حدیث مذکورسے استدلال کا دوسرا جواب - Kifayatullah Sanabili Official website

2020-03-05

حدیث مذکورسے استدلال کا دوسرا جواب

 

حدیث مذکورسے استدلال کا دوسرا جواب

  اس حدیث سے استدلال کا دوسرا جواب جو قائلین عدم وقوع کے یہاں مشہور ہے وہ یہ کہ اس روایت میں یہ صراحت نہیں ہے کہ ان کی اس طلاق کو عہدرسالت میں ہی شمار کیا گیا تھا ،امام ابن القیم رحمہ اللہ نے اس روایت پر کلام کرنے کے بعد اس کا دوسرا جواب یہ بھی دیا ہے کہ :
”ورواية سعيد بن جبير غير صريحة في الرفع فإنه لم يذكر فاعل الحساب فلعل أباه رضي الله عنه حسبها عليه بعد موت النبي في الوقت الذي ألزم الناس فيه بالطلاق الثلاث ، وحسبه عليهم , اجتهادا منه , ومصلحة رآها للأمة , لئلا يتتابعوا في الطلاق المحرم , فإذا علموا أنه يلزمهم وينفذ عليهم أمسكوا عنه , وقد كان في زمن النبي صلى الله عليه وسلم لا يحتسب عليهم به ثلاثا في لفظ واحد فلما رأى عمر الناس قد أكثروا منه رأى إلزامهم به , والاحتساب عليهم به“ 
”سعید بن جبیر کی روایت مرفوع ہونے میں غیرصریح ہے کیونکہ انہوں نے شمار کرنے والے کی صراحت نہیں کی ہے تو ہوسکتا ہے کہ ان کے والد نے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد اس وقت اسے شمار کرلیا ہوجب انہوں نے تین طلاقوں کو لوگوں پر نافذ کردیا تھا اور انہیں شمار کرلیا تھا ، اپنی طرف سے اجتہاد کرتے ہوئے اور امت کی مصلحت کو دیکھتے ہوئے ، تاکہ لوگ حرام طلاق دینے سے باز آجائیں ، کیونکہ جب انہیں یہ پتہ چلے گا کہ عمر رضی اللہ عنہ حرام طلاق کو بھی لازم اورنافذ کردیتے ہیں تو وہ اس سے باز آجائیں گے ، بالکل ایسے ہی جیسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ایک ہی لفظ میں تین طلاق کو تین شمار نہیں کیا جاتا تھا ، لیکن جب عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے دیکھا کہ لوگ کثرت سے ایک ساتھ تین طلاق دینے لگے ہیں تو انہوں نے ایسی طلاق کو ان پر لازم کرنے اور انہیں شمار کرنے کا فیصلہ کیا“ [عون المعبود مع حاشية ابن القيم: 6/ 171، 172، تهذيب السنن لابن القیم : ص 868 تا 870]

بلکہ اگر یہ بھی مان لیں کہ ان کی طلاق کو عہد رسالت میں ہی شمار کیا گیا تھا ، تو اس روایت میں یہ صراحت نہیں ہے کہ ان کی کون سی طلاق کو شمار کیا گیا تھا ، کیونکہ انہوں نے اپنی بیوی کو دوبار طلاق دی تھی ، ایک بار حیض کی حالت میں جسے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے رد کردیا تھا ، اور دوسری طلاق انہوں نے طہر کی حالت میں اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بتائے ہوئے طریقہ کے مطابق دی تھی چنانچہ صحیح مسلم کی روایت میں ابن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
 ”فراجعتها، ثم طلقتها لطهرها“ ، ”پھر میں نے اپنی بیوی واپس لے لی اور اسے طہر میں طلاق دیا“ [صحيح مسلم رقم 1471]
تو یہ بھی ممکن ہے کہ اس روایت میں اس دوسرے طلاق کو شمار کئے جانے کا ذکر ہے ۔
علامہ معلمی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
”فلم يتبين لنا متى حُسِبَتْ عليه، فقد ثبت في صحيح مسلم عنه: ”ثم طلَّقتُها لطهرها“ فيحتمل أن يكون النبي صلى الله عليه وسلم بيَّن له حين أمره بالمراجعة أن تلك الطلقة محسوبة عليه“ 
 ”ہمیں یہ نہیں معلوم کہ کس وقت ان کی طلاق شمار کی گئی ، کیوکہ صحیح مسلم میں ابن عمر رضی اللہ عنہ کا یہ قول ثابت ہے کہ ”پھر میں نے اسے طہر میں طلاق دیا“ ، تو اس بات کا احتمال ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جب انہیں بیوی واپس لینے کاحکم دیا تھا تو اسی وقت بتادیا ہوکہ تم جو طہر میں طلاق دو گے وہ شمار ہوگی“ [آثار الشيخ العلامة عبد الرحمن بن يحيي المعلمي اليماني 17/ 682]
 اس کی تائید اس بات سے بھی ہوتی ہے کہ ابن عمر رضی اللہ عنہ کے پہلے طلاق سے متعلق ان کے کئی شاگردوں نے سوال کیا لیکن ابن عمررضی اللہ عنہ نے کسی کے سوال کا جواب دیتے ہوئے یہ نہیں کہا کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے شمار کرلیا تھا۔

No comments:

Post a Comment