{ 16} صحابہ سے فطرہ میں قیمت اور نقد (درہم) دینے کا ثبوت (آٹھویں قسط) - Kifayatullah Sanabili Official website

2018-06-27

{ 16} صحابہ سے فطرہ میں قیمت اور نقد (درہم) دینے کا ثبوت (آٹھویں قسط)

{ 16} صحابہ سے فطرہ میں قیمت اور نقد (درہم) دینے کا ثبوت (آٹھویں قسط)
✿ ✿ ✿ ✿
✿  پچھلی قسط میں ایک صحیح روایت پیش کی جاچکی ہے جو بہت  واضح طور پر بتلاتی ہے کہ صحابہ کرام رضی للہ عنہم فطرہ میں نقد دینے کو جائز سمجھتے تھے اور بعض صحابہ کا اس پر عمل بھی تھا ۔  یہ روایت سامنے آنے  کے بعد بعض مانعین نقد آپے سے باہر ہوگئے ہیں  اور ”تاحیات کی صراحت دکھاؤ“ ، ”امام اور مقتدی کا ذکر دکھاؤ“  جیسے مناظرانہ ہتھکنڈوں کا سہارا لینے لگے ، بلکہ حد ہوگئی کہ بریلوں سے ان کا علم کلام بھی مستعار لے بیٹھے ، ”گستاخ رسول“ ، ”منکرحدیث“ کا  نعرہ تو آپ نے سنا ہی ہوگا ، ”تحریف حدیث“ کی بازگشت بھی اس سے کچھ مختلف نہیں ہے ۔سچ کہا ہے کہنے والوں نے کہ ”چور مچائے شور“  یعنی خود چوری کرکے اس قدر شور مچاؤ کہ لوگ یہ بدبودار الزام کسی اور پر ہی ڈال دیں ۔
تاریک راتوں میں یہ اچھل کود شاید کچھ سود مند بھی  ہوسکے مگر دن کے اجالوں میں یہ حربہ کچھ کار گر نہیں ہوسکتا، اس لئے موقع و محل اور حالات دیکھ کر ہی کوئی حرکت انجام دینی چاہے۔
✿  پیش کردہ روایت میں  ”عشرۃ“ کا لفظ آیا ہے ، جس کا ترجمہ ہم نے دس درہم سے کیا ہے ، اس ترجمہ سے  چونکہ بعض لوگوں کے احبار ورھبان کے فتاوی پر زد پڑتی تھی ، اس لئے انہوں نے اسے غلط ہی نہیں، بلکہ بریلوی علم کلام کا سہارا لیتے ہوئے ”تحریف“ قرار دیا اور یہ تاثر دیا کہ یہ ترجمہ روئے زمین میں سے صرف ہم نے ہی کیا ہے ۔
 ●  حالانکہ یہی ترجمہ کنزالعمال کے مترجم نے بھی کیا ہے دیکھئے:[ کنزالعمال حصہ ششم ،ص 694]۔
 ●  بلکہ ایک عربی باحث ”أبو عمرو أحمد غانم جاسم العريضي“ نے زکاۃ میں قیمت دینے پر ایک مفصل کتاب لکھی ہے ،اور ان شرانگیزوں کا بھر پور رد کیا ہے جو فطرہ میں نقد کے مسئلہ پر تبدیع وتفسیق کی زبان استعمال کرتے ہیں ۔اس نے  روایت مذکورہ میں عشرہ سے درہم ہی مراد لیا ہے ، اس کتاب کا مکمل مراجعہ و تصحیح دکتور ريان توفيق نے کی ہے ، جو فقہ اور شرعی علوم کے متخصص ہیں ، اور متعدد کتابوں کے مصنف ہیں ، نیز انہوں نے نقود سے متعلق ایک کتاب ”نظرية النقود في الفقه الإسلامي المقارن“ بھی تالیف کررکھی ہے ۔دیکھئے : [الطرق المستقيمة لبيان جواز دفع القيمة في الزكوات، ص 47 مطبوعہ ، دار الكتب العلمية - بيروت]
یہ حوالے ہم نے اس لئے نہیں دیئے ہیں کہ یہ کوئی دلیل کی حیثیت رکھتے ہیں ، یا منزل من اللہ ہیں ، بلکہ مقصود صرف یہ دکھلانا ہے کہ یہ ترجمہ اور مفہوم ہم سے پہلے بھی موجود ہے ، اور اردو مترجمین بلکہ عربی باحثین نے بھی یہ مفہوم سمجھا ہے ،لہٰذا بعض لوگوں کا یہ پروپیگنڈہ کرنا کہ ایسا ترجمہ روئے زمین پر پہلی بار ہوا ہے ، پھر شرافت کے تمام حدود پار کرکے اسے ”تحریف“  باور کرانا  انتہائی درجے کی سطحیت اور شرمناک جسارت ہے ۔
.
 ✿  اب آئیے ہم اس بات کو دلائل اور قرائن سے ثابت کرتے ہیں کہ روایت مذکورہ میں ”عشرۃ“ سے مراد دس درہم ہی ہے ۔
 سب سے پہلے ذیل کی دو روایات غور سے پڑھیں:
❀ پہلی روایت:● 
گھوڑے اور غلاموں میں زکاۃ فرض نہیں ہے لیکن عمرفاروق رضی اللہ عنہ کے دور میں کچھ لوگوں نے عمرفاروق رضی اللہ عنہ کے سامنے یہ پیشکش کی کہ ہم از راہ تبرع وتطوع اپنے گھوڑے اورغلاموں کی بھی زکاۃ دینا چاہتے ہیں تو عمرفاروق رضی اللہ عنہ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے رائے ومشورہ کے بعد یہ بات منظور فرمالی ، اور گھوڑوں اورغلاموں میں زکاۃ کے لئے دس درہم کی مالیت طے کردی ،اور ان سے یہ زکاۃ وصولنے کے بعد اس کے عوض میں ان کے غلاموں کے لئے دو دو جریب  بھی دیتے تھے ۔ یہ بات کئی روایات میں تفصیل و اختصار کے ساتھ منقول ہے ،اس سلسلے کی ایک روایت مع سند ومتن ملاحظہ ہو:
”أخبرنا يعلى بن عبيد، قال: حدثنا إسماعيل بن أبي خالد، عن شبيل بن عوف، قال: أمرنا عمر بن الخطاب بالصدقة فقلنا: نحن نجعل على خيولنا وأرقائنا عشرة عشرة فقال: «أما أنا فلا أجعله عليكم ثم أمر لأرقائنا بجريبين جريبين“
”شبیل بن عوف رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ عمرفاروق رضی اللہ عنہ نے ہمیں زکاۃ ادا کرنے کا حکم دیا تو ہم نے کہا: کہ ہم اپنے گھوڑوں اور غلاموں کی طرف سے دس دس درہم زکاۃ  دیں گے ، اس پر عمرفاروق رضی اللہ عنہ نے کہا : لیکن میں اس چیز کو تم پر واجب نہیں کروں گا ، پھر عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے ہمارے غلاموں کے لئے دو دو جریب  عطا کرنے کا حکم دیا “ [الطبقات الكبرى ط دار صادر 6/ 152، و إسناده صحيح ]
❀ دوسری روایت:● 
جس طرح اوپر کی روایت کے مطابق بعض لوگوں نے  اپنے گھوڑوں اور غلاموں کی دس دس درہم  زکاۃ نکالی اسی طرح مہاجرین کی ایک جماعت نے بھی از راہ تبرع اور تطوع اپنے غلاموں کی سالانہ دس دس درہم زکاۃ نکالنے کی خواہش ظاہر کی، لیکن اس کے لئے مہاجرین صحابہ نے ایک دوسرا راستہ اختیار کیا وہ یہ کہ غلاموں میں گرچہ سالانہ فرض زکاۃ نہیں ہے لیکن سال میں ایک بار ان کی طرف سے صدقہ الفطر ادا کرنا فرض ہے ۔تو کیوں نہ ایسا کیا جائے کہ اسی صدقہ الفطر کی مقدار بڑھا کر دی جائے یعنی ہرغلام کی طرف سے دس دس درہم فطرہ میں  دے دیا جائے ،اس طرح غلاموں میں زکاۃ بھی ہوجائے گی اور یہ زکاۃ سنت کی راہ سے یعنی فطرہ کی شکل میں ادا ہوگئ ، ملاحظہ ہو اس سلسلے کی ایک روایت:
”حدثنا إسماعيل بن إبراهيم، عن عبد الخالق بن سلمة الشيباني، قال: سألت سعيد بن المسيب عن الصدقة، فقال: «كانت على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم صاع تمر، أو نصف صاع حنطة عن كل راس»، فلما قام أمير المؤمنين عمر كلمه ناس من المهاجرين، فقالوا: إنا نرى أن نؤدي عن أرقائنا عشرة عشرة كل سنة إن رأيت ذلك. فقال: «نعم، ما رأيتم، وأنا أرى أن أرزقهم جريبين كل شهر». فكان الذي يعطيهم أمير المؤمنين أفضل من الذي ياخذ منهم قال أبو عبيد: يعني صدقة الفطر عن الرقيق“
”عبدالخالق بن سلمہ کہتے ہیں کہ میں نے سعیدبن المسیب رحمہ اللہ سے صدقہ ( یعنی صدقہ فطر جیساکہ دوسری رویت میں صراحت ہے)کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا: اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں صدقہ الفطر ایک صاع کھجور یا نصف صاع گیہوں ہر فرد کی طرف سے دیا جاتا تھا ، لیکن جب عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا دور آیا تو بعض مہاجرین صحابہ نے ان سے کہا کہ : ہماری خواہش ہے کہ ہم اپنے غلاموں کی جانب سے دس دس درہم ہرسال (فطرہ کے طور پر) ادا کریں ، اگر آپ اسے درست جانیں ۔ تو عمرفاروق رضی اللہ عنہ نے کہا: تم لوگوں نے بہت اچھا سوچا ۔ اور میرا ارادہ ہے کہ میں ہرماہ ان غلاموں کے لئے دو جریب  عطا کروں گا ، چانچہ امیر المؤمنین عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا عطیہ ان کے وصول کردہ چیز سے بہتر ثابت ہوتا “اس روایت کے راوی ابوعبید  فرماتے ہیں: ”یعنی غلام کی طرف سے بطور صدقہ الفطر“ (مذکورہ چیز دینے کی بات ہے) “[الأموال لأبي عبيد القاسم بن سلام، ت: محمدعمارۃ ص 565 رقم 1368 و إسناده صحيح موقوفا ، وانظر ایضا : ص 337 رقم 617 ]
.
 ✿  اب درج ذیل دلائل اور قرائن کو بغور پڑھیں:
❀ (الف) : 
ذیل میں ہم مذکورہ دونوں روایات سے ایک ایک ٹکڑا ایک ساتھ پیش کرکے دکھاتے ہیں ، ان دونوں میں  ”عشرة عشرة“ کے الفاظ ہیں ، ملاحظہ کریں:
● نحن نجعل على خيولنا وأرقائنا عشرة عشرة فقال :...... [الطبقات الكبرى ط دار صادر 6/ 152 و إسناده صحيح ]
●  نرى أن نؤدي عن أرقائنا عشرة عشرة كل سنة ......[الأموال للقاسم بن سلام، ت: سيد رجب: 2/ 127 و إسناده صحيح ]
.
موازنہ کریں اوپر کی روایت گھوڑوں اورغلاموں سے متعلق ہے ۔اس میں ”عشرة عشرة“ کے الفاظ ہیں ۔
اورنیچے کی روایت غلاموں سے متعلق ہے ، اس میں بھی ”عشرة عشرة“ کے الفاظ اوپر والی روایت ہی کی طرح ہیں ۔
اب اوپر کی روایت میں دس دس درہم مراد ہے ، لہٰذا اسی اسلوب میں مذکور نیچے کی روایت میں بھی دس دس درہم ہی مراد ہے۔
❀ (ب) :
پہلی روایت میں غلاموں کی  زکاۃ کی مالیت  دس دس درہم بتلائی گئی ہے۔دوسری روایت میں بھی غلاموں کی زکاۃ ہی مقصود ہے لہٰذا اس میں بھی دس دس درہم ہی کی مالیت ہونی چاہئے ۔ چونکہ یہ زکاۃ فرض نہیں ہے اس لئے تھوڑا بہت فرق تو ہوسکتا ہے ، لیکن قریب قریب مالیت وہی ہونی چاہئے جس کی ایک نظیر اوپر کی روایت میں موجود ہے۔
❀ (ج): 
بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ پہلی بار جب ایک گروہ گھوڑوں اور غلاموں وغیرہ کی زکاۃ دینے کے لئے عمرفاروق رضی اللہ عنہ کے پاس آیا تو اس وقت عمرفاروق رضی اللہ عنہ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے مشورہ کرکے ہرایک قسم کی زکاہ کے لئے ایک مالیت طے کردی ، اس سلسلے میں غلاموں کی زکاۃ دس درہم طے کی گئی تھی ، پھر بعد میں جولوگ بھی اپنے  غلاموں کی زکاۃ دینا چاہتے وہ اسی مالیت یعنی دس درہم کے حساب سے زکاۃ دیتے ۔[شرح معاني الآثار 2/ 27 وھو صحیح بالشواھد]
صدقہ الفطر کے حوالے سے جو صحابہ نفلی زکاۃ دینا چاہتے تھے وہ غلاموں ہی کی زکاۃ تھی اس لئے ظاہر ہے کہ وہ بھی اسی مالیت یعنی دس درہم ہی کے حساب سے ہی زکاۃ دیں گے، جیساکہ یہ سرکاری معمول بن چکا تھا ،  البتہ چونکہ انہیں غلاموں کی زکاۃ ان کے صدقہ الفطر کے ساتھ شامل کرکے دینی تھی اس لئے اس بارے میں انہوں نے عمرفاروق رضی اللہ عنہ سے دریافت کیا اور عمرفاروق رضی اللہ عنہ نے ان کی اس نیک ارادے کی دادی اور ان کی یہ زکاۃ قبول فرمائی ۔
❀ (د) :
غلام یہ مال میں شمار ہوتا ہے ، پہلی روایت میں اسے مال میں شمار کرکے اس کی زکاۃ مال درہم سے دی گئی ہے دوسری روایت میں بھی غلام کو مال کی حیثیت سے ہی شمار کیا گیا ہے یہی پہلو غالب ہے ، اس لئے اس میں بھی زکاۃ مال درہم سے ہی ہونی چاہئے جیساکہ پہلی روایت میں ہے ۔
❀ (ھ) :
روایات میں جب مطلق عدد کا ذکر ہوتا ہے تو اس سے نقد ہی مراد ہوتا ہے ، اس سلسلے کی کچھ روایات ملاحظہ فرمائیں:
● امام بخاري رحمه الله (المتوفى256)نے کہا:
”حدثنا سعيد بن يحيى، حدثنا أبي، حدثنا الأعمش، عن شقيق، عن أبي مسعود الأنصاري رضي الله عنه، قال: «كان رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا أمرنا بالصدقة، انطلق أحدنا إلى السوق، فيحامل، فيصيب المد وإن لبعضهم اليوم لمائة ألف“ 
”ابومسعود انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب ہمیں صدقہ کرنے کا حکم دیا تو ہم میں سے بہت سے بازار جا کر بوجھ اٹھانے کی مزدوری کرتے اور اس طرح ایک مد (کھجور ) حاصل کرتے۔ (جسے صدقہ کر دیتے) لیکن آج ہم میں سے بہت سوں کے پاس لاکھ لاکھ (درہم ) موجود ہیں“ [صحيح البخاري 2/ 109 ،رقم 1416]
اس روایت میں دیکھیں شروع میں ایک مد یعنی طعام کا ذکر ہے لیکن اس کے مقابلے میں آگے مطلق عدد”مائة ألف“ کا ذکر ہے ، لیکن یہاں اس مطلق عدد سے نقد ہی مراد ہے۔
● امام ابن سعد رحمه الله (المتوفى230) نے کہا:
”أخبرنا أحمد بن عبد الله بن يونس قال: أخبرنا عبد الله بن المبارك، عن يونس، عن الزهري، عن سعيد بن المسيب: «أن عمر بن الخطاب فرض لأهل بدر من المهاجرين من قريش والعرب والموالي خمسة آلاف خمسة آلاف، وللأنصار ومواليهم أربعة آلاف أربعة آلاف“
”سعیدابن المسیب فرماتے ہیں کہ عمرفاروق رضی اللہ عنہ نے قریش اور عرب اہل بدر اوران کے موالی کے لئے پانچ پانچ ہزار درہم وظیفہ مقررکیا اور انصاراوران کے موالی کے لئے چارچار ہزار درہم وظیفہ مقررکیا “[الطبقات الكبرى ط دار صادر 3/ 304 و إسناده صحيح وله طرق أخري]
یہ روایت سعیدبن المسیب ہی کی بیان کردہ ہے اس میں انہوں نے پانچ پانچ ہزار اور چارچار ہزار کی عدد بیان کی ہے لیکن اس سے مراد درہم ہی ہے ۔
❀ (و) :
کتب سؤالات اور کتب فقہ میں بھی بہت سارے مقامات پر مطلق عدد سے نقد ہی مراد لیا جاتا ہے مثلا عمر رضی اللہ عنہ  کے دور میں غلاموں کی زکاۃ سے متعلق ہی ایک روایت کے بارے میں امام احمد رحمہ اللہ سے سوال کیا گیا تو سوال کے نص میں مطلق ”عشرۃ“ یعنی ”كَانَ يَأْخُذ من الرَّأْس عشرَة وَمن الْفرس عشرَة“ کا ذکرہے ، [مسائل الإمام أحمد رواية ابنه أبي الفضل صالح 1/ 337]
”الشرح الكبير على المقنع“ میں بھی یہ روایت مطلق عدد  ”عشرۃ“ کے ساتھ درج ہے اور محقق نے اس پر حاشیہ لگاتے ہوئے نیچے لکھا :
”أى دراهم“ ،  ”یعنی اس سے مراد درہم ہے“ ، دیکھیں:[الشرح الكبير على المقنع ت التركي 6/ 293]
✿ ان تفصیلات سے یہ بات بخوبی واضح ہوجاتی ہے کہ پچھلی قسط میں پیش کردہ روایت میں مذکور عدد  ”عشرۃ“ سے دس درہم ہی مراد ہے ۔ اس کے برخلاف کوئی اور معنی کی دور دور تک کوئی گنجائش نہیں ہے ۔اور افسوس کہ مجھے یہ معلوم نہیں ہوسکا کہ جو  یہاں عدد  ”عشرۃ“ سے درہم نہیں مراد لیتے ہیں تو پھر وہ کیا مراد  لیتے ہیں؟ اور کیوں مراد لیتے ہیں؟ کوئی اس سے بھی آگاہ کرے تاکہ یہ فقیر بھی دیکھے کہ بعض کی فقاہت کاحجم کتنا ہے ؟
جاری ہے ۔۔۔)
.

No comments:

Post a Comment