
.
⑭   خلیل احمد سہارنپوری دیوبندی (متوفی 1345؁ھ) لکھتے ہیں :
”البتہ بعض علماء نے جیسے ابن ہمام آٹھ کو سنت اور زائد کو مستحب لکھاہے سو یہ قول قابل طعن کے نہیں۔“ [براهين قاطعه ص 8]
◈ خلیل احمد سہارنپوری مزید لکھتے ہیں کہ ”اور سنت مؤکدہ ہونا تراویح کا آٹھ رکعت تو بالاتفاق ہے اگر خلاف ہے تو بارہ میں ہے۔“ [براهين قاطعه ص 195]
.
⑮   انور شاہ کشمیری دیوبندی (متوفی 1352؁ھ) فرماتے ہیں :
ولا مناص من تسليم أن تراويحه عليه السلام كانت ثمانية ركعات ولم يثبت فى رواية من الروايات أنه عليه السلام صلى التراويح و التجهد عليحدة فى رمضان…. وأما النبى صلى الله عليه وسلم فصح عنه ثمان ركعات و أما عشرون ركعة فهو عنه عليه السلام بسند ضعيف و عليٰ ضعفه اتفاق….
”اور اس کے تسلیم کرنے سے کوئی چھٹکارا نہیں ہے کہ آپ علیہ السلام کی تراویح آٹھ رکعات تھی اور روایتوں میں سے کسی ایک روایت میں بھی یہ ثابت نہیں ہے کہ آپ علیہ السلام نے رمضان میں تراویح اور تہجد علیحدہ پڑھے ہوں…… رہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم تو آپ سے آٹھ رکعتیں صحیح ثابت ہیں اور رہی بیس رکعتیں تو وہ آپ علیہ السلام سے ضعیف سند کے ساتھ ہیں اور اس کے ضعیف ہونے پر اتفاق ہے۔“ [العرف الشذي ص 166 ج 1]
.
⑯   دیوبندیوں کے منظور خاطر عبدالشکور لکھنوی (متوفی 1381؁ھ) لکھتے ہیں کہ :
”اگرچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے آٹھ رکعت تراویح مسنون ہے اور ایک ضعیف روایت میں ابن عباس سے بیس رکعت بھی۔ مگر …..“ [علم الفقه ص 198، حاشيه]
.
⑰   محمد یوسف بنوری دیوبندی (متوفی 1397؁ھ) نے کہا :
فلا بد من تسليم أنه صلى الله عليه وسلم صلى التراويح أيضا ثماني ركعات
”پس یہ تسلیم کرنا ضروری ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آٹھ رکعات تراویح بھی پڑھی ہے۔“ [معارف السنن ج 5 ص 543]
(منقول)  

No comments:

Post a Comment