ساتویں روایت : عطاء الخراسانی کی روایت - Kifayatullah Sanabili Official website

2020-01-18

ساتویں روایت : عطاء الخراسانی کی روایت


ساتویں روایت : عطاء الخراسانی کی روایت
امام طبراني رحمه الله (المتوفى360)نے کہا:
”حدثنا علي بن سعيد الرازي، ثنا يحيى بن عثمان بن سعيد بن كثير بن دينار الحمصي، ثنا أبي، ثنا شعيب بن رزيق، حدثني عطاء الخراساني، عن الحسن، عن عبد الله بن عمر؛ أنه طلق امرأته تطليقة وهي حائض، ثم أراد أن يتبعها تطليقتين أخراوين عند القرأين الباقيين، فبلغ ذلك النبي صلى الله عليه وسلم فقال: «يا ابن عمر، ما هكذا أمر الله، قد أخطأت السنة، والسنة أن تستقبل الطهر فتطلق لكل قرء» ، فأمرني رسول الله صلى الله عليه وسلم فراجعتها، ثم قال: إذا هي حاضت ثم طهرت، فطلق عند ذلك، أو أمسك ، فقلت: يا رسول الله، أرأيت لو طلقتها ثلاثا، كان لي أن أراجعها؟ قال: إذن بانت منك، وكانت معصية“ 
 ”حسن بصری رحمہ اللہ عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے اپنی بیوی کو حیض کی حالت میں طلاق دے دی، پھر اس کے بعد باقی دو طہر میں دو مزید طلاقیں دینے کا ارادہ کیا اوراس کی خبر اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ہوگئی، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابن عمررضی اللہ عنہ سے کہا: اے ابن عمر ! اللہ نے اس طرح حکم نہیں دیا ہے ، تم نےسنت کے خلاف کیا ہے ، سنت یہ ہے کہ تم طہر کا انتظار کرو اور ہر طہر میں طلاق دو ،پھر اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے میں نے اپنی بیوی کو واپس لے لیا ، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اب جب اسے حیض آجائے اور یہ اس سے پاک ہوجائے تو اس وقت تم طلاق دے دو یا اسے روک لو ، تو میں نے کہا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم!ً اگر میں نے اسے تین طلاق دی ہوتی تو کیا اس کے بعد اسے واپس لینا میرے لئے جائز ہوتا ، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ایسی صورت میں وہ بائنہ ہوجاتی اور یہ گناہ کا کام ہوتا“ [المعجم الكبير للطبراني 13/ 251 ،مسند الشاميين للطبراني 3/ 354 وإسناده ضعيف وأخرجه أيضا الطبراني في مسند الشاميين  3/ 355 من طريق الوليد بن مسلم عن شعيب بن زريق به ، وأخرجه أيضا الدارقطني في سننه 5/ 56 ومن طريقه أخرجه ابن الجوزي في التحقيق رقم 1704 من طریق علي بن محمد، وأخرجه الجصاص في أحكام القرآن 2/ 77 من طريق ابن قانع، کلاھما من طریق محمد بن شاذان الجوهري ۔وأخرجه أيضا البيهقي في سننه 7/ 334 من طريق أبي أمية الطرسوسى و أيضا في سننه 7/ 330 من طريق محمدبن اسحاق ،کلھم (محمد بن شاذان الجوهري وأبو أمية الطرسوسى ومحمدبن اسحاق) عن معلى بن منصور الرازى عن شعيب بن رزيق به]

یہ روایت باتفاق ائمہ حدیث، ضعیف ومردود ہے ، اس میں درج ذیل علتیں ہیں۔

 ● پہلی علت: حسن بصری کا عنعنہ
حسن بصری رحمہ اللہ مدلس اور ارسال کرنے والے راوی ہیں اور انہوں نے ابن عمر رضی اللہ عنہ سے بہت کم احادیث سنی ہیں ، حتی کہ بعض ائمہ نے ابن عمر رضی اللہ عنہ سے ان کے سماع کی نفی تک کردی ہے چنانچہ:
امام ابن حبان رحمه الله (المتوفى354) نے کہا:
 ”والحسن رحمه الله لم يشافه بن عمر“ 
 ”حسن بصری رحمہ اللہ نے ابن عمر رضی اللہ عنہ سے نہیں سنا ہے“ [المجروحين لابن حبان، تزايد: 2/ 163]

امام حاكم رحمه الله (المتوفى405):
 ”أن الحسن لم يسمع من أبي هريرة ولا من جابر و من ابن عمر“ 
 ”حسن بصری نے ابوہریرہ ، جابر اور ابن عمررضی اللہ عنہم سے نہیں سناہے“ [معرفة علوم الحديث للحاكم: ص: 164]

لیکن دوسری طرف امام بھز بن اسد ، امام ابن المدینی ، امام احمد، امام ابوزرعہ ، امام ابوحاتم اور امام ابن معین رحمہم اللہ نے سماع کا اثبات کیا ہے ، دیکھئے:[المراسيل لابن أبي حاتم ت الخضري: ص: 32 ،علل ابن المديني ص: 91 ، مسائل أحمد، رواية صالح، ت الدار العلمية: 2/ 248 ، المراسيل لابن أبي حاتم ت الخضري: ص: 45 ، الجرح والتعديل لابن أبي حاتم، ت المعلمي: 3/ 41 ، سؤالات ابن الجنيد لابن معين: ص: 315]
لیکن ان میں بعض نے صرف ملاقات کی طرف اشارہ کیا ہے ، اور حسن بصری کے معاصر امام بهز بن أسد رحمہ اللہ نے تو صرف ایک ہی حدیث سننے کی بات کہی ہے چنانچہ:
امام بهز بن أسد رحمہ اللہ (المتوفی200) نے کہا:
 ”سمع من ابن عمر حديثا“ ، ”حسن بصری نے ابن عمر سے ایک حدیث سنی ہے“ [المراسيل لابن أبي حاتم ت الخضري: ص: 32 وإسناده صحيح]

ایک طرف تو یہ حال ہے کم ابن عمررضی اللہ عنہ سے حسن بصری سے بہت کم سنا ہے ، اوردوسری طرف حسن بصری رحمہ اللہ بہت زیادہ تدلیس اور ارسال کرنے والے ہیں چنانچہ:

حافظ ابن حجر رحمه الله (المتوفى852)نے کہا:
 ”وكان يرسل كثيرا ويدلس“ 
 ”یہ بہت زیادہ ارسال کرتے تھے اور تدلیس بھی کرتے تھے“ [تقريب التهذيب لابن حجر: رقم 1227]
اگر کوئی کہے کہ ابن حجر نے طبقات المدلسین میں اسے مدلسین کے دوسرے طبقہ میں رکھا ہے جن کی معنعن روایت مقبول ہوتی ہے ۔
تو عرض ہے کہ حسن بصری کو دوسرے طبقہ میں رکھنا درست نہیں ہے کیونکہ یہ کثیر التدلیس ہیں اور جو مدلس کثیر التدلیس ہو وہ تیسرے طبقہ کا ہوتا ہے۔
امام ذهبي رحمه الله (المتوفى748) نے کہا:
 ”كان الحسن كثير التدليس، فإذا قال في حديث عن فلان ضعف سماعه“ 
 ”حسن بصری کثیر التدلیس ہیں ، لہٰذا جب یہ کسی حدیث میں عن فلاں کہیں تو ان کا سماع ضعیف ہوگا“ [ميزان الاعتدال، ن مؤسسة الرسالة: 1/ 481]

رہی بات یہ کہ اگر یہ کثیر التدلیس ہیں اور ان کا عنعنہ مضر ہے تو حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے انہیں دوسرے طبقہ میں کیوں رکھا ؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ یہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کا تسامح ہے اور خود حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے بھی دوسرے مقام پر کہا:
 ”وهو مع ذلك كثير الإرسال فلا تحمل عنعنته على السماع“ 
 ”حسن بصری اس کے ساتھ کثیر الارسال ہیں اس لئے ان کا عنعنہ سماع پر محمول نہیں“ [فتح الباري لابن حجر، ط السلفية: 1/ 109]
لیجئے خود ابن حجر رحمہ اللہ نے بھی فیصلہ کردیا کہ حسن بصری کا عنعنہ سماع پر محمول نہیں ہوگا۔

واضح رہے کہ اسی حدیث کے بعض طرق میں حسن بصری کی تحدیث وسماع کی صراحت کا بھی ذکر ہے لیکن یہ بے سود کیونکہ ایسی کوئی سند حسن بصری تک ثابت نہیں ہے بلکہ اس روایت کی تمام سندوں میں عطاء الخراسانی موجود ہیں جن کے سبب یہ سندیں ضعیف ہیں جیساکہ تفصیل آرہی ہے ۔لہٰذا اس سندمیں حسن بصری کے سماع کی صراحت صحیح سند سے ثابت نہیں ہے ۔

 ● دوسری علت: شذوذ
یہ روایت ابن عمررضی اللہ عنہ کے دیگر تمام شاگردوں کے متفقہ بیان کے خلاف ہے ، کیونکہ ان کے کسی بھی شاگرد نے اس روایت میں ان باتوں کا اضافہ نہیں کیا جو زیربحث روایت میں ہے مثلا دیکھئے ان کے درج ذیل دس شاگردوں کی روایات
 ➊ نافع مولی ابن عمر( صحيح البخاري 7/ 41 رقم 5251 )
 ➋ سالم بن عبد الله(صحيح البخاري 6/ 155رقم 4908)
 ➌ یونس بن جبیر (صحيح البخاري 7/ 59 رقم 5333 )
 ➍ أنس بن سيرين (صحيح مسلم 2/ 1097رقم1471)
 ➎ عبداللہ بن دینار(صحيح مسلم 2/ 1095رقم 1471)
 ➏ طاوس بن کیسان (صحيح مسلم 2/ 1097رقم 1471)
 ➐ محمد بن مسلم ابو الزبیر (مصنف عبد الرزاق 6/ 309 رقم 10960 واسنادہ صحیح)
 ➑ شقيق بن سلمةأبو وائل (مصنف ابن أبي شيبة. سلفية: 5/ 3 واسنادہ صحیح )
 ➒ میمن بن مھران (السنن الكبرى للبيهقي، ط الهند: 7/ 326 واسنادہ صحیح)
 ➓ مغيرة بن يونس(شرح معاني الآثار 3/ 53 رقم 4464 واسنادہ حسن)
یہ ابن عمر رضی اللہ عنہ کے دس شاگرد ہیں جن سے انتہائی مضبوط سندوں سے یہ روایت آئی ہے مگر ان میں سے کسی کے یہاں بھی وہ اضافی باتیں نہیں ہے جو مذکورہ روایت ہیں ہے ، اس لئے یہ بھی اس روایت کے ضعیف ہونے کی ایک وجہ ہے۔

 ● تیسری علت: عطاء الخراسانی کاعنعنہ
اس روایت کے مرکزی راوی ”عطاء الخراساني“ ہیں۔اور یہ مدلس بھی ہیں ۔

حافظ ابن حجر رحمه الله (المتوفى852)نے کہا:
 ”صدوق يهم كثيرا ويرسل ويدلس“ 
 ”یہ صدوق ہیں بہت زیادہ وہم کے شکار ہوتے ہیں اورتدلیس بھی کرتے ہیں“ [تقريب التهذيب لابن حجر: رقم 2/ 392]
اور اس روایت کی کسی بھی سند میں انہوں نے سماع کی صراحت نہیں کی ہے لہٰذا اس روایت کے تمام سندوں کے ضعیف ہونے کی یہ بھی ایک وجہ ہے۔

 ● چوتھی علت:عطاء الخراسانی پر کلام
عطاء الخراسانی کے حافظہ پر کلام ہے۔

 ⟐ امام سعيد بن المسيب رحمہ اللہ (المتوفی 94 ) نے کہا:
 ”كذب“ 
 ”اس نے جھوٹ بولا ہے“ [التاريخ الأوسط للبخاري ت زائد: 2/ 36وإسناده صحيح]
دراصل سعید ابن المسیب سے روایت کرتے ہوئے عطاء الخراسانی نے ایک روایت بیان کی تو سعید ابن المسیب کے شاگر محمد ، عون اورقاسم بن عاصم نے ابن المسیب سے اس کے بارے میں پوچھا تو سعید بن المسیب رحمہ اللہ نے کہا:
 ”كذب ما حدثته“ 
 ”اس نے جھوٹ بولا ہے، میں نے اسے بیان نہیں کیا“ [التاريخ الأوسط للبخاري ت زائد: 2/ 36 وإسناده صحيح ، التاريخ الكبير للبخاري، ط العثمانية: 1/ 270 وإسناده صحيح]
اسی جرح کے بارے میں امام شوكاني رحمه الله نے کہاہے
”وكذبه سعيد بن المسيب“ ، ”انہیں سعید بن المسیب نے جھوٹا کہاہے“ [نيل الأوطار 6/ 270]

 ⟐ امام شعبة بن الحجاج رحمه الله (المتوفى 160) نے کہا:
 ”حدثنا عطاء الخراساني وكان نسيا“ 
 ”ہم سے عطاء الخراسانی نے بیان کیا اور یہ بھولنے والے تھے“ [الجرح والتعديل لابن أبي حاتم، ت المعلمي: 1/ 148وإسناده حسن ، وانظر:سير أعلام النبلاء للذهبي: 6/ 141،تهذيب التهذيب لابن حجر، ط الهند: 7/ 213]

 ⟐ امام بخاري رحمه الله (المتوفى256) نے کہا:
”ما أعرف لمالك بن أنس رجلا يروي عنه مالك يستحق أن يترك حديثه غير عطاء الخراساني. قلت له: ما شأنه؟ قال: عامة أحاديثه مقلوبة“ 
میں ایسے کسی راوی کو نہیں جانتا جس سے امام مالک روایت کریں اور اس کی حدیث ترک کرنے کے قابل ہو سوائے عطاء الخراسانی کے ، امام ترمذی کہتے ہیں کہ میں نے پوچھا : اس کا کیا معاملہ ہے تو امام بخاری نے کہا : اس کی اکثراحادیث میں الٹ پلٹ ہے“ [ترتيب علل الترمذي الكبير ، ت السامرائي ص: 271]
نیز امام بخاری رحمہ اللہ نے انہیں ضعفاء میں ذکر کرکے ابن المسیب کی مذکورہ جرح نقل کی ہے ، دیکھئے:[الضعفاء الصغير للبخاري ت أبي العينين ص: 108]

 ⟐ امام ابن حبان رحمه الله (المتوفى354) نے کہا:
 ”أنه رديء الحفظ كثير الوهم يخطىء ولا يعلم فحمل عنه فلما كثر ذلك في روايته بطل الاحتجاج به“ 
 ”یہ برے حافظے والے اور بکثرت وہم اور غلطی کرتے تھے جس کا پتہ نہیں چلتاتھا ، تو شروع میں ان کی روایت لے لی گئی لیکن جب ان کی روایات میں یہ غلطیاں کثرت سے ہونی لگیں تو اسے احتجاج باطل قرارپایا“ [المجروحين لابن حبان، تزايد: 2/ 131]

 ⟐ امام بيهقي رحمه الله (المتوفى458) نے کہا:
 ”وهو ضعيف في الحديث“ ، ”اوروہ (عطاء الخراسانی) ضعیف الحدیث ہیں“ [معرفة السنن والآثار للبيهقي: 11/ 36]

اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ کئی محدثین نے ان کے حافظ پر جرح کی ہے اور یہ سب جرح مفسر ہے ۔اس لئے اس میں کوئی شبہ نہیں رہ جاتا ہے کہ ان کا حافظہ کمزور تھا ، اور ایسا راوی اگر معروف ومشہور روایت کو تنہا ہی الگ انداز سے بیان کرتے تو اس کی منفرد بیان قطعا قابل قبول نہیں ہوسکتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ ان کی اس روایت کو محدثین نے بالاتفاق ضعیف قرار دیا ہے ، چنانچہ:

 ◈ امام بیہقی رحمہ اللہ (المتوفى458)نے اس روایت کے بارے میں فرمایا:
 ”وأما الحديث الذي رواه عطاء الخراساني، عن الحسن...فإنه أتى في هذا الحديث بزيادات لم يتابع عليها وهو ضعيف في الحديث لا يقبل منه ما ينفرد به“ 
 ”اوررہی وہ روایت جسے عطاء الخراسانی نے حسن سے روایت کیا ہے ... تو انہیں نے اس حدیث میں ایسے اضافے بیان کئے ہیں جن پر ان کی متابعت نہیں کی گئی ہے اور یہ ضعیف الحدیث ہیں اس لئے جس روایت کے بیان میں یہ منفرد ہوں گےتو قابل قبول نہیں ہے“ [معرفة السنن والآثار للبيهقي: 11/ 36]

 ◈ عبد الحق الأشبيلي (المتوفى581) نے کہا:
 ”إنه أتى في هذا الحديث ‌بزيادات ‌لم ‌يتابع ‌عليها وهو ضعيف في الحديث لا يقبل ما تفرد به“ 
 ”عطاء الخراسانی نے اس حدیث میں ایسے اضافے بیان کئے ہیں جن پر ان کی متابعت نہیں کی گئی ہے اور یہ ضعیف الحدیث ہیں اس لئے جس روایت کے بیان میں یہ منفرد ہوں گےتو قابل قبول نہیں ہے“ [ البناية شرح الهداية 5 / 283 ، نقل بلفظ: وذكره عبد الحق في ”أحكامه“ ]

◈ ابن الجوزي رحمه الله (المتوفى597) نے اسے روایت کرنےکے بعد کہا:
”قال أبو حاتم بن حبان الحافظ لم يشافه الحسن من ابن عمر“
 ”حافظ ابوحاتم بن حبان نے کہا کہ : حسن نے ابن عمر رضی اللہ عنہ سے نہیں سناہے“ [التحقيق في مسائل الخلاف 2/ 292]
ماقبل میں ہم واضح کرچکے ہیں کہ حسن بصری رحمہ اللہ کا ابن عمر سے سننا ثابت ہے ، لیکن بہت کم سنا ہے ، اور وہ مدلس و مرسل ہیں ، اور زیر بحث روایت میں ان کی طرف سے سماع کی صراحت صحیح سند سے ثابت نہیں ہے۔

 ◈ امام ابن عبد الهادي رحمه الله (المتوفى744) نے کہا:
 ”الحديث فيه نكارة، وبعض رواته متكلم فيه“ 
 ”اس حدیث میں نکارت ہے ، اور اس کے بعض رواۃ متکلم فیہ ہیں“ [تنقيح التحقيق لابن عبد الهادي 4/ 403]

◈ علامہ البانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
”وهذا إسناد ضعيف“ ، ”یہ سند ضعیف ہے“[إرواء الغليل 7/ 120]

 ❀ تنبیہ بلیغ: احناف کا بغیر دلیل کے متابعت کا دعوی
اس روایت کی بعض سندوں میں ”معلى بن منصور“ بھی ہیں اور امام عبدالحق نے اس روایت کی تضعیف کرتے ہوئے ان پربھی جرح نقل کی ہے ۔
لیکن ”معلى بن منصور“ پر جرح کرنا درست نہیں ہے کیونکہ اس روایت کو نقل کرنے میں وہ منفرد نہیں ہیں بلکہ ولید بن مسلم اور عثمان بن سعيد نے بھی ان کی متابعت کی ہے جیساکہ تخریج میں ہم نے وضاحت کردی ہے ۔اور اوپر ہم نے طبرانی کے حوالے سے اس کی جو سند پیش کی ہے اس میں ”معلى بن منصور“ نہیں ہیں بلکہ ان کی جگہ ”عثمان بن سعيد“ ہیں یعنی یہ ان کی متابعت کررہے ہیں ، لہٰذا ”معلی بن منصور“ پر جرح کرنا درست نہیں ہے۔

امام زيلعي رحمه الله (المتوفى762) نے اسی چیز کو واضح کرتے ہوئے یعنی ”معلى بن منصور“ پر جرح کو غلط قراردیتے ہوئے اور ان کی متابعت پیش کرتے ہوئے کہا:
 ”وذكره عبد الحق في أحكامه من جهة الدارقطني وأعله بمعلى بن منصور وقال : رماه أحمد بالكذب انتهى . قلت : لم يعله البيهقي في المعرفة إلا بعطاء الخراساني وقال : إنه أتى في هذا الحديث بزيادات لم يتابع عليها وهو ضعيف في الحديث لا يقبل ما تفرد به انتهى . قلت : قد رواه الطبراني في معجمه حدثنا علي بن سعيد الرازي ثنا يحيى بن عثمان بن سعيد بن كثير بن دينار الحمصي ثنا أبي ثنا شعيب بن رزيق به سندا ومتنا“ 
 ”اس روایت کو عبدالحق نے احکام میں دارقطنی کی سند سے ذکر کیا اور اس سند میں موجود معلی بن منصور کے سبب اسے ضعیف قراردیتے ہوئے کہا: امام احمد نے اس پر جھوٹ بولنے کا الزام لگایا ہے انتهى ۔ میں (امام زیلعی) کہتاہوں کہ: بیہقی نے المعرفة میں صرف عطاء الخراسانی ہی کے سبب اسے ضعیف قراردیاہے اور کہا : عطاء الخراسانی نے اس حدیث میں ایسے اضافے بیان کئے ہیں جن پر ان کی متابعت نہیں کی گئی ہے اور یہ ضعیف الحدیث ہیں اس لئے جس روایت کے بیان میں یہ منفرد ہوں گےتو قابل قبول نہیں ہےانتهى ۔ میں (امام زیلعی) کہتا ہوں کہ: طبرانی نے اسی روایت کو اپنی معجم میں”علي بن سعيد الرازي ثنا يحيى بن عثمان بن سعيد بن كثير بن دينار الحمصي ثنا أبي ثنا شعيب بن رزيق“ کے طریق سے اسی سند ومتن (یعنی عطاء عن الحسن اور اس کے بعد پورے متن ) کے ساتھ روایت کیا ہے“ [نصب الراية 3/ 215]

امام زیلعی نے متابعت میں جو سند پیش کی ہے یہ وہی سند ہے جس کے ساتھ اوپر ہم نے زیر بحث روایت کو درج کیا ہے ۔امام زیلعی کے اس کلام میں بہت واضح ہے کہ وہ امام عبدالحق کی طرف سے ”معلی بن منصور“ پر جرح کا جواب دیتے ہوئے کہہ رہے ہیں امام بیہقی نے بھی اس روایت کو ضعیف کہا، لیکن انہوں نے ”معلی بن منصور“ پر کوئی جرح نہیں کی بلکہ صرف ”عطاء الخراسانی“ پر جرح کی ۔پھر آگے امام زیلعی نے طبرانی کی روایت سے ”معلی بن منصور“ کی متابعت ”عثمان بن سعيد بن كثير بن دينار الحمصي“ سے بھی پیش کرکے یہ بتایا کہ اس میں ”معلی بن منصور“ کی اسی سند ومتن کے ساتھ متابعت موجودہے ۔یعنی ”معلی بن منصور“ نے جس سند ومتن (یعنی عطاء عن الحسن اور اس کے بعد پورے متن ) سے اس روایت کو بیان کیا ہے ، عین اسی سند ومتن سے ”عثمان بن سعيد بن كثير بن دينار الحمصي“ نے بھی یہی روایت بیان کردی لہٰذا ”معلی بن منصور“ پر جرح کا کوئی فائدہ نہیں ہے ۔

اس وضاحت کے بعد عرض ہے کہ احناف کے ایک بڑے بزرگ ابن الھمام رحمہ اللہ (المتوفی861) امام زیلعی رحمہ اللہ کی اس عبارت کو دھیان سے دیکھ نہیں سکے اور یہ سمجھ لیا کہ امام زیلعی نے امام عبدالحق نہیں بلکہ امام بیہقی ہی کا جواب دیاہے اور ”معلی بن منصور“ نہیں بلکہ ”عطاء الخراسانی“ ہی پر جرح کا جواب دیا ہے اور انہیں کی متابعت پیش کی ہے، چنانچہ ابن الھمام نے امام بیہقی کی جرح پیش کرتے ہوئے اور اس کا جواب دیتے ہوئے کہا:
 ”أعله البيهقي بالخراساني قال: أتى ‌بزيادات ‌لم ‌يتابع ‌عليها، وهو ضعيف لا يقبل ما تفرد به.ورد بأنه رواه الطبراني: حدثنا علي بن سعيد الرازي، حدثنا يحيى بن عثمان بن سعيد بن كثير بن دينار الحمصي، حدثنا أبي: حدثنا شعيب بن زريق سندا ومتنا“ 
 ”امام بیہقی نے اس روایت کو عطاء الخراسانی کے سبب ضعیف کہتے ہوئے کہا:عطاء الخراسانی نے اس حدیث میں ایسے اضافے بیان کئے ہیں جن پر ان کی متابعت نہیں کی گئی ہے اور یہ ضعیف ہیں اس لئے جس روایت کے بیان میں یہ منفرد ہوں گےتو قابل قبول نہیں ہے، اس کا جواب یہ دیا گیا ہے کہ اسی روایت کو طبرانی نے ”علي بن سعيد الرازي، حدثنا يحيى بن عثمان بن سعيد بن كثير بن دينار الحمصي، حدثنا أبي: حدثنا شعيب بن زريق“ کے طریق سے اسی سند ومتن کے ساتھ روایت کیا ہے“ [ فتح القدير للكمال ابن الهمام 3/ 467]

قارئین کرام !
یہ جواب امام زیلعی رحمہ اللہ کا ہے اوراوپر ہم واضح کرچکے ہیں کہ امام زیلعی رحمہ اللہ نے امام بیہقی کی جرح کا نہیں بلکہ امام عبدالحق کی جرح کا جواب دیاہے اور طبرانی کی روایت ”عطاء الخراسانی“ کی متابعت میں نہیں بلکہ ”معلی بن منصور“ کی متابعت میں پیش کی ہے۔
لیکن افسوس ہے کہ تفسیر مظہری کے مؤلف ابن الھمام رحمہ اللہ کی اس غلطی پر آگاہ نہیں ہوسکے اور ان کی تقلید میں انہوں نے بھی لکھ دیا :
 ”قال ابن همام تعليل البيهقي مردود حيث تابعه شعيب بن رزيق سندا ومتنا، رواه الطبراني“ 
 ”ابن ہمام نے کہا ہے کہ بیہقی کی تضعیف مردد ہے کیونکہ شعیب بن رزیق نے ان (عطاء الخراسانی) کی اسی سند ومتن کے ساتھ متابعت کی ہے جسے طبرانی نے روایت کیا ہے“ [التفسير المظهري1/ 301]
عرض ہے کہ ”شعیب بن رزیق“ نے عطاء الخراسانی کی متابعت نہیں کی ہے بلکہ طبرانی کی اس روایت میں انہوں نے ”عطاء الخراسانی“ ہی سے اس روایت کو نقل کیا ہے ، جیساکہ ہم نے شروع میں طبرانی کی اسی سند سے یہ روایت درج کی ہے۔
لہٰذا احناف سے گذارش ہے کہ اپنے متاخرین ائمہ کی تقلید میں اس بات کو دہرانا بند کردیں اور طبرانی کی روایت ایک بارخود غور سے پڑھ لیں تاکہ اصل حقیقت منکشف ہوجائے۔
بہر حال ”عطاء الخراسانی“ کی متابعت میں کوئی روایت موجود نہیں ہے ، لہٰذا ”عطاء الخراسانی“ کے ضعف کے سبب بھی یہ روایت ضعیف ومنکر ہے۔

خلاصہ کلام یہ کہ:
اس روایت کے راوی حسن بصری مدلس ومرسل ہیں  ، یہ ابن عمررضی اللہ عنہ کے دیگر تمام تلامذہ کی روایات کے خلاف ہے ، اس کے راوی عطاء الخراسانی بھی مدلس ہیں نیز ان کے حافظہ پر مفسر جرح موجود ہے ۔ لہٰذایہ روایت ضعیف ومنکر و مردود ہے۔

No comments:

Post a Comment