مسجد میں دوسری جماعت سے متعلق ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے ایک اثر کاجائزہ - Kifayatullah Sanabili Official website

2020-05-20

مسجد میں دوسری جماعت سے متعلق ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے ایک اثر کاجائزہ

مسجد میں دوسری جماعت سے متعلق ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے ایک اثر کاجائزہ
(تحریر: کفایت اللہ سنابلی)
امام عبدالرزاق رحمہ اللہ کہتے ہیں:
”عَنْ مَعْمَرٍ، عَنْ حَمَّادٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ: «أَنَّ عَلْقَمَةَ، وَالْأَسْوَدَ، أَقْبَلَا مَعَ ابْنِ مَسْعُودٍ إِلَى مَسْجِدٍ، فَاسْتَقْبَلَهُمُ النَّاسُ قَدْ صَلُّوا، فَرَفَعَ بِهِمَا إِلَى الْبَيْتِ، فَجَعَلَ أَحَدَهُمَا عَنْ يَمِينِهِ، وَالْآخَرَ عَنْ شِمَالِهِ، ثُمَّ صَلَّى بِهِمَا»“ 
 ”ابراہم کہتے ہیں کہ علقمہ اوراسود یہ دنوں عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے ساتھ مسجد میں‌ آئے تو لوگ نماز پڑھ کر فارغ ہوچکے تھے پھر عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ ان دونوں کو لیکر گھرآئے اورباجماعت نماز آدا کی۔“ 
[مصنف عبد الرزاق الصنعاني 2/ 409 واخرجہ ایضا الطبرانی9/ 276 من طریقہ] 

یہ روایت حماد بن ابی سلیمان کے اختلاط کے سبب ضعیف ہے۔
حماد بن ابی سلیمان شروع میں‌ ثقہ تھے اسی معنی میں‌ بعض سے ان کی توثیق منقول ہے لیکن اخیر عمر میں وہ اختلاط کا شکار ہوگئے تھے ۔

امام دارقطنی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
ضعيف [علل الدارقطني3 269 و5 167]۔

امام شعبہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
كَانَ حَمَّادُ بْنُ أَبِي سُلَيْمَانَ لا يَحْفَظُ [الجرح والتعديل لابن أبي حاتم 1/ 137 و الكامل في ضعفاء الرجال 3/ 6]۔

امام ابوحاتم رحمہ اللہ کہتے ہیں:
صدوق ولا يحتج بحديثه هو مستقيم في الفقه وإذا جاء الآثار شوش [الجرح والتعديل لابن أبي حاتم 3/ 147]۔

امام ابن سعد رحمہ اللہ کہتے ہیں:
وكان حماد ضعيفا في الحديث فاختلط في آخر أمره [الطبقات الكبرى لابن سعد 6/ 333]۔


مذکورہ تفصیل سے معلوم ہوا کہ حماد بن ابی سلیمان اخیر عمر میں اختلاط کے شکار ہوگئے تھے لہذا اخیر عمر میں اختلاط سے قبل ان سے جن لوگوں نے روایت لی ہے وہی حجت ہوں گی ورنہ ضعیف ۔

اب آئیے دیکھتے ہیں کہ اخیر عمر میں اختلاط سے قبل ان سے کن لوگوں‌ نے روایت کیا ہے تو عرض ہے کہ اس کی وضاحت بھی محدثین نے کردی ہے ۔

امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کہتے ہیں:
اما حديث هؤلاء الثقاب عنه (يعني حماد بن أبي سليمان) شعبة وسفيان وهشام فاحاديث اكترها متقاربة [علل أحمد رواية المروذي ص: 235]۔

اورامام ابوداؤد رحمہ اللہ کہتے ہیں:
قلت لأحمد مغيرة أحب إليك في إبراهيم أو حماد قال أما فيما روى سفيان وشعبة عن حماد فحماد أحب إلي لأن في حديث الآخرين عنه تخليطا [سؤالات أبي داود لأحمد ص: 290]۔

سعيد بن أبي سعيد الاراطي کہتے ہیں:
سئل احمد بن حنبل عن حماد بن أبي سليمان قال رواية القدماء عنه تقارب الثوري وشعبة وهشام واما غيرهم فجاؤوا عنه بأعاجيب [الجرح والتعديل لابن أبي حاتم 3/ 147]۔

امام ہیثمی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
ولم يقبل من حديث حماد إلا ما رواه عنه القدماء شعبة وسفيان الثوري والدستوائي،ومن عدا هؤلاء رووا عنه بعد الاختلاط.[مجمع الزوائد موافق رقم 1/ 143]

ان وضاحتوں‌ سے معلوم ہوا کہ شعبہ ، سفیان الثوری اور ھشام الدستوائی رحمہم اللہ کا سماع حماد بن سلیمان سے اختلاط سے قبل ہے اورباقی لوگوں نے ان سے اختلاط کے بعد سنا ہے ۔

اب زیر تحقیق سند پر نظر کریں یہاں حماد بن ابی سلیمان سے روایت کرنے والے معممر ہیں اور حماد کے اختلاط سے قبل حماد سے سننے والوں میں یہ نہیں ہیں ، لہذا یہ روایت اس وجہ سے بھی ضعیف ہے۔

آمین آہستہ کہنے کے سلسلے میں مذکورہ روایت ہی کی سند سے اسی کتاب مصنف عبدالرزاق میں ایک اثر موجود ہے جس سے احناف حجت پکڑتے ہیں ۔
حافظ زبیرعلی زئی اس کا جواب دیتے ہوئے لکھتے ہیں:
جواب :
اس کا راوی حماد بن ابی سلیمان مختلط ہے ، حافظ ہیثمی نے کہا:
و لا يقبل من حديث حماد إلا ما رواه عنه القدماء شعبة وسفيان الثوري والدستوائي،ومن عدا هؤلاء رووا عنه بعد الاختلاط.
حماد کی صرف وہی روایت مقبول ہے جو اس سے اس کے قدیم شاگردوں ، شعبہ سفیان ثوری اور (ہشام ) دستوائی نے بیان کی ہے ان کے علاوہ سب لوگوں‌ نے اس کے اختلاط کے بعد روایت لی ہے (مجمع الزوائد: ج1ص 119،120)
دیکھئے [القول المبین : ص 84] 

مزید شہادت:
اس روایت کے ضعیف ہونے کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ خود عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مسجد میں‌ دوسری جماعت بنانا ثابت ہے۔

امام ابن ابی شیبہ رحمہ کہتے ہیں:
 ”حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ الْأَزْرَقُ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ أَبِي سُلَيْمَانَ، عَنْ سَلَمَةَ بْنِ كُهَيْلٍ، «أَنَّ ابْنَ مَسْعُودٍ دَخَلَ الْمَسْجِدَ وَقَدْ صَلَّوْا فَجَمَعَ بِعَلْقَمَةَ، وَمَسْرُوقٍ، وَالْأَسْوَدِ»“ 
 ”سلمہ بن کہیل کہتے ہیں کہ عبداللہ بن مسعور رضی اللہ عنہ مسجد میں آئے توجماعت ہوچکی تھی پھر انہوں نے مسجد میں ہی علقمہ ، مسروق اور اسود رحمہم اللہ کے ساتھ جماعت بنا کر نماز پڑھی“ ۔[مصنف ابن أبي شيبة 2/ 112 واسنادہ صحیح علی شرط مسلم] ۔
(تحریر: کفایت اللہ سنابلی)

No comments:

Post a Comment