ساتویں دلیل آثار صحابہ - Kifayatullah Sanabili Official website

2020-01-11

ساتویں دلیل آثار صحابہ


تیسری دلیل: طلاق حیض کے عدم وقوع پرآثار صحابہ 
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کا اثر
اوپر یہ روایت گذرچکی ہے کہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے حیض کی حالت میں اپنی بیوی کو جو طلاق دی تھی اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے رد کردیا تھا ، اب اس کے ساتھ یہ بھی ملاحظہ فرمالیجئے کہ صاحب واقعہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کا فتوی بھی یہی تھا کہ حیض کی حالت میں دی گئی طلاق کا کوئی شمار نہیں ہوگا۔ چنانچہ:
امام ابن حزم رحمه الله (المتوفى456) نے کہا:
”نا يونس بن عبيد الله نا ابن عبد الله بن عبد الرحيم نا أحمد بن خالد نا محمد بن عبد السلام الخشني نا ابن بشار نا عبد الوهاب بن عبد المجيد الثقفي نا عبيد الله بن عمر عن نافع مولى ابن عمر عن ابن عمر أنه قال في الرجل يطلق امرأته وهي حائض، قال ابن عمر: لا يعتد بذلك“ 
 ”نافع رحمہ اللہ عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ جس شخص نے اپنی بیوی کو حیض کی حالت میں طلاق دے دیا ، تو عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کہتے تھے کہ اس کی طلاق کا کوئی شمار نہیں ہوگا“ [المحلى لابن حزم، ت بيروت: 9/ 375، أيضا : 9/ 381 وإسناده صحيح ، إغاثة اللهفان ط عالم الفوائد 1/ 52 : وقال المحقق : إسناده صحيح]

امام ابن حزم رحمه الله (المتوفى456) نے کہا:
 ”الرواية الصحيحة“ ، ”صحیح روایت“ [المحلى لابن حزم، ت بيروت: 9/ 381]

امام ابن قيم رحمه الله (المتوفى751) نے کہا:
 ”وهذا إسناد صحيح“ ، ”یہ سند صحیح ہے“ [عون المعبود مع حاشية ابن القيم: 6/ 171]
حافظ ابن حجر رحمه الله (المتوفى852) نے کہا:
 ”وإسناده صحيح“ ، ”اس کی سند صحیح ہے“ [التمييز لابن حجر، ت دكتور الثاني: 5/ 2435]

اس اثر کے متن پر اعتراض اور اس کا جواب
امام ابن أبي شيبة رحمه الله (المتوفى235)نے کہا:
 ”حدثنا عبد الوهاب الثقفي ، عن عبيد الله بن عمر ، عن نافع ، عن ابن عمر ؛ في الذي يطلق امرأته وهي حائض ، قال : لا تعتد بتلك الحيضة“ 
 ”نافع روایت کرتے ہیں کہ ابن عمر رضی اللہ عنہ نے اس شخص کے بارے میں کہا جس نے اپنی بیوی کو حیض کی حالت میں طلاق دے دی کہ اس کی بیوی اس حیض کا شمار نہیں کرے گی“ [مصنف ابن أبي شيبة. سلفية: 5/ 5 ، وإسناده صحيح وأخرجه أيضا ابن الأعرابي في معجمه 2/ 850 والبيهقي في سننه 7/ 418 من طريق ابن معين عن عبدالوهاب به]

اس روایت کی بنیاد پر بعض لوگ کہتے ہیں کہ ابن حزم کی روایت میں جس چیز کو شمار نہ کرنے کی بات ہے وہ طلاق نہیں بلکہ حیض ہے جیساکہ دوسری روایت میں صراحت ہے ۔
عرض ہے کہ ابن حزم کی روایت مجمل نہیں ہے بلکہ بالکل صریح اور واضح ہے کہ انہوں نے طلاق کو شمار نہ کرنے کی بات کہی ہے ، اسی طرح جس طریق میں حیض کو شمار نہیں کرنے کی بات ہے وہ بھی بالکل صریح اور واضح ہے۔اس لئے دوسری روایت پہلی روایت کی تشریح نہیں ہے بلکہ دونوں روایات میں الگ الگ بات ہے اور دونوں ہی ثابت شدہ ہیں۔

دراصل ابن عمر رضی اللہ عنہ مکمل کلام یہی ہے کہ وہ حیض کی حالت میں طلاق دینے پر نہ تو طلاق شمار کرتے تھے اور نہ ہی ایسی طلاق کے بعدبطور عدت حیض کو شمار کرتے تھے ، عبدالوہاب الثقفی نے اپنے طریق سے یہ دونوں باتیں نقل کی ہیں لیکن انہوں نے بعض دفعہ پہلی بات بیان کی ہے اور بعض دفعہ دوسری بات بیان کی ہے۔
اور دیگر رواۃ کے یہاں بھی روایت کا یہ طرز عمل ملتا ہے چنانچہ :

ایک ہی سند سے دو متن ثابت ہونی کی مثال:
 عمربن عبدالعزیز رحمہ اللہ نے اپنے دورخلافت میں صدقۃ الفطر کی ادائیگی کے لئے یہ فرمان جاری کیا تھا کہ طعام یا نصف درہم وصول کیا جائے۔
ابواسامہ نے عوف کے طریق سے یہ دونوں باتیں نقل کی ہیں لیکن انہوں نے بعض دفعہ صرف طعام والی بات بیان کی ہے اور بعض دفعہ صرف نصف درہم والی بات بیان کی ہے۔
 چنانچہ :
امام ابن أبي شيبة رحمه الله (المتوفى235)نے کہا:
 ”حدثنا أبو أسامة، عن عوف، قال: سمعت كتاب عمر بن عبد العزيز إلى عدي يقرأ بالبصرة في صدقة رمضان: على كل صغير أو كبير، حر أو عبد، ذكر أو أنثى، نصف صاع من بر، أو صاع من تمر“ 
 ”بصرہ میں عدی کے پاس عمربن عبدالعزیز رحمہ اللہ کا فرمان پڑھا گیا جس میں تھا کہ : ہر چھوٹے بڑے ، آزاد غلام اور مرد عورت کی طرف سے نصف صاع گیہوں یا ایک صاع کھجورکی ادائیگی واجب ہے“ [مصنف ابن أبي شيبة، ت الشثري: 6/ 289 وإسناده صحيح، وأخرجه أيضا الطحاوي في شرح معاني الآثار 2/ 47 من طريق عبد الله بن حمران عن عوف به]

یہاں ابواسامہ نے عوف کے طریق سے صرف طعام والی بات نقل کی ہے ۔ اب اگلی روایت دیکھیں:
امام ابن أبي شيبة رحمه الله (المتوفى235)نے کہا:
 ”حدثنا أبو أسامة، عن عوف، قال: سمعت كتاب عمر بن عبد العزيز يقرأ إلى عدي بالبصرة: يؤخذ من أهل الديوان من أعطياتهم، عن كل إنسان نصف درهم“ 
 ”بصرہ میں عدی کے پاس عمربن عبدالعزیز رحمہ اللہ کا فرمان پڑھا گیا جس میں تھا کہ : سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں سے نصف درہم ہر انسان کے طرف سے (بطور فطرہ ) لیا جائے گا“ [مصنف ابن أبي شيبة، ت الشثري: 6/ 293 وإسناده صحيح وأخرجه ابن زنجويه في الأموال 3/ 1268من طريق ابن المبارك عن عوف به ]
یہاں ابواسامہ نے اسی طریق سے یہ روایت نقل کیا مگر صرف نصف درہم والی بات بیان کی ہے۔

یہی معاملہ عبد الوهاب الثقفي کا بھی انہوں نے ایک روایت کے الگ الگ حصے کو الگ الگ موقع سے بیان کیا ہے اور ساری باتیں ثابت ہیں ۔

ایک ہی  سند سے مروی ابن عمر رض کے  الگ الگ  واقعات و اقوال:
اگرعبیداللہ نے نافع کے طریق سے ابن عمررضی اللہ عنہ کا طلاق سے متعلق صرف ایک ہی فتوی نقل کیا ہوتا تو یہ کہا جاسکتا تھا کہ ایک روایت دوسری روایت کی تشریح ہے ، لیکن حقیقت یہ ہے کہ عبیداللہ نے نافع کے طریق سے ابن عمررضی اللہ عنہ کی طرف سے طلاق ہی سے متعلق کئی باتیں نقل کی ہیں ، جن کی درج ذیل دو قسمیں ہیں:

✿ (الف) پہلی قسم : ابن عمر رضی اللہ عنہ کے واقعہ حیض سے متعلق 
● (1) ابن عمر رضی اللہ عنہ کے طلاق حیض کا واقعہ:
”عن عبيد الله ، أخبرني نافع ، عن ابن عمر ، أنه طلق امرأته وهي حائض ، فأتى عمر النبي صلى الله عليه وسلم ، فاستفتاه فقال : مر عبد الله فليراجعها ، حتى تطهر من حيضتها هذه ، ثم تحيض حيضة أخرى ، فإذا طهرت فليفارقها قبل أن يجامعها ، أو ليمسكها ، فإنها العدة التي أمر أن تطلق لها النساء“ 
 ”عبیداللہ نے نافع سے انہوں نے ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت کیا کہ ابن عمررضی اللہ عنہ نے اپنی بیوی کو حیض کی حالت میں طلاق دے دی تو عمررضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور ان سے فتوی پوچھا ، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عبدللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے کہو کہ وہ اپنی بیوی واپس لیں یہاں تک کہ وہ اس حیض سے پاک ہوجائے پھر اسے دوسری بار حیض آئے پھر اس کے بعد جب وہ پاک ہو تو اسے جماع سے پہلے الگ کردیں ، یہاں اسے روک لیں یہی وہ عدت ہے جس میں عورتوں کو طلاق دینے کاحکم ہے“ [مسند أحمد ط الميمنية: 2/ 54وإسناده صحيح]
یہاں عبيداللہ نے نافع کے طریق سے صرف ابن عمررضی اللہ عنہ کے طلاق حیض کا واقعہ نقل کیا ہے۔

 ● (2) ابن عمررضی اللہ عنہ کے واقعہ طلاق حیض سے متعلق یہ وضاحت کہ انہوں نے ایک طلاق دی تھی :
 ”قال عبيد الله: وكان تطليقه إياها في الحيض واحدة غير أنه خالف فيها السنة“ 
 ”عبیداللہ کہتے ہیں کہ ابن عمررضی اللہ عنہ نے حالت حیض میں جو طلاق دی تھی وه ایک طلاق تھی یہ اور بات ہے کہ انہوں نے اس میں سنت کی مخالفت کی تھی“ [ مسند عمر بن الخطاب للنجاد ص 49 وإسناده صحيح]
یہاں عبيداللہ نے نافع کے طریق سے ابن عمررضی اللہ عنہ کے واقعہ طلاق حیض کو بیان كرنے كے بعد یہ وضاحت کی کہ انہوں نے ایک طلاق دی تھی ۔

 ● (3) ابن عمررضی اللہ عنہ کے واقعہ طلاق حیض سے متعلق نافع کا قول کہ اسے شمار کیا گیا تھا :
 ”قال عبيد الله: قلت لنافع: ما صنعت التطليقة؟ قال: واحدة اعتد بها“ 
 ”عبیداللہ نے کہا: میں نے نافع سے پوچھا: اس طلاق کا کیا ہوا؟ تو نافع نے جواب دیا: یہ ایک طلاق تھی جسے شمار کیا گیا“[صحيح مسلم رقم 1471]
یہاں عبيداللہ نے نافع کے طریق سے ابن عمررضی اللہ عنہ کے واقعہ طلاق حیض کو سننے کے بعد نافع سے سوال کیا جس کے جواب میں نافع نے کہا کہ اس طلاق کو شمار کیا گیا ، (یہ شمار کرنے والے ابن عمررضی اللہ عنہ یہ تھے جیساکہ دیگرروایات میں ہے)

 ● (4) ابن عمررضی اللہ عنہ کے واقعہ طلاق حیض سے متعلق یہ بیان کہ ابن عمر رضی اللہ عنہ نے طلاق کو شمار کیا اور ان کی بیوی کا عمل کہ انہوں نے اس طلاق کی عدت نہیں گذاری :
 ”عبيد الله بن عمر، عن نافع، عن ابن عمر: أنه طلق امرأته على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم وهي حائض قال: فاعتد ابن عمر بالتطليقة، ولم تعتد امرأته بالحيضة“ 
 ”عبیداللہ نے نافع سے وہ ابن عمررضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں اپنی بیوی کو حالت حیض میں طلاق دے دی ، تو ابن عمررضی اللہ عنہ نے اس طلاق کو شمار کیا اور ان کی بیوی نے اس حیض سے عدت نہیں گذاری“ [معرفة السنن والآثار للبيهقي: 11/ 29 وإسناده حسن]

 ✿ (ب) دوسری قسم : ابن عمر رضی اللہ عنہ کے دیگر عام فتاوی 
 ● (1) ابن عمررضی اللہ عنہ کا یہ عام فتوی کہ طلاق حیض کی عدت شمار نہیں ہوگی:
 ”عن عبيد الله بن عمر ، عن نافع ، عن ابن عمر ؛ في الذي يطلق امرأته وهي حائض ، قال : لا تعتد بتلك الحيضة“ 
 ”عبیداللہ نے نافع سے وہ ابن عمررضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ ابن عمر رضی اللہ عنہ نے اس شخص کے بارے میں کہا جس نے اپنی بیوی کو حیض کی حالت میں طلاق دے دی کہ اس کی بیوی اس حیض کا شمار نہیں کرے گی“ [مصنف ابن أبي شيبة. سلفية: 5/ 5 ، وإسناده صحيح وأخرجه أيضا ابن الأعرابي في معجمه 2/ 850 والبيهقي في سننه 7/ 418 من طريق ابن معين عن عبدالوهاب به]

 ● (2) ابن عمررضی اللہ عنہ کا یہ عام فتوی کہ طلاق حیض شمار نہیں کی جائے گی:
 ”عبيد الله بن عمر عن نافع مولى ابن عمر عن ابن عمر أنه قال في الرجل يطلق امرأته وهي حائض، قال ابن عمر: لا يعتد بذلك“
 ”عبیداللہ نے نافع سے وہ ابن عمررضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ جس شخص نے اپنی بیوی کو حیض کی حالت میں طلاق دے دیا ، تو عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کہتے تھے کہ اس کی طلاق کا کوئی شمار نہیں ہوگا“ [المحلى لابن حزم، ت بيروت: 9/ 375، أيضا : 9/ 381 وإسناده صحيح ، إغاثة اللهفان ط عالم الفوائد 1/ 52 : وقال المحقق : إسناده صحيح]

 ● (3) ابن عمر رضی اللہ عنہ کا یہ عام فتوی کہ غیر مدخولہ کو دی گئی بیک وقت تین طلاق تین شمارہوگی:
 عبيد الله بن عمر، عن نافع، عن ابن عمر ... في الرجل يطلق امرأته ثلاثا قبل أن يدخل بها، قالوا: لا تحل له حتى تنكح زوجا غيره“ 
 ”عبیداللہ نے نافع سے وہ ابن عمررضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے اس شخص کے بارے میں کہا جو اپنی بیوی کو دخول سے پہلے تین طلاق دے دے ، اس کی بیوی اس کے لئے تب تک حلال نہ ہوگی جب تک کہ وہ دوسرے شوہر سے شادی نہ کرلے“ [مصنف ابن أبي شيبة، ط الفاروق 6/ 341 إسناده صحيح وأخرجه أيضا البيهقي في سننه 7/ 335 من طريق سفيان عن عبيد الله بن عمر به ، وأخرجه أيضا الطحاوي في شرح معاني الآثار، ت النجار: 3/ 57 من طريق محمد بن إياس بن البكير عن ابن عمر به ]

(4) ابن عمر رضی اللہ عنہ کا یہ فتوی کہ طلاق البتہ تین طلاق تین شمارہوگی:
”عبيد الله بن عمر، عن نافع، عن ابن عمر؛ في البتة ثلاث تطليقات“ 
 ”عبیداللہ نے نافع سے وہ ابن عمررضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے طلاق البتہ کو تین طلاق قراردیا“[مصنف ابن أبي شيبة، ط الفاروق 6/ 387 ،رقم 18427 وإسناده صحيح ]

ملاحظہ فرمائیں کہ عبیداللہ نے نافع کے طریق سے طلاق سے متعلق جو باتیں بیان کی ہیں ان کی دوقسم ہے اور ہرقسم میں چارچار طرح کی باتیں ہیں:
❀ پہلی قسم میں ایسی باتیں ہیں جو ابن عمررضی اللہ عنہ کے خاص واقعہ حیض سے تعلق رکھتی ہیں ۔
 ان میں انہوں نے کبھی صرف ابن عمر رضی اللہ عنہ کے واقعہ طلاق حیض کو بیان کیا ہے، کبھی اس واقعہ کے بیان کے بعد خود یہ وضاحت کی کہ اس واقعہ میں حالت حیض میں ایک ہی طلاق دی گئی تھی ، کبھی نافع سے اپنے سوال اور اس پر ان کے جواب کو بیان کیا کہ یہ ایک طلاق شمار کی گئی تھی (یعنی ابن عمر رضی اللہ عنہ کی طرف سے)، کبھی نافع کے طریق سے ابن عمر رضی اللہ عنہ کے عمل کو بیان کیا کہ انہوں نے اس طلاق کو شمار کیا اور ان کی بیوی نے اس کی عدت نہیں گذاری ۔
❀ دوسری قسم میں ایسی باتیں ہیں جو ابن عمررضی اللہ عنہ کے خاص واقعہ حیض سے تعلق نہیں رکھتی ہیں بلکہ طلاق سے متعلق ان کے دیگرعام فتاوی ہیں۔
ان میں کبھی ان کا یہ فتوی بیان کیا کہ طلاق حیض کی عدت شمار نہیں ہوگی ، اور کبھی ان کا یہ فتوی بیان کیا کہ طلاق حیض کو شمار نہیں کیا جائے گا ، اور کبھی ان کا یہ فتوی بیان کیا کہ غیر مدخولہ کو دی گی بیک وقت تین طلاق تین شمار ہوگی، اورکبھی ان کا یہ فتوی کہ طلاق البتہ تین طلاق شمار ہوگی۔
عبیداللہ کی نافع کے طریق سے بیان کردہ دونوں قسم کی ان باتوں کو ثابت شدہ مانا جاتا ہے اور کسی بات کو دوسری بات کے معارض بتا کررد نہیں کیا جاتا، مثلا پہلی قسم یعنی واقعہ حیض سے متعلق روایات کو بنیاد بنا کر ، دوسری قسم یعنی دیگر عام فتاوی کی روایات کو رد نہیں کیا جاتا، بالخصوص غیرمدخولہ کو بیک وقت دی گئی تین طلاق کوتین شمار کرنے کا فتوی ، جوکہ دیگر روایات سے الگ تھلگ ہے، اسی طرح طلاق البتہ کو تین طلاق قراردینا جو کہ سب سے بالکل ہی الگ چیز ہے۔

ایک ہی سند سے ابن عمر رض سے مروی دو متضاد اقوال کی مثال:
رہی یہ بات کہ اسی سند یہ بھی تو منقول ہے کہ ابن عمررضی اللہ عنہ نے طلاق حیض کو شمار نہیں کیا ، جیساکہ اوپر اسی سند سے منقول روایت میں اس کا ذکر ہے ۔
توعرض ہے کہ یہ بات بھی ابن عمررضی اللہ عنہ سے ثابت ہے اس سے کسی کو انکار نہیں ، لیکن اس کی بناپر اس سے متضاد ان کے دوسرے قول کو رد نہیں کیا جاسکتا کیونکہ وہ بھی ثابت شدہ ہے، اور یہ کوئی تعجب کی بات نہیں ہے کہ ایک ہی سند سے کسی ایک ہی صحابی کے  دو متضاد اقوال ثابت ہوں۔ بلکہ خود ابن عمر رضی اللہ عنہ ہی کی مثال لیجئے کہ مختلعہ کی عدت کے بارے میں بھی ابن عمر رضی اللہ عنہ سے دو متضاد قول مروی ہے اور دونوں کے راوی نافع ہی ہیں۔
ایک روایت میں نافع کہتے ہیں:
”وقال عبد الله بن عمر عدتها عدة المطلقة“ 
 ”اور ابن عمررضی اللہ عنہ نے کہا کہ اس (مختلعہ ) کی عدت مطلقہ کی عدت ہے“ [موطأ مالك ت عبد الباقي: 2/ 565 وإسناده صحيح]
اور دوسری روایت میں نافع کہتے ہیں:
 ”عن ابن عمر قال: عدة المختلعة حيضة“ 
 ”ابن عمررضی اللہ عنہ نے کہا کہ مختلعہ کی عدت ایک حیض ہے“ [سنن أبي داود رقم 2230 وإسناده صحيح]
لہٰذا طلاق حیض میں بھی نافع ہی ان سے دو الگ الگ فتوی نقل کریں تو یہ کوئی تعجب کی بات نہیں ہے ۔

الغرض عبیداللہ نے نافع کے طریق سے ابن عمررضی اللہ عنہ کا جویہ فتوی نقل کیا ہے طلاق حیض شمار نہیں کی جائے گی ، اسے بھی الگ اور مستقل فتوی مانا جائے گا اور ابن عمر رضی اللہ عنہ سے یہ بھی ثابت مانا جائے گا۔
دراصل طلاق سے متعلق ابن عمررضی اللہ عنہ کا دو فتوی ہے ایک یہ کہ طلاق بدعت واقع نہیں ہوگی ، مثلا بیک وقت تین طلاق ایک ہی ہوگی ، اسی طرح حالت حیض میں دی گئی طلاق کا شمار نہیں ہوگا ۔یہی ان کا اصلی اور شرعی فتوی ہے ۔لیکن ان کے والد نے جب طلاق بدعت کو بھی تعزیرا نافذ کرنے کا فرمان جاری کیا تو اس کی رعایت میں وہ طلاق بدعت کے وقوع کا فتوی دیتے ، یعنی بیک وقت تین طلاق کو تین بتلاتے اور طلاق حیض کو بھی شمار کرتے ۔ یہ ان کا اصلی فتوی نہیں تھا بلکہ سرکاری فرمان کے تحت سیاسی اور عارضی فتوی تھا ۔اس کی مزید وضاحت آگے آرہی ہے ۔

یہاں صرف اتنا عرض ہے کہ اگر ابن عمر رضی اللہ عنہ سے صرف یہی دوسرا فتوی ہی ثابت ہوتا توبھی قابل قبول نہیں ہوتا کیونکہ یہ ان کی روایت کردہ  صریح حدیث کے خلاف ہے ، اور یہ مسلم ہے کہ راوی کی روایت کا اعتبار ہوگا نہ کہ ان کے فتوی کا ۔
امام بیہقی رحمہ اللہ ہی نے قرات خلف الامام کے مسئلہ میں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مرفوعا مروی ایک حدیث پر یہ اعتراض کیا کہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ہی سے موقوفا مروی حدیث اس کے خلاف ہے تو یہ اعتراض نقل کرکے اس کا جواب دیتے ہوئے مولانا سرفرازصفدر صاحب لکھتے ہیں:
 ”اعتراض : بیہقی رحمہ اللہ اس پر یہ اعتراض کرتے ہیں کہ اصل روایت میں لاصلاۃ خلف الامام کا جملہ نہیں ہے جیساکہ علاء بن عبدالرحمن رحمہ اللہ نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کا موقوف اثر نقل کیا ہے اور اس میں یہ جملہ مذکور نہیں ہے..الخ 
جواب: یہ اعتراض چنداں وقعت نہیں رکھتا اولا: اس لئے کہ مرفوع حدیث کو موقوف اثر کے تابع بناکر مطلب لینا خلاف اصول ہے ۔ وثانیا : اس کی بحث اپنے مقام پر آئے گی کہ اعتبار راوی کی مرفوع حدیث کا ہوتا ہے اس کی اپنی ذاتی رائے کااعتبار نہیں ہوتا“ [احسن الکلام 1/ 298]
مولانا سرفرازصفدر نے ایک دوسرے مقام پر لکھا:
 ”روایت کے مقابلے میں راوی کی رائے کا کوئی اعتبار نہیں ہوتا“ [احسن الکلام 2/ 118]

علاوہ بریں یہاں تو ابن عمررضی اللہ عنہ سے ایسا فتوی بھی ثابت ہے جو ان کی روایت کردہ مرفوع حدیث کے موافق ہے ، اس لئے ظاہر ہے کہ ان کا یہی فتوی قابل قبول ہوگا۔
نیز آگے ہم یہ بھی مزید تفصیل سے واضح کریں گے کہ ابن عمررضی اللہ عنہ کا یہ دوسرا فتوی ان کے والد عمرفاروق رضی اللہ عنہ کے اس سیاسی فرمان کی رعایت میں تھا جس میں انہوں نے طلاق بدعت کو نافذ کردیا تھا ۔ورنہ ان کا اصل موقف ان کی روایت کردہ حدیث کے موافق ہی تھا کہ حالت حیض میں دی گئی طلاق واقع نہیں ہوتی ۔
اس طرح ان کے دونوں فتاوی میں کوئی تعارض نہیں رہ جاتا ہے ، بلکہ دونوں کے مابین اس طرح تطبیق ہوجاتی ہے کہ طلاق کے عدم وقوع کا فتوی ان کا اصل فتوی ہے ، جو ان کی روایت کردہ حدیث کے موافق ہے ، جبکہ وقوع طلاق کا فتوی مصلحت اور سیاسی ضرورت کے پیش نظر تھا جو عارضی اور وقتی تھا ۔ والحمدللہ

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا اثر
امام ابن حزم رحمه الله (المتوفى456) نے کہا:
”حدثنا ابن نبات نا أحمد بن عون الله نا قاسم بن أصبغ نا محمد بن عبد السلام الخشني نا محمد بن بشار نا محمد بن جعفر حدثنا شعبة عن عبد الملك بن ميسرة عن النزال بن سبرة أن رجلا وامرأته أتيا ابن مسعود في تحريم فقال إن الله تعالى بين فمن أتى الأمر من قبل وجهه فقد بين له ومن خالف فوالله ما نطيق خلافه“ 
 ”نزال بن سمرہ کہتے ہیں کہ ایک مرد اور عورت ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے پاس طلاق میں حرمت کا مسئلہ لیکر آئے ، تو ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اللہ تعالی نے یہ مسئلہ بیان کردیا ہے ، تو جس نے اسی کے مطابق عمل کیا اس کا مسئلہ واضح ہے اور جس نے مخالفت کی تو اللہ کی قسم ہم اس مخالفت کی طاقت نہیں رکھتے“ [الإحكام في أصول الأحكام لابن حزم 8/ 29 وإسناده صحيح ، وأخرجه ايضا ابن الجعد رقم 460 و الدارمي في سننه رقم 104 من طريق الطيالسي كلاهما (ابن الجعد والطيالسي) عن شعبه به ، وأخرجه ايضا الدارمي رقم 103 ، والطبراني في معجمه رقم 8982 من طريق علي بن عبد العزيز ، كلاهما (الدارمي و علي بن عبدالعزيز ) عن المسعودي عن عبدالملك به ”ولفظه وسئل عن رجل يطلق امرأته ثمانية وأشباه ذلك“ ]

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے اس جواب سے بالکل واضح ہے کہ وہ خلاف شریعت دی گئی طلاق کے وقوع کا فتوی نہیں دیتے تھے ۔یعنی طلاق بدعت کو شریعت کی روشنی میں واقع نہیں مانتے تھے۔

امام ابن القيم رحمه الله (المتوفى751) فرماتے ہیں:
 ”ولو وقع طلاق المخالف لم يكن الإفتاء به غير مطاق لهم، ولم يكن للتفريق معنى إذ كان النوعان واقعين نافذين“ 
 ”اگرخلاف شریعت طلاق واقع ہوجاتی تو اس کا فتوی دینا صحابہ کرام کی استطاعت سے باہر نہیں ہوتا ، اور دونوں طرح کی طلاقوں کے نافذ ہونے میں کوئی تفریق نہیں ہوتی“ [زاد المعاد، ن مؤسسة الرسالة: 5/ 206]

اور بعض روایت میں جو یہ منقول ہے کہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے تین طلاق کو تین بتایا تو دراصل یہ شرعی فتوی نہیں تھا  بلکہ ایک طرح کی سزا تھی جوبکثرت طلاق دینے والوں کی تادیب وتعزیر کے لئےطے کی گئی تھی ، اس کے مکمل تفصل آگے آرہی ہے۔


عمرفاروق اور ابن عباس رضی اللہ عنہما کی طرف منسوب اقوال:
ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے عمرفاروق رضی اللہ عنہ کی طرف بھی یہ بات منسوب کی ہے وہ طلاق حیض کے قائل نہ تھے [مجموع الفتاوى، ت ابن قاسم: 33/ 81]
امام ابن حزم رحمہ اللہ نے ابن عباس رضی اللہ عنہ کی طرف بھی یہی بات منسوب کی ہے [المحلى لابن حزم، ت بيروت: 9/ 375]
مگر ان دونوں کے صریح اقوال ہمیں  صحیح سند کے ساتھ نہیں ملے۔

چوتھی دلیل
طلاق کے حیض کے عدم وقوع پر قیاسی دلائل
فریق مخالف اس مسئلہ میں اپنے موقف پر قیاسی دلائل بھی دیتے ہیں جن پرتبصرہ آگے آرہا ہے ، ہمارا موقف چونکہ قرآن وحدیث وآثار صحابہ سے ثابت ہے ، اس لئے قیاس کی کوئی ضروت نہیں ، لیکن چونکہ فریق مخالف اس مسئلہ میں قیاسی دلائل سے کام چلانے کی کوشش کرتا ہے ، اس لئے ہم بھی یہ واضح کردینا چاہتے ہیں کی قیاسی دلائل بھی ہمارے حق میں ہیں ملاحظہ ہوں: 
(الف) : بیع کی مثال:
جن چیزوں میں بھی حرام اور حلال کی دونوں شکلیں ہوتی ہیں ان میں کوئی بھی چیز اگر حرام طریقے سے کی جائی تو اس کا کوئی اعتبار نہیں ہوتا ہے ، جیسے بیع کی بعض شکل حرام ہے اور بعض شکل حلال ہے ، تو اگر کوئی حرام طریقے پر بیع کرے گا تو اس کا کوئی اعتبار نہیں ہے ۔
ٹھیک اسی طرح طلاق میں بھی حرام اور حلال کی دونوں شکلیں ہیں ، حیض کی حالت میں طلاق دینا حرام  ہے ، اور بغیر جماع والے طہر میں حلال ہے ، اس لئے طلاق اگر حرام طریقے سے دی جائے تو دیگر عقود کی طرح اس کا بھی کوئی اعتبار نہیں ہونا چاہئے۔
(ب) : نکاح کی مثال :
طلاق نکاح کو ختم کرنے کے لئے ہے اورنکاح میں بھی حلال اور حرام دونوں شکلیں ہیں اور اگر کوئی حرام طریقے پر نکاح کرتا ہے تو اس کے نکاح کا کوئی اعتبار نہیں ہوتا ، اسی طرح طلاق کی بھی جب حلال اور حرام دونوں شکلیں ہیں تو حرام طریقے پر دی گئی طلاق کا بھی کوئی اعتبار نہیں ہوچاہئے۔
(ج)
ممنوع وقت میں کئے گئے نکاح کا کوئی اعتبار نہیں ہوتا ہے ، تو ممنوعہ وقت میں طلاق کا بھی کوئی اعتبار نہیں ہونا چاہے ، مثلا حالت احرام میں نکاح حرام ہے اور کسی نے کرلیا تو اس کا نکاح نہیں ہوگا ، تو اسی طرح جب حیض کی حالت میں طلاق دینا حرام ہے تو اس حالت میں دی گئی طلاق کا بھی کوئی اعتبار نہیں ہونا چاہئے۔
خلاصہ کلام یہ کہ:
قرآن،احادیث صحیحہ ،اقوال صحابہ اور قیاس سے معلوم ہوا کہ طلاق حیض یہ طلاق بدعت ہے اور اس کا کوئی شمار نہیں ہے ۔ محققین اہل علم کا یہی موقف ہے ان کے اقوال پر تفصیل آگے مخالف کی طرف دے دعوائے اجماع کی تردید میں آرہی ہے۔


1 comment:

  1. Agar talaaq denay kay liye 2 gawahon ka hona zaruri hai tou phir ghudday ki halat may agar koi bhi na ho tou kaisay talaq waqay ho jati hai???

    ReplyDelete