آٹھویں روایت: نافع تابعی کی طرف منسوب ضعیف قول - Kifayatullah Sanabili Official website

2020-01-19

آٹھویں روایت: نافع تابعی کی طرف منسوب ضعیف قول


آٹھویں روایت: نافع تابعی کی طرف منسوب ضعیف قول
امام عبد الرزاق رحمه الله (المتوفى211) نے کہا:
”عن ابن جريج قال: أرسلنا إلى نافع وهو يترجل في دار الندوة ذاهبا إلى المدينة، ونحن جلوس مع عطاء: أم حسبت تطليقة عبد الله امرأته حائضا على عهد النبي صلى الله عليه وسلم واحدة؟ قال: «نعم»“ 
 ”ابن جریج کہتے ہیں کہ ہم نے نافع کے پاس پیغام بھیجا اس وقت وہ دارالندوہ میں مدینہ جانے کی تیاری کررہے تھے ، ہم اس وقت عطاء کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے ، (ہم نے نافع کے پاس پیغام بھیج کر دریافت کیا ) کہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے عہد رسالت میں اپنی بیوی کو جو طلاق دی تھی کیا وہ ایک طلاق شمار کی گئی تھی ؟ تو انہوں نے کہا : ہاں“ [مصنف عبد الرزاق، ت الأعظمي: 6/ 309 وفی إسناده مبھم وھو قول نافع]

عرض ہے کہ:
اولا: 
یہ روایت ضعیف ہے کہ کیونکہ پیغام لے جانے والا شخص مجہول ہے اس کا نام اس روایت میں ذکر نہیں ہے۔
ثانیا:
اس میں صرف یہ بیان ہے کہ عہد رسالت میں ابن عمر رضی اللہ عنہ نے اپنی بیوی کو حالت حیض میں جو طلاق دی تھی ، اسے ایک شمار کیا گیا ؟ لیکن روایت میں یہ صراحت نہیں ہے کہ عہد رسالت میں ہی اسے ایک شمار کیا گیا اور نہ ہی یہ وضاحت ہے کہ کس نے اسے ایک شمار کیا تھا ۔

امام ابن حزم رحمه الله (المتوفى456) کہتے ہیں:
 ”وأما خبر نافع فموقوف عليه ليس فيه: أنه سمعه من ابن عمر فبطل الاحتجاج به“ 
 ”نافع کی خبر یہ انہیں کی طرف سے ہے ، اس میں یہ بیان نہیں ہے کہ اس کو انہوں نے ابن عمررضی اللہ عنہ سے سنا ہے ، اس لئے اس سے استدلال باطل ہے“ [المحلى لابن حزم، ت بيروت: 9/ 380]
فائدہ:
مصنف عبدالرزاق کے مترجم نسخہ میں اس اثر کے پہلے لکھا ہواہے: ”اقوال تابعین“ [مصنف عبدالرزاق ج4 ص422 ترجمہ ابوالعلاء جہانگیر]
یعنی مترجم نے بھی تسلیم کیا ہے کہ یہ تابعی کا قول ہے مرفوع حدیث نہیں ہے۔

امام ابن القيم رحمه الله (المتوفى751) نے کہا:
 ”وأما حديث ابن جريج عن عطاء عن نافع، أن تطليقة عبد الله حسبت عليه، فهذا غايته أن يكون من كلام نافع، ولا يعرف من الذي حسبها، أهو عبد الله نفسه، أو أبوه عمر، أو رسول الله - صلى الله عليه وسلم -؟ ولا يجوز أن يشهد على رسول الله - صلى الله عليه وسلم - بالوهم والحسبان، وكيف يعارض صريح قوله: ولم يرها شيئا بهذا المجمل؟“ 
 ”اور رہی نافع سے عطاء و ابن جریج کی روایت کہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کی طلاق شمار کی گئی تھی ، تو اس میں زیادہ سے زیادہ یہ بات ہے کہ یہ نافع کاقول ہے ، اور یہ معلوم نہیں ہے کہ اسے کس نے شمار کیا ؟ کیا خود عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہ نے شمار کیا؟ یا ان کے والد عمر رضی اللہ عنہ نے شمار کیا ؟ یا اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے شمار کیا ؟ اور محض وہم وگمان کے ذریعہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف کوئی بات منسوب نہیں کی جاسکتی ، اور پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے صریح بیان کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طلاق کو کچھ نہیں سمجھا ، اس کے خلاف اس مجمل قول کو کیسے پیش کیاجاسکتاہے“ [زاد المعاد، ن مؤسسة الرسالة: 5/ 217]

خلاصہ یہ کہ : یہ قول ضعیف اور مجمل ہے اس لئے اس سے استدلال باطل ہے۔

اگلاحصہ

No comments:

Post a Comment