عمران بن حصین رضی اللہ عنہ - Kifayatullah Sanabili Official website

2020-02-05

عمران بن حصین رضی اللہ عنہ


پچھلا
عمران بن حصین رضی اللہ عنہ
اور
ابو موسی الاشعری رضی اللہ عنہ
امام ابن أبي شيبة رحمه الله (المتوفى235)نے کہا:
”حدثنا سهل بن يوسف ، عن حميد ، عن واقع بن سحبان قال : سئل عمران بن حصين عن رجل طلق امرأته ثلاثا في مجلس ؟ قال : أثم بربه ، وحرمت عليه امرأته.(وزاد البیہقی :فانطلق الرجل فذكر ذلك لأبى موسى رضى الله عنه يريد بذلك عيبه فقال : ألا ترى أن عمران بن حصين قال كذا وكذا فقال أبو موسى أكثر الله فينا مثل أبى نجيد)“ 
 ”واقع بن سحبان کہتے ہیں کہ عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے ایسے شخص کے بارے میں پوچھا گیا جس نے ایک مجلس میں اپنی بیوی کو تین طلاق دے دی تو انہوں نے فرمایا: اس نے اپنے رب کے ساتھ گناہ کیا اور اس پر اس کی بیوی حرام ہوگئی (بیہقی کی روایت میں یہ اضافہ ہے کہ پھر اس شخص نے وہاں سے جاکر ابوموسی اشعری رضی اللہ عنہ سے اس بات کا تذکرہ کیا اس امید پر کہ یہ بات غلط نکلے چنانچہ اس نے کہا: ابے ابو موسی الاشعری ! کیا آپ نہیں دیکھ رہے ہیں کہ عمران بن حصین ایسا ایسا کہہ رہے ہیں ! تو ابو موسی الاشعری رضی اللہ عنہ نے کہا: اللہ ہمارے بیچ ابو نجید جیسے لوگوں کی کثرت کرے)“ [مصنف ابن أبي شيبة. سلفية: 5/ 10 و اخرجہ ایضا الحاکم فی لمستدرك 3/ 472 -و صریح حمید بالسماع عندہ- من طریق یحیی بن سعید ۔واخرجہ البیہقی فی السنن الكبرى ط الهند: 7/ 332 من طریق عبد الوهاب بن عطاء۔ واخرجہ الدو لابی فی الكنى والأسماء 1/ 175 من طریق حماد بن مسعدة ، وفیہ 1/ 278 ایضا من طریق حماد بن سلمة۔ کلھم (یحیی بن سعیدوعبد الوهاب بن عطاءوحماد بن مسعدة وحماد بن سلمة) من طریق حمید بہ]

اس سند میں حمید کے شیخ کا نام ابن ابی شیبہ ، بیہقی اور دولابی کی ایک روایت میں واقع بن سحبان ہے جبکہ حاکم اور دولابی کی دوسری روایت میں اس کانام رافع بن سحبان ہے، کتب رجال سے پتہ چلتا ہےکہ واقع بن سحبان ہی صحیح ہے مثلا دیکھئے:[الجرح والتعديل لابن أبي حاتم، ت المعلمي: 9/ 49]

اسے ابن حبان نے ثقات میں ذکر کیا ہے [الثقات لابن حبان ط العلمية: ص: 2]۔
اورکسی نے اس کی توثیق نہیں کی ہے لہٰذا یہ روایت ضعیف ہے۔

عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ
عبدالرحمن بن عوف  کی طرف صراحتا یہ فتوی منسوب ہے کی آپ ایک وقت میں دی گئی تین طلاق کو ایک طلاق مانتے تھے
امام ابن مغیث المتوفی (459) لکھتے ہیں:
”فقال علي ابن أبي طالب وا بن مسعود رضي الله عنهما: تلزمه طلقة واحدة وقاله ابن عباس رضي الله عنه...وقال مثله الزبير بن العوام وعبدالرحمن بن عوف رضي الله عنهما روينا ذلك كله عن ابن وضاح“ 
 ”علی بن ابی طالب اور ابن مسعود رضی اللہ عنہما نے کہا کہ (بیک وقت تین طلاق دینےسے) ایک ہی طلاق واقع ہوگی اور یہی ابن عباس رضی اللہ عنہ کا بھی قول ہے...نیز یہی قول زبیر بن العوام اور عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہما کا بھی ہے ... ان سے یہ اقوال ہم نے ابن وضاح سے روایت کیا ہے“ [المقنع لابن مغیث : ص 80]

حافظ ابن حجر رحمه الله (المتوفى852) فرماتے ہیں:
 ”نقل عن علي وبن مسعود وعبد الرحمن بن عوف والزبير مثله نقل ذلك بن مغيث في كتاب الوثائق له وعزاه لمحمد بن وضاح“ 
 ”تین طلاق کے ایک ہونے کا فتوی علی ، ابن مسعود ، عبدالرحمن بن عوف اور زبیر رضی اللہ عنہم سے مروی ہے ، اسے ابن مغیث نے کتاب الوثائق میں نقل کیا ہے اور محمدبن وضاح کی روایت کی طرف منسوب کیا ہے“ [فتح الباري لابن حجر، ط المعرفة: 9/ 363]
لیکن اس فتوی  کی سند دستیاب نہیں ہے۔

تاہم ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے دور میں اسی طرح عمرفاروق رضی اللہ عنہ کے دور کے ابتدائی دو سال تک امت کا جو اجماعی موقف تھا کہ ایک وقت میں دی گئی تین طلاق ایک ہی شمار ہوگی اس سے عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کا اختلاف کرنا بسند صحیح  ثابت نہیں ہے۔
اور اس سلسلے میں جو روایت پیش کی جاتی ہے اس کی حقیقت ملاحظہ ہو:
امام ابن أبي شيبة رحمه الله (المتوفى235)نے کہا:
 ”حدثنا أبو أسامة ، عن هشام قال : سئل محمد عن الرجل يطلق امرأته ثلاثا في مقعد واحد ؟ قال : لا أعلم بذلك بأسا ، قد طلق عبد الرحمن بن عوف امرأته ثلاثا ، فلم يعب ذلك عليه“ 
 ”محمدبن سیرین سے پوچھا گیا کہ کوئی شخص اپنی بیوی کوایک مجلس میں تین طلاق دے دے تو اس کا کیا حکم ہے ؟ تو انہوں نے کہا: مجھے اس میں حرج معلوم نہیں ہوتا اور عبدالرحمن بن عوف نے اپنی بیوی کو تین طلاق دی تو ان پر عیب شمار نہیں ہوا“ [مصنف ابن أبي شيبة. سلفية: 5/ 11]

یہ روایت منقطع ہے محمدبن سیرین نے عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کا زمانہ نہیں پایا ہے۔
عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کی وفات 31 یا 32 ہجری میں ہوئی ہے دیکھئے:[تهذيب الكمال للمزي: 17/ 328]
اور محمدبن سیرین کی پیدائش 33 ہجری میں ہوئی ہے دیکھئے:[الثقات لابن حبان ط االعثمانية: 5/ 349]

شیخ سعد بن ناصر الشثري اپنے نسخہ میں اس روایت پر حاشیہ لگاتے ہوئے لکھتے ہیں:
 ”منقطع، ابن سیرین عن عبد الرحمن بن عوف منقطع“ 
 ”یہ روایت منقطع ہے ابن سیرین کی عبدالرحمن بن عوف سے ملاقات نہیں ہے“ [مصنف ابن أبي شيبة. إشبيليا: 10/ 103 حاشہ 5]

مزید یہ کہ اس روایت میں تین طلاق کو تین شمار کرنے کی صراحت بھی نہیں ہے۔
بلکہ صحیح سند سے ثابت ہے کہ عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ نے الگ الگ وقت میں تین طلاق دی تھی اس کا اعتراف خود علمائے احناف نے بھی کیا ہے یہ ساری تفصیل گذرچکی ہے دیکھئے اسی کتاب کا صفحہ

ام سلمہ رضی اللہ عنہا
امام ابن أبي شيبة رحمه الله (المتوفى235) نے کہا:
 ”حدثنا عبد الله بن نمير، عن أشعث، عن أبي الزبير، عن جابر، قال: سمعت أم سلمة سئلت عن رجل طلق امرأته ثلاثا قبل أن يدخل بها؟ فقالت: لا تحل له حتى يطأها غيره“ 
 ”ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے اس شخص کے بارے میں سوال کیا گیا کہ جو اپنی بیوی کو دخول سے پہلے تین طلاق دے ڈالے تو انہیں نے جواب دیا : یہ اس کے لئے حلال نہیں ہوگی جب کہ دوسرا شوہر اس سے شادی کرکے اس سے ہمبستری کرلے“ [مصنف ابن أبي شيبة، ت الشثري: 10/ 122]

یہ روایت ضعیف ہے ، سند میں موجود ”أشعث“ یہ ”أشعث بن سوار الكندي“ ہے اور یہ ضعیف ہے۔

امام ابن سعد رحمه الله (المتوفى230)نے کہا:
 ”كان ضعيفا في حديثه“ ، ”یہ اپنی حدیث میں ضعیف تھا“ [الطبقات الكبرى ط دار صادر 6/ 358]

امام ابن معين رحمه الله (المتوفى233) نے کہا:
 ”ضعيف“ ، ”یہ ضعیف ہے“ [تاريخ ابن معين، رواية الدوري: 4/ 80]

امام أحمد بن حنبل رحمه الله (المتوفى241) نے کہا:
 ”ضعيف الحديث“ ، ”یہ ضعیف حدیث والا ہے“ [العلل ومعرفة الرجال لأحمد، ت وصي: 1/ 494]

امام أبوداؤد رحمه الله (المتوفى275) نے کہا:
 ”ضعيف“ ، ”یہ ضعیف ہے“ [سؤالات الآجري أبا داود، ت العمري: ص: 120]

امام أبو حاتم الرازي رحمه الله (المتوفى277)نے کہا:
 ”هو ضعيف الحديث“ ، ”یہ ضعیف حدیث والا ہے“ [الجرح والتعديل لابن أبي حاتم، ت المعلمي: 2/ 271]

امام نسائي رحمه الله (المتوفى303) نے کہا :
 ”ضعيف كوفي“ ، ”یہ کوفی اور ضعیف ہے“ [الضعفاء والمتروكون للنسائي: ص: 20]

امام ابن حبان رحمه الله (المتوفى354) نے کہا:
 ”فاحش الخطأ كثير الوهم“ ، ”یہ فحش غلطی کرنے والا اور بہت زیادہ وہم کا شکار ہونے والا ہے“ [المجروحين لابن حبان، تزايد: 1/ 171]

امام دارقطني رحمه الله (المتوفى385) نے کہا:
 ”كوفي ضعيف“ ، ”یہ کوفی اور ضعیف ہے“ [ الضعفاء والمتروكين للدارقطني ت الأزهري: ص: 92]

حافظ ابن حجر رحمه الله (المتوفى852) نے کہا :
 ”ضعيف“ ، ”یہ ضعیف ہے“ [تقريب التهذيب لابن حجر: رقم524]


No comments:

Post a Comment